ہائے فخرو بھائی تیرا مقدر
واہ ! فخرو بھا ئی آپ نے بھی کیا مقدر پا یا ہے؟
PESHAWAR:
سپریم کورٹ نے عام انتخابات ملتوی کرانے کی ایک اور سازش ناکام بنا دی۔ اب کی بار پارلیمان کے تحفظ کے نام پر الیکشن کمیشن پر حملہ کیا گیا، انتخابات ملتوی کرانے کے لیے سرگرم طاقتیں رنگ و روپ بدل کرنئے بہروپ میں اپنے کارندوں کو میدان میں لارہی ہیں۔ اب کی بار سیا سی قیا دت ، سا ری کی ساری پارلیمانی قیادت، ساری قوم کے فخرو بھائی، فخر الدین جی ابراہیم کے خلا ف متحد ہو گئی، ایک استثنٰی تحریک انصاف ہے جو تما م سیا سی وابستگیوں، بے وقعت اور حقیر انتخابی مفادات کو ٹھکرا کر الیکشن کمیشن کے شا نہ بشانہ عدالتی کٹہرے میں کھڑی تھی۔
بدلتا ہے رنگ ، آسماں کیسے کیسے
واہ ! فخرو بھا ئی آپ نے بھی کیا مقدر پا یا ہے؟ صر ف اور صرف آئین اور قا نو ن کی با لا دستی کا عز م، سا ری زند گی اس یک نکا تی منشور کے لیے سینہ سپر رہے،کامل 85 برس کی عمر میں ساری قو م نے متفقہ طور پر آپ کو چیف الیکشن کمشنر کے عہد ے کے لیے خوش دلی سے خوش آمدید کہا۔ چاروں 'اور' داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے گئے لیکن سیا ست کاروں اور سیاستدانوں کا یہ 'ہنی مون' صرف چند ہفتے ہی چل سکا۔
گذشتہ دنو ں ہما رے ارکان پارلیمان جس طرح متحد ہو کر آئین، قا نو ن اور پارلیمان کی سر بلند ی کے نا م پر الیکشن کمیشن اور اس کے مبینہ توہین آمیز فا رم پر برسے، اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ ہما ری سیاسی اشرافیہ اپنی نا ک پر مکھی بھی بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتی کہ اس کے لیے اپنے مفادات ملک، قانون، آئین، سب سے بالاتر ہیں، لیکن اس کا لم نگا ر کے دکھ بھی بڑے عجیب ہیں۔ سیا ست کار اپنے مفادات کے کھیل کھیلیں کہ ان سے اسی کی توقع کی جا سکتی ہے، لیکن اگر دانشورماضی کے استا د اور آج کے سیاستدان مشاہد حسین بھی الیکشن کمیشن کو اپنی حدود و قیود میں رہنے کا مشورہ دیں گے تو دل کے نا زک آبگینوں کو ٹھیس تو لگے گی۔
برادرم مشاہد حسین میری گزری زند گی کا ایک خوبصورت رنگ ہیں۔ ہما ری روپوشی کے دنو ں میں جس طر ح انھوں نے برادرم فاروق فیصل خان کے اہل خا نہ کا حوصلہ بڑھا یا، جس طر ح ہمیں ڈٹے رہنے، پیہم لڑتے رہنے کا کہتے رہے، ہمیں یاد ہے ذرا ذرا، لیکن اس دل ناداں کا کیا کروں کہ وہ تو اس پر بھی آزردہ ہو جاتا ہے کہ احتساب کے نعرے لگانے والی "صالحین" کی قیا دت کل سپریم کورٹ کے روسٹرم کے اردگرد کہیں دکھائی نہ دی کہ شاید اب ان کا قبلہ ایک بار پھر جا تی عمرہ بن چکا ہے کہ ان کا ہدف ما نگے تا نگے کی چند نشستیں ہیں!! وہ اسلامی انقلاب، رضائے الہی کا حصول نہیں، جس کے خو اب دکھا کر انھوں نے لاکھو ں نوجوانوں اور ہزاروں گھرانوں کے مستقبل تاریک کر کے اپنی چند روزہ اتحادی سیاست کی مانگ میں سیندور بھر لیا، ایسے میں برادرم مشاہد حسین سید سے کیا شکوہ؟؟ کیسی شکایت؟ اپنا تو یہ عالم ہے، درد دل سنائیں تو آخر کسے ؟؟؟
