نئے یاجوج ماجوج
ایک کا نام قاسم اور دوسرے کا جتوئی تھا۔
WASHINGTON, DC:
ایک زمانے میں سندھ کے دو ماسٹر تھے، جو یاجوج ماجوج کہلاتے تھے، جوبلی کوارٹر کے ایک سندھی اسکول میں سندھی اور حساب پڑھاتے تھے۔ ایک کا نام قاسم اور دوسرے کا جتوئی تھا۔ پڑھائی میں کافی نام پیدا کیا، لیکن اسکول سے باہر آتے ہی پٹری سے اتر جاتے تھے۔ بلیوں سے خاصی دوستی تھی۔ پوری تنخواہ انھیں چھیچھڑے کھلانے میں خرچ کردیا کرتے تھے۔ بلیوں نے اپنے محسنوں کو پہچان لیا تھا۔ گلیوں میں گھومتے تو آگے پیچھے بلیاں میاؤں میاؤں کرکے چلتیں۔
دنیا جہان کے ہر مسئلے پر لوگوں کی رہنمائی اور رہبری کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ چنانچہ ہر سمت میں تاروں اور خطوں کی جھڑی لگائے رکھتے۔ جب ہٹلر نے جنگ کی شروعات کیں تو تار بھیجا کہ یورپ میں خون بہانے کے بجائے ہندوستان آکر انگریزوں سے جنگ کرو۔ یہ تار سنسر ہوگیا اور سی آئی ڈی کتنے ہی دنوں تک انھیں کھینچتی پھری۔ آخر انگریز اس نتیجے پر پہنچے کہ دونوں پاگل ہیں، دماغ خراب ہے، مگر نیت خراب نہیں۔ (اﷲ نے بلیوں کی دعا سن لی یوں ان کی جان چھوٹ گئی۔)
ایک پرانے دوست نے ان کے بارے قصہ سنایا۔ کہنے لگا۔ ایک بار انھوں نے برطانیہ کے شاہی گھرانے سے بھی ناتا جوڑ لیا تھا۔ ایک شہزادی کی منگنی کا چرچا ہوا اور اخباروں میں اس کی تصویریں بھی شایع ہوئیں تو بڑے ماسٹر کا دل آگیا۔ فوراً شہزادی کے والد کو تار بھیجا کہ اس دختر کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دیجیے۔ میری علمی لیاقت یہ ہیں: سیاست میں یہ پوزیشن ہے کہ گاندھی جی بھی میرے مشوروں کے بغیر کام نہیں کرتے۔ ہمارے اس رشتے سے ہندوستان کا مسئلہ حل ہوجائے گا اور برطانیہ کے سر کا درد ختم ہوجائے گا۔ لندن سے اس تار کی رسید آگئی۔ محل کے سیکریٹری نے عام دستور کے مطابق چھپے ہوئے کاغذ پر رسید بھیج دی۔ رسید کا مضمون وہی تھا جو ہر مراسلے کے جواب میں دیا جاتا تھا، یعنی آپ کا مراسلہ پہنچ گیا، اس پر غور کیا جائے گا۔ غالباً کسی کلرک نے تار پڑھے بغیر جواب میں استعمال کیا جانے والا فارم بھر کر بھیج دیا تھا۔
بہرحال رسید ملتے ہی ماسٹر صاحب کو اپنی ذمے داریوں کا احساس ہونے لگا۔ کئی مسائل اٹھ کھڑے ہوئے، مثلاً مذہبی قضیہ کو کیونکر طے کیا جائے؟ وہ خود مسلمان اور شہزادی عیسائی، شہزادی کے مشرف بہ اسلام ہونے کی منزل نکاح سے پہلے آئے گی یا بعد میں؟ نکاح لندن میں ہوگا یا کراچی میں؟ جہیز اور آرسی کے سلسلے میں کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا؟
