ٹرمپ نے اعلان جنگ کیا ہے
دنیا بھر میں موجود مسلمان امریکی صدر کے فیصلے کو مسترد کر چکے ہیں
ZURICH:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلمان اور اسلام دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے ہی امریکا کے نریندر مودی، ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف انتہا پسندانہ اور متعصبانہ بیانات دینا شروع کردیے تھے اور اقتدار میں آنے کے بعد تمام مخالفتوں کے باوجود اپنے مسلم کُش بیانات کو اقدامات میں بدل کر مسلم دشمن ہونے کا بھرپور ثبوت دیا۔ اب امریکی صدر نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے پوری دنیا کو گویا جنگ کی بھٹی میں جھونکنے کی کوشش کی ہے۔
ٹرمپ کے یکطرفہ اور اہل اسلام کے لیے دل فگار انتہا پسندانہ فیصلے کے خلاف نہ صرف مسلم امہ سراپا احتجاج ہے، بلکہ فرانس، جرمنی، برطانیہ، روس، چین اور یورپی یونین نے بھی اس فیصلے کی شدید مخالفت کی ہے اور اس اندیشے کا اظہار کیا ہے کہ اس سے دنیا میں دہشتگردی بڑھے گی۔ اقوام متحدہ نے بھی اسے فلسطینیوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ پوری دنیا میں ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف شدید ردعمل یہ ثابت کرتا ہے کہ ٹرمپ صیہونیت نوازی میں اس حد تک چلے گئے ہیں کہ انھیں پوری دنیا کی مخالفت کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے اور وہ صہیونیت کی خاطر پوری دنیا سے ٹکرانے کے لیے بھی تیار ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کہتے ہیں کہ ان کو کوئی دماغی عارضہ نہیں، لیکن ان کی امریکا اور پوری دنیا کے مفادات کے برعکس پالیسیوں اور مسلمانوں کے خلاف اقدامات ٹرمپ کے بیان کی تصدیق نہیں کرتے۔
ٹرمپ کے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے کی وجہ سے پوری دنیا میں دہشتگردی کی آگ مزید بھڑک سکتی ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ٹرمپ پوری انسانیت کا قتل کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور پوری دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے شعلوں میں جھونکنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کے اقدامات سے لگ رہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ دنیا سے امن وسلامتی کا نام ونشان تک مٹ جائے اور ہر ملک، شہر اور ہر گھر نفرت اور خوف کی آگ میں جل کر بھسم ہو جائے۔
ان کے متعصبانہ اقدامات کی وجہ سے دنیا بھر میں امریکی سفارتخانے اور امریکی عملہ خطرے کی حدود میں داخل ہوچکا ہے، جس کی مکمل ذمے داری امریکی صدر ٹرمپ پر ہے۔ ٹرمپ نے اپنے اسلام دشمنی سے بھرے ہوئے جذبات کی تسکین کی خاطر صرف مسلم ممالک کو ہی نقصان نہیں پہنچایا، بلکہ خود اپنے ہم وطنوں کو بھی دنیا بھر میں غیر محفوظ کر دیا ہے اور دنیا بھر میں امریکیوں کے خلاف نفرتیں جنم لے رہی ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ وہ واحد امریکی صدر ہیں جنھوں نے ریپبلکن پارٹی کا امیدوار نامزد ہوتے ہی مسلم دنیا مخالف ایجنڈے کو اپنے منشور کا حصہ بنا کر بیت المقدس میں صہیونی بستیاں بسانے کے شیطانی منصوبے کی حمایت کی اور پوری اسلامی دنیا پر اسلامی دہشتگردی کا لیبل لگایا۔ اسی تناظر میں ان کے مسلم کش انتہا پسندانہ منشور کے خلاف دنیا بھر سے ردعمل آنا شروع ہوا، مگر انھوں نے کسی بھی احتجاج کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے مسلم کش منشور کو امریکی پالیسیوں کا حصہ بنایا۔ اقتدار میں آتے ہی ٹرمپ انتظامیہ نے بیت المقدس کو اسرئیلی دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کی راہ بھی ہموار کرنا شروع کردی تھی، جسے ٹرمپ نے عملی جامہ پہنا کر اپنی اعلانیہ مسلم دشمنی کا ثبوت فراہم کردیا ہے۔
مسلمانوں کے قبلہ اول کو صہیونیت کا دارالحکومت تسلیم کرنے سے امریکی صدر نے درحقیقت مشرق وسطیٰ اور اسلامی دنیا میں ایک نئے خلفشار کی بنیاد رکھی ہے، جو بالآخر عالمی امن کی تباہی پر منتج ہوگی۔ قبلہ اول کے تحفظ کے لیے مسلم امہ اپنی جانیں دینے سے بھی گریز نہیں کرے گی اور اسرائیل سے اس کا قبضہ چھڑانے کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوگی۔ بیت المقدس مسلم دنیا کا قبلہ اول ہے اور اسے خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد مسلمانوں کے تیسرے مقدس ترین مقام کا درجہ حاصل ہے۔