جماعت اسلامی کی سیاسی قیادت کو تو اس موقع پر الیکشن کمیشن اور فخروالدین جی ابراہیم کے دفاع کے لیے سینہ سپر ہو جانا چاہئیے تھا اور میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ سالار قافلہ سید منور حسن مصلحت کوش نہیں لیکن انسانی نفسیات کے ماہرین نے حرف آخر لکھ دیا ہے کہ مصاحبین کسی بھی انسانی ذہن کو یکسر بدل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کراچی کی قتل وغارت ہو یا دارالحکومت کا اکھاڑہ، روشن چہرے والے سید منور حسن کی خاموشی بڑی معنی خیز ہے۔
کمرہ عدالت نمبر ایک میں جناب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی آواز گونج رہی تھی کہ رائے دہندگان کو علم ہونا چاہئیے کہ امیدواران، جو ان سے ووٹ لینے آرہے ہیں، کا کردار کیسا ہے؟ مالی معاملات کیسے ہیں؟ یہ جاننے کی آزادی کا مسلمہ عالمی قانون ہے۔ اٹارنی جنرل عرفان قادر لفظوں سے کھیل رہے تھے، جناب چیف جسٹس نے واضح کر دیا کہ الیکشن کمیشن نے کاغذات نامزدگی کے لیے تفصیلات طلب کر کے کوئی غیر قانونی اقدام نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے یہ بھی واضح کیا کہ عام انتخابات میں ایک دن نہیں، ایک لمحے کی تاخیر بھی برداشت نہیں کی جائے گی۔ آزادانہ، غیر جانبدارانہ، منصفانہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی آئینی ذمے داری ہے اور عدالت عظمی اس مقدس فریضہ کی انجام دہی میں الیکشن کمیشن کی ہر طرح معاونت کرے گی۔
میں دانستہ سپریم کورٹ جانے سے گھبراتا ہوں کہ ماضی کی سنگین و رنگین یادیں گھیر لیتی ہیں۔ تاریخ کے کئی مکروہ کردار وہاں مٹرگشت کرتے مل جاتے ہیں، سوچتا ہوں کہ نصف دہائی کے بعد منافقانہ مسکراہٹ اس ملک کو لوٹنے، برباد کرنے، سر سبز و شاداب اس ارض وطن کو موجودہ حال تک پہنچانے والوں کے لیے کیوں سجائوں؟ اخلاق کے مظاہرے آخر کیوں کروں؟
ایک نجی چینل کے عدالتی رپورٹر فخر الرحمٰن بھی عدالت میں موجود تھے،میاں نواز شریف کے دور میں سپریم کورٹ پر حملے کی اطلاع دینے والے یہی تھے۔ سید سجاد علی شاہ کے بینچ کے افراتفری میں ریٹائر ہو جانے کے بعدہجوم نے اسی کمرہ عدالت کے اندر فخر الرحمٰن پر حملے کی کوشش بھی کی تھی جسے ہمارے ایک اور عدالتی رپورٹر مطیع اللہ جان اور ایک انگریزی میگزین سے وابستہ نوجوان دانشور عمر فاروق نے ناکام بنایا تھا۔ عدالت عظمی کے پلیٹ فارم پر ہونے والی اس ہاتھا پائی کی فلم میرے دماغ میں چل رہی تھی کہ ایک ساتھی رپورٹر، جو پنجاب یونیورسٹی کے کلاس روم سے براہ راست کمرہ عدالت رپورٹنگ کے لیے پہنچا تھا،نے ایک بزرگ وکیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سرگوشی میں نام پوچھا تو یادوں کی یلغار نے ایک بار پھر مجھے جوانی کے ان سنہرے دنوں میں دھکیل دیا جب سماج بدلنے، آزادی اظہار کے ذریعے نئی روایات قائم کرنے کا عزم لیے یہ کالم نگار اس شہر نگاراں میں درجنوں ساتھیوں کا قافلہ لے کر نمودار ہوا۔
