سقوط ڈھاکا اور قوم کا حافظہ

مشرقی پاکستان ہم سے کیوں جدا ہوا اس سوال کا جواب آج 46 برس گزر جانے کے بعد بھی عوام کو نہیں مل سکا۔

mnoorani08@gmail.com

WASHINGTON:
کہا جاتا ہے کہ دسمبر 1970ء کے عام انتخابات ہماری تاریخ کے پہلے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تھے لیکن اس کے باوجود اس الیکشن کے نتیجے میںیہ ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔ یہ ایسا سانحہ تھا جس پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ ستائیس رمضان المبارک کو معرض وجود میں آنے والی اس مملکت کو جسے ہم اس مبارک دن کے حوالے سے اس دھوکے اور فریب میں مبتلا ہیں کہ یہ تاقیامت قائم ودائم رہے گا، ہم نے اپنی ہی کوتاہیوں اور لغزشوں کی وجہ سے دولخت کر ڈالا۔ تحریک پاکستان کی اصل میراث ''دو قومی نظریہ'' کی ہی دھجیاں محض پچیس سال میں بکھیر کر رکھ دیں۔

مشرقی پاکستان ہم سے کیوں جدا ہوا اس سوال کا جواب آج 46 برس گزر جانے کے بعد بھی عوام کو نہیں مل سکا۔ صوبائیت، علاقہ پرستی، سیاسی وابستگی اور ہمارے کچھ مقدس اداروں کا احترام ہمیں یہ سب کچھ جاننے اور بتانے میں حائل ہے۔ اس سانحہ کے بعد ہم نے سقوط ڈھاکا کے اسباب و محرکات معلوم کرنے کے لیے حمودالرحمن کمیشن تو ضرور بنا ڈالا، لیکن اس کی رپورٹ عام کرنے میں نجانے کون سے خوف اور ڈر ہمارے ہاتھ اور ارادے روک دیتے ہیں کہ یہ رپورٹ آج تک عوام کے سامنے نہ آسکی۔

بنگالی بھائیوں کو ہم سے جدا کردینے میں بین الاقوامی سازشی ذہنوں کے علاوہ ہمارے اپنے کون معاون اور مددگار تھے، ہم آج تک یہ نہ جان سکے۔ جب یہ اندوہناک سانحہ رونما ہوا اس ملک میں کوئی سول جمہوری حکومت قائم نہ تھی۔ دس سالہ ایوبی دور کے تسلسل میں ایک اور جنرل آغا محمد یحییٰ خان ملک کے سفید و سیاہ کے مالک تھے۔

یہاں ہمیں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کرنا چاہیے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ہمارے کچھ اپنے سیاستدانوں کا بھی حصہ تھا۔ بھٹو ستمبر 65ء کی جنگ کے فوراً بعد جب ایوب خان کی کابینہ چھوڑ کر عوام میں اتر آئے تھے تو انھوں نے ایوب خان سے اپنے اختلافات کی وجہ سوویت یونین کے شہر تاشقند میں لال بہادر شاستری اور ایوب خان کے درمیان طے ہونے والے معاہدے کی ان شقوں کو قرار دیا جس کے تحت پاکستان جنگ میں جیتی گئی کامیابیوں سے دستبردار ہوگیا تھا۔ جب کہ اس کے برعکس ان کے وہ عزائم اور کارفرما تھے جن کے ذریعے وہ اقتدار و اختیار کے سب سے اہم منصب پر قبضہ جمانا چاہتے تھے۔ بھٹو بھی ان دنوں اقتدار ہر قیمت پر حاصل کرنے کے لیے بے چین و بیتاب تھے۔

یہ جانتے بوجھتے کہ مروجہ انتخابی سسٹم اور قوانین کے تحت صرف وہی شخص اور وہی پارٹی حکومت بنا پائے گی جس نے پارلیمنٹ کی سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہوں۔ انھوں نے سارے پاکستان سے الیکشن جیتنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ انھیں اچھی طرح معلوم تھا کہ مشرقی پاکستان آبادی کے لحاظ سے چاروں صوبوں پر مشتمل مغربی پاکستان کے مقابلے میں ایک بڑا صوبہ تھا اور اسی تناسب سے وہاں کی نشستیں بھی زیادہ تھیں۔ اس کے باوجود انھوں نے وہاں ایک سیٹ پر بھی اپنا کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا۔ کیا ہم سمجھ سکتے ہیں کہ بھٹو جیسے نہایت ہوشیار، دانشمند اور دور اندیش سیاستداں سے یہ غلطی بس یونہی اتفاقاً بھول چوک میں غیردانستہ طور پر ہوگئی تھی۔


