100 روپے کا سکہ
2 اور پانچ روپے کے نوٹوں کی جگہ 1998ء اور 2002ء میں سکوں نے لے لی
جاپان اور انڈونیشیا جیسی چند منفرد مستثنیات کو چھوڑ کر آپ کو کسی بھی ملک کی معاشی حالت کا اندازہ لگانا ہے تو اس ملک کے کرنسی نوٹ اور سکوں کی مالیت اور ان کی قوت خرید کو دیکھ لیجیے۔ جتنی بڑی مالیت کے نوٹ اور سکے ہوں گے، اتنی ہی تباہ حال وہاں کی معیشت ہوگی۔ آپ دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکا کی مثال لے لیجیے، جہاں ہمارے ہاں کے حساب سے روزانہ ہزاروں اربوں روپوں کا کاروبار ہوتا ہے، وہاں آپ کو سو ڈالر سے اوپر کی مالیت کا نوٹ نہیں ملے گا۔
دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین میں بھی آپ کو 100 یوآن سے زیادہ مالیت کا نوٹ نہیں ملے گا اور برطانیہ میں تو 50 پاؤنڈ سے بڑا نوٹ نہیں ہے۔ دنیا کی بڑی بڑی معیشتوں میں صرف اتنی چھوٹی مالیت کے نوٹوں کی موجودگی کی وجہ ان معیشتوں کے طاقتور ہونے کے علاوہ یہ بھی ہے کہ یہ معیشتیں ڈاکومینٹڈ یعنی دستاویزی معیشتیں ہیں۔ یہاں کیش یعنی نقد ادائیگیاں بہت کم کی جاتی ہیں، جو کی بھی جاتی ہیں وہ کم رقوم کی، چنانچہ ان ممالک میں کرپشن اور دوسرے جرائم اور ٹیکس چوری سے حاصل کردہ مال خرچ کرنا انتہائی مشکل ہے۔
ہمارے پاکستان کا مگر معاملہ کچھ اور ہی ہے۔ ملک میں موجود غیر دستاویزی معیشت جسے ڈارک اکنامی یعنی تاریک معیشت کہنا چاہیے، کا حجم ملک کی باقاعدہ دستاویز شدہ معیشت سے کہیں زیادہ ہے۔ یہاں گردش کرتے ہزاروں ارب روپوں کا تعلق کرپشن اور دوسرے جرائم اور ٹیکس چوری سے ہے۔ ادھر دوسرے ملکوں میں عموماً حالات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتر ہوتے ہیں، ہمارے ہاں اس کے برعکس ہے، یہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک اور قوم کے حالات، اخلاقیات اور معاشیات مسلسل زوال کا شکار ہیں۔
اس زوال نے صحیح معنوں میں تیز رفتار 1970ء کی دہائی میں پکڑی جب عوامی جمہوریت مشرقی پاکستان کے اکثریتی جمہوری مینڈیٹ اور خود مشرقی پاکستان کی اکثریت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد باقی ماندہ ملک کی معیشت پہ ٹوٹ پڑی۔ تمام صنعتیں، بینک، کاروبار اور تعلیمی ادارے قومیائے گئے اور سیاسی و لسانی تعصب کی بنیادوں پر تعینات کردہ کرپٹ اور نااہل لوگوں کے حوالے کردیے گئے۔ ایماندار اور اہل سرکاری افسروں کو لسانی تعصبی ''میرٹ'' پہ پورا نہ اترنے پہ بڑی تعداد میں برطرف کردیا گیا۔ ملک میں وسیع پیمانے پہ کرپشن کا آغاز کردیا گیا۔ وہ پاکستان جسے سنگاپور، جنوبی کوریا اور ملائیشیا جیسے ملک رشک کی نظر سے دیکھتے تھے، اس شاندار پاکستان کو اس کے سیاسی بھنگڑوں کے رسیا عوام نے اس بدترین تباہی کے حوالے کردیا، جہاں چلتے چلتے آج یہ پاکستان بہت سے افریقی ممالک سے بھی کہیں پیچھے چلا گیا ہے۔ اسی ''جمہوری'' دور سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کا وہ زوال شروع ہوا جو اب تک جاری و ساری ہے۔
