فاٹا ایشو تدبرو تحمل کا متقاضی

فاٹا کے صوبہ خیبرپختونخوا میں انضمام کے فیصلہ کا جلد حتمی اعلان کیا جائے

فاٹا کے صوبہ خیبرپختونخوا میں انضمام کے فیصلہ کا جلد حتمی اعلان کیا جائے۔فوٹو: فائل

NEW DELHI:
فاٹا اصلاحات بل کی قومی اسمبلی سے منظوری کی راہ میں رکاوٹ کیا ہے ؟ شاید اس کا جواب ارباب اختیار اور فاٹا مسئلہ سے متعلق سیاسی رہنماؤں ،قبائلی عمائدین اور دانشوروں کے پاس بھی نہیں یا کوئی ایسی غیر مرئی قوت ہے جو اس کار خیر کو ہوتا نہیں دیکھ سکتی۔

بہرحال عوام منتظر ہیں کہ فاٹا انضمام کے عمل کو تیزی سے مکمل کرنے کا خواب جلد شرمندہ تعبیر ہو، قومی اسمبلی کی کمیٹی اور دیگر فورمزسے جتنا مشاورتی کام ہوا ہے اسے نتیجہ خیز ہونا چاہیے، مگر بادی النظر میں ''پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ'' والی صورتحال جنم لے چکی ہے، سیاسی مبصرین اس اندیشہ کا اظہار کررہے ہیں کہ فاٹا ایشو کو غلط تناظر میں سیاسی رنگ دیا گیا تو یہ ایک المیہ ہوگا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بل کو ایجنڈہ سے نکال کر صورتحال غیر یقینی جب کہ حکومت کی ناتدبیری اور عجلت آمیز مصلحت کوش اقدامات کے باعث ایک گیم چینجر انتظامی فیصلہ کو بدقسمتی سے پینڈورا باکس کی شکل دی گئی ہے حالانکہ خیر سگالی اور دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ قومی اسمبلی سے اس بل کی منظوری کا مرحلہ بہ خیر و خوبی طے نہ ہو ، ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ فاٹا کے صوبہ خیبرپختونخوا میں انضمام کے فیصلہ کا جلد حتمی اعلان کیا جائے۔

جس کے لیے ضرورت عملیت پسندی اور سنجیدہ طرز عمل سے پیدا شدہ ڈیڈ لاک کو دور کرنے کی ہے مگر اس سمت میں حکومت کو غالباً پتھروں پر چلنا پڑ رہا ہے اور فاٹا کے مستقبل کی کوئی کہکشاں ارباب اختیار کی دسترس میں نہیں آرہی، ادھر بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے دباؤ اور مطالبات نے مسئلہ کو پیچیدہ بنا کر رکھ دیا ہے جس کا اندازہ ان اطلاعات سے لگایا جاسکتا ہے کہ منگل کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے ایجنڈے سے فاٹا اصلاحات بل نکالنے پر دوسرے روز بھی ایوان سے واک آؤٹ کیا، ''گو ایف سی آر اور فاٹا کو کیوں نکالا'' کے نعرے لگائے گئے ، گزشتہ روز قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی صدارت میں ہوا، قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے نکتہ اعتراض پر حکومت پر توہین پارلیمنٹ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ راتوں رات واردات ڈال دی گئی، پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار بل ایجنڈے پر لانے کے بعد واپس لے لیا گیا ۔


وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ جب بل واپس لیا گیا تو اس پر احتجاج کے بعد وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ اور طارق فضل چوہدری کے ہمراہ ہم وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے پاس گئے اور ان سے اس معاملے پر تفصیل سے بات ہوئی۔ وزیراعظم ترکی کے دورے پر ہیں اور وہ جمعرات کو ترکی سے واپس آئیں گے، جمعہ کو وزیراعظم نے اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کو ناشتہ پر مدعو کیا ہے تاکہ اس بل پر افہام و تفہیم کے بعد یہ بل ایوان سے منظور کرایا جائے، تحریک انصاف کے رکن اسد عمر کا کہنا ہے کہ جب تک فاٹا کا معاملہ واپس نہیں لایا جاتا ہمارا بائیکاٹ جاری رہے گا، ایم کیو ایم کے شیخ صلاح الدین نے کہا فاٹا اصلاحات بل ایجنڈے سے نکال کر وہاں کے عوام سے زیادتی کی گئی ہے۔ جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم نہ کرنے پر قبائل سراپا احتجاج ہیں، بتایا جاتا ہے کہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی سربراہی میں اپوزیشن رہنماؤں کا اجلاس ہوا۔

متحدہ اپوزیشن کی کمیٹی کے سربراہ خورشید شاہ ہوں گے جب کہ اس میں پیپلز پارٹی سے فرحت اللہ بابر، اعجاز جاکھرانی، جماعت اسلامی کے سراج الحق، صاحبزادہ طارق اللہ، ایم کیوایم پاکستان کے شیخ صلاح الدین، میاں عتیق اور فاٹا کے شاہ جی گل آفریدی شامل ہیں۔ تحریک انصاف بھی اس کمیٹی کے لیے اپنے دو نمایندوں کے نام دیگی۔ اپوزیشن نے فیصلہ کیا کہ فاٹا اصلاحات کے معاملے پر کمیٹی حکومت سے بات چیت کرکے معاملے کو مل جل کر حل کرے گی۔

وفاقی وزیر شیخ آفتاب نے بتایا کہ بعض تکنیکی وجوہات کے باعث یہ بل ایجنڈے سے نکالا گیا جوآیندہ دو سے چاردنوں میں دوبارہ ایجنڈے میںشامل کر کے ایوان میںپیش کردیا جائے گا، تاہم حکومت عوام کو بتائے کہ انضمام کے برعکس فاٹا اور دیگر قبائلی علاقوں کے الگ انتظامی یونٹوں یا مختلف علاقوں کو انتظامی اکائی تسلیم کرتے ہوئے نئے صوبوں کی تشکیل کے مطالبات سے گھبرا تو نہیں گئی ہے ، فاٹا کے انضمام سے گریزاں سیاسی حلقے اس سوال پر بھی دباؤبڑھا رہے ہیں کہ فاٹا ثقافتی ، سماجی اور تعلیمی اعتبار سے خیبرپختونخوا کا حصہ ہے مگر دیگر تاریخی عوامل کو بھی پیش نظر رکھنا ناگزیر ہے، یک طرفہ فیصلہ کسی پر مسلط نہ کیا جائے، اپوزیشن لیڈرکے مطالبے پر وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ چند ہی دنوںمیں دوبارہ بل ایوان میں پیش کر دیا جائے گا۔

لہٰذا اب جب کہ فاٹا اصلاحات سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں، حکومت فاٹا سے کالا قانون ختم کرنے کا اعلان کرچکی ہے، دیگر اصلاحات اور ایک ہزار ارب روپے کا فنڈ مختص کیے جانے، نشستیں رکھی جانے، ایڈوائزی کونسل قائم کرنے، بلدیاتی انتخابات اور ترقیاتی پیکیج متعارف کرانے، اسلام آباد اور ہائی کورٹ کے دائرہ اختیارکو قبائلی علاقوں تک توسیع دینے کے اہم اقدامات شامل ہیں توکسی مصلحت کو خاطر میں نہ لایا جائے ورنہ صورتحال کسی کے قابو میں نہیں رہے گی۔
Load Next Story