ملک کی سوچ کیوں نہیں
فاضل ججوں کو کہنا پڑگیا کہ سیاست کے علاوہ ملک کا بھی سوچ لیا کریں اور ملک کی جڑیں نہ کاٹی جائیں۔
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ذاتی اور سیاسی ایجنڈے کے سوا ملک کا بھی سوچ لیا کریں، اگر اسلام آباد محفوظ نہیں تو ملک کیسے چلے گا، ملک کی جڑیں کاٹی جا رہی ہیں، کیا اپنے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے دھرنے ہوںگے، کیا ہر کام میں تفریق پیدا کرنا ضروری ہے، کسی کے مثبت کردار کو سراہنا چاہیے۔
جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل بینچ نے جو یہ ریمارکس دیے ہیں وہ بروقت اور سیاسی اور مذہبی شخصیات کی آنکھیں کھولنے کے لیے انتہائی ضروری تھے، کیونکہ اپنے اپنے ذاتی ایجنڈے اور سیاسی مفادات کے لیے دیے جانے والی دھرنا سیاست نے واقعی ملک کو اس مقام پر پہنچادیا ہے جہاں دنیا میں ملک کی بدنامی ہورہی ہے اور پاکستان کے ایک ناکام ریاست ہونے کے تصور کو ابھارا جارہا ہے۔
ہم سب مل کر اپنی اپنی غلطیوں، نا انصافیوں اور سیاسی مفاد کے ذریعے اقتدار کے حصول کے لیے ملک ٹوٹتا دیکھ چکے ہیں، جس میں دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک 1971 میں دولخت ہوگیا تھا، مگر حصول اقتدار اور اپنے اقتدار کو طول دینے والوں نے ملک کے لیے نہیں بلکہ اپنی ذات کا سوچا تھا، اگر اس وقت اپنے اپنے مفادات کے بجائے ملک کا سوچا جاتا تو پاکستان دولخت نہ ہوتا، جس کے بعد بھی ہمارے رہنماؤں کو چین نہیں آیا اور نام نہاد جمہوریت کی بحالی کے بعد سب ملک کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہیں اور ذاتی ایجنڈوں کو ملک پر ترجیح دی جارہی ہے اور اقتدار کے لیے ملک کی سلامتی کو داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کیا جارہا۔
پاکستان ٹوٹنے سے قبل اپنے سیاسی مفادات کو ترجیح دینے کے بجائے اگر ملک کو قابل ترجیح سمجھا جاتا اور اکثریت کا احترام کرکے انھیں اقتدار دے دیا جاتا تو سقوط ڈھاکا رونما نہ ہوتا۔ ملک ٹوٹنے سے سیاست دانوں نے سبق نہیں سیکھا اور جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے بعد 1988 سے ملک میں جو جمہوریت قائم ہوئی، وہ نام کی ہی حد تک جمہوریت تھی اور اس نام نہاد جمہوریت میں سیاسی آمریت قائم ہوتی رہی اور سیاسی مفادات نے 1999 میں ملک کو پھر جمہوریت سے محروم کیا، مگر اس وقت کی حکومت نے ملک میں حقیقی جمہوریت کی بنیاد ضرور ڈالی تھی اور نچلی سطح پر اقتدار منتقل کرنے کے لیے بااختیار ضلعی حکومتوں کا بلدیاتی نظام رائج کیا تھا۔
دنیا بھر میں بلدیاتی نظام کو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے، جہاں غیر سیاسی بلدیاتی اداروں میں قومی و صوبائی اسمبلیوں سے زیادہ اچھی جمہوریت تھی، جو بیورو کریسی اور ارکان اسمبلی کو پسند نہیں آئی، دنیا بھر میں منتخب ہونے والے متعدد حکمرانوں کی سیاست میں بنیاد بلدیاتی نظام تھا، جہاں سے سیاسی قیادت ابھرتی ہے مگر ملک میں پہلی بار قائم ہونے والی ضلعی حکومتوں کے نظام کو نام نہاد جمہوری حکمرانوں سے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور بیوروکریسی نے ختم کرادیا۔