1980ء کی دہائی میں معیشت کو نسبتاً کچھ استحکام حاصل ہوا، تاہم جہاں 1970ء کی دہائی میں عوامی کرپشن کا آغاز ہوا وہیں 1980ء کی دہائی میں حکمراں اور عوامی طبقوں میں کرپشن کو اپنے تئیں شرعی اور حلال کرنے کا آغاز ہوا کہ خوب کرپشن کرو، چوری بے ایمانی کرو، ملک کا اور لوگوں کا مال لوٹو، ملک اور دوسرے انسانوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالو، پھر عمرہ کرلو، نماز پڑھ لو، روزے رکھ لو، حج کرلو، خیرات زکوٰۃ دے دو، سارے گناہ معاف ہوگئے، سارا حرام مال حلال ہوگیا، ہر ناجائز کام جائز ہوگیا، حالانکہ اسلام میں صاف صاف بتادیا گیا ہے کہ ذرہ برابر بھی حقوق العباد کی معافی نہیں، جب تک متاثرہ فریق دل سے معاف نہ کردے۔ جب کہ یہاں تو کروڑوں لوگوں کے اربوں کھربوں روپے کھانے اور حقوق ہتھیانے کا آغاز ہوگیا، جو پھر بڑھتا ہی چلا گیا، پھر کبھی رکا نہیں۔ معاشرے میں اوپر سے نیچے پھیلتا ہی چلا گیا۔
1980ء کی دہائی کے آخر میں ایک بار پھر جمہوریت کی آمد ہوئی۔ دس فیصد کرپشن سے جو معاملہ چلا تو پھر رکا نہیں، سو فیصد کو بھی پیچھے چھوڑ گیا۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی حیثیت پھر تیزی سے گرتی گئی۔ 1990ء کی دہائی کے آخر میں آنے والے دور میں معیشت کو پھر کچھ استحکام حاصل ہوا، تاہم اس دور میں احتساب کا وہ تماشا بنایا گیا کہ لوگوں کا اس ملک میں کبھی بھی احتساب ہونے کے خیال سے ہی اعتماد اٹھ گیا۔ اس دور کے آخر میں حکمران کے ذاتی اقتدار کے لیے کیے جانے والے این آر او نے اس ملک میں اس بڑے پیمانے پر کرپشن، لوٹ مار کے دروازے کھولے کہ آج ملک کے پاس بجٹ بنانے تک کے پیسے نہیں بچے۔ 1970ء کی دہائی سے شروع ہونے والی معاشی تباہی جیسے جیسے آگے بڑھتی گئی ویسے ویسے روپے کی حیثیت نیچے جاتی رہی۔ 2 پیسے کا سکہ 1976ء میں، ایک پیسے کا سکہ 1979ء میں اور پانچ، دس، پچیس اور پچاس پیسے کے سکے 1996ء میں بند ہوگئے۔
پیسے کی جگہ روپوں کے سکے آگئے۔ ایک روپے کا سکہ 1979، 2 روپے کا سکہ 1998ء اور پانچ روپے کا سکہ 2002ء میں مارکیٹ میں آگیا۔ 2 اور پانچ روپے کے نوٹوں کی جگہ 1998ء اور 2002ء میں سکوں نے لے لی۔ 1986ء میں 500 روپے کا اور 1987ء میں 1000ء روپے کا نوٹ بھی آگیا۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے جہاں این آر او کے ذریعے اس ملک کو معاشی جہنم کے راستے پر ڈالا وہیں 2006ء میں پانچ ہزار کا کرنسی نوٹ متعارف کراکے ملک بھر کے تمام کرپٹ لوگوں کے لیے بڑے پیمانے پر کرپشن کی جنت کے دروازے کھول دیے، ساتھ ہی ''پلی بار گین'' کے ذریعے کرپشن کی اس جنت کو مزید تحفظ فراہم کیا۔ بلاشبہ جنرل پرویز مشرف گارڈ آف آنر کے ساتھ رخصتی کے حقدار تھے۔ 2008ء میں تقریباً ساڑھے تین کروڑ جعلی ووٹوں والے انتخابات سے جنم لینے والی این آر او جمہوریت میں تو کرپشن کا گراف دس بیس، سو دو سو فیصد کے بجائے ہزاروں فیصد سے بھی آگے نکل گیا۔ چھوٹے سے چھوٹا کرپٹ بھی اب اربوں کی لوٹ مار کرنے لگا۔
