جامعہ کراچی میں رقم لیکر فیل طلبا کو پاس کرنے کا انکشاف
میڈیکل ڈگری پروگرام کے معاملے کی ابتدا سابق دورمیں ہوئی، سابق وائس چانسلر ڈاکٹر قیصر نے منظوری دی
KARACHI:
جامعہ کراچی کی انتظامیہ کی جانب سے میڈیکل ڈگری پروگرام کی سطح پر فیل ہونے والے طلبا وطالبات کے لیے دوبارہ امتحان دینے کے بجائے یونیورسٹی خزانے میں رقم جمع کراکے ان کے نتائج تبدیل کرنے اورانھیں براہ راست پاس کرنے کا انکشاف ہواہے۔
میڈیکل میں ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کے پرچوں میں فیل ہونے والے طلبہ سے یہ رقم ''فائن'' کے نام پر لی گئی جس کے لیے فی پرچہ ایم بی بی ایس کے 4 لاکھ اور بی ڈی ایس کے لیے 3 لاکھ روپے اسی فائن کے نام پروصول کرکے ان کے نتائج تبدیل اورانھیں پاس کردیاگیا میڈیکل کے فیل طلبہ کو بغیر امتحان دیے رقم کی بنیاد پر پاس کرنے کی سفارش سابق ناظم امتحانات پروفیسر ڈاکٹر ارشد اعظمی کی جانب سے کی گئی اور سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد قیصر کی جانب سے اس سمری کی باقاعدہ منظوری سفارش کردہ رقم کے ساتھ دی گئی جس سے سندھ میں میڈیکل کی سطح پر انتظامی بنیادوں پر کیے گئے ''آفیشل کرپشن'' کا ایک نیا باب کھل گیا ہے۔
فقط چندلاکھ روپے دے کراپنے من مانے نتائج حاصل کرنے اورطب جیسے حساس شعبے میں پیشہ ورانہ ڈاکٹرکے طورپرکام کرنے کے سرکاری سطح پرراستے کھول دیے گئے ہیں جبکہ موجودہ انتظامیہ بھی اس نظام کو جاری رکھنے کے حوالے سے غور کررہی ہے۔ اس معاملے پر چانسلر سیکریٹریٹ گورنر ہاؤس سے رائے مانگی گئی ہے، دوسری جانب جامعہ کراچی کے موجودہ وائس چانسلرڈاکٹرمحمد اجمل اس معاملے کودبانے کی کوشش کررہے ہیں۔
ذرائع کہتے ہیں کہ موجودہ قائم مقام ناظم امتحانات اس معاملے کی چھان بین چاہتے ہیں۔''ایکسپریس'' کو معلوم ہواہے کہ جامعہ کراچی کے سابق ناظم امتحانات پروفیسر ڈاکٹر ارشد اعظمی نے اپنے سابقہ دور میں اگست 2015 ء میں سابق وائس چانسلرڈاکٹرمحمد قیصر کو خط لکھ کر اس امر کی منظوری لی تھی جس میں سابق شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر محمد قیصر سے کہا گیا تھا کہ جب مارچ2012 ء میں انھوں نے ناظم امتحانات کا چارج سنبھالا تو انھیں تصدیق کے لیے چند متنازع کیسز موصول ہوئے۔
ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کے ان کیسز کا حوالہ دیتے ہوئے سابق ناظم امتحانات نے سمری میں مزید کہا کہ جب متعلقہ کیسز کے لیے ٹیبولیشن رجسٹرکی جانچ کی گئی تو اس میں موجودہ طلبا کے مارکس کا''اسٹیٹس'' کونسولیڈیٹڈ (Consolidated)مارکس شیٹ سے ''میچ'' نہیں ہوا۔ سمری میں سابق ناظم امتحانات نے موقف اختیارکیاکہ انھیں دی گئی معلومات کے مطابق اسکروٹنی میں ان کے مارکس ''پاس'' کی صورت میں سامنے آئے جس کے بعد مارکس شیٹ کو درست کیا گیاتاہم متعلقہ اتھارٹیز کی نااہلی کے سبب ان کے ٹیبولیشن رجسٹر میں درستی نہیں ہوئی۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ سابقہ ناظم امتحانات کی جانب سے پیش کی گئی سمری میں انتہائی تضاد موجود ہے۔ ایک جانب ذکر کیا گیا کہ اسکروٹنی کے بعد وہ طلبا پاس تھے اور مارکس شیٹ میں فیل تھے، اسکروٹنی کے بعد ان کی مارکس شیٹ تبدیل کرکے پاس کیا گیا تاہم اس بات کی وضاحت ہی نہیں کی گئی کہ امتحانی کاپیوں کی عدم موجودگی کے باوجود3 برس کے بعد اسکروٹنی کن بنیادوں پر کی گئی کیونکہ امتحانی کاپیاں 6 ماہ میں ہی ٹینڈرکے ذریعے فروخت کردی جاتی ہیں ۔اگران کی فوری اسکروٹنی کی گئی تواس کی بنیادپر3 برس بعد انھیں اطلاع دی گئی تویہ بات محض زبانی معلومات تک ہی محدود تھی پھرکس بنیادپران کے نتائج تبدیل کیے گئے؟۔
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر ٹیبولیشن میں درست مارکس نہیں تھے اوردرست یاپاسنگ مارکس کے ساتھ مارک شیٹس جاری کی گئیں تاہم کاپیوں کی عدم موجودگی میں یہ کس طرح ممکن ہوا۔قابل ذکرامریہ ہے کہ پوری سمری میں کہیں بھی امتحانی کاپیوں کاذکرہی موجودنہیں اوراس کے باوجود سابق وائس چانسلرکی جانب سے اس سمری کی منظوری بھی دے دی گئی۔
یادر رہے کہ یہ کیسز اس قدر پرانے ہوچکے ہیں کہ تصدیق کے لیے ان کی اصل کاپیاں شعبہ امتحانات کے پاس نہیں تھیں لہذا ناظم امتحانات نے ٹیبولیشن کی درستی کا بہانہ کرتے ہوئے ٹیبولیشن رجسٹرکاریکارڈ تبدیل کردیااور سمری میں موقف اختیار کیا کہ اتھارٹیز نے نتائج ٹیبولیشن پر تبدیل نہیں کیے۔ سمری میں مزید انکشاف ہے کہ یہ طلبہ اب ''ہاؤس جاب'' کررہے ہیں اور اپنے کیسز کی تصدیق کے لیے مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں۔
سمری میں وائس چانسلر سے اجازت مانگی گئی کہ ان کی مارکس شیٹ کے مطابق ٹیبولیشن میں بھی نتائج کی تبدیلی کردی جائے بصورت دیگر یہ طلبا یونیورسٹی کے خلاف قانونی کارروائی بھی کرسکتے ہیں۔ ادھر''ایکسپریس''نے اس معاملے پرجامعہ کراچی کے موجودہ قائم مقام ناظم امتحانات ڈاکٹرعرفان عزیزسے جب اس سلسلے میں موقف جاننے کی کوشش کی توان کا کہنا تھا کہ معاملے پر پہلے ہی 3 رکنی تحقیقاتی کمیٹی کام کررہی ہے، یہی کمیٹی سابق ناظم امتحانات ڈاکٹر ارشد اعظمی سے ان کیسز کی معلومات اوروضاحت بھی لے گی تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اتنے پرانے کیسز کے حامل نتائج منسوخ بھی ہوسکتے ہیں یانہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر ارشد اعظمی سے ان کاموقف جاننے کے لیے بھی رابطہ کیاگیا جس پر انھوں نے انکشاف کیاکہ سابق پرووائس چانسلرڈاکٹرناصرالدین خان نے تعلقات یاکسی دوسرے مقصدکے لیے فیل طلبا کوپاس کرکے ان کی مارک شیٹس جاری کردیں۔ ہمارے گلے پڑے ایسے 18کیسز تھے، ہم نے سال بھرتک اس پر سوچاکہ ان کے لیے کیاراستہ نکالاجائے کیونکہ ان طلبا کی زندگیوں کے اہم 5 تعلیمی سال بربادہورہے تھے۔