رازداری کی باتیں اکثر مجھ سے ہی آکر کیا کرتے تھے۔ ایک دن میرے گھر آپہنچے۔ آگے آگے بڑے ماسٹر صاحب اور پیچھے ان کا چھوٹا بھائی۔ بڑے ماسٹر کے گلے میں پھولوں کا ہار۔ ہنستے مسکراتے نمودار ہوئے۔ چھوٹے بھائی نے مسکراتے ہوئے کہا ''مبارک باد دیجیے۔ برطانیہ کی فلاں شہزادی سے ان کی شادی ہورہی ہے۔'' پھر لندن سے آئی ہوئی تار کی رسید جیب سے نکال کر دکھائی۔
میں نے مشورہ دیا کہ مذہبی معاملات میں شہر کے قاضی صاحب سے مشورہ کریں، لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ کمشنر صاحب سے جاکر ملیں۔ یہ مراسلہ کمشنر صاحب کے پاس بھی آیا ہوگا۔ اگر انھوں نے سفارش نہ کی تو معاملہ کھٹائی میں پڑ سکتا ہے۔ چنانچہ پہلے ان سے ملاقات کرکے انھیں اس رشتے کے کوائف سے آگاہ کریں اور اپنی طرف مائل کریں تاکہ وہ عمدہ سی رپورٹ تیار کرکے برطانیہ بھیجیں۔ میں نے یہ مشورہ بھی دیا کہ برطانیہ کے شاہی خاندان والے کتوں بلیوں کے شوقین ہوتے ہیں، اس لیے ماسٹر صاحب اپنی بلیوں کی تصویریں کھنچوا کر کمشنر صاحب کو دیں تاکہ انھیں بھی خط و کتابت کا حصہ بنایا جائے۔ سندھ کے کمشنر اس زمانے میں گبسن صاحب تھے جو ہنسی مذاق اور کھلنڈرے پن میں خاصے مشہور تھے۔ ماسٹر صاحبان بلیوں کی تصاویر کھنچوا کر ان کے پاس پہنچے۔ کمشنر صاحب کو تار کی رسید دکھا کر کہا کہ رشتے کی سفارش فرمائیں۔ گبسن انھیں پہچانتے تھے، ذرا سی دیر میں معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے۔
کہنے لگے، اچھا کیا جو پہلے میرے ہی پاس چلے آئے۔ یہ خط و کتابت میرے پاس آئی ہوئی ہے اور میں رپورٹ بھیجنے سے پہلے انکوائری کر رہاہوں۔ غالباً ایک رکاوٹ پیدا ہوجائے گی۔ دولہا کی عمر پچاس برس ہے اور دلہن کی مشکل سے بیس برس۔ ممکن ہے کہ بات نہ بنے۔ گبسن نے ماسٹر صاحب کے سامنے ایک تجویز رکھی کہ اگر شہزادی والا معاملہ عمرکے فرق کے لحاظ سے کامیاب نہ ہوسکے تو اسی گھرانے کی دوسری شہزادی آج کل میرے پاس مہمان ہے۔ وہ آپ کی ہم عمر ہے، بلیوں کی شوقین ہے اور خاصی دولت مند ہے۔ اگر آپ قبول کرلیں تو یہ کام فوراً ہوسکتا ہے۔ یہ کہہ کر گبسن نے نہ جانے کہاں سے ایک گوری میم بلوا کر انھیں دکھائی۔ معلوم نہیں ان کی اپنی بیوی تھی یا کیفے گرانڈ کی مالکہ۔ کیفے گرانڈ کی مالکہ ان دنوں ایک معمر عورت تھی جس کا تعلق فرانس سے تھا، لوگ اسے میڈم کہتے تھے۔
ماسٹر صاحبان نے ان سے مہلت مانگی اور مشورہ کرنے کے لیے میرے پاس آگئے۔ میں نے کہا ''جلدی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جب نوجوان شہزادی مل سکتی ہے تو اس بڑھیا سے شادی کیوں کررہے ہیں؟'' مگر جب کچھ دن بعد لندن کی شہزادی کی شادی ہوگئی تو ماسٹر صاحب کی امیدیں ماند پڑگئیں۔
وہ ہمیشہ سندھ کے وزیروں سے ملاقات کے متمنی رہتے تھے تاکہ ان کی رہنمائی کرسکیں۔ میں وزیر بنا تو مجھے بھی مفت مشوروں سے نوازنے لگے۔ ایک بار دفتر کے پٹے والے نے ان کا ملاقاتی کارڈ لاکر مجھے دیا۔ چھپے ہوئے کارڈ میں ان کے ناموں کے نیچے تعریف کچھ یوں لکھی تھی:
''میکرز آف پاکستان، میکرز آف بندے علی منسٹری، پیٹرنز آف اﷲ بخش منسٹری، اینیمیز آف ہٹلر، آرکیٹیکٹ آف انڈیا پاکستان فریڈم، ویل وشر آف جمشید مہتا پریزیڈنٹ کراچی میونسپلٹی، کینڈیڈیٹس فار پریزیڈنٹ شپ، کنٹرولر آف سندھ منسٹریز، کلوز ٹو رائل ہاؤس آف برٹن، کنگز آف گاؤلز اینڈ گوبلز۔
میں ان کے بارے میں سب کچھ پہلے ہی جانتا تھا، اس لیے اپنی جگہ سے اٹھا اور دروازے پر جاکر ان کا استقبال کیا۔ پھر اندر لاکر انھیں اپنے پاس بٹھایا۔ وہ ہمارے وزیراعلیٰ پیرزادہ عبدالستار سے بہت ناراض تھے۔ کیونکہ انھوں نے ان کی قدر نہیں کی تھی اور گرمجوشی سے استقبال نہیں کیا تھا، فرمایا ''ہم پیرزادہ کو ہٹا کر تمہیں وزیراعلیٰ بنانے آئے ہیں۔''
''یہ کیسے ہوگا؟'' میں نے پوچھا ''پیرزادہ کو اسمبلی سے بے دخل کریں تب بات ہے۔''
''اسکیم تیار ہے، ہم خود جاکر پیرزادہ کی کرسی پر بیٹھ جائیں گے۔'' انھوں نے کہا۔
یہ کہہ کر میرے پاس سے اٹھے اور وزیروں کے درمیان سے ہوتے ہوئے اندر چلے گئے اور پیرزادہ کی کرسی پر جا کر بیٹھ گئے۔ پیرزادہ صاحب اور میں اسمبلی میں داخل ہوئے۔ ہم دونوں ایک ہی بنچ پر بیٹھتے تھے۔ پیرزادہ شگفتہ مزاج تھے۔ ماسٹر صاحب کو اپنی کرسی پر بیٹھے دیکھ کر ہنسنے لگے۔ مجھ سے پوچھنے لگے ''یہ کیا تماشا ہے؟''
''یہ کہتے ہیں کہ میکرز آف پاکستان ہیں، جو چاہے کرسکتے ہیں۔'' میں نے بتایا ''دیر یا بدیر انھی کو آنا ہے، سیٹ انھوں نے پیشگی حاصل کرلی۔ ایک طرح سے ہمارے اور آپ کے سر کا درد ہیں۔''
پیرزادہ نے بڑھ کر ان سے سیٹ خالی کرانا چاہی، لیکن ناکام رہے۔
''ہم میکرز آف پاکستان ہیں، ہم نے تمہیں ڈس مس کردیا ہے اور اب اس سیٹ پر ہم بیٹھیں گے۔ وزارت اعلیٰ ہمارے قبضے میں رہے گی۔'' وہ بولے۔
جب اسمبلی کی گھنٹی بجنے لگی تو پیرزادہ نے ان سے کہا کہ وہ شام کو ان کے دفتر آکر ملیں تاکہ مسئلے کا کوئی حل نکالا جاسکے۔ وہ اس پر بھی تیار نہ ہوئے تو سیکیورٹی گارڈز کو بلا کر انھیں باہر دھکیل دیا گیا۔ وہ پیرزادہ کی شان میں نازیبا الفاظ بکتے ہوئے چلے گئے۔
ماسٹر صاحبان کا اٹھنا بیٹھنا گاڑی کھاتے کے محلے میں تھا۔ جب کوئی بلی بیمار ہوجاتی تھی تو وہ اسے مسجد میں دھکیل کر دروازہ بند کردیا کرتے تھے۔ مسجد کے امام زیادہ تر گھر ہی پر رہتے تھے اور نماز پڑھانے کے دوران ہی مسجد آتے تھے۔ چنانچہ ماسٹروں نے مسجد کو محفوظ مقام سمجھ کر اس میں بلیوں کو ٹھہرانے کا بندوبست کرلیا تھا۔
امام صاحب سے کسی نے پوچھا کہ مسجد میں بیمار بلیاں کیوں ٹہلتی پھرتی ہیں؟
''انھیں یاجوج ماجوج یہاں چھوڑ جاتے ہیں۔'' امام صاحب نے جواب دیا۔ اس دن سے ماسٹر صاحبان کا نام یاجوج ماجوج پڑگیا۔
