ہاں میں نے فلسطین کا سودا کیا
مشرق وسطیٰ میں فلسطین کا مسئلہ صرف یہودیوں کا نہیں بلکہ مسلمانوں کی اپنی سازشوں اور غفلتوں کا شاخسانہ بھی ہے
مسئلہ فلسطین دنیا کا سب سے قدیم اورغالباً حساس ترین مسئلہ ہے۔ اس خطے میں تینوں آسمانی مذاہب، نسلوں اورتمدنوں کے تمام تر تضادات اپنی پوری شدت کے ساتھ موجود ہیں۔ اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے مناسب یہ ہے کہ پہلے اس خطے کے محل وقوع اور تاریخ کا مختصر جائزہ لیا جائے تاکہ یہاں موجود تنازعات کی نوعیت، کیفیت اور کمیت سے واقفیت حاصل کرنے میں آسانی ہو۔
موجودہ اسرائیل اور اس کے غیرقانونی طور پر قبضہ کیے گئے علاقے کی (جن میں اردن کے بعض علاقے بھی شامل ہیں) کل آبادی تقریباً 2 کروڑ 44 لاکھ ہے۔
مسلمانوں کی آبادی لگ بھگ ایک کروڑ 12 لاکھ سے متجاوز جبکہ یہودی اکثریت والے علاقوں کی آبادی 85 لاکھ 47 ہزار کے قریب ہے اور اس میں بھی 82 فیصد یہودی اور 18 فیصد مسلمان شامل ہیں۔
اسرائیل کی سرکاری زبان عبرانی ہے جس کا شمار دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں ہوتا ہے۔ فلسطین کے مقدس شہر کو عبرانی زبان میں 'یروشلم' اور عربی میں 'القدس' کے نام سےجانا جاتا ہے۔ اس تاریخی شہر کو مسلمان، یہودی اور عیسائی، تینوں ہی مقدس سمجھتے ہیں۔ یوں یہ شہر تینوں الہامی (ابراہیمی) مذاہب کی جائے پیدائش ہونے کی وجہ سے انتہائی تقدس کا حامل ہے۔
یہاں ایک مقام ''قبۃ الصخرہ'' ہے، گنبدِ صخرہ اسی کو کہتے ہیں۔ یہودیوں اور مسیحیوں کےلیے یہ ''ڈوم آف راک'' ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ پیغمبرِ اسلامﷺ سفرِمعراج پر یہیں سے تشریف لے کر گئے تھے۔ اسی مقام پر مسجدِ اقصیٰ واقع ہے۔ ابتدائے اسلام میں یہی مسجد مسلمانوں کا قبلہ رہی، اسی لیے مسلمان مسجد اقصی کو قبلہ اول بھی کہتے ہیں۔
یروشلم کا ایک مقام ''کنیسۃ القیامہ'' ہے جو مسیحیوں کےلیے مقدس ہے۔ عالمِ مسیحیت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہیں مصلوب کیا گیا تھا۔ بیت المقدس کی مغربی دیوار کو ''وال آف دی ماؤنٹ'' یا ''دیوارِ گریہ'' کہتے ہیں۔ مسلمان اسے ''دیوارِ براق'' کہتے ہیں۔ یہودیوں کےلیے یہ مقام مقدس ہے۔ یہودیوں کا ایمان ہے کہ اس دیوار کی بنیاد حضرت داؤد علیہ السلام نے رکھی تھی۔ یہی وہ دیوار ہے جس کی تاریخ ہیکل سلیمانی سے جاملتی ہے۔ یہودی تاریخ اس بات پر بھی اتفاق رکھتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند حضرت اسحاق علیہ السلام کی قربانی یہیں دی تھی۔ اسلامی صحائف میں اسی قربانی کی نسبت حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کے دوسرے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی طرف ہوتی ہے۔ یہ ہے وہ مختصر تاریخ جس کی بناء پر یروشلم یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے نزدیک انتہائی مقدس شہر کا درجہ رکھتا ہے۔
سرزمین فلسطین پر شاطر اور سفاک یہودیوں کا قبضہ اس عالمی سازش کا ایک حصہ ہے جو صدیوں سے مسلمانوں کے خلاف جاری ہے۔ اسرائیل کے قیام میں مغربی استعمار اور اسلام دشمن قوتوں نے جو کردار ادا کیا ہے، وہ ان کی روایتی مسلمان اور اسلام دشمنی کی عکاسی کرتا ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ یہاں اپنی غفلت کا تذکرہ بھی کروں گا کہ فلسطین پر اسرائیلی قبضے میں جہاں شاطر اور ظالم یہودیوں اور عالمی طاقتوں کی سازشیں شامل ہیں، وہیں ہم مسلمانوں کی اپنی عیاشیوں اور غفلتوں کا بھی کچھ کم دخل نہیں۔ مسلمان حکمرانوں پر عیش پرستی، سلطنتیں بچانے کےلیے کچھ بھی کر گزرنے کی خواہش، دین کےمقابلے میں ذاتی مفادات کا تحفظ، مادیت پسندی اور بوالہوسی پر مبنی سوچ کچھ ایسے قابض ہوئی کہ غیر تو غیر، اپنے بھی اس سازش کا حصہ بن گئے۔ مسلمان فرمانروا تعیش پسندی، شکم سیری اور اقتدار کی لالچ کی زنجیروں میں ایسے جکڑ گئے کہ اپنی اقدار اور شعار ہی کو بھول گئے اور قلیل عرصے کی حکومت اور دولت کے عوض ملت کا سودا کرلیا۔
ممکن ہے کہ میری اس تحریر سے بہت سے لوگ اتفاق نہ کریں لیکن یہ تحریر محض مفروضوں اور قیاس آرائیوں پر مشتمل نہیں بلکہ تاریخ کے وہ تکلیف دہ حقائق ہیں جنہیں ہم نظرانداز کرتے آئے ہیں اور مسلمانوں پر ہونے والے ہر ظلم و ستم کا براہ راست ذمہ دار صرف یہود و نصاریٰ کو گردانتے ہیں؛ حالانکہ ہم مسلمان ہی اس کے ذمہ دار ہیں کیونکہ ہم نے خود فلسطین کا سودا کیا، ہم نے اسلامی شعار اور اقدار پر قلیل عرصے کی حکومت کو فوقیت دے کراپنی دینی غیرت کو خود فروخت کیا۔