1947ء سے 2007ء تک ساٹھ سال میں ملک پر 6 کھرب روپوں کا قرضہ چڑھا تھا جو 2008ء سے 2013ء تک میں 14 کھرب سے بھی آگے نکل گیا۔ 2013ء سے 2016ء تک میں 14 کھرب کا یہ قرضہ 22 کھرب سے بھی آگے نکل گیا اور ملک میں ترقی وہ ہوئی کہ 80 فیصد سے زائد آبادی کو پینے کا صاف پانی تک نصیب نہیں۔ البتہ امریکا، برطانیہ، سعودی عرب، دبئی، ملائیشیا یہاں تک ہندوستان تک میں پاکستان سے چرائے گئے کھربوں روپے کے کاروبار، بینک اکاؤنٹس اور پراپرٹی بنائی گئی۔ کرپشن اور نااہلی کا وہ راج رہا کہ صرف پی آئی اے کو ہی ان دس سال میں 400 ارب روپوں کا خسارہ ہوا۔
ہمارے ادارے میگاکرپٹ لوگوں اور میگا کرپشن کے لیے بہت دیالو رہے ہیں۔ اپنے افسران کے اقتدار اور دوسرے ذاتی مفادات کے لیے کبھی ڈیل کرلی، کبھی این آر او کرلیا۔ ان اداروں کا غالباً خیال تھا کہ کرپشن کے اس تباہ کن پھیلاؤ سے صرف عام آدمی ہی متاثر ہوگا، یہ محفوظ رہیں گے۔ مگر آج کرپشن سے تباہ حال یہ ملک معاشی تباہی کے اس بدترین مقام پہ پہنچ چکا ہے جہاں قرضوں اور قرضوں کا سود ادا کرنے کے لیے مزید قرضے لیے جا رہے ہیں۔ جہاں اگلے بجٹ بشمول دفاعی بجٹ کے لیے قومی خزانہ خالی پڑا ہے۔
سیاسی چٹخاروں کے رسیا عوام کو مبارک ہو، 2016ء میں دس روپے کا بھی سکہ آگیا۔ اب بھی اگر میگا کرپٹ کرداروں کا VIP احتساب کی جگہ اصلی احتساب نہیں کیا گیا، بیرون ملک موجود پاکستان سے لوٹا گیا کھربوں کا سرمایہ واپس نہیں لایا گیا اور انتخابی و حکومتی اصلاحات و صفائی کے بغیر یہ این آر او جمہوریت یونہی چلتی رہی تو 100 روپے کا سکہ بھی کچھ دور نہیں۔ مگر اس سے آگے شاید ہم جا نہ سکیں، تاریخ کی کتابوں میں ذکر عبرت بن کے رہ جائیں۔
دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین میں بھی آپ کو 100 یوآن سے زیادہ مالیت کا نوٹ نہیں ملے گا اور برطانیہ میں تو 50 پاؤنڈ سے بڑا نوٹ نہیں ہے۔ دنیا کی بڑی بڑی معیشتوں میں صرف اتنی چھوٹی مالیت کے نوٹوں کی موجودگی کی وجہ ان معیشتوں کے طاقتور ہونے کے علاوہ یہ بھی ہے کہ یہ معیشتیں ڈاکومینٹڈ یعنی دستاویزی معیشتیں ہیں۔ یہاں کیش یعنی نقد ادائیگیاں بہت کم کی جاتی ہیں، جو کی بھی جاتی ہیں وہ کم رقوم کی، چنانچہ ان ممالک میں کرپشن اور دوسرے جرائم اور ٹیکس چوری سے حاصل کردہ مال خرچ کرنا انتہائی مشکل ہے۔
ہمارے پاکستان کا مگر معاملہ کچھ اور ہی ہے۔ ملک میں موجود غیر دستاویزی معیشت جسے ڈارک اکنامی یعنی تاریک معیشت کہنا چاہیے، کا حجم ملک کی باقاعدہ دستاویز شدہ معیشت سے کہیں زیادہ ہے۔ یہاں گردش کرتے ہزاروں ارب روپوں کا تعلق کرپشن اور دوسرے جرائم اور ٹیکس چوری سے ہے۔ ادھر دوسرے ملکوں میں عموماً حالات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتر ہوتے ہیں، ہمارے ہاں اس کے برعکس ہے، یہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک اور قوم کے حالات، اخلاقیات اور معاشیات مسلسل زوال کا شکار ہیں۔