(نوٹ: یہ واقعہ پیر علی محمد راشدی نے سنایا تھا)
ایک زمانے میں سندھ کے دو ماسٹر تھے، جو یاجوج ماجوج کہلاتے تھے، جوبلی کوارٹر کے ایک سندھی اسکول میں سندھی اور حساب پڑھاتے تھے۔ ایک کا نام قاسم اور دوسرے کا جتوئی تھا۔ پڑھائی میں کافی نام پیدا کیا، لیکن اسکول سے باہر آتے ہی پٹری سے اتر جاتے تھے۔ بلیوں سے خاصی دوستی تھی۔ پوری تنخواہ انھیں چھیچھڑے کھلانے میں خرچ کردیا کرتے تھے۔ بلیوں نے اپنے محسنوں کو پہچان لیا تھا۔ گلیوں میں گھومتے تو آگے پیچھے بلیاں میاؤں میاؤں کرکے چلتیں۔
دنیا جہان کے ہر مسئلے پر لوگوں کی رہنمائی اور رہبری کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ چنانچہ ہر سمت میں تاروں اور خطوں کی جھڑی لگائے رکھتے۔ جب ہٹلر نے جنگ کی شروعات کیں تو تار بھیجا کہ یورپ میں خون بہانے کے بجائے ہندوستان آکر انگریزوں سے جنگ کرو۔ یہ تار سنسر ہوگیا اور سی آئی ڈی کتنے ہی دنوں تک انھیں کھینچتی پھری۔ آخر انگریز اس نتیجے پر پہنچے کہ دونوں پاگل ہیں، دماغ خراب ہے، مگر نیت خراب نہیں۔ (اﷲ نے بلیوں کی دعا سن لی یوں ان کی جان چھوٹ گئی۔)
ایک پرانے دوست نے ان کے بارے قصہ سنایا۔ کہنے لگا۔ ایک بار انھوں نے برطانیہ کے شاہی گھرانے سے بھی ناتا جوڑ لیا تھا۔ ایک شہزادی کی منگنی کا چرچا ہوا اور اخباروں میں اس کی تصویریں بھی شایع ہوئیں تو بڑے ماسٹر کا دل آگیا۔ فوراً شہزادی کے والد کو تار بھیجا کہ اس دختر کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دیجیے۔ میری علمی لیاقت یہ ہیں: سیاست میں یہ پوزیشن ہے کہ گاندھی جی بھی میرے مشوروں کے بغیر کام نہیں کرتے۔ ہمارے اس رشتے سے ہندوستان کا مسئلہ حل ہوجائے گا اور برطانیہ کے سر کا درد ختم ہوجائے گا۔ لندن سے اس تار کی رسید آگئی۔ محل کے سیکریٹری نے عام دستور کے مطابق چھپے ہوئے کاغذ پر رسید بھیج دی۔ رسید کا مضمون وہی تھا جو ہر مراسلے کے جواب میں دیا جاتا تھا، یعنی آپ کا مراسلہ پہنچ گیا، اس پر غور کیا جائے گا۔ غالباً کسی کلرک نے تار پڑھے بغیر جواب میں استعمال کیا جانے والا فارم بھر کر بھیج دیا تھا۔
بہرحال رسید ملتے ہی ماسٹر صاحب کو اپنی ذمے داریوں کا احساس ہونے لگا۔ کئی مسائل اٹھ کھڑے ہوئے، مثلاً مذہبی قضیہ کو کیونکر طے کیا جائے؟ وہ خود مسلمان اور شہزادی عیسائی، شہزادی کے مشرف بہ اسلام ہونے کی منزل نکاح سے پہلے آئے گی یا بعد میں؟ نکاح لندن میں ہوگا یا کراچی میں؟ جہیز اور آرسی کے سلسلے میں کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا؟
رازداری کی باتیں اکثر مجھ سے ہی آکر کیا کرتے تھے۔ ایک دن میرے گھر آپہنچے۔ آگے آگے بڑے ماسٹر صاحب اور پیچھے ان کا چھوٹا بھائی۔ بڑے ماسٹر کے گلے میں پھولوں کا ہار۔ ہنستے مسکراتے نمودار ہوئے۔ چھوٹے بھائی نے مسکراتے ہوئے کہا ''مبارک باد دیجیے۔ برطانیہ کی فلاں شہزادی سے ان کی شادی ہورہی ہے۔'' پھر لندن سے آئی ہوئی تار کی رسید جیب سے نکال کر دکھائی۔