اس علاقے کی قدیم تاریخ کے مطابق 2500 قبل مسیح میں عرب سے لوگ آکر یہاں آباد ہوئے اور اس کا نام ''کنعان'' رکھا گیا۔ اس کے بعد موجودہ ترکی کے علاقوں سے بھی لوگ یہاں آکر آباد ہوئے۔ انہیں ''فلسطی'' کہا جاتا تھا اور یوں یہ علاقہ ''فلسطین'' کہلایا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام تقریباً 1900 قبل مسیح میں اس علاقے میں تشریف لائے جہاں آپ کے گھر حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔ حضرت اسحاق علیہ السلام کے ایک بیٹے کا نام یعقوب (علیہ السلام) رکھا گیا۔ عربوں میں پہلے نام کے ساتھ لقب اور کنیت کا رواج عام ہوتا تھا تو حضرت یعقوب علیہ السلام کو بے انتہاء عبادت گزاری کے باعث عبرانی زبان میں ''اسرائیل'' (اللہ کا بندہ) کا لقب دیا گیا؛ اورآپ سے جو نسل دنیا میں پھیلی، اسے ''بنی اسرائیل'' کہا جانے لگا۔ یہاں سے فلسطین اور اسرائیل کے تنازعے نے سر اٹھایا۔ گو کہ یہ پریشانی کی حد تک نہیں تھا لیکن یہاں سے اس خطے میں دو شناختیں سامنے آئیں۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کے چار سو سال بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے۔ آپ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے یہودیوں نے اللہ کے احکامات کی نافرمانی کی؛ یوں وہ ظلم و ستم کا شکار ہوئے اور فلسطین سے نکالے گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہودیوں کو دوبارہ کھویا ہوا وقار دلایا اور پوری قوم کو لے کراپنے پرانے وطن 'فلسطین' کا رخ کیا اور کئی صدیوں پر محیط جدوجہد کے بعد ''سلطنت اسرائیل'' قائم ہوئی۔ اسی سلطنت کا دور حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے ساتھ چلا اور یہودیوں کے مقدس ترین مقام ''ہیکل سلیمانی'' کی تعمیر اسی دور میں یروشلم میں ہوئی۔
سن 70 عیسوی میں رومیوں نے یروشلم پرحملہ کرکے اسے اپنے قبضے میں لے لیا اور چوتھی صدی عیسوی میں رومیوں نے عیسائیت قبول کرلی۔ یوں پورے علاقے نے عیسائیت اختیار کرلی اور پھر یہودیوں کو دربدر کردیا گیا۔
ساتویں صدی عیسوی میں مسلمانوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زیرنگرانی یروشلم فتح کیا۔ ہیکل سلیمانی اور پورا علاقہ جو رومیوں نے تباہ کردیا تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس علاقے کی تعمیر شروع کی، یہودیوں کو ان کے مقدس مقامات تک رسائی دی گئی اور ایک حصے کو نماز کےلیے مخصوص فرمایا جسے آج بھی ''مسجد اقصیٰ'' کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہ ہے وہ مختصرتاریخ جس سے مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے مذہبی مقامات اور ان سے وابستہ مذہبی عقیدت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
بیت المقدس پر مسلمان سلجوقیوں کے دور حکومت میں عیسائی زائرین کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا جس کے ردِعمل میں یورپ میں غم وغصہ پیدا ہوا اور متحد عیسائی لشکر نے 1099ء میں یروشلم پرحملہ کرکے یروشلم پر قبضہ کرلیا۔ یہیں سے صلیبی جنگوں کا آغازہوا۔
1187ء میں مسلمانوں نے صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں دوبارہ یروشلم کو آزاد کرایا اورپہلی جنگ عظیم تک اگلے آٹھ سو برس یروشلم مسلمانوں کے کنٹرول میں رہا۔ لیکن عثمانی ترکوں کے رویّے میں آمرانہ طرز حکومت کی وجہ سے خرابیاں آتی گئیں۔ اقربا پروری، بدعنوانی، عیاشی اور سازشیں بڑھتی گئیں، اجتماعی اخلاقی گراوٹ میں اضافہ اور حکومت کے اپنی رعایا کے ساتھ بدترین سلوک نے عوام کو بغاوت پر مائل کردیا جس کا اسلام دشمنوں نے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور معمولی معمولی اختلافات کو بڑے تنازعات میں تبدیل کردیا اور یوں اکثر علاقے حکومت کے دائرہ اختیار سے نکلتے چلے گئے۔
70ء میں رومیوں نے یہودیوں کو جلاوطن کیا، اس کے بعد یہ قوم اٹھارہ سو سال تک دربدر رہی۔ یہودی قوم اپنی سازشوں کے حوالے سے خصوصی شہرت رکھتی ہے اور یہی وجہ تھی کہ یہ جہاں کہیں بھی آباد ہوتے تو وہاں کی حکومت کے خلاف سازشیں کرتے اور یوں وہاں سے بھی نکالے جاتے۔ اس طرح اٹھارہ سو سال تک یہودی پولینڈ، جرمنی، روس اور مختلف ممالک پہنچے اور پھر وہاں سے نکالے جاتے رہے۔ خاص طور پر روس اور نازی جرمنی میں ان کے ساتھ بہت برا سلوک رکھا گیا۔
یہودی بنیادی طور پر کاروبار کو فوقیت دیتے تھے جبکہ سود پر کاروبار ان کے ہاں عام تھا اور یہ بہت مالدار بھی تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ذہانت کے سبب یہودیوں کے مال میں اضافہ ہوتا گیا اور سترہویں صدی عیسوی کے وسط تک یہودی بہت زیادہ مالدار لوگ ہوچکے تھے۔ اس دوران ان میں اپنی کم مائیگی اور بے چارگی کا احساس پیدا ہونے لگا۔ اس احساس کے تحت یہودیوں نے مقامی سطح پر اپنی مختلف تنظیمیں بنانی شروع کردیں اور اپنے الگ وطن کےلیے باقاعدہ کوششوں کا آغاز کر دیا۔
اکثر یہودی قدامت پسندوں کا خیال تھا کہ ان کا اصل وطن فلسطین ہے جہاں انہیں واپس جانا چاہیے۔ اس نظریئے کے تحت جرمنی کے ایک ہنگری نژاد نظریاتی یہودی دانشور تھیوڈور ہرزل نے 1895 میں ''صہیونیت'' (Zionism) کے نام سے ایک تحریک شروع کی اور بالآخر 27 اگست 1897 میں سوئٹزرلینڈ میں اس تنظیم کو منظم تحریک میں تبدیل کرنے کےلیے ایک کانفرنس منعقد کی گئی جس میں اعلان کیا گیا کہ صہیونیت فلسطین میں یہودیوں کےلیے اپنا الگ وطن بنائے گی اور وہاں مقیم مسلمانوں اور عیسائیوں کو بے دخل کیا جائے گا۔
اس فیصلے پر عملدرآمد کےلیے یہودیوں نے اپنی صلاحیتوں کو غیرمعمولی حد تک بڑھایا۔ تھیوڈور ہرزل نے اپنی قوم سے کہا کہ اگر اپنا وطن حاصل کرنا ہے تو اپنی صلاحیتوں کو غیرمعمولی حد تک بڑھانا ہوگا۔ تھیوڈور ہرزل کے اس مشورے پر سختی سے عمل کرتے ہوئے یہودیوں نے علم و ہنر، سائنس اور ٹیکنالوجی، عالمی سیاست پر گرفت اور دنیا کے تمام شعبوں میں انتہائی تیزی سے ترقی کی جبکہ مسلمانوں کی اکثریت، یا یوں کہا جائے کہ حکمران طبقہ عیش و عشرت اوراپنی حکومتوں کو محفوظ کرنے کی کوششوں میں لگے رہے، سلطنتوں کو بچانے کےلیے اپنی مرضی کے فتوے جاری کیے گئے، ایسے علما کو درباروں میں شامل کیا گیا جو دین کے مقابلے میں حکمران خاندانوں کا تحفظ کرنے لگے۔