نہیں یہ سب کچھ ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت کیا گیا تھا۔ سارے ملک کی 300 نشستوں میں سے جب صرف 120 سیٹوں پر انتخاب لڑکر اقتدار بھلا کیسے اور کیونکر حاصل کیا جا سکتا تھا۔ یہ اتنی آسان اور معمولی سی بات کیا بھٹو جیسے صاحب بصیرت شخص کو معلوم نہ تھی۔ جب کہ ددسری جانب مجیب الرحمن نے سارے ملک سے 170 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے، جس میں سے انھیں 160 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ اس شخص نے لوگوں کو دکھانے کے لیے کم از کم اتنا تو کیا کہ 8 نشستوں پر اپنے امیدوار مغربی پاکستان سے بھی کھڑے کیے۔ بھٹو کی پیپلز پارٹی نے سارے ملک سے صرف 81 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ ٹوٹل ووٹوں میں سے 39.2 فیصد ووٹ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کو ملے، جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو محض 18.6 فیصد ووٹ ملے۔ اب اس کے بعد جمہوری طریقہ کار کے مطابق اقتدار بھلا کسے ملنا چاہیے تھا۔

ہم جب یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دینے کہ کوششیں کرتے ہیں کہ پاکستان کے ٹوٹنے میں کچھ غیر ملکی طاقتوں کا ہاتھ تھا تو ہمیں اس بات کا بھی پتہ لگانا چاہیے کہ ان بین الاقوامی سازشوں کو ہمارے یہاں سے کس نے کامیاب ہونے دیا۔ اقتدار مجیب الرحمٰن کے حوالے کرنے میں کس نے روڑے اٹکائے۔ کس نے ''ادھر تم، ادھر ہم'' کا نعرہ لگایا اور کس نے 25 مارچ 1971ء کے پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کی غرض سے جانے والے مغربی پاکستان کے منتخب لیڈروں کو یہ کہہ کر دھمکایا کہ اگر کوئی جانا چاہتا ہے تو صرف یکطرفہ ٹکٹ لے کر جائے ورنہ واپسی پر اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔

تاشقند میں ہونے والے معاہدے سے پاکستان تو صرف ان زمینوں سے دستبردار ہوا تھا جو جنگ کے دوران ہماری فوج کے قبضہ میں آ گئی تھیں، لیکن بھٹو کی ہٹ دھرمی سے تو ہمارا آدھا ملک ہی ہم سے جدا ہوگیا۔ جنرل یحییٰ کا قصور اتنا ضرور تھا کہ وہ ہر معاملے اور ہر مسئلے پر مشورہ لینے مرتضیٰ ہاؤس لاڑکانہ پہنچ جایا کرتے تھے۔ شاید ایسے ہی کچھ دانشمندانہ مشوروں کی وجہ سے جنرل یحییٰ الیکشن کے تین ماہ بعد تک اقتدار اکثریتی پارٹی کے حوالے کرنے میں پس و پیش سے کام لیتے رہے۔

مشرقی پاکستان کے باسیوں نے تین ماہ تک صبر سے انتظار کیا لیکن جب 25 مارچ 1971ء کو ڈھاکا میں منعقد ہونے والا پارلیمنٹ کا اجلاس بلا کسی ٹھوس وجہ کے منسوخ کر دیا گیا تو ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ پھر اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ایک انتہائی سنگین اور دردناک کہانی ہے۔ سارے مشرقی پاکستان میں زبردست احتجاج اور قتل عام شروع ہو گیا۔ مسلمانوں کے ہاتھوں اپنے مسلم بھائیوں کے خون کی ایسی ہولی کھیلی گئی کہ جس کا تصور کر کے بھی لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔

ایک غیر جانبدار اور سچ لکھنے والا مورخ اس واقعے کی تاریخ لکھتے ہوئے جہاں بین الاقوامی سازشوں کا ذکر کرے گا وہاں شیخ مجیب کے ساتھ ساتھ بھٹو کو بھی اس کا مورد الزام ضرور ٹھہرائے گا۔ بھٹو نے دانستہ طور پر مشرقی پاکستان میں اپنا کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا۔ انھوں نے وہاں جاکر کوئی الیکشن مہم بھی نہیں چلائی، اس کے باوجود وہ خود کو اقتدار اعلیٰ کا حقدار سمجھتے رہے تھے۔ اور کچھ ہوا بھی یونہی۔ ان کی خواہش اور تمنا ہر حال میں پوری ہوئی۔

انھیں باقی ماندہ پاکستان کی سربراہی تو ضرور مل گئی لیکن ساری قوم کی ذلت و رسوائی کے عوض، بانی پاکستان کے دو قومی نظریہ کی شکست کے عوض، آدھا پاکستان کھو دینے کے عوض۔ ان کے سر پر اقتدار کا ہما بیٹھا بھی تو کس سوگوار اور غم زدہ شام کو کہ جس روز ساری قوم انتہائی دکھ اور الم سے دوچار تھی۔ وہ مسرور ہونا چاہتے ہوئے بھی مسرور نہ ہوسکے۔ خدا کے فضل و کرم سے ہماری قوم کا حافظہ بہت کمزور ہے۔ وہ بہت جلد سب کچھ بھول جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالات و واقعات کی گردشوں میں اس نے ماضی کی ان منحوس یادوں کے تمام نقوش مٹادیے ہیں اور وطن عزیز کو دولخت کردینے والوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو بھلا کر انھیں معاف کردیا ہے۔
Load Next Story