میں نے مشورہ دیا کہ مذہبی معاملات میں شہر کے قاضی صاحب سے مشورہ کریں، لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ کمشنر صاحب سے جاکر ملیں۔ یہ مراسلہ کمشنر صاحب کے پاس بھی آیا ہوگا۔ اگر انھوں نے سفارش نہ کی تو معاملہ کھٹائی میں پڑ سکتا ہے۔ چنانچہ پہلے ان سے ملاقات کرکے انھیں اس رشتے کے کوائف سے آگاہ کریں اور اپنی طرف مائل کریں تاکہ وہ عمدہ سی رپورٹ تیار کرکے برطانیہ بھیجیں۔ میں نے یہ مشورہ بھی دیا کہ برطانیہ کے شاہی خاندان والے کتوں بلیوں کے شوقین ہوتے ہیں، اس لیے ماسٹر صاحب اپنی بلیوں کی تصویریں کھنچوا کر کمشنر صاحب کو دیں تاکہ انھیں بھی خط و کتابت کا حصہ بنایا جائے۔ سندھ کے کمشنر اس زمانے میں گبسن صاحب تھے جو ہنسی مذاق اور کھلنڈرے پن میں خاصے مشہور تھے۔ ماسٹر صاحبان بلیوں کی تصاویر کھنچوا کر ان کے پاس پہنچے۔ کمشنر صاحب کو تار کی رسید دکھا کر کہا کہ رشتے کی سفارش فرمائیں۔ گبسن انھیں پہچانتے تھے، ذرا سی دیر میں معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے۔
کہنے لگے، اچھا کیا جو پہلے میرے ہی پاس چلے آئے۔ یہ خط و کتابت میرے پاس آئی ہوئی ہے اور میں رپورٹ بھیجنے سے پہلے انکوائری کر رہاہوں۔ غالباً ایک رکاوٹ پیدا ہوجائے گی۔ دولہا کی عمر پچاس برس ہے اور دلہن کی مشکل سے بیس برس۔ ممکن ہے کہ بات نہ بنے۔ گبسن نے ماسٹر صاحب کے سامنے ایک تجویز رکھی کہ اگر شہزادی والا معاملہ عمرکے فرق کے لحاظ سے کامیاب نہ ہوسکے تو اسی گھرانے کی دوسری شہزادی آج کل میرے پاس مہمان ہے۔ وہ آپ کی ہم عمر ہے، بلیوں کی شوقین ہے اور خاصی دولت مند ہے۔ اگر آپ قبول کرلیں تو یہ کام فوراً ہوسکتا ہے۔ یہ کہہ کر گبسن نے نہ جانے کہاں سے ایک گوری میم بلوا کر انھیں دکھائی۔ معلوم نہیں ان کی اپنی بیوی تھی یا کیفے گرانڈ کی مالکہ۔ کیفے گرانڈ کی مالکہ ان دنوں ایک معمر عورت تھی جس کا تعلق فرانس سے تھا، لوگ اسے میڈم کہتے تھے۔
ماسٹر صاحبان نے ان سے مہلت مانگی اور مشورہ کرنے کے لیے میرے پاس آگئے۔ میں نے کہا ''جلدی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جب نوجوان شہزادی مل سکتی ہے تو اس بڑھیا سے شادی کیوں کررہے ہیں؟'' مگر جب کچھ دن بعد لندن کی شہزادی کی شادی ہوگئی تو ماسٹر صاحب کی امیدیں ماند پڑگئیں۔
وہ ہمیشہ سندھ کے وزیروں سے ملاقات کے متمنی رہتے تھے تاکہ ان کی رہنمائی کرسکیں۔ میں وزیر بنا تو مجھے بھی مفت مشوروں سے نوازنے لگے۔ ایک بار دفتر کے پٹے والے نے ان کا ملاقاتی کارڈ لاکر مجھے دیا۔ چھپے ہوئے کارڈ میں ان کے ناموں کے نیچے تعریف کچھ یوں لکھی تھی:
''میکرز آف پاکستان، میکرز آف بندے علی منسٹری، پیٹرنز آف اﷲ بخش منسٹری، اینیمیز آف ہٹلر، آرکیٹیکٹ آف انڈیا پاکستان فریڈم، ویل وشر آف جمشید مہتا پریزیڈنٹ کراچی میونسپلٹی، کینڈیڈیٹس فار پریزیڈنٹ شپ، کنٹرولر آف سندھ منسٹریز، کلوز ٹو رائل ہاؤس آف برٹن، کنگز آف گاؤلز اینڈ گوبلز۔
میں ان کے بارے میں سب کچھ پہلے ہی جانتا تھا، اس لیے اپنی جگہ سے اٹھا اور دروازے پر جاکر ان کا استقبال کیا۔ پھر اندر لاکر انھیں اپنے پاس بٹھایا۔ وہ ہمارے وزیراعلیٰ پیرزادہ عبدالستار سے بہت ناراض تھے۔ کیونکہ انھوں نے ان کی قدر نہیں کی تھی اور گرمجوشی سے استقبال نہیں کیا تھا، فرمایا ''ہم پیرزادہ کو ہٹا کر تمہیں وزیراعلیٰ بنانے آئے ہیں۔''
''یہ کیسے ہوگا؟'' میں نے پوچھا ''پیرزادہ کو اسمبلی سے بے دخل کریں تب بات ہے۔''
''اسکیم تیار ہے، ہم خود جاکر پیرزادہ کی کرسی پر بیٹھ جائیں گے۔'' انھوں نے کہا۔
یہ کہہ کر میرے پاس سے اٹھے اور وزیروں کے درمیان سے ہوتے ہوئے اندر چلے گئے اور پیرزادہ کی کرسی پر جا کر بیٹھ گئے۔ پیرزادہ صاحب اور میں اسمبلی میں داخل ہوئے۔ ہم دونوں ایک ہی بنچ پر بیٹھتے تھے۔ پیرزادہ شگفتہ مزاج تھے۔ ماسٹر صاحب کو اپنی کرسی پر بیٹھے دیکھ کر ہنسنے لگے۔ مجھ سے پوچھنے لگے ''یہ کیا تماشا ہے؟''
''یہ کہتے ہیں کہ میکرز آف پاکستان ہیں، جو چاہے کرسکتے ہیں۔'' میں نے بتایا ''دیر یا بدیر انھی کو آنا ہے، سیٹ انھوں نے پیشگی حاصل کرلی۔ ایک طرح سے ہمارے اور آپ کے سر کا درد ہیں۔''
پیرزادہ نے بڑھ کر ان سے سیٹ خالی کرانا چاہی، لیکن ناکام رہے۔
''ہم میکرز آف پاکستان ہیں، ہم نے تمہیں ڈس مس کردیا ہے اور اب اس سیٹ پر ہم بیٹھیں گے۔ وزارت اعلیٰ ہمارے قبضے میں رہے گی۔'' وہ بولے۔
جب اسمبلی کی گھنٹی بجنے لگی تو پیرزادہ نے ان سے کہا کہ وہ شام کو ان کے دفتر آکر ملیں تاکہ مسئلے کا کوئی حل نکالا جاسکے۔ وہ اس پر بھی تیار نہ ہوئے تو سیکیورٹی گارڈز کو بلا کر انھیں باہر دھکیل دیا گیا۔ وہ پیرزادہ کی شان میں نازیبا الفاظ بکتے ہوئے چلے گئے۔
ماسٹر صاحبان کا اٹھنا بیٹھنا گاڑی کھاتے کے محلے میں تھا۔ جب کوئی بلی بیمار ہوجاتی تھی تو وہ اسے مسجد میں دھکیل کر دروازہ بند کردیا کرتے تھے۔ مسجد کے امام زیادہ تر گھر ہی پر رہتے تھے اور نماز پڑھانے کے دوران ہی مسجد آتے تھے۔ چنانچہ ماسٹروں نے مسجد کو محفوظ مقام سمجھ کر اس میں بلیوں کو ٹھہرانے کا بندوبست کرلیا تھا۔
امام صاحب سے کسی نے پوچھا کہ مسجد میں بیمار بلیاں کیوں ٹہلتی پھرتی ہیں؟
''انھیں یاجوج ماجوج یہاں چھوڑ جاتے ہیں۔'' امام صاحب نے جواب دیا۔ اس دن سے ماسٹر صاحبان کا نام یاجوج ماجوج پڑگیا۔
(نوٹ: یہ واقعہ پیر علی محمد راشدی نے سنایا تھا)