یہودیوں کو ان کا وطن اور دنیا پرحکومت کےلیے بنائی جانے والی تنظیم اور صہیونیت کے فروغ کےلیے منعقد کی جانے والی اس کانفرنس کے مندرجات کچھ عرصے بعد منظرعام پر آئے جس کو مسلمانوں سمیت بین الااقوامی برادری کی جانب سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن یہودیوں کی علمی قابلیت اور شاطر ذہانت اور بین الاقوامی امور میں یہودیوں کی ضرورت کے پیش نظر عالمی طاقتیں، تنظیمیں اور مسلمان یہودیوں کا مقابلہ نہیں کرسکے۔ یوں وہ اپنے منصوبے پر تیزی سے عمل پیرا رہے۔
1914 میں جب پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو ترکی نے، جو اس وقت خلافت عثمانیہ کا مرکز تھا، بلاضرورت اس جنگ میں جرمنی کا ساتھ دیتے ہوئے روسی بندرگاہوں پر حملہ کردیا۔ ترکی کے اس جانبدارانہ رویے پربرطانیہ اور اس کی اتحادی افواج نے ترکی کے زیرتسلط علاقوں کو، جن میں فلسطین بھی شامل تھا، اپنا ہدف بنایا۔
مسلمانوں کے زوال میں یہودیوں اورعیسائیوں کی سازشوں کو ذمہ دار کہنے والے غیرجانبدار ہوکر اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو اپنی غفلت اور لاپرواہی کے مقابلے میں یہودیوں کی سازشیں انتہائی بیہودہ مذاق لگیں گی۔ مسلمانوں کے زوال کے محرکات کا اندازہ مندرجہ ذیل سطروں کوپڑھ کر بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
1517ء سے فلسطین اورتقریباً مصر سمیت مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بھی عثمانی ترکوں کے زیرانتظام تھا۔ مذکورہ علاقے عثمانی ترکوں کے قبضے میں تھے اور عربوں کے ساتھ ترکوں کا رویہ حاکمانہ تھا جو ان علاقوں میں ترکوں کے خلاف بغاوتوں کی وجہ بنا جبکہ ترکوں نے اپنے انتظامی امور اور رویوں میں تبدیلی لانے کے بجائے انتہائی بے رحمی کے ساتھ مختلف بغاوتوں کو کچلنے کا طریقہ کار اختیار کیا جس نے عثمانی ترکوں کے خلاف نفرت کی ایسی فضا پیدا کی جس کے تحت عوام ترکوں کے خلاف ہر طاقت کا خیر مقدم کرنے کےلیے تیار ہوگئے۔
یہ طریقہ حکومت خلافت عثمانیہ اور مسلمانوں کی تنزلی کی اہم وجہ بن کر سامنے آیا۔ پہلی جنگ عظیم کی ابتدا میں برطانیہ نے خلافت عثمانیہ کو شکست دینے کےلیے دنیا بھر کے یہودیوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں تیز کیں جو اب بہت مالدار ہوچکے تھے اور جن کے پیسے اور علم و ہنر کی برطانیہ کو سخت ضرورت تھی۔
دوسری طرف برطانیہ نے ان عرب طاقتوں کی حمایت کے اعلان کے ساتھ بغاوتوں کو دوام بخشا اور خلافت عثمانیہ کے خلاف ہر کوشش کو اپنی تمام تر شدتوں کے ساتھ کامیاب بنانے میں تعاون فراہم کیا۔ یہودیوں نے خلافت عثمانیہ کے خلاف، جس کی تقریباً پورے عرب پر حکومت تھی، اپنی دولت اور ذہانت دل کھول کر لگائی جس کی وجہ سے جنگ میں برطانیہ کو کامیابیاں ملیں۔ برطانیہ کی کامیابی کی صورت میں برطانوی حکومت نے یہودیوں کی دولت اور ذہانت کے اعتراف میں یہ وعدہ کیا کہ فلسطین میں یہودیوں کا وطن قائم کیا جائے گا۔ چنانچہ نومبر1917 میں برطانوی وزیر خارجہ لارڈ بالفور نے ایک خفیہ معاہدہ کیا جس کے ذریعے فلسطین میں یہودیوں کےلیے الگ وطن کا وعدہ کرلیا گیا۔ اس خط کو''اعلانِ بالفور'' کہا جاتا ہے۔
فلسطین میں یہودیوں کے وطن کے وعدے کے بعد ساری دنیا سے یہودی اپنے مستقبل کے قومی وطن کی خواہش میں یہاں آتے گئے اور 1948ء تک اسرائیل کے قیام کے وقت وہاں سات لاکھ سے زیادہ یہودی آباد ہوگئے تھے۔
فلسطین میں یہودیوں کے وطن کےلیے صرف برطانیہ اور روس ہی شامل نہیں تھے، اس کوشش میں بہت سے عرب ممالک بھی شامل رہے۔ شام، لبنان اور دیگر ممالک میں رہنے والے غیر حاضر زمینداروں نے منہ مانگی قیمت پر اپنی زمینیں یہودیوں کو فروخت کردیں۔ اہل دانش کے منع کرنے کے باوجود فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی اپنی زمینیں یہودیوں کو فروخت کیں۔ واضح کرتا چلوں کے جس دوران یہودیوں کو زمینیں فروخت کی جارہی تھیں، اس دوران یہودیوں کےعزائم کا دنیا بھر کو علم ہوچکا تھا کہ یہودی فلسطین میں اپنی نظریاتی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں اوراس منصوبے کی تکمیل کےلیے دنیا بھرسے یہودیوں کو فلسطین میں آباد کیے جانے کےلیے ابتدائی طورپر ان کی زمینیں ان کے منہ مانگے داموں پرخریدی جارہی ہیں۔
یہاں یہ ذکر انتہائی تکلیف دہ ہے کہ فلسطین کے بعض زمینداروں اور امرا نے منہ مانگے داموں کے بدلے یہودیوں کےساتھ ارض فلسطین کا سودا کیا۔ انہوں نے نہ صرف خود اپنی زمینیں یہودیوں کو فروخت کیں بلکہ اور لوگوں کو بھی اس فروخت پر آمادہ کیا۔ اس موقعے پر برصغیر کے ایک ممتاز عالمِ دین نے تفصیلی فتوی فلسطین بھجوایا جس میں فلسطینی مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا تھا کہ وہ یہودیوں کو اپنی زمینیں فروخت کرنے سے باز رہیں؛ اور اس عمل کو غلط قرار دیا گیا تھا۔ لیکن عربوں کی جانب سے یہ کہتے ہوئے اس فتوے پر تنقید کی گئی کہ ایک عجمی بھلا کیسے عربوں کو کوئی مشورہ دے سکتا ہے۔