1979 میں چند ہزار روپے اور 2015 میں لاکھوں روپے خرچ کرکے بلدیاتی چیئرمینوں اور کونسلروں کا انتخاب جیتنے والوں کا تعلق عوام سے تھا اور وہ عوام کی پہنچ میں ہوتے تھے، مگر کروڑوں روپے خرچ کرکے اسمبلیوں کے لیے منتخب ہونے والوں کو نچلی سطح کے بلدیاتی کام اتنے پسند آئے کہ انھوں نے جنرل پرویز کے بعد با اختیار بلدیاتی نظام ختم کرادیا اور جمہوریت کی نرسری کا گلا گھونٹ دیا۔
کروڑوں روپے خرچ کرکے ارکان اسمبلی منتخب ہونے والوں کی ترجیحات سیاسی اور ایجنڈے ذاتی تھے جو ملک کا سوچنے نہیں بلکہ جمہوریت کے نام پر ملک کو لوٹنے کے لیے منتخب ہوئے تھے، ملک لوٹنے کے لیے اقتدار نہایت ضروری ہے۔ اقتدار کے لیے حکمرانوں کو ووٹ بھی خریدنا پڑتے ہیں یا ارکان کو حکومت کا حصہ بناکر ملک لوٹنے کا بھرپور موقع دیا جاتا ہے۔ اقتدار برقرار رکھنے کے لیے ارکان اسمبلی کو ہر قسم کی چھوٹ دی جاتی ہے جس سے ادارے تباہ ہوں یا ملک لٹے، حکمرانوں کو صرف اپنا اقتدار عزیز ہوتا ہے۔
جنرل پرویز کی سربراہی میں بننے والی مسلم لیگ ق کی حکومت نے پانچ سال پورے کیے جس کے بعد جمہوریت کے دعویدار آصف علی زرداری کی حکومت نے اپنے 5 سال پورے کرکے ملک کا جو حال کیا اس کی سزا پی پی کو 2013 میں عوام نے دی، جس کے بعد ملک کے عوام نے عمران خان کے بجائے تیسری بار میاں نواز شریف کو اقتدار دیا۔
پی پی سندھ تک محدود ہونے کی وجہ سے 2013 سے کچھ عرصہ قبل مقبولیت حاصل کرنے والے عمران خان سے صبر نہ ہوا اور انھوں نے عوام کے فیصلے کو مسترد کرکے دھاندلی دھاندلی کے الزامات لگاکر نئی حکومت کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنی شروع کردیں اور دوبارہ انتخابات کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، نامعلوم ایمپائر کی انگلی اٹھنے کی امید میں عمران خان نے ایک سال بعد ہی اسلام آباد پر دھاوا بولا، مگر عوام نے ان کا ساتھ نہ دیا کیونکہ عوام نئی حکومت کو کام کا موقع دینا چاہتے تھے اس لیے عمران خان کا لاکھوں لوگوں کے باہر نکلنے کا خواب پورا نہ ہوا تو 126 دن دھرنا دے کر واپس لوٹ گئے۔
2013 میں ریاست بچانے کے نام پر ملک سے زیادہ تر باہر رہنے والے طاہرالقادری اپنے پہلے دھرنے کی ناکامی کے بعد عمران خان کے ساتھ اسلام آباد پر حملہ آور ہوئے مگر ن لیگ کی حکومت ختم نہ کراسکے۔ عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنے حکومت ہٹانے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور عسکری حلقے سیاست دانوں کی سنگین غلطیوں کے باوجود جمہوریت ڈی ریل کرنا نہیں چاہتے تھے اور عمران خان 2018 کا انتظار نہیں کرسکتے تھے۔