جامعہ کراچی کی انتظامیہ کی جانب سے میڈیکل ڈگری پروگرام کی سطح پر فیل ہونے والے طلبا وطالبات کے لیے دوبارہ امتحان دینے کے بجائے یونیورسٹی خزانے میں رقم جمع کراکے ان کے نتائج تبدیل کرنے اورانھیں براہ راست پاس کرنے کا انکشاف ہواہے۔
میڈیکل میں ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کے پرچوں میں فیل ہونے والے طلبہ سے یہ رقم ''فائن'' کے نام پر لی گئی جس کے لیے فی پرچہ ایم بی بی ایس کے 4 لاکھ اور بی ڈی ایس کے لیے 3 لاکھ روپے اسی فائن کے نام پروصول کرکے ان کے نتائج تبدیل اورانھیں پاس کردیاگیا میڈیکل کے فیل طلبہ کو بغیر امتحان دیے رقم کی بنیاد پر پاس کرنے کی سفارش سابق ناظم امتحانات پروفیسر ڈاکٹر ارشد اعظمی کی جانب سے کی گئی اور سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد قیصر کی جانب سے اس سمری کی باقاعدہ منظوری سفارش کردہ رقم کے ساتھ دی گئی جس سے سندھ میں میڈیکل کی سطح پر انتظامی بنیادوں پر کیے گئے ''آفیشل کرپشن'' کا ایک نیا باب کھل گیا ہے۔
فقط چندلاکھ روپے دے کراپنے من مانے نتائج حاصل کرنے اورطب جیسے حساس شعبے میں پیشہ ورانہ ڈاکٹرکے طورپرکام کرنے کے سرکاری سطح پرراستے کھول دیے گئے ہیں جبکہ موجودہ انتظامیہ بھی اس نظام کو جاری رکھنے کے حوالے سے غور کررہی ہے۔ اس معاملے پر چانسلر سیکریٹریٹ گورنر ہاؤس سے رائے مانگی گئی ہے، دوسری جانب جامعہ کراچی کے موجودہ وائس چانسلرڈاکٹرمحمد اجمل اس معاملے کودبانے کی کوشش کررہے ہیں۔
ذرائع کہتے ہیں کہ موجودہ قائم مقام ناظم امتحانات اس معاملے کی چھان بین چاہتے ہیں۔''ایکسپریس'' کو معلوم ہواہے کہ جامعہ کراچی کے سابق ناظم امتحانات پروفیسر ڈاکٹر ارشد اعظمی نے اپنے سابقہ دور میں اگست 2015 ء میں سابق وائس چانسلرڈاکٹرمحمد قیصر کو خط لکھ کر اس امر کی منظوری لی تھی جس میں سابق شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر محمد قیصر سے کہا گیا تھا کہ جب مارچ2012 ء میں انھوں نے ناظم امتحانات کا چارج سنبھالا تو انھیں تصدیق کے لیے چند متنازع کیسز موصول ہوئے۔
ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کے ان کیسز کا حوالہ دیتے ہوئے سابق ناظم امتحانات نے سمری میں مزید کہا کہ جب متعلقہ کیسز کے لیے ٹیبولیشن رجسٹرکی جانچ کی گئی تو اس میں موجودہ طلبا کے مارکس کا''اسٹیٹس'' کونسولیڈیٹڈ (Consolidated)مارکس شیٹ سے ''میچ'' نہیں ہوا۔ سمری میں سابق ناظم امتحانات نے موقف اختیارکیاکہ انھیں دی گئی معلومات کے مطابق اسکروٹنی میں ان کے مارکس ''پاس'' کی صورت میں سامنے آئے جس کے بعد مارکس شیٹ کو درست کیا گیاتاہم متعلقہ اتھارٹیز کی نااہلی کے سبب ان کے ٹیبولیشن رجسٹر میں درستی نہیں ہوئی۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ سابقہ ناظم امتحانات کی جانب سے پیش کی گئی سمری میں انتہائی تضاد موجود ہے۔ ایک جانب ذکر کیا گیا کہ اسکروٹنی کے بعد وہ طلبا پاس تھے اور مارکس شیٹ میں فیل تھے، اسکروٹنی کے بعد ان کی مارکس شیٹ تبدیل کرکے پاس کیا گیا تاہم اس بات کی وضاحت ہی نہیں کی گئی کہ امتحانی کاپیوں کی عدم موجودگی کے باوجود3 برس کے بعد اسکروٹنی کن بنیادوں پر کی گئی کیونکہ امتحانی کاپیاں 6 ماہ میں ہی ٹینڈرکے ذریعے فروخت کردی جاتی ہیں ۔اگران کی فوری اسکروٹنی کی گئی تواس کی بنیادپر3 برس بعد انھیں اطلاع دی گئی تویہ بات محض زبانی معلومات تک ہی محدود تھی پھرکس بنیادپران کے نتائج تبدیل کیے گئے؟۔
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر ٹیبولیشن میں درست مارکس نہیں تھے اوردرست یاپاسنگ مارکس کے ساتھ مارک شیٹس جاری کی گئیں تاہم کاپیوں کی عدم موجودگی میں یہ کس طرح ممکن ہوا۔قابل ذکرامریہ ہے کہ پوری سمری میں کہیں بھی امتحانی کاپیوں کاذکرہی موجودنہیں اوراس کے باوجود سابق وائس چانسلرکی جانب سے اس سمری کی منظوری بھی دے دی گئی۔
یادر رہے کہ یہ کیسز اس قدر پرانے ہوچکے ہیں کہ تصدیق کے لیے ان کی اصل کاپیاں شعبہ امتحانات کے پاس نہیں تھیں لہذا ناظم امتحانات نے ٹیبولیشن کی درستی کا بہانہ کرتے ہوئے ٹیبولیشن رجسٹرکاریکارڈ تبدیل کردیااور سمری میں موقف اختیار کیا کہ اتھارٹیز نے نتائج ٹیبولیشن پر تبدیل نہیں کیے۔ سمری میں مزید انکشاف ہے کہ یہ طلبہ اب ''ہاؤس جاب'' کررہے ہیں اور اپنے کیسز کی تصدیق کے لیے مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں۔
سمری میں وائس چانسلر سے اجازت مانگی گئی کہ ان کی مارکس شیٹ کے مطابق ٹیبولیشن میں بھی نتائج کی تبدیلی کردی جائے بصورت دیگر یہ طلبا یونیورسٹی کے خلاف قانونی کارروائی بھی کرسکتے ہیں۔ ادھر''ایکسپریس''نے اس معاملے پرجامعہ کراچی کے موجودہ قائم مقام ناظم امتحانات ڈاکٹرعرفان عزیزسے جب اس سلسلے میں موقف جاننے کی کوشش کی توان کا کہنا تھا کہ معاملے پر پہلے ہی 3 رکنی تحقیقاتی کمیٹی کام کررہی ہے، یہی کمیٹی سابق ناظم امتحانات ڈاکٹر ارشد اعظمی سے ان کیسز کی معلومات اوروضاحت بھی لے گی تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اتنے پرانے کیسز کے حامل نتائج منسوخ بھی ہوسکتے ہیں یانہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر ارشد اعظمی سے ان کاموقف جاننے کے لیے بھی رابطہ کیاگیا جس پر انھوں نے انکشاف کیاکہ سابق پرووائس چانسلرڈاکٹرناصرالدین خان نے تعلقات یاکسی دوسرے مقصدکے لیے فیل طلبا کوپاس کرکے ان کی مارک شیٹس جاری کردیں۔ ہمارے گلے پڑے ایسے 18کیسز تھے، ہم نے سال بھرتک اس پر سوچاکہ ان کے لیے کیاراستہ نکالاجائے کیونکہ ان طلبا کی زندگیوں کے اہم 5 تعلیمی سال بربادہورہے تھے۔