جب برطانیہ نے دیکھا کہ فلسطین میں یہودیوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوگیا ہے اور اب وہاں ایک یہودی وطن بن سکتا ہے تو اس نے اس پورے معاملے کو اقوام متحدہ کے حوالے کردیا جو امریکا اور یہودیوں کے زیراثر تھا۔ چنانچہ نومبر 1947 میں اقوام متحدہ نے ایک قرارداد کے ذریعے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اسرائیل کو کل رقبے کا 56 فیصد دے دیا گیا حالانکہ یہودیوں کی آبادی اُس وقت کل آبادی کا ایک تہائی تھی۔ فلسطینی ریاست کو 44 فیصد دیا گیا، حالانکہ فلسطینیوں کی آبادی دوتہائی تھی۔ یہ صریحاً ایک ناجائز تقسیم تھی چنانچہ فلسطینیوں اور دیگر عرب ممالک نے اسے ماننے سے انکار کر دیا، لیکن اس وقت تک ارض فلسطین میں یہودیوں کی آبادی خاصی بڑھ گئی اور یہودیوں نے مسلمانوں پر طاقت کے بل بوتے پر حاکمیت جمانا شروع کردی، تب جاکر مسلمانوں کو ہوش آیا۔
اسرائیل کے پیچھے امریکا، برطانیہ اور دیگر عالمی طاقتیں موجود تھیں اور طاقت کے اس زعم میں 14 مئی 1948 کو آخری برطانوی رجمنٹ کے رخصت ہوتے ہی اسرائیل نے اپنی آزادی کا اعلان کردیا۔ یہودی ریاست کے اعلان کے بعد چار عرب ممالک شام، اردن، مصر اورعراق نے مل کر اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔ یہ تمام افواج بہت کمزور اور نیم تربیت یافتہ تھیں جبکہ اہم بات یہ ہے کہ یہ چاروں ممالک آپس میں ایک دوسرے کے بھی دشمن تھے۔ چاروں کو ایک دوسرے سے اپنی اپنی حکمرانی چھن جانے کا خطرہ تھا جبکہ ان کے بہت سے کمانڈر اسرائیلیوں سے ملے ہوئے تھے، اس لیے ان کو شکست فاش ہوئی۔
عربوں کو شکست دے کر اسرائیل نے مزید علاقے پر قبضہ کرلیا۔ اب اس کے پاس 77 فیصد علاقہ تھا۔ مغربی کنارے کو اردن نے اور غزہ کی پٹی کو مصر نے اپنے قبضے میں کر لیا۔ گویا فلسطینی ریاست نہ بننے کے جرم میں اسرائیل کے ساتھ یہ دونوں ممالک بھی شریک تھے کیونکہ اگر یہ دونوں ممالک اپنے زیر قبضہ علاقوں میں فلسطینی ریاست بنادیتے تو ساری دنیا اس کو فوراً تسلیم کرلیتی اور اسرائیل سے مزید گفت وشنید نہایت آسان ہوتی۔
یہاں پر نازش حیدری کا ایک شعر یاد آرہا ہے
فلسطینیوں نے اپنے وطن پر قبضے کے خلاف اور اپنی آزادی کےلیے جدوجہد شروع کی لیکن انتہائی تکلیف دہ حقیقت ہے کہ اس جدوجہد کے مقابلے کےلیے بھی عرب متحد نہیں تھے۔ یوں جدوجہد آزادی کو جس بے رحمی سے کچلا جارہا ہے، وہ دنیا کے سامنے ہے۔ 70 سال کے جبرکی تصویریں سامنے ہونے کے باجود آج بھی عرب متحد نہیں۔ اس تناظر میں اگرغیرجانبداری سے دیکھا جائے تو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس مملکت کے قیام کےلیے یہودیوں نے جتنی قربانی دیں (گو کہ یہ ایک غیر قانونی طریقہ کار سے حاصل کیا گیا) لیکن اس کے قیام کےلیے یہودیوں نے بے تحاشا قربانیاں دیں۔ مختلف حکومتوں کے خوف سے فرار ہونے والوں کے ساتھ ساتھ ایک بڑی تعداد ایسے مالدار یہودیوں کی بھی تھی جو اپنی آرام دہ زندگی چھوڑ کر فلسطین کے صحراؤں میں آکر اپنے مستقبل کی مملکت کی تعمیر میں مصروف عمل ہوگئے جبکہ اس کے برعکس مسلمان جوعلم و ہنر، ذہانت، بردباری، بہادری، ایثارو قربانی اور انصاف پسند حکمرانی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، وہ معمولی دولت اور حکومت کے لالچ کے عوض اپنے ہی مخلص، دین کی سربلندی اور انسانیت کی فلاح و بہود کےلیے کام کرنے والوں کو دشمنوں کے سامنے بے بس کرنے میں مصروف رہے۔
یہاں یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ اردن کا شاہ عبداللہ بھی فلسطینی ریاست کا سخت مخالف تھا۔ شاہ عبداللہ ریاست فلسطین کو اپنی ریاست اور اپنی حکومت کےلیے خطرہ محسوس کرتا تھا چنانچہ اس نے اسرائیلی حکومت سے خفیہ مذاکرات کرکے فلسطینی ریاست رکوانے اور اس کے بعض حصوں پر خود قبضہ کرنے اور بعض حصوں پر اسرائیلیوں کو قبضہ کرنے کی اجازت دینے کا خفیہ سمجھوتہ کرلیا تھا۔ لیکن عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل نے عربوں کو شکست دیتے ہوئے اردن کے ساتھ ہونے والے خفیہ معاہدے کو بھی بالائے طاق رکھ دیا اور اردن کے بھی بڑے حصے پر قبضہ کرلیا جو آج تک اسرائیل کے زیرِتسلط ہے۔
مسلم حکمرانوں کی مسلمانوں کے ساتھ بے وفائیاں ماضی کا حصہ نہیں بلکہ مسلمانوں کی آستینوں میں آج بھی یہ بہت سے سانپ موجود ہیں۔ حال ہی میں اسرائیل کے ایک انتہائی معتبر اخبار (ہاریٹز) (Haaretz) نےاسرائیل کے وزیرِ توانائی یوول اسٹینیز کے حوالے سے ایک خبر شائع کی جس میں انہوں نے اسرائیلی فوجی ریڈیو پر اپنے انٹرویو میں کہا کہ اسرائیل کے سعودی عرب سمیت مختلف عرب اور مسلم ممالک سے خفیہ تعلقات ہیں۔ جن ممالک کے ساتھ اسرائیل کے خفیہ رابطے ہیں ان تمام ممالک کے نام ظاہر نہیں کرسکتے کیونکہ وہ ممالک نہیں چاہتے کہ دنیا کے سامنے ان کے ناموں کو ظاہر کیا جائے اور اسرائیل ان کی اس خواہش کا احترام کرتا ہے۔
مضمون بہت طویل ہوگیا ہے لیکن تشنگی ہنوز برقرارہے۔ ابھی بہت کچھ ہے جسے حکمران طبقے نے عوام کی آنکھوں سے اوجھل رکھا ہے کیونکہ اگر وہ حقیقتیں عوام کے سامنے آگئیں تو حکمران طبقے کی عیاشیاں اور ناجائز آسائشیں ختم ہوجائیں گی اور یوں دین کے نام پر معصوم لوگوں کو مزید بیوقوف بنانے کی تاریخ بھی اختتام پذیر ہوجائے گی جو عالمی سازشی عناصر اور عیاش، بے ضمیراور غلیظ روحوں کے حامل حکمرانوں کو گوارہ نہیں ہوگا۔ موضوع کو اختتام کی جانب لے جانے سے قبل عرض کرنا چاہتا ہوں کہ امریکا کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا صرف یہودیوں اور دشمنوں کی جرأت مندی ہرگز نہیں بلکہ اس میں کچھ اپنوں کی بھی سازشیں شامل ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