ن لیگ کی حکومت نے جیسے تیسے چار سال پورے کیے تو عمران خان برآمد ہوا مگر ن لیگ حکومت بچ گئی تو ایک مذہبی گروپ دھرنا دینے آگیا اور ایک وزیر کا استعفیٰ لے کر لوٹ گیا، مگر 22 روزہ دھرنے سے لاکھوں لوگوں کو جو پریشان کیا گیا تو سپریم کورٹ نوٹس لینے پر مجبور ہوئی اور فاضل ججوں کو کہنا پڑگیا کہ سیاست کے علاوہ ملک کا بھی سوچ لیا کریں اور ملک کی جڑیں نہ کاٹی جائیں۔ کاش یہ ریمارکس سیاسی دھرنوں کے وقت آجاتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔
جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل بینچ نے جو یہ ریمارکس دیے ہیں وہ بروقت اور سیاسی اور مذہبی شخصیات کی آنکھیں کھولنے کے لیے انتہائی ضروری تھے، کیونکہ اپنے اپنے ذاتی ایجنڈے اور سیاسی مفادات کے لیے دیے جانے والی دھرنا سیاست نے واقعی ملک کو اس مقام پر پہنچادیا ہے جہاں دنیا میں ملک کی بدنامی ہورہی ہے اور پاکستان کے ایک ناکام ریاست ہونے کے تصور کو ابھارا جارہا ہے۔
ہم سب مل کر اپنی اپنی غلطیوں، نا انصافیوں اور سیاسی مفاد کے ذریعے اقتدار کے حصول کے لیے ملک ٹوٹتا دیکھ چکے ہیں، جس میں دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک 1971 میں دولخت ہوگیا تھا، مگر حصول اقتدار اور اپنے اقتدار کو طول دینے والوں نے ملک کے لیے نہیں بلکہ اپنی ذات کا سوچا تھا، اگر اس وقت اپنے اپنے مفادات کے بجائے ملک کا سوچا جاتا تو پاکستان دولخت نہ ہوتا، جس کے بعد بھی ہمارے رہنماؤں کو چین نہیں آیا اور نام نہاد جمہوریت کی بحالی کے بعد سب ملک کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہیں اور ذاتی ایجنڈوں کو ملک پر ترجیح دی جارہی ہے اور اقتدار کے لیے ملک کی سلامتی کو داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کیا جارہا۔
پاکستان ٹوٹنے سے قبل اپنے سیاسی مفادات کو ترجیح دینے کے بجائے اگر ملک کو قابل ترجیح سمجھا جاتا اور اکثریت کا احترام کرکے انھیں اقتدار دے دیا جاتا تو سقوط ڈھاکا رونما نہ ہوتا۔ ملک ٹوٹنے سے سیاست دانوں نے سبق نہیں سیکھا اور جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے بعد 1988 سے ملک میں جو جمہوریت قائم ہوئی، وہ نام کی ہی حد تک جمہوریت تھی اور اس نام نہاد جمہوریت میں سیاسی آمریت قائم ہوتی رہی اور سیاسی مفادات نے 1999 میں ملک کو پھر جمہوریت سے محروم کیا، مگر اس وقت کی حکومت نے ملک میں حقیقی جمہوریت کی بنیاد ضرور ڈالی تھی اور نچلی سطح پر اقتدار منتقل کرنے کے لیے بااختیار ضلعی حکومتوں کا بلدیاتی نظام رائج کیا تھا۔
دنیا بھر میں بلدیاتی نظام کو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے، جہاں غیر سیاسی بلدیاتی اداروں میں قومی و صوبائی اسمبلیوں سے زیادہ اچھی جمہوریت تھی، جو بیورو کریسی اور ارکان اسمبلی کو پسند نہیں آئی، دنیا بھر میں منتخب ہونے والے متعدد حکمرانوں کی سیاست میں بنیاد بلدیاتی نظام تھا، جہاں سے سیاسی قیادت ابھرتی ہے مگر ملک میں پہلی بار قائم ہونے والی ضلعی حکومتوں کے نظام کو نام نہاد جمہوری حکمرانوں سے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور بیوروکریسی نے ختم کرادیا۔
1979 میں چند ہزار روپے اور 2015 میں لاکھوں روپے خرچ کرکے بلدیاتی چیئرمینوں اور کونسلروں کا انتخاب جیتنے والوں کا تعلق عوام سے تھا اور وہ عوام کی پہنچ میں ہوتے تھے، مگر کروڑوں روپے خرچ کرکے اسمبلیوں کے لیے منتخب ہونے والوں کو نچلی سطح کے بلدیاتی کام اتنے پسند آئے کہ انھوں نے جنرل پرویز کے بعد با اختیار بلدیاتی نظام ختم کرادیا اور جمہوریت کی نرسری کا گلا گھونٹ دیا۔
کروڑوں روپے خرچ کرکے ارکان اسمبلی منتخب ہونے والوں کی ترجیحات سیاسی اور ایجنڈے ذاتی تھے جو ملک کا سوچنے نہیں بلکہ جمہوریت کے نام پر ملک کو لوٹنے کے لیے منتخب ہوئے تھے، ملک لوٹنے کے لیے اقتدار نہایت ضروری ہے۔ اقتدار کے لیے حکمرانوں کو ووٹ بھی خریدنا پڑتے ہیں یا ارکان کو حکومت کا حصہ بناکر ملک لوٹنے کا بھرپور موقع دیا جاتا ہے۔ اقتدار برقرار رکھنے کے لیے ارکان اسمبلی کو ہر قسم کی چھوٹ دی جاتی ہے جس سے ادارے تباہ ہوں یا ملک لٹے، حکمرانوں کو صرف اپنا اقتدار عزیز ہوتا ہے۔
جنرل پرویز کی سربراہی میں بننے والی مسلم لیگ ق کی حکومت نے پانچ سال پورے کیے جس کے بعد جمہوریت کے دعویدار آصف علی زرداری کی حکومت نے اپنے 5 سال پورے کرکے ملک کا جو حال کیا اس کی سزا پی پی کو 2013 میں عوام نے دی، جس کے بعد ملک کے عوام نے عمران خان کے بجائے تیسری بار میاں نواز شریف کو اقتدار دیا۔
پی پی سندھ تک محدود ہونے کی وجہ سے 2013 سے کچھ عرصہ قبل مقبولیت حاصل کرنے والے عمران خان سے صبر نہ ہوا اور انھوں نے عوام کے فیصلے کو مسترد کرکے دھاندلی دھاندلی کے الزامات لگاکر نئی حکومت کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنی شروع کردیں اور دوبارہ انتخابات کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، نامعلوم ایمپائر کی انگلی اٹھنے کی امید میں عمران خان نے ایک سال بعد ہی اسلام آباد پر دھاوا بولا، مگر عوام نے ان کا ساتھ نہ دیا کیونکہ عوام نئی حکومت کو کام کا موقع دینا چاہتے تھے اس لیے عمران خان کا لاکھوں لوگوں کے باہر نکلنے کا خواب پورا نہ ہوا تو 126 دن دھرنا دے کر واپس لوٹ گئے۔
2013 میں ریاست بچانے کے نام پر ملک سے زیادہ تر باہر رہنے والے طاہرالقادری اپنے پہلے دھرنے کی ناکامی کے بعد عمران خان کے ساتھ اسلام آباد پر حملہ آور ہوئے مگر ن لیگ کی حکومت ختم نہ کراسکے۔ عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنے حکومت ہٹانے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور عسکری حلقے سیاست دانوں کی سنگین غلطیوں کے باوجود جمہوریت ڈی ریل کرنا نہیں چاہتے تھے اور عمران خان 2018 کا انتظار نہیں کرسکتے تھے۔
ن لیگ کی حکومت نے جیسے تیسے چار سال پورے کیے تو عمران خان برآمد ہوا مگر ن لیگ حکومت بچ گئی تو ایک مذہبی گروپ دھرنا دینے آگیا اور ایک وزیر کا استعفیٰ لے کر لوٹ گیا، مگر 22 روزہ دھرنے سے لاکھوں لوگوں کو جو پریشان کیا گیا تو سپریم کورٹ نوٹس لینے پر مجبور ہوئی اور فاضل ججوں کو کہنا پڑگیا کہ سیاست کے علاوہ ملک کا بھی سوچ لیا کریں اور ملک کی جڑیں نہ کاٹی جائیں۔ کاش یہ ریمارکس سیاسی دھرنوں کے وقت آجاتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