سونے کا بچھڑا

عوامی طوفان، گھر سے اٹھے گا اور سونے کا بچھڑا نہ بچاسکے گا اس کی پرستش کرنے والوں کو۔

اللہ کو تو انسان مانتا ہے کہ اس کے پاس اس کا کوئی رد نہیں ہے، کوئی تردید نہیں کی جاسکتی، حالانکہ گز شتہ زمانوں میں ایسے ڈھیٹ کردار بھی گزرے ہیں کہ دن میں خدائی کا دعویٰ کرتے تھے اور رات کو خدا ہی سے دعا کرتے تھے کہ ان کی خدائی قائم رہے۔

ایسے کچھ مناظر گزشتہ دنوں لاہور میں بھی نظر آئے۔

انسان کو جب خدا نے کہا کہ وہ میری سب سے خوبصورت تخلیق ہے تو انسان کو خود پر غرور ہوگیا شاید، حالانکہ شکر ادا کرنا چاہیے تھا مگر یہ انسان ہے کچھ بھی کرسکتا ہے اور قدرت نے اس کھلونے کو طاقت دے کر یہ دیکھنا چاہا ہے کہ یہ کرتا کیا ہے۔ شکر، صبر، محبت، اخلاص، رواداری، انسانیت یا اس کے برعکس۔

جب خدا نے ابلیس کو سجدہ کرنے کا حکم دیا آدم کو، تو ایک کلیہ اس وقت کے لیے طے پایا تھا کہ خدا کے بعد اس کو سجدہ کرنا ہے جس کو خدا حکم کرے اور شاید اس سے یہ بھی طے کرنا تھا کہ عبادت سے عجز پیدا ہوتا ہے یا غرور، اور جس کو تخلیق کیا تھا اسے بھی ڈسپلن سکھانا تھا، بعد میں تو ایسا ہر سجدہ منسوخ ہے، اور بار بار کہا گیا ہے کہ خدا کے سوا کسی کو سجدہ نہ کرو یہ شرک ہوگا۔

اس معاملے میں انسان کی حیثیت محض اک مبصر کی تھی، جیسے کشمیر کے معاملے میں اقوام متحدہ کے مبصر۔ کیا ایسا ہے؟ نہیں یہاں اک طرح سے درس کا سلسلہ آغاز کیا گیا تھا اور اس کے باوجود ابلیس کا واقعہ بھی علم میں تھا، ابلیس کے جال میں آکر نافرمانی کی اور کیونکہ پہلی غلطی تھی، لہٰذا معافی کی صورت پیدا کرکے تجربہ گاہ دنیا میں اتار دیا۔ کوئی سمجھے نہ سمجھے، یہ بھی ہلکی سہی مگر سزا ہی ہے اور ساتھ ہی ابلیس کو بھی دنیا میں رہنے کا پرمٹ مل گیا، عبادتوں کا صلہ بھی کہ قیامت تک زندہ چیلنج انسان کے لیے، مگر اس نے کہہ دیا تھا کہ جو میرے ہوںگے وہ تیرے بہکاوئے میں نہیں آئیںگے۔

اب اس کے بعد کیا دنیا میں لوگوں نے اس بات کو سمجھا، مانا۔ نہیں ہرگز نہیں، اور اللہ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار استاد اتارے اور وہ نبیوں، پیغمبروں کی صورت مبعوث ہوئے، مگر ہر ایک کو انسانوں ہی سے دکھ اور تکلیفیں پہنچیں۔ وہ انسان شیطان کے پیروکار بن گئے اور اس کے حکم پر اللہ کا حکم لانے والوں پر ظلم و ستم کیا اور ساتھ ساتھ ان کی بات سننے والوں اور عمل کرنے والوں کو بھی نہیں بخش اور آج تک نہیں بخش رہے۔


ہماری سوئی کہیں اٹکی نہیں ہے، یہ حقیقت ہے، ''مجھے کیوں نکالا'' میں فرعونیت ہے، وہ آپ محسوس کریں۔ یوں لگتا ہے پاکستان ان کی کھیتی ہے جس کی پیداوار انھیں ملنا بند ہوگئی ہے۔ ہے تو یہی بات اللہ کے بجائے سونے کا بچھڑا ان کے پاس ہے، دنیا بھر میں مفت تفریح، کاروبار، عیش و آرام بنام سرکار ختم ہوگیا۔

حالانکہ پاکستان میں نااہل کی نااہل جماعت اور بھائی نے سارا کھیل تماشا اور جعلی شان و شوکت فراہم کی ہوئی ہے مگر وہ بات کہاں، ملک سے باہر کوئی ٹیکسی ڈرائیور بھی لفٹ نہیں کراتا، یہاں راستے بند کیے دیتے ہو انسانوں کے، کچلتے ہوئے گزرجاتے ہیں عوام کو، جی ٹی روڈ پر جسے شہید کردیا اسے اپنی جیب سے ایک روپیہ نہیں دیا عوام نے ہی عوام کی مدد کی ہے سرکاری خزانہ کسی کے باپ کا نہیں عوام کی امانت ہے اور اس میں ہیر پھیر پر بھی تمہیں نکالا اس کے بغیر تم امیر کبیر نہیں بن سکتے تھے نہ تمہاری اولاد۔