موجودہ اسرائیل اور اس کے غیرقانونی طور پر قبضہ کیے گئے علاقے کی (جن میں اردن کے بعض علاقے بھی شامل ہیں) کل آبادی تقریباً 2 کروڑ 44 لاکھ ہے۔
مسلمانوں کی آبادی لگ بھگ ایک کروڑ 12 لاکھ سے متجاوز جبکہ یہودی اکثریت والے علاقوں کی آبادی 85 لاکھ 47 ہزار کے قریب ہے اور اس میں بھی 82 فیصد یہودی اور 18 فیصد مسلمان شامل ہیں۔
اسرائیل کی سرکاری زبان عبرانی ہے جس کا شمار دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں ہوتا ہے۔ فلسطین کے مقدس شہر کو عبرانی زبان میں 'یروشلم' اور عربی میں 'القدس' کے نام سےجانا جاتا ہے۔ اس تاریخی شہر کو مسلمان، یہودی اور عیسائی، تینوں ہی مقدس سمجھتے ہیں۔ یوں یہ شہر تینوں الہامی (ابراہیمی) مذاہب کی جائے پیدائش ہونے کی وجہ سے انتہائی تقدس کا حامل ہے۔
یہاں ایک مقام ''قبۃ الصخرہ'' ہے، گنبدِ صخرہ اسی کو کہتے ہیں۔ یہودیوں اور مسیحیوں کےلیے یہ ''ڈوم آف راک'' ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ پیغمبرِ اسلامﷺ سفرِمعراج پر یہیں سے تشریف لے کر گئے تھے۔ اسی مقام پر مسجدِ اقصیٰ واقع ہے۔ ابتدائے اسلام میں یہی مسجد مسلمانوں کا قبلہ رہی، اسی لیے مسلمان مسجد اقصی کو قبلہ اول بھی کہتے ہیں۔
یروشلم کا ایک مقام ''کنیسۃ القیامہ'' ہے جو مسیحیوں کےلیے مقدس ہے۔ عالمِ مسیحیت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہیں مصلوب کیا گیا تھا۔ بیت المقدس کی مغربی دیوار کو ''وال آف دی ماؤنٹ'' یا ''دیوارِ گریہ'' کہتے ہیں۔ مسلمان اسے ''دیوارِ براق'' کہتے ہیں۔ یہودیوں کےلیے یہ مقام مقدس ہے۔ یہودیوں کا ایمان ہے کہ اس دیوار کی بنیاد حضرت داؤد علیہ السلام نے رکھی تھی۔ یہی وہ دیوار ہے جس کی تاریخ ہیکل سلیمانی سے جاملتی ہے۔ یہودی تاریخ اس بات پر بھی اتفاق رکھتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند حضرت اسحاق علیہ السلام کی قربانی یہیں دی تھی۔ اسلامی صحائف میں اسی قربانی کی نسبت حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کے دوسرے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی طرف ہوتی ہے۔ یہ ہے وہ مختصر تاریخ جس کی بناء پر یروشلم یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے نزدیک انتہائی مقدس شہر کا درجہ رکھتا ہے۔
سرزمین فلسطین پر شاطر اور سفاک یہودیوں کا قبضہ اس عالمی سازش کا ایک حصہ ہے جو صدیوں سے مسلمانوں کے خلاف جاری ہے۔ اسرائیل کے قیام میں مغربی استعمار اور اسلام دشمن قوتوں نے جو کردار ادا کیا ہے، وہ ان کی روایتی مسلمان اور اسلام دشمنی کی عکاسی کرتا ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ یہاں اپنی غفلت کا تذکرہ بھی کروں گا کہ فلسطین پر اسرائیلی قبضے میں جہاں شاطر اور ظالم یہودیوں اور عالمی طاقتوں کی سازشیں شامل ہیں، وہیں ہم مسلمانوں کی اپنی عیاشیوں اور غفلتوں کا بھی کچھ کم دخل نہیں۔ مسلمان حکمرانوں پر عیش پرستی، سلطنتیں بچانے کےلیے کچھ بھی کر گزرنے کی خواہش، دین کےمقابلے میں ذاتی مفادات کا تحفظ، مادیت پسندی اور بوالہوسی پر مبنی سوچ کچھ ایسے قابض ہوئی کہ غیر تو غیر، اپنے بھی اس سازش کا حصہ بن گئے۔ مسلمان فرمانروا تعیش پسندی، شکم سیری اور اقتدار کی لالچ کی زنجیروں میں ایسے جکڑ گئے کہ اپنی اقدار اور شعار ہی کو بھول گئے اور قلیل عرصے کی حکومت اور دولت کے عوض ملت کا سودا کرلیا۔
ممکن ہے کہ میری اس تحریر سے بہت سے لوگ اتفاق نہ کریں لیکن یہ تحریر محض مفروضوں اور قیاس آرائیوں پر مشتمل نہیں بلکہ تاریخ کے وہ تکلیف دہ حقائق ہیں جنہیں ہم نظرانداز کرتے آئے ہیں اور مسلمانوں پر ہونے والے ہر ظلم و ستم کا براہ راست ذمہ دار صرف یہود و نصاریٰ کو گردانتے ہیں؛ حالانکہ ہم مسلمان ہی اس کے ذمہ دار ہیں کیونکہ ہم نے خود فلسطین کا سودا کیا، ہم نے اسلامی شعار اور اقدار پر قلیل عرصے کی حکومت کو فوقیت دے کراپنی دینی غیرت کو خود فروخت کیا۔
اس علاقے کی قدیم تاریخ کے مطابق 2500 قبل مسیح میں عرب سے لوگ آکر یہاں آباد ہوئے اور اس کا نام ''کنعان'' رکھا گیا۔ اس کے بعد موجودہ ترکی کے علاقوں سے بھی لوگ یہاں آکر آباد ہوئے۔ انہیں ''فلسطی'' کہا جاتا تھا اور یوں یہ علاقہ ''فلسطین'' کہلایا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام تقریباً 1900 قبل مسیح میں اس علاقے میں تشریف لائے جہاں آپ کے گھر حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔ حضرت اسحاق علیہ السلام کے ایک بیٹے کا نام یعقوب (علیہ السلام) رکھا گیا۔ عربوں میں پہلے نام کے ساتھ لقب اور کنیت کا رواج عام ہوتا تھا تو حضرت یعقوب علیہ السلام کو بے انتہاء عبادت گزاری کے باعث عبرانی زبان میں ''اسرائیل'' (اللہ کا بندہ) کا لقب دیا گیا؛ اورآپ سے جو نسل دنیا میں پھیلی، اسے ''بنی اسرائیل'' کہا جانے لگا۔ یہاں سے فلسطین اور اسرائیل کے تنازعے نے سر اٹھایا۔ گو کہ یہ پریشانی کی حد تک نہیں تھا لیکن یہاں سے اس خطے میں دو شناختیں سامنے آئیں۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کے چار سو سال بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے۔ آپ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے یہودیوں نے اللہ کے احکامات کی نافرمانی کی؛ یوں وہ ظلم و ستم کا شکار ہوئے اور فلسطین سے نکالے گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہودیوں کو دوبارہ کھویا ہوا وقار دلایا اور پوری قوم کو لے کراپنے پرانے وطن 'فلسطین' کا رخ کیا اور کئی صدیوں پر محیط جدوجہد کے بعد ''سلطنت اسرائیل'' قائم ہوئی۔ اسی سلطنت کا دور حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے ساتھ چلا اور یہودیوں کے مقدس ترین مقام ''ہیکل سلیمانی'' کی تعمیر اسی دور میں یروشلم میں ہوئی۔
