کوئی تو ان سے پوچھے
بڑے شہروں میں رہنے والے ارکان اسمبلی کی تو اپنے ووٹروں سے نہ ملنے کی شکایات کم ہیں
الیکشن کمیشن کے مجوزہ کاغذات نامزدگی میں امیدواروں خصوصاً موجودہ اسمبلیوں کے سابق ہوجانے والے ارکان سے یہ بھی پوچھا گیا ہے کہ انھوں نے 5 سال میں اپنے اپنے علاقوں میں کون سے تعمیری و ترقیاتی کام کروائے، اس سوال پر ارکان اسمبلی کی ایک بہت بڑی تعداد کو اعتراض ہے کہ ہم سے یہ پوچھنے والا الیکشن کمیشن کون ہوتا ہے؟ کیونکہ اپنی کارکردگی اور اس سوال کا جواب عوام کو نہیں اپنے ووٹروں کو جوابدہ ہیں اور اس سوال کا جواب عوام ہی ہم سے پوچھ سکتے ہیں۔
ایک لحاظ سے یہ درست بھی ہے اور نہیں بھی کیونکہ منتخب ہوجانے کے بعد ارکان اسمبلی اپنے حلقوں سے غائب ہوجاتے ہیں اور اس لیے ووٹر انھیں یاد ہی نہیں رہتے،یہ شکایت عام اور ممبران کی اکثریت سے ہے جنھیں عوام کو جھانسے دے کر جھوٹے وعدے کرکے منتخب ہوجانے کے بعد اپنا شہر،اپنا آبائی حلقہ اور ووٹرز یاد نہیں رہتے اوروہ کامیابی کے بعد دو چار روز تک ہار پہننے،مبارکبادیں وصول کرنے اور دعوتیں کھانے تک ہی اپنے علاقے میں رہتے ہیں اورحلف اٹھاکر اور خاص طور پر وزیر بن جانے کے بعد صرف ایک بار اپنا زبردست اور سرکاری استقبال کرانے کے لیے ایک دو روز کے لیے اپنے علاقے میں آتے ہیں، اپنے علاقے میں رہتے ہوئے رکن اسمبلی سے تو لوگ مل ہی لیتے ہیں مگر رکن اسمبلی جب وزیر بنادیا جائے تو اس کے اور عوام کے درمیان سرکاری افسران پروٹوکول اور خوشامدی حائل ہوجاتے ہیں۔
منتخب ہونے کے بعد تقریباً ہر رکن اسمبلی اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں رہنا پسند کرتا ہے اور اپنے حلقے میں عید بقرعید،کسی خاص وجہ، کسی اہم سرکاری اجلاس یا صدر، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے دورے کے دوران ہی آتا ہے، حلقے میں آکر وہ سرکاری افسروں سے ملاقاتوں، ذاتی کاموں، اپنی زمینوں کی دیکھ بھال اور خوشامدیوں ہی میں مصروف رہتا ہے اور عام لوگوں کے لیے اس کے دروازے بند ہوجاتے ہیں اور وہ اپنے ووٹروں سے دور رہنا پسند کرتا ہے۔
پاکستان کی اسمبلیوں کے بمشکل دو چار فیصد ارکان ہی ایسے ملیں گے جو اپنے آبائی حلقوں میں باقاعدگی سے موجود ملتے ہوں اور اسمبلی اجلاس کے دنوں ہی میں اپنی اسمبلی میں جاتے ہوں۔ منتخب ہوکر عوام سے بیزار اور دور رہنے والے ارکان کے بڑے شہروں میں اپنے اپنے گھر ہیں، رکن اسمبلی بننے والوں کی اکثریت بڑے جاگیرداروں، سرداروں، وڈیروں اور بڑے لوگوں کی ہے جن کے اہل خانہ بھی ان کے ساتھ ہی رہتے ہیں، ان کے بچے بڑے شہروں کے بڑے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں اور یہ مہمانوں کی طرح کبھی کبھار ہی اپنے حلقے میں جاتے ہیں کیونکہ ان کا وہاں دل نہیں لگتا اور ان کے ووٹرز ان کے لیے اجنبی ہوجاتے ہیں۔
اپنے حلقہ انتخاب میں اکثر موجود ملنے والا پاکستان میں شاید ایک ہی رکن قومی اسمبلی جمشید دستی ہے جو مزدور رہنما بھی ہے اور یوسی ناظم بھی رہا ہے جس کا تعلق غریب نہیں تو متوسط اور امیر طبقے سے بھی نہیں ہے۔ اس کا مظفرگڑھ میں گھر بھی چھوٹا اور تنگ گلی میں ہے اور شاید اسی وجہ سے اس میں بڑے لوگوں کی خو نہیں ہے اور وہ اپنے حلقے میں رہنا پسند کرتا ہے۔ جمشید دستی اپنے حلقے میں باآسانی اپنے ووٹروں کو دستیاب رہتا ہے۔ اس نے اپنے حلقے کے لوگوں کی سہولت کے لیے بسیں چلوا رکھی ہیں جن میں لوگ فری سفر کرتے ہیں۔
جمشید دستی کا کہنا ہے کہ اگر قومی اسمبلی کا اجلاس رات 10 بجے بھی ختم ہو تو میں ایم این اے ہاسٹل میں رہنے کے بجائے رات کا سفر کرکے اپنے حلقے میں جانا ضروری سمجھتا ہوں کہ نہ جانے میرے ووٹروں کو کب میری ضرورت پڑ جائے، ایسے رکن اسمبلی کی اور کوئی مثال مجھے تو اب تک نظر نہیں آئی، سیکڑوں ارکان اسمبلی جمشید دستی کے برعکس ہیں اور اپنے علاقوں میں نہیں جاتے تو عوام ان سے کیسے پوچھ سکتے ہیں کہ آپ نے 5 سال میں کون سے تعمیری و ترقیاتی کام کرائے ہیں؟ اگر کسی شخص کو کبھی اپنے منتخب نمایندے کا دیدار نصیب ہوجائے تو وہ اس سے پوچھنے کی یہ جرأت نہیں کرسکتا کیونکہ صاحب کے ناراض ہوجانے کا خدشہ قوی ہوتا ہے۔
بڑے شہروں میں رہنے والے ارکان اسمبلی کی تو اپنے ووٹروں سے نہ ملنے کی شکایات کم ہیں مگر چھوٹے شہروں اور خصوصاً اپنے گاؤں اور مخصوص علاقوں میں رہنے والے ارکان اسمبلی کی شکایات بہت بلکہ عام ہیں کہ وہ ووٹروں سے نہیں ملتے اور انھیں ووٹرز صرف عام انتخابات کے وقت ہی یاد آتے ہیں اور وہ اپنے علاقوں میں ڈیرے ڈال لیتے ہیں جیساکہ آج کل ہورہا ہے، ارکان اسمبلی کی اکثریت اپنے آبائی حلقوں میں آگئی ہے اور اسمبلی اجلاسوں میں کورم بھی پورا نہیں ہورہا۔ آئینی ضرورت پوری کرنے کے لیے اسمبلی کے آخری دنوں میں بھی اجلاس جاری رہے مگر ارکان دستیاب نہیں۔
اسمبلی کا رکن منتخب ہوجانے کے بعد ان سے پوچھ گچھ کرنے والا کوئی نہیں ہوتا کہ کوئی ان سے کیسے سوال کرے کہ جناب! آپ منتخب ہوکر اپنے حلقے میں کیوں نہیں رہتے؟ اپنے ووٹروں سے کیوں دور رہتے ہیں؟ اور آپ کو اپنے ووٹرز عام انتخابات میں ہی یاد آتے ہیں؟ تو یہ سوال میڈیا والوں کے سوا ان سے کوئی نہیں پوچھ سکتا۔
متوقع انتخابات میں پھر حصہ لینے کے لیے ارکان اسمبلی کو اپنے حلقوں میں آنے کے بعد اب وہ لوگ بھی یاد آگئے ہیں جن کے عزیز کئی سال قبل انتقال کرگئے تھے اور ان کی تعزیت کے لیے اب ان ارکان یا امیدواروںکو وقت میسر آگیا ہے وہ اب ان با اثر افراد کی عیادت بھی کر رہے ہیں جنھیں وہ ملاقات کے لیے گھنٹوں انتظار کروایا کرتے تھے۔
حالیہ ہونے والے سروے میں عوام نے اپنے ارکان اسمبلی کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے اور ہر جگہ سے یہی شکایات آرہی ہیں کہ 5 سال قبل منتخب ہونے والوں نے پلٹ کر بھی نہیں دیکھا کہ ان کے ووٹرز کس حال میں ہیں اور 5 سال میں ان پر کیا گزری ہے۔
ایسی ہی شکایات کے باعث الیکشن کمیشن نے سابق ہونے والوں سے اگر ان کی 5 سالہ کارکردگی کا سوال پوچھ ہی لیا ہے تو کیا برا کیا ہے کہ وہ چینلوں پر برہم نظر آرہے ہیں؟ اب تو یہ سوال ان کے حلقوں میں بھی پوچھنے والے ضرور پوچھیں گے کہ ہمارے مسائل کیوں حل نہیں ہوئے، تعمیری کام ضروری جگہوں کے بجائے غیر ضروری جگہوں پر کیوں کرائے؟ ہمیں کیوں نظرانداز کیا گیا؟ تو آپ کو ووٹ کیوں دیں؟ ارکان اسمبلی سے سرکاری طور پر بھی ان کی کارکردگی معلوم کرنے کا کوئی طریقہ ہونا چاہیے، جب حکومتیں آج کل اپنی کارکردگی بتا رہی ہیں تو ارکان اسمبلی کیوں خفا ہیں؟
ایک لحاظ سے یہ درست بھی ہے اور نہیں بھی کیونکہ منتخب ہوجانے کے بعد ارکان اسمبلی اپنے حلقوں سے غائب ہوجاتے ہیں اور اس لیے ووٹر انھیں یاد ہی نہیں رہتے،یہ شکایت عام اور ممبران کی اکثریت سے ہے جنھیں عوام کو جھانسے دے کر جھوٹے وعدے کرکے منتخب ہوجانے کے بعد اپنا شہر،اپنا آبائی حلقہ اور ووٹرز یاد نہیں رہتے اوروہ کامیابی کے بعد دو چار روز تک ہار پہننے،مبارکبادیں وصول کرنے اور دعوتیں کھانے تک ہی اپنے علاقے میں رہتے ہیں اورحلف اٹھاکر اور خاص طور پر وزیر بن جانے کے بعد صرف ایک بار اپنا زبردست اور سرکاری استقبال کرانے کے لیے ایک دو روز کے لیے اپنے علاقے میں آتے ہیں، اپنے علاقے میں رہتے ہوئے رکن اسمبلی سے تو لوگ مل ہی لیتے ہیں مگر رکن اسمبلی جب وزیر بنادیا جائے تو اس کے اور عوام کے درمیان سرکاری افسران پروٹوکول اور خوشامدی حائل ہوجاتے ہیں۔
منتخب ہونے کے بعد تقریباً ہر رکن اسمبلی اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں رہنا پسند کرتا ہے اور اپنے حلقے میں عید بقرعید،کسی خاص وجہ، کسی اہم سرکاری اجلاس یا صدر، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے دورے کے دوران ہی آتا ہے، حلقے میں آکر وہ سرکاری افسروں سے ملاقاتوں، ذاتی کاموں، اپنی زمینوں کی دیکھ بھال اور خوشامدیوں ہی میں مصروف رہتا ہے اور عام لوگوں کے لیے اس کے دروازے بند ہوجاتے ہیں اور وہ اپنے ووٹروں سے دور رہنا پسند کرتا ہے۔
پاکستان کی اسمبلیوں کے بمشکل دو چار فیصد ارکان ہی ایسے ملیں گے جو اپنے آبائی حلقوں میں باقاعدگی سے موجود ملتے ہوں اور اسمبلی اجلاس کے دنوں ہی میں اپنی اسمبلی میں جاتے ہوں۔ منتخب ہوکر عوام سے بیزار اور دور رہنے والے ارکان کے بڑے شہروں میں اپنے اپنے گھر ہیں، رکن اسمبلی بننے والوں کی اکثریت بڑے جاگیرداروں، سرداروں، وڈیروں اور بڑے لوگوں کی ہے جن کے اہل خانہ بھی ان کے ساتھ ہی رہتے ہیں، ان کے بچے بڑے شہروں کے بڑے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں اور یہ مہمانوں کی طرح کبھی کبھار ہی اپنے حلقے میں جاتے ہیں کیونکہ ان کا وہاں دل نہیں لگتا اور ان کے ووٹرز ان کے لیے اجنبی ہوجاتے ہیں۔
اپنے حلقہ انتخاب میں اکثر موجود ملنے والا پاکستان میں شاید ایک ہی رکن قومی اسمبلی جمشید دستی ہے جو مزدور رہنما بھی ہے اور یوسی ناظم بھی رہا ہے جس کا تعلق غریب نہیں تو متوسط اور امیر طبقے سے بھی نہیں ہے۔ اس کا مظفرگڑھ میں گھر بھی چھوٹا اور تنگ گلی میں ہے اور شاید اسی وجہ سے اس میں بڑے لوگوں کی خو نہیں ہے اور وہ اپنے حلقے میں رہنا پسند کرتا ہے۔ جمشید دستی اپنے حلقے میں باآسانی اپنے ووٹروں کو دستیاب رہتا ہے۔ اس نے اپنے حلقے کے لوگوں کی سہولت کے لیے بسیں چلوا رکھی ہیں جن میں لوگ فری سفر کرتے ہیں۔
جمشید دستی کا کہنا ہے کہ اگر قومی اسمبلی کا اجلاس رات 10 بجے بھی ختم ہو تو میں ایم این اے ہاسٹل میں رہنے کے بجائے رات کا سفر کرکے اپنے حلقے میں جانا ضروری سمجھتا ہوں کہ نہ جانے میرے ووٹروں کو کب میری ضرورت پڑ جائے، ایسے رکن اسمبلی کی اور کوئی مثال مجھے تو اب تک نظر نہیں آئی، سیکڑوں ارکان اسمبلی جمشید دستی کے برعکس ہیں اور اپنے علاقوں میں نہیں جاتے تو عوام ان سے کیسے پوچھ سکتے ہیں کہ آپ نے 5 سال میں کون سے تعمیری و ترقیاتی کام کرائے ہیں؟ اگر کسی شخص کو کبھی اپنے منتخب نمایندے کا دیدار نصیب ہوجائے تو وہ اس سے پوچھنے کی یہ جرأت نہیں کرسکتا کیونکہ صاحب کے ناراض ہوجانے کا خدشہ قوی ہوتا ہے۔
بڑے شہروں میں رہنے والے ارکان اسمبلی کی تو اپنے ووٹروں سے نہ ملنے کی شکایات کم ہیں مگر چھوٹے شہروں اور خصوصاً اپنے گاؤں اور مخصوص علاقوں میں رہنے والے ارکان اسمبلی کی شکایات بہت بلکہ عام ہیں کہ وہ ووٹروں سے نہیں ملتے اور انھیں ووٹرز صرف عام انتخابات کے وقت ہی یاد آتے ہیں اور وہ اپنے علاقوں میں ڈیرے ڈال لیتے ہیں جیساکہ آج کل ہورہا ہے، ارکان اسمبلی کی اکثریت اپنے آبائی حلقوں میں آگئی ہے اور اسمبلی اجلاسوں میں کورم بھی پورا نہیں ہورہا۔ آئینی ضرورت پوری کرنے کے لیے اسمبلی کے آخری دنوں میں بھی اجلاس جاری رہے مگر ارکان دستیاب نہیں۔
اسمبلی کا رکن منتخب ہوجانے کے بعد ان سے پوچھ گچھ کرنے والا کوئی نہیں ہوتا کہ کوئی ان سے کیسے سوال کرے کہ جناب! آپ منتخب ہوکر اپنے حلقے میں کیوں نہیں رہتے؟ اپنے ووٹروں سے کیوں دور رہتے ہیں؟ اور آپ کو اپنے ووٹرز عام انتخابات میں ہی یاد آتے ہیں؟ تو یہ سوال میڈیا والوں کے سوا ان سے کوئی نہیں پوچھ سکتا۔
متوقع انتخابات میں پھر حصہ لینے کے لیے ارکان اسمبلی کو اپنے حلقوں میں آنے کے بعد اب وہ لوگ بھی یاد آگئے ہیں جن کے عزیز کئی سال قبل انتقال کرگئے تھے اور ان کی تعزیت کے لیے اب ان ارکان یا امیدواروںکو وقت میسر آگیا ہے وہ اب ان با اثر افراد کی عیادت بھی کر رہے ہیں جنھیں وہ ملاقات کے لیے گھنٹوں انتظار کروایا کرتے تھے۔
حالیہ ہونے والے سروے میں عوام نے اپنے ارکان اسمبلی کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے اور ہر جگہ سے یہی شکایات آرہی ہیں کہ 5 سال قبل منتخب ہونے والوں نے پلٹ کر بھی نہیں دیکھا کہ ان کے ووٹرز کس حال میں ہیں اور 5 سال میں ان پر کیا گزری ہے۔
ایسی ہی شکایات کے باعث الیکشن کمیشن نے سابق ہونے والوں سے اگر ان کی 5 سالہ کارکردگی کا سوال پوچھ ہی لیا ہے تو کیا برا کیا ہے کہ وہ چینلوں پر برہم نظر آرہے ہیں؟ اب تو یہ سوال ان کے حلقوں میں بھی پوچھنے والے ضرور پوچھیں گے کہ ہمارے مسائل کیوں حل نہیں ہوئے، تعمیری کام ضروری جگہوں کے بجائے غیر ضروری جگہوں پر کیوں کرائے؟ ہمیں کیوں نظرانداز کیا گیا؟ تو آپ کو ووٹ کیوں دیں؟ ارکان اسمبلی سے سرکاری طور پر بھی ان کی کارکردگی معلوم کرنے کا کوئی طریقہ ہونا چاہیے، جب حکومتیں آج کل اپنی کارکردگی بتا رہی ہیں تو ارکان اسمبلی کیوں خفا ہیں؟