'ہائے کہاں گئے وہ دن'، اب تو چاندی بالوں میں پوری طرح اتر چکی ہے، مصلحتوں نے ماضی کے اس جانباز کی ساری اکڑفوں نکال دی ہے۔ ساتھی رپورٹر کو کیا بتاتا کہ یہ میانہ رو قانون دان وسیم سجاد ہیں کہ انھوں نے جونیجو حکومت کی بحالی رکوائی تھی، وہ چیئرمین سینیٹ بنے، نواز شریف، غلام اسحاق خان بحران کی وجہ سے قائم مقام صدر مملکت قرار پائے اور بڑے عزت و احترام سے طویل سیاسی اننگز کھیلنے کے بعد ریٹائر ہوئے، مجھے یاد نہیں کہ پارلیمان اور جمہوری حکومت کی بحالی رکوانے کے غیر جمہوری اقدام پر انھوںنے کبھی اظہار ندامت کیا ہو۔ یہ وہی پارلیمان ہے جس کی حرمت اور بالا دستی کے نام پر مشاہد حسین الیکشن کمیشن کو اپنی حدود میں رہنے کی بات کر رہے ہیں۔
کہتے ہیں کہ 'مشرف کی قید میں صرف انور سیف اللہ اور جناب مشاہد حسین نے اپنے شخصی وقار کو سر بلند رکھا تھا ورنہ باقی شیر دلیر تو جام اور مکھن کے ناشتے کے لیے بک گئے تھے ۔کچھ حضرات میاں نواز شریف کو 'فرنٹ فٹ' پر کھیلنے کا مشورہ دیتے رہے جب انھوں نے 'فرنٹ فٹ' پر کھیلتے ہوئے (مشرف کی برطرفی کا) چھکا لگایا تو سارے مشیر، وزیر غائب ہو گئے۔۔۔ جب کبھی کمرۂ عدالت میں جاتا ہوں تو یادیں مجھے گھیر لیتی ہیں۔۔۔
یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
سپریم کورٹ نے عام انتخابات ملتوی کرانے کی ایک اور سازش ناکام بنا دی۔ اب کی بار پارلیمان کے تحفظ کے نام پر الیکشن کمیشن پر حملہ کیا گیا، انتخابات ملتوی کرانے کے لیے سرگرم طاقتیں رنگ و روپ بدل کرنئے بہروپ میں اپنے کارندوں کو میدان میں لارہی ہیں۔ اب کی بار سیا سی قیا دت ، سا ری کی ساری پارلیمانی قیادت، ساری قوم کے فخرو بھائی، فخر الدین جی ابراہیم کے خلا ف متحد ہو گئی، ایک استثنٰی تحریک انصاف ہے جو تما م سیا سی وابستگیوں، بے وقعت اور حقیر انتخابی مفادات کو ٹھکرا کر الیکشن کمیشن کے شا نہ بشانہ عدالتی کٹہرے میں کھڑی تھی۔
بدلتا ہے رنگ ، آسماں کیسے کیسے
واہ ! فخرو بھا ئی آپ نے بھی کیا مقدر پا یا ہے؟ صر ف اور صرف آئین اور قا نو ن کی با لا دستی کا عز م، سا ری زند گی اس یک نکا تی منشور کے لیے سینہ سپر رہے،کامل 85 برس کی عمر میں ساری قو م نے متفقہ طور پر آپ کو چیف الیکشن کمشنر کے عہد ے کے لیے خوش دلی سے خوش آمدید کہا۔ چاروں 'اور' داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے گئے لیکن سیا ست کاروں اور سیاستدانوں کا یہ 'ہنی مون' صرف چند ہفتے ہی چل سکا۔
گذشتہ دنو ں ہما رے ارکان پارلیمان جس طرح متحد ہو کر آئین، قا نو ن اور پارلیمان کی سر بلند ی کے نا م پر الیکشن کمیشن اور اس کے مبینہ توہین آمیز فا رم پر برسے، اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ ہما ری سیاسی اشرافیہ اپنی نا ک پر مکھی بھی بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتی کہ اس کے لیے اپنے مفادات ملک، قانون، آئین، سب سے بالاتر ہیں، لیکن اس کا لم نگا ر کے دکھ بھی بڑے عجیب ہیں۔ سیا ست کار اپنے مفادات کے کھیل کھیلیں کہ ان سے اسی کی توقع کی جا سکتی ہے، لیکن اگر دانشورماضی کے استا د اور آج کے سیاستدان مشاہد حسین بھی الیکشن کمیشن کو اپنی حدود و قیود میں رہنے کا مشورہ دیں گے تو دل کے نا زک آبگینوں کو ٹھیس تو لگے گی۔
برادرم مشاہد حسین میری گزری زند گی کا ایک خوبصورت رنگ ہیں۔ ہما ری روپوشی کے دنو ں میں جس طر ح انھوں نے برادرم فاروق فیصل خان کے اہل خا نہ کا حوصلہ بڑھا یا، جس طر ح ہمیں ڈٹے رہنے، پیہم لڑتے رہنے کا کہتے رہے، ہمیں یاد ہے ذرا ذرا، لیکن اس دل ناداں کا کیا کروں کہ وہ تو اس پر بھی آزردہ ہو جاتا ہے کہ احتساب کے نعرے لگانے والی "صالحین" کی قیا دت کل سپریم کورٹ کے روسٹرم کے اردگرد کہیں دکھائی نہ دی کہ شاید اب ان کا قبلہ ایک بار پھر جا تی عمرہ بن چکا ہے کہ ان کا ہدف ما نگے تا نگے کی چند نشستیں ہیں!! وہ اسلامی انقلاب، رضائے الہی کا حصول نہیں، جس کے خو اب دکھا کر انھوں نے لاکھو ں نوجوانوں اور ہزاروں گھرانوں کے مستقبل تاریک کر کے اپنی چند روزہ اتحادی سیاست کی مانگ میں سیندور بھر لیا، ایسے میں برادرم مشاہد حسین سید سے کیا شکوہ؟؟ کیسی شکایت؟ اپنا تو یہ عالم ہے، درد دل سنائیں تو آخر کسے ؟؟؟
جماعت اسلامی کی سیاسی قیادت کو تو اس موقع پر الیکشن کمیشن اور فخروالدین جی ابراہیم کے دفاع کے لیے سینہ سپر ہو جانا چاہئیے تھا اور میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ سالار قافلہ سید منور حسن مصلحت کوش نہیں لیکن انسانی نفسیات کے ماہرین نے حرف آخر لکھ دیا ہے کہ مصاحبین کسی بھی انسانی ذہن کو یکسر بدل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کراچی کی قتل وغارت ہو یا دارالحکومت کا اکھاڑہ، روشن چہرے والے سید منور حسن کی خاموشی بڑی معنی خیز ہے۔
کمرہ عدالت نمبر ایک میں جناب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی آواز گونج رہی تھی کہ رائے دہندگان کو علم ہونا چاہئیے کہ امیدواران، جو ان سے ووٹ لینے آرہے ہیں، کا کردار کیسا ہے؟ مالی معاملات کیسے ہیں؟ یہ جاننے کی آزادی کا مسلمہ عالمی قانون ہے۔ اٹارنی جنرل عرفان قادر لفظوں سے کھیل رہے تھے، جناب چیف جسٹس نے واضح کر دیا کہ الیکشن کمیشن نے کاغذات نامزدگی کے لیے تفصیلات طلب کر کے کوئی غیر قانونی اقدام نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے یہ بھی واضح کیا کہ عام انتخابات میں ایک دن نہیں، ایک لمحے کی تاخیر بھی برداشت نہیں کی جائے گی۔ آزادانہ، غیر جانبدارانہ، منصفانہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی آئینی ذمے داری ہے اور عدالت عظمی اس مقدس فریضہ کی انجام دہی میں الیکشن کمیشن کی ہر طرح معاونت کرے گی۔