سن 70 عیسوی میں رومیوں نے یروشلم پرحملہ کرکے اسے اپنے قبضے میں لے لیا اور چوتھی صدی عیسوی میں رومیوں نے عیسائیت قبول کرلی۔ یوں پورے علاقے نے عیسائیت اختیار کرلی اور پھر یہودیوں کو دربدر کردیا گیا۔
ساتویں صدی عیسوی میں مسلمانوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زیرنگرانی یروشلم فتح کیا۔ ہیکل سلیمانی اور پورا علاقہ جو رومیوں نے تباہ کردیا تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس علاقے کی تعمیر شروع کی، یہودیوں کو ان کے مقدس مقامات تک رسائی دی گئی اور ایک حصے کو نماز کےلیے مخصوص فرمایا جسے آج بھی ''مسجد اقصیٰ'' کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہ ہے وہ مختصرتاریخ جس سے مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے مذہبی مقامات اور ان سے وابستہ مذہبی عقیدت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
بیت المقدس پر مسلمان سلجوقیوں کے دور حکومت میں عیسائی زائرین کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا جس کے ردِعمل میں یورپ میں غم وغصہ پیدا ہوا اور متحد عیسائی لشکر نے 1099ء میں یروشلم پرحملہ کرکے یروشلم پر قبضہ کرلیا۔ یہیں سے صلیبی جنگوں کا آغازہوا۔
1187ء میں مسلمانوں نے صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں دوبارہ یروشلم کو آزاد کرایا اورپہلی جنگ عظیم تک اگلے آٹھ سو برس یروشلم مسلمانوں کے کنٹرول میں رہا۔ لیکن عثمانی ترکوں کے رویّے میں آمرانہ طرز حکومت کی وجہ سے خرابیاں آتی گئیں۔ اقربا پروری، بدعنوانی، عیاشی اور سازشیں بڑھتی گئیں، اجتماعی اخلاقی گراوٹ میں اضافہ اور حکومت کے اپنی رعایا کے ساتھ بدترین سلوک نے عوام کو بغاوت پر مائل کردیا جس کا اسلام دشمنوں نے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور معمولی معمولی اختلافات کو بڑے تنازعات میں تبدیل کردیا اور یوں اکثر علاقے حکومت کے دائرہ اختیار سے نکلتے چلے گئے۔
70ء میں رومیوں نے یہودیوں کو جلاوطن کیا، اس کے بعد یہ قوم اٹھارہ سو سال تک دربدر رہی۔ یہودی قوم اپنی سازشوں کے حوالے سے خصوصی شہرت رکھتی ہے اور یہی وجہ تھی کہ یہ جہاں کہیں بھی آباد ہوتے تو وہاں کی حکومت کے خلاف سازشیں کرتے اور یوں وہاں سے بھی نکالے جاتے۔ اس طرح اٹھارہ سو سال تک یہودی پولینڈ، جرمنی، روس اور مختلف ممالک پہنچے اور پھر وہاں سے نکالے جاتے رہے۔ خاص طور پر روس اور نازی جرمنی میں ان کے ساتھ بہت برا سلوک رکھا گیا۔
یہودی بنیادی طور پر کاروبار کو فوقیت دیتے تھے جبکہ سود پر کاروبار ان کے ہاں عام تھا اور یہ بہت مالدار بھی تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ذہانت کے سبب یہودیوں کے مال میں اضافہ ہوتا گیا اور سترہویں صدی عیسوی کے وسط تک یہودی بہت زیادہ مالدار لوگ ہوچکے تھے۔ اس دوران ان میں اپنی کم مائیگی اور بے چارگی کا احساس پیدا ہونے لگا۔ اس احساس کے تحت یہودیوں نے مقامی سطح پر اپنی مختلف تنظیمیں بنانی شروع کردیں اور اپنے الگ وطن کےلیے باقاعدہ کوششوں کا آغاز کر دیا۔
اکثر یہودی قدامت پسندوں کا خیال تھا کہ ان کا اصل وطن فلسطین ہے جہاں انہیں واپس جانا چاہیے۔ اس نظریئے کے تحت جرمنی کے ایک ہنگری نژاد نظریاتی یہودی دانشور تھیوڈور ہرزل نے 1895 میں ''صہیونیت'' (Zionism) کے نام سے ایک تحریک شروع کی اور بالآخر 27 اگست 1897 میں سوئٹزرلینڈ میں اس تنظیم کو منظم تحریک میں تبدیل کرنے کےلیے ایک کانفرنس منعقد کی گئی جس میں اعلان کیا گیا کہ صہیونیت فلسطین میں یہودیوں کےلیے اپنا الگ وطن بنائے گی اور وہاں مقیم مسلمانوں اور عیسائیوں کو بے دخل کیا جائے گا۔
اس فیصلے پر عملدرآمد کےلیے یہودیوں نے اپنی صلاحیتوں کو غیرمعمولی حد تک بڑھایا۔ تھیوڈور ہرزل نے اپنی قوم سے کہا کہ اگر اپنا وطن حاصل کرنا ہے تو اپنی صلاحیتوں کو غیرمعمولی حد تک بڑھانا ہوگا۔ تھیوڈور ہرزل کے اس مشورے پر سختی سے عمل کرتے ہوئے یہودیوں نے علم و ہنر، سائنس اور ٹیکنالوجی، عالمی سیاست پر گرفت اور دنیا کے تمام شعبوں میں انتہائی تیزی سے ترقی کی جبکہ مسلمانوں کی اکثریت، یا یوں کہا جائے کہ حکمران طبقہ عیش و عشرت اوراپنی حکومتوں کو محفوظ کرنے کی کوششوں میں لگے رہے، سلطنتوں کو بچانے کےلیے اپنی مرضی کے فتوے جاری کیے گئے، ایسے علما کو درباروں میں شامل کیا گیا جو دین کے مقابلے میں حکمران خاندانوں کا تحفظ کرنے لگے۔
یہودیوں کو ان کا وطن اور دنیا پرحکومت کےلیے بنائی جانے والی تنظیم اور صہیونیت کے فروغ کےلیے منعقد کی جانے والی اس کانفرنس کے مندرجات کچھ عرصے بعد منظرعام پر آئے جس کو مسلمانوں سمیت بین الااقوامی برادری کی جانب سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن یہودیوں کی علمی قابلیت اور شاطر ذہانت اور بین الاقوامی امور میں یہودیوں کی ضرورت کے پیش نظر عالمی طاقتیں، تنظیمیں اور مسلمان یہودیوں کا مقابلہ نہیں کرسکے۔ یوں وہ اپنے منصوبے پر تیزی سے عمل پیرا رہے۔
1914 میں جب پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو ترکی نے، جو اس وقت خلافت عثمانیہ کا مرکز تھا، بلاضرورت اس جنگ میں جرمنی کا ساتھ دیتے ہوئے روسی بندرگاہوں پر حملہ کردیا۔ ترکی کے اس جانبدارانہ رویے پربرطانیہ اور اس کی اتحادی افواج نے ترکی کے زیرتسلط علاقوں کو، جن میں فلسطین بھی شامل تھا، اپنا ہدف بنایا۔
مسلمانوں کے زوال میں یہودیوں اورعیسائیوں کی سازشوں کو ذمہ دار کہنے والے غیرجانبدار ہوکر اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو اپنی غفلت اور لاپرواہی کے مقابلے میں یہودیوں کی سازشیں انتہائی بیہودہ مذاق لگیں گی۔ مسلمانوں کے زوال کے محرکات کا اندازہ مندرجہ ذیل سطروں کوپڑھ کر بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
1517ء سے فلسطین اورتقریباً مصر سمیت مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بھی عثمانی ترکوں کے زیرانتظام تھا۔ مذکورہ علاقے عثمانی ترکوں کے قبضے میں تھے اور عربوں کے ساتھ ترکوں کا رویہ حاکمانہ تھا جو ان علاقوں میں ترکوں کے خلاف بغاوتوں کی وجہ بنا جبکہ ترکوں نے اپنے انتظامی امور اور رویوں میں تبدیلی لانے کے بجائے انتہائی بے رحمی کے ساتھ مختلف بغاوتوں کو کچلنے کا طریقہ کار اختیار کیا جس نے عثمانی ترکوں کے خلاف نفرت کی ایسی فضا پیدا کی جس کے تحت عوام ترکوں کے خلاف ہر طاقت کا خیر مقدم کرنے کےلیے تیار ہوگئے۔
یہ طریقہ حکومت خلافت عثمانیہ اور مسلمانوں کی تنزلی کی اہم وجہ بن کر سامنے آیا۔ پہلی جنگ عظیم کی ابتدا میں برطانیہ نے خلافت عثمانیہ کو شکست دینے کےلیے دنیا بھر کے یہودیوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں تیز کیں جو اب بہت مالدار ہوچکے تھے اور جن کے پیسے اور علم و ہنر کی برطانیہ کو سخت ضرورت تھی۔
دوسری طرف برطانیہ نے ان عرب طاقتوں کی حمایت کے اعلان کے ساتھ بغاوتوں کو دوام بخشا اور خلافت عثمانیہ کے خلاف ہر کوشش کو اپنی تمام تر شدتوں کے ساتھ کامیاب بنانے میں تعاون فراہم کیا۔ یہودیوں نے خلافت عثمانیہ کے خلاف، جس کی تقریباً پورے عرب پر حکومت تھی، اپنی دولت اور ذہانت دل کھول کر لگائی جس کی وجہ سے جنگ میں برطانیہ کو کامیابیاں ملیں۔ برطانیہ کی کامیابی کی صورت میں برطانوی حکومت نے یہودیوں کی دولت اور ذہانت کے اعتراف میں یہ وعدہ کیا کہ فلسطین میں یہودیوں کا وطن قائم کیا جائے گا۔ چنانچہ نومبر1917 میں برطانوی وزیر خارجہ لارڈ بالفور نے ایک خفیہ معاہدہ کیا جس کے ذریعے فلسطین میں یہودیوں کےلیے الگ وطن کا وعدہ کرلیا گیا۔ اس خط کو''اعلانِ بالفور'' کہا جاتا ہے۔
فلسطین میں یہودیوں کے وطن کے وعدے کے بعد ساری دنیا سے یہودی اپنے مستقبل کے قومی وطن کی خواہش میں یہاں آتے گئے اور 1948ء تک اسرائیل کے قیام کے وقت وہاں سات لاکھ سے زیادہ یہودی آباد ہوگئے تھے۔
فلسطین میں یہودیوں کے وطن کےلیے صرف برطانیہ اور روس ہی شامل نہیں تھے، اس کوشش میں بہت سے عرب ممالک بھی شامل رہے۔ شام، لبنان اور دیگر ممالک میں رہنے والے غیر حاضر زمینداروں نے منہ مانگی قیمت پر اپنی زمینیں یہودیوں کو فروخت کردیں۔ اہل دانش کے منع کرنے کے باوجود فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی اپنی زمینیں یہودیوں کو فروخت کیں۔ واضح کرتا چلوں کے جس دوران یہودیوں کو زمینیں فروخت کی جارہی تھیں، اس دوران یہودیوں کےعزائم کا دنیا بھر کو علم ہوچکا تھا کہ یہودی فلسطین میں اپنی نظریاتی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں اوراس منصوبے کی تکمیل کےلیے دنیا بھرسے یہودیوں کو فلسطین میں آباد کیے جانے کےلیے ابتدائی طورپر ان کی زمینیں ان کے منہ مانگے داموں پرخریدی جارہی ہیں۔
یہاں یہ ذکر انتہائی تکلیف دہ ہے کہ فلسطین کے بعض زمینداروں اور امرا نے منہ مانگے داموں کے بدلے یہودیوں کےساتھ ارض فلسطین کا سودا کیا۔ انہوں نے نہ صرف خود اپنی زمینیں یہودیوں کو فروخت کیں بلکہ اور لوگوں کو بھی اس فروخت پر آمادہ کیا۔ اس موقعے پر برصغیر کے ایک ممتاز عالمِ دین نے تفصیلی فتوی فلسطین بھجوایا جس میں فلسطینی مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا تھا کہ وہ یہودیوں کو اپنی زمینیں فروخت کرنے سے باز رہیں؛ اور اس عمل کو غلط قرار دیا گیا تھا۔ لیکن عربوں کی جانب سے یہ کہتے ہوئے اس فتوے پر تنقید کی گئی کہ ایک عجمی بھلا کیسے عربوں کو کوئی مشورہ دے سکتا ہے۔
جب برطانیہ نے دیکھا کہ فلسطین میں یہودیوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوگیا ہے اور اب وہاں ایک یہودی وطن بن سکتا ہے تو اس نے اس پورے معاملے کو اقوام متحدہ کے حوالے کردیا جو امریکا اور یہودیوں کے زیراثر تھا۔ چنانچہ نومبر 1947 میں اقوام متحدہ نے ایک قرارداد کے ذریعے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اسرائیل کو کل رقبے کا 56 فیصد دے دیا گیا حالانکہ یہودیوں کی آبادی اُس وقت کل آبادی کا ایک تہائی تھی۔ فلسطینی ریاست کو 44 فیصد دیا گیا، حالانکہ فلسطینیوں کی آبادی دوتہائی تھی۔ یہ صریحاً ایک ناجائز تقسیم تھی چنانچہ فلسطینیوں اور دیگر عرب ممالک نے اسے ماننے سے انکار کر دیا، لیکن اس وقت تک ارض فلسطین میں یہودیوں کی آبادی خاصی بڑھ گئی اور یہودیوں نے مسلمانوں پر طاقت کے بل بوتے پر حاکمیت جمانا شروع کردی، تب جاکر مسلمانوں کو ہوش آیا۔
اسرائیل کے پیچھے امریکا، برطانیہ اور دیگر عالمی طاقتیں موجود تھیں اور طاقت کے اس زعم میں 14 مئی 1948 کو آخری برطانوی رجمنٹ کے رخصت ہوتے ہی اسرائیل نے اپنی آزادی کا اعلان کردیا۔ یہودی ریاست کے اعلان کے بعد چار عرب ممالک شام، اردن، مصر اورعراق نے مل کر اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔ یہ تمام افواج بہت کمزور اور نیم تربیت یافتہ تھیں جبکہ اہم بات یہ ہے کہ یہ چاروں ممالک آپس میں ایک دوسرے کے بھی دشمن تھے۔ چاروں کو ایک دوسرے سے اپنی اپنی حکمرانی چھن جانے کا خطرہ تھا جبکہ ان کے بہت سے کمانڈر اسرائیلیوں سے ملے ہوئے تھے، اس لیے ان کو شکست فاش ہوئی۔
عربوں کو شکست دے کر اسرائیل نے مزید علاقے پر قبضہ کرلیا۔ اب اس کے پاس 77 فیصد علاقہ تھا۔ مغربی کنارے کو اردن نے اور غزہ کی پٹی کو مصر نے اپنے قبضے میں کر لیا۔ گویا فلسطینی ریاست نہ بننے کے جرم میں اسرائیل کے ساتھ یہ دونوں ممالک بھی شریک تھے کیونکہ اگر یہ دونوں ممالک اپنے زیر قبضہ علاقوں میں فلسطینی ریاست بنادیتے تو ساری دنیا اس کو فوراً تسلیم کرلیتی اور اسرائیل سے مزید گفت وشنید نہایت آسان ہوتی۔
یہاں پر نازش حیدری کا ایک شعر یاد آرہا ہے
جو سفینے چلیں سہاروں پر
غرق کردو انہیں کناروں پر
فلسطینیوں نے اپنے وطن پر قبضے کے خلاف اور اپنی آزادی کےلیے جدوجہد شروع کی لیکن انتہائی تکلیف دہ حقیقت ہے کہ اس جدوجہد کے مقابلے کےلیے بھی عرب متحد نہیں تھے۔ یوں جدوجہد آزادی کو جس بے رحمی سے کچلا جارہا ہے، وہ دنیا کے سامنے ہے۔ 70 سال کے جبرکی تصویریں سامنے ہونے کے باجود آج بھی عرب متحد نہیں۔ اس تناظر میں اگرغیرجانبداری سے دیکھا جائے تو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس مملکت کے قیام کےلیے یہودیوں نے جتنی قربانی دیں (گو کہ یہ ایک غیر قانونی طریقہ کار سے حاصل کیا گیا) لیکن اس کے قیام کےلیے یہودیوں نے بے تحاشا قربانیاں دیں۔ مختلف حکومتوں کے خوف سے فرار ہونے والوں کے ساتھ ساتھ ایک بڑی تعداد ایسے مالدار یہودیوں کی بھی تھی جو اپنی آرام دہ زندگی چھوڑ کر فلسطین کے صحراؤں میں آکر اپنے مستقبل کی مملکت کی تعمیر میں مصروف عمل ہوگئے جبکہ اس کے برعکس مسلمان جوعلم و ہنر، ذہانت، بردباری، بہادری، ایثارو قربانی اور انصاف پسند حکمرانی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، وہ معمولی دولت اور حکومت کے لالچ کے عوض اپنے ہی مخلص، دین کی سربلندی اور انسانیت کی فلاح و بہود کےلیے کام کرنے والوں کو دشمنوں کے سامنے بے بس کرنے میں مصروف رہے۔
یہاں یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ اردن کا شاہ عبداللہ بھی فلسطینی ریاست کا سخت مخالف تھا۔ شاہ عبداللہ ریاست فلسطین کو اپنی ریاست اور اپنی حکومت کےلیے خطرہ محسوس کرتا تھا چنانچہ اس نے اسرائیلی حکومت سے خفیہ مذاکرات کرکے فلسطینی ریاست رکوانے اور اس کے بعض حصوں پر خود قبضہ کرنے اور بعض حصوں پر اسرائیلیوں کو قبضہ کرنے کی اجازت دینے کا خفیہ سمجھوتہ کرلیا تھا۔ لیکن عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل نے عربوں کو شکست دیتے ہوئے اردن کے ساتھ ہونے والے خفیہ معاہدے کو بھی بالائے طاق رکھ دیا اور اردن کے بھی بڑے حصے پر قبضہ کرلیا جو آج تک اسرائیل کے زیرِتسلط ہے۔
مسلم حکمرانوں کی مسلمانوں کے ساتھ بے وفائیاں ماضی کا حصہ نہیں بلکہ مسلمانوں کی آستینوں میں آج بھی یہ بہت سے سانپ موجود ہیں۔ حال ہی میں اسرائیل کے ایک انتہائی معتبر اخبار (ہاریٹز) (Haaretz) نےاسرائیل کے وزیرِ توانائی یوول اسٹینیز کے حوالے سے ایک خبر شائع کی جس میں انہوں نے اسرائیلی فوجی ریڈیو پر اپنے انٹرویو میں کہا کہ اسرائیل کے سعودی عرب سمیت مختلف عرب اور مسلم ممالک سے خفیہ تعلقات ہیں۔ جن ممالک کے ساتھ اسرائیل کے خفیہ رابطے ہیں ان تمام ممالک کے نام ظاہر نہیں کرسکتے کیونکہ وہ ممالک نہیں چاہتے کہ دنیا کے سامنے ان کے ناموں کو ظاہر کیا جائے اور اسرائیل ان کی اس خواہش کا احترام کرتا ہے۔
مضمون بہت طویل ہوگیا ہے لیکن تشنگی ہنوز برقرارہے۔ ابھی بہت کچھ ہے جسے حکمران طبقے نے عوام کی آنکھوں سے اوجھل رکھا ہے کیونکہ اگر وہ حقیقتیں عوام کے سامنے آگئیں تو حکمران طبقے کی عیاشیاں اور ناجائز آسائشیں ختم ہوجائیں گی اور یوں دین کے نام پر معصوم لوگوں کو مزید بیوقوف بنانے کی تاریخ بھی اختتام پذیر ہوجائے گی جو عالمی سازشی عناصر اور عیاش، بے ضمیراور غلیظ روحوں کے حامل حکمرانوں کو گوارہ نہیں ہوگا۔ موضوع کو اختتام کی جانب لے جانے سے قبل عرض کرنا چاہتا ہوں کہ امریکا کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا صرف یہودیوں اور دشمنوں کی جرأت مندی ہرگز نہیں بلکہ اس میں کچھ اپنوں کی بھی سازشیں شامل ہیں۔
کیا سناتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستاں
مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز و ساز
لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل
خشت بنیادِ کلیسا بن گئی خاک حجاز
تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر
(علامہ اقبالؒ)
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