اس زوال نے صحیح معنوں میں تیز رفتار 1970ء کی دہائی میں پکڑی جب عوامی جمہوریت مشرقی پاکستان کے اکثریتی جمہوری مینڈیٹ اور خود مشرقی پاکستان کی اکثریت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد باقی ماندہ ملک کی معیشت پہ ٹوٹ پڑی۔ تمام صنعتیں، بینک، کاروبار اور تعلیمی ادارے قومیائے گئے اور سیاسی و لسانی تعصب کی بنیادوں پر تعینات کردہ کرپٹ اور نااہل لوگوں کے حوالے کردیے گئے۔ ایماندار اور اہل سرکاری افسروں کو لسانی تعصبی ''میرٹ'' پہ پورا نہ اترنے پہ بڑی تعداد میں برطرف کردیا گیا۔ ملک میں وسیع پیمانے پہ کرپشن کا آغاز کردیا گیا۔ وہ پاکستان جسے سنگاپور، جنوبی کوریا اور ملائیشیا جیسے ملک رشک کی نظر سے دیکھتے تھے، اس شاندار پاکستان کو اس کے سیاسی بھنگڑوں کے رسیا عوام نے اس بدترین تباہی کے حوالے کردیا، جہاں چلتے چلتے آج یہ پاکستان بہت سے افریقی ممالک سے بھی کہیں پیچھے چلا گیا ہے۔ اسی ''جمہوری'' دور سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کا وہ زوال شروع ہوا جو اب تک جاری و ساری ہے۔
1980ء کی دہائی میں معیشت کو نسبتاً کچھ استحکام حاصل ہوا، تاہم جہاں 1970ء کی دہائی میں عوامی کرپشن کا آغاز ہوا وہیں 1980ء کی دہائی میں حکمراں اور عوامی طبقوں میں کرپشن کو اپنے تئیں شرعی اور حلال کرنے کا آغاز ہوا کہ خوب کرپشن کرو، چوری بے ایمانی کرو، ملک کا اور لوگوں کا مال لوٹو، ملک اور دوسرے انسانوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالو، پھر عمرہ کرلو، نماز پڑھ لو، روزے رکھ لو، حج کرلو، خیرات زکوٰۃ دے دو، سارے گناہ معاف ہوگئے، سارا حرام مال حلال ہوگیا، ہر ناجائز کام جائز ہوگیا، حالانکہ اسلام میں صاف صاف بتادیا گیا ہے کہ ذرہ برابر بھی حقوق العباد کی معافی نہیں، جب تک متاثرہ فریق دل سے معاف نہ کردے۔ جب کہ یہاں تو کروڑوں لوگوں کے اربوں کھربوں روپے کھانے اور حقوق ہتھیانے کا آغاز ہوگیا، جو پھر بڑھتا ہی چلا گیا، پھر کبھی رکا نہیں۔ معاشرے میں اوپر سے نیچے پھیلتا ہی چلا گیا۔
1980ء کی دہائی کے آخر میں ایک بار پھر جمہوریت کی آمد ہوئی۔ دس فیصد کرپشن سے جو معاملہ چلا تو پھر رکا نہیں، سو فیصد کو بھی پیچھے چھوڑ گیا۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی حیثیت پھر تیزی سے گرتی گئی۔ 1990ء کی دہائی کے آخر میں آنے والے دور میں معیشت کو پھر کچھ استحکام حاصل ہوا، تاہم اس دور میں احتساب کا وہ تماشا بنایا گیا کہ لوگوں کا اس ملک میں کبھی بھی احتساب ہونے کے خیال سے ہی اعتماد اٹھ گیا۔ اس دور کے آخر میں حکمران کے ذاتی اقتدار کے لیے کیے جانے والے این آر او نے اس ملک میں اس بڑے پیمانے پر کرپشن، لوٹ مار کے دروازے کھولے کہ آج ملک کے پاس بجٹ بنانے تک کے پیسے نہیں بچے۔ 1970ء کی دہائی سے شروع ہونے والی معاشی تباہی جیسے جیسے آگے بڑھتی گئی ویسے ویسے روپے کی حیثیت نیچے جاتی رہی۔ 2 پیسے کا سکہ 1976ء میں، ایک پیسے کا سکہ 1979ء میں اور پانچ، دس، پچیس اور پچاس پیسے کے سکے 1996ء میں بند ہوگئے۔