کون سا کاروبار ہے ان کے بچوں کا؟ ابا جو دولت ''لانڈرنگ'' کریں اس کو سنبھال کر رکھیں اور بس یہ کاروبار تھا بچوں کا۔ جھوٹے کاغذات، جھوٹے باپ بچے! چاہتے ہیں کہ جھوٹ کا یہ کاروبار جاری رہے جتنا لوٹ لیا اس سے دل نہیں بھرا وہ بھی بچ جائے اور کاروبار جاری رہے۔ یہ تو فرنٹ لائن تھے، بچے فرنٹ فٹ پر کھیل گئے۔ چوری کے مال پر الحمدﷲ کہنے پر اللہ کی پکڑ ہوگئی مگر یہ ایک ہی نہیں ہیں ضد میں پڑگئے ہیں زد میں آنے والا ''زردار'' بڑھاوا دے رہا ہے لڑو، کھڑے رہو، میں ساتھ ہوں، کیونکہ سر بیشک ان کا جائے آگ اس تک نہ آئے آئے گی سب کتابیں کوئی جائے گی، ہر خون کا حساب ہوگا اب تاریخ کو اور لوگوں کو جو فرعون بن گئے ہیں سدھارنا ہوگا۔

پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست ہے اور اس میں چور کو ساہوکار نہیں بننے دیا جاسکتا ورنہ یہ ریاست نہیں رہے گی خدا نہ کرے، ریاست بچانے کے لیے بے ایمانوں، بد عنوانوں، ظالموں کا خاتمہ ضروری ہے، ہوکر رہے گا ساتھ ہی مذہب کے نام پر سیاست کرنے اور عوام کو گمراہ کرنے والوں کا خاتمہ ضروری ہے چاہے وہ لال مسجد کے لوگ ہوں یا پہاڑوں میں بسنے والے یا چغہ عمامہ والے پاکستان بچے گا یہ لوگ نہیں بچنے والے یہ ایمان ہے۔

پاکستان حاصل کرنے کے لیے کتنی قربانیاں اور کیا کیا قربانیاں دی گئیں کون ہیں یہ لوگ جو اقتدار پر قابض ہیں؟ کیا قربانی دی ہے ان لوگوں کے خاندانوں نے؟ دور دور تک نام و نشان نہیں یہ تاجر ہیں، انگریز کے جانے کے بعد کالے تاجر اور ان کے تو کرتوت بھی کالے ہیں لفافہ صحافی کتنا بھی ان کے بارے میں لکھ دیں کچھ نہیں بدلے گا نہ سیاہ صحافی انھیں سفید کرسکیںگے، یہ کالے ہی رہیںگے۔ قلم فروخت کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے۔ کل ان کو بھی حساب دینا ہے ۔''القلم'' والے کو عوام ''معاشی پستی'' کی چکی میں پس رہے ہیں ٹیکس عیاشیوں پر خرچ ہورہے ہیں۔ نا اہل کی اور خاندان کی اور لوگ خودکشیوں پر آمادہ ہیں، پیٹ کی خاطر عزتیں نیلام ہورہی ہیں اور غیرت اقتدار کے ایوانوں میں گھنگھرو باندھے ناچ رہی ہے۔

بھارت، افغانستان جان کے دشمن ہیں، امریکا پرتول رہا ہے، بلوچستان پر نظریں جمی ہیں سرمایہ کاروں کی سوداگروں کی، پاکستان کو کچھ نہ ملے چھین لو سارے وسائل یہ امریکا کی پالیسی ہے۔ پاکستان کا وزیر خارجہ ''ٹور'' بنانے میں لگا ہے۔

کسی کو ملک کی فکر نہیں ہے سوائے دو اداروں کے وہ بھی دوسرے اداروں کے ساتھ ہی چل سکے ہیں تنہا تو کچھ نہیں اور رات دن اداروں کو تباہ کیا جارہاہے۔ مسخ کیا جارہاہے۔ سارا ریکارڈ مگر وقت کے ان فرعونوں کو، ان اداروں کے ہٹلروں کو یاد رکھنا چاہیے کہ جب طوفان آتا ہے تو سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہاکر لے جاتا ہے آنے ہی والا ہے عوامی طوفان، گھر سے اٹھے گا اور سونے کا بچھڑا نہ بچاسکے گا اس کی پرستش کرنے والوں کو، ہوسکتا ہے جب آپ یہ پڑھ رہے ہوں، ہوائیں تیز ہوچکی ہوں اور میں مجھے کی کشتیوں کے بادبان اڑنے لگے ہوں، کشتیاں ہچکولے کھارہی ہوں سیاسی جوار بھاٹا اپنے عروج پر ہو مگر سمت درست ہوچکی ہو۔
Load Next Story