صرف یہی نہیں، حضرت نبی آخرالزمان محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتویں آسمان کی جانب عرش معلیٰ کا مقدس سفر بھی مسجد اقصیٰ سے شروع ہوا تھا، اس لیے مسلم دنیا اپنے اس مقدس مقام کی حفاظت کے لیے بھی مر مٹنے کو تیار رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیت المقدس کے اطراف میں موجود فلسطینی نہتے ہونے کے باوجود برسوں سے اسرائیلی ٹینکوں کے سامنے ڈٹے کھڑے ہیں۔ 14 مئی 1948ء کو دنیا پر ناجائز وجود پانے والی ریاست اسرائیل نے اپنے قیام کے بعد سے آج تک وہ کون سا ظلم ہے جو مقدس فلسطین کے بے گناہ، معصوم اور مظلوم باسیوں پر روا نہیں رکھا ہو گا، لیکن کبھی بھی آپ نے فلسطینی بہادروں کے منہ سے ایک لفظ بھی مایوسی و ناامیدی اور کم ہمتی کا نہیں سنا ہوگا۔ اب بھی فلسطینیوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے، بلکہ وہ پہلے سے زیادہ استقامت اور جرأت کے ساتھ امریکی صدر کے فیصلے کو مسترد کررہے ہیں۔
حماس نے تو امریکی صدر کو جہنم کا دروازہ کھولنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ دنیا بھر میں موجود مسلمان امریکی صدر کے فیصلے کو مسترد کر چکے ہیں، لیکن اسے مسلمانوں پر مسلط کرنے کے نتائج بھیانک نکل سکتے ہیں۔ صہیونیوں کے انتہاپسند نمایندے ڈونلڈ ٹرمپ اگر اسلامی دنیا اور اقوام عالم کی خفگی اور مزاحمت کو نظرانداز کرکے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کی جنونیت پر کاربند رہتے ہیں تو اس سے امریکا اور اسرائیل کے خلاف ایک بڑی جنگ کا آغاز خارج ازامکان نہیں ہوگا۔ ٹرمپ نے یہ فیصلہ کرکے علاقائی اور عالمی امن کی نہیں، ایک نئے فساد اور عالمی تباہی کی بنیاد رکھی ہے۔
اس بات میں تو کوئی شک کی گنجائش ہی نہیں رہی کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے خلاف کل بھی متحد تھے اور آج بھی متحد ہیں۔ دونوں نے ہمیشہ مسلم ممالک میں خونریزی اور بدامنی کی آگ بھڑکائی ہے اور مسلمانوں کے مفادات کو نقصان پہنچایا ہے۔ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے تو اب باقاعدہ مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کردیا گیا ہے۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ مسلمانوں کو بھی متحد ہوجانا چاہیے۔ ڈونلڈٹرمپ نے اب جو گتھی الجھائی ہے وہ مسلم امہ کو بڑی دانش سے سلجھانے کی ضرورت ہے۔ آج مسلم ممالک کے مابین اتحاد اور یکجہتی کی اشدضرورت ہے۔مسلم ممالک قرآن کی روشنی میں ''امت واحدہ'' بننے اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کی کوشش کریں۔
عالم اسلام کے پاس ہر قسم کے عسکری اور معاشی وسائل موجود ہیں۔ اگر اسلامی ممالک متحد ہوجائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کا بال بیکا نہیں کرسکتی۔ اسلام دشمنوں نے اسلامی ممالک کو مختلف حیلے بہانوں سے تقسیم کررکھا ہے۔ یہ تقسیم اور انتشار عالم اسلام کے لیے زہر قاتل ہے۔ مسلمانوں کو اپنے اختلافات ختم کرکے ایک ہونا ہوگا اور مسلم ممالک ، او آئی سی کو بیانات سے آگے بڑھ کر ٹھوس سفارتی اقدامات اْٹھانے چاہئیں۔ مسلم ممالک کے مابین شدید اختلافات اپنی جگہ، ان کو صرف ایک کاز کے لیے نظرانداز کرکے ٹرمپ کو فیصلہ واپس لینے پر مجبور کرنے کے یک نکاتی ایجنڈے پر متحد ہونا چاہیے۔ مسلمانوں کے لیے متحد ہونے کا یہ اہم موقع ہے۔ مسلم ممالک میں سعودی عرب، پاکستان، ترکی اور ایران اہم ممالک ہیں۔ ان کو آگے بڑھ کر اپنی ذمے داری پوری کرنا ہوگی اور تمام مسلمانوں کو متحد ہونا ہوگا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلمان اور اسلام دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے ہی امریکا کے نریندر مودی، ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف انتہا پسندانہ اور متعصبانہ بیانات دینا شروع کردیے تھے اور اقتدار میں آنے کے بعد تمام مخالفتوں کے باوجود اپنے مسلم کُش بیانات کو اقدامات میں بدل کر مسلم دشمن ہونے کا بھرپور ثبوت دیا۔ اب امریکی صدر نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے پوری دنیا کو گویا جنگ کی بھٹی میں جھونکنے کی کوشش کی ہے۔
ٹرمپ کے یکطرفہ اور اہل اسلام کے لیے دل فگار انتہا پسندانہ فیصلے کے خلاف نہ صرف مسلم امہ سراپا احتجاج ہے، بلکہ فرانس، جرمنی، برطانیہ، روس، چین اور یورپی یونین نے بھی اس فیصلے کی شدید مخالفت کی ہے اور اس اندیشے کا اظہار کیا ہے کہ اس سے دنیا میں دہشتگردی بڑھے گی۔ اقوام