پیسے کی جگہ روپوں کے سکے آگئے۔ ایک روپے کا سکہ 1979، 2 روپے کا سکہ 1998ء اور پانچ روپے کا سکہ 2002ء میں مارکیٹ میں آگیا۔ 2 اور پانچ روپے کے نوٹوں کی جگہ 1998ء اور 2002ء میں سکوں نے لے لی۔ 1986ء میں 500 روپے کا اور 1987ء میں 1000ء روپے کا نوٹ بھی آگیا۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے جہاں این آر او کے ذریعے اس ملک کو معاشی جہنم کے راستے پر ڈالا وہیں 2006ء میں پانچ ہزار کا کرنسی نوٹ متعارف کراکے ملک بھر کے تمام کرپٹ لوگوں کے لیے بڑے پیمانے پر کرپشن کی جنت کے دروازے کھول دیے، ساتھ ہی ''پلی بار گین'' کے ذریعے کرپشن کی اس جنت کو مزید تحفظ فراہم کیا۔ بلاشبہ جنرل پرویز مشرف گارڈ آف آنر کے ساتھ رخصتی کے حقدار تھے۔ 2008ء میں تقریباً ساڑھے تین کروڑ جعلی ووٹوں والے انتخابات سے جنم لینے والی این آر او جمہوریت میں تو کرپشن کا گراف دس بیس، سو دو سو فیصد کے بجائے ہزاروں فیصد سے بھی آگے نکل گیا۔ چھوٹے سے چھوٹا کرپٹ بھی اب اربوں کی لوٹ مار کرنے لگا۔
1947ء سے 2007ء تک ساٹھ سال میں ملک پر 6 کھرب روپوں کا قرضہ چڑھا تھا جو 2008ء سے 2013ء تک میں 14 کھرب سے بھی آگے نکل گیا۔ 2013ء سے 2016ء تک میں 14 کھرب کا یہ قرضہ 22 کھرب سے بھی آگے نکل گیا اور ملک میں ترقی وہ ہوئی کہ 80 فیصد سے زائد آبادی کو پینے کا صاف پانی تک نصیب نہیں۔ البتہ امریکا، برطانیہ، سعودی عرب، دبئی، ملائیشیا یہاں تک ہندوستان تک میں پاکستان سے چرائے گئے کھربوں روپے کے کاروبار، بینک اکاؤنٹس اور پراپرٹی بنائی گئی۔ کرپشن اور نااہلی کا وہ راج رہا کہ صرف پی آئی اے کو ہی ان دس سال میں 400 ارب روپوں کا خسارہ ہوا۔
ہمارے ادارے میگاکرپٹ لوگوں اور میگا کرپشن کے لیے بہت دیالو رہے ہیں۔ اپنے افسران کے اقتدار اور دوسرے ذاتی مفادات کے لیے کبھی ڈیل کرلی، کبھی این آر او کرلیا۔ ان اداروں کا غالباً خیال تھا کہ کرپشن کے اس تباہ کن پھیلاؤ سے صرف عام آدمی ہی متاثر ہوگا، یہ محفوظ رہیں گے۔ مگر آج کرپشن سے تباہ حال یہ ملک معاشی تباہی کے اس بدترین مقام پہ پہنچ چکا ہے جہاں قرضوں اور قرضوں کا سود ادا کرنے کے لیے مزید قرضے لیے جا رہے ہیں۔ جہاں اگلے بجٹ بشمول دفاعی بجٹ کے لیے قومی خزانہ خالی پڑا ہے۔
سیاسی چٹخاروں کے رسیا عوام کو مبارک ہو، 2016ء میں دس روپے کا بھی سکہ آگیا۔ اب بھی اگر میگا کرپٹ کرداروں کا VIP احتساب کی جگہ اصلی احتساب نہیں کیا گیا، بیرون ملک موجود پاکستان سے لوٹا گیا کھربوں کا سرمایہ واپس نہیں لایا گیا اور انتخابی و حکومتی اصلاحات و صفائی کے بغیر یہ این آر او جمہوریت یونہی چلتی رہی تو 100 روپے کا سکہ بھی کچھ دور نہیں۔ مگر اس سے آگے شاید ہم جا نہ سکیں، تاریخ کی کتابوں میں ذکر عبرت بن کے رہ جائیں۔