میں دانستہ سپریم کورٹ جانے سے گھبراتا ہوں کہ ماضی کی سنگین و رنگین یادیں گھیر لیتی ہیں۔ تاریخ کے کئی مکروہ کردار وہاں مٹرگشت کرتے مل جاتے ہیں، سوچتا ہوں کہ نصف دہائی کے بعد منافقانہ مسکراہٹ اس ملک کو لوٹنے، برباد کرنے، سر سبز و شاداب اس ارض وطن کو موجودہ حال تک پہنچانے والوں کے لیے کیوں سجائوں؟ اخلاق کے مظاہرے آخر کیوں کروں؟
ایک نجی چینل کے عدالتی رپورٹر فخر الرحمٰن بھی عدالت میں موجود تھے،میاں نواز شریف کے دور میں سپریم کورٹ پر حملے کی اطلاع دینے والے یہی تھے۔ سید سجاد علی شاہ کے بینچ کے افراتفری میں ریٹائر ہو جانے کے بعدہجوم نے اسی کمرہ عدالت کے اندر فخر الرحمٰن پر حملے کی کوشش بھی کی تھی جسے ہمارے ایک اور عدالتی رپورٹر مطیع اللہ جان اور ایک انگریزی میگزین سے وابستہ نوجوان دانشور عمر فاروق نے ناکام بنایا تھا۔ عدالت عظمی کے پلیٹ فارم پر ہونے والی اس ہاتھا پائی کی فلم میرے دماغ میں چل رہی تھی کہ ایک ساتھی رپورٹر، جو پنجاب یونیورسٹی کے کلاس روم سے براہ راست کمرہ عدالت رپورٹنگ کے لیے پہنچا تھا،نے ایک بزرگ وکیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سرگوشی میں نام پوچھا تو یادوں کی یلغار نے ایک بار پھر مجھے جوانی کے ان سنہرے دنوں میں دھکیل دیا جب سماج بدلنے، آزادی اظہار کے ذریعے نئی روایات قائم کرنے کا عزم لیے یہ کالم نگار اس شہر نگاراں میں درجنوں ساتھیوں کا قافلہ لے کر نمودار ہوا۔
'ہائے کہاں گئے وہ دن'، اب تو چاندی بالوں میں پوری طرح اتر چکی ہے، مصلحتوں نے ماضی کے اس جانباز کی ساری اکڑفوں نکال دی ہے۔ ساتھی رپورٹر کو کیا بتاتا کہ یہ میانہ رو قانون دان وسیم سجاد ہیں کہ انھوں نے جونیجو حکومت کی بحالی رکوائی تھی، وہ چیئرمین سینیٹ بنے، نواز شریف، غلام اسحاق خان بحران کی وجہ سے قائم مقام صدر مملکت قرار پائے اور بڑے عزت و احترام سے طویل سیاسی اننگز کھیلنے کے بعد ریٹائر ہوئے، مجھے یاد نہیں کہ پارلیمان اور جمہوری حکومت کی بحالی رکوانے کے غیر جمہوری اقدام پر انھوںنے کبھی اظہار ندامت کیا ہو۔ یہ وہی پارلیمان ہے جس کی حرمت اور بالا دستی کے نام پر مشاہد حسین الیکشن کمیشن کو اپنی حدود میں رہنے کی بات کر رہے ہیں۔
کہتے ہیں کہ 'مشرف کی قید میں صرف انور سیف اللہ اور جناب مشاہد حسین نے اپنے شخصی وقار کو سر بلند رکھا تھا ورنہ باقی شیر دلیر تو جام اور مکھن کے ناشتے کے لیے بک گئے تھے ۔کچھ حضرات میاں نواز شریف کو 'فرنٹ فٹ' پر کھیلنے کا مشورہ دیتے رہے جب انھوں نے 'فرنٹ فٹ' پر کھیلتے ہوئے (مشرف کی برطرفی کا) چھکا لگایا تو سارے مشیر، وزیر غائب ہو گئے۔۔۔ جب کبھی کمرۂ عدالت میں جاتا ہوں تو یادیں مجھے گھیر لیتی ہیں۔۔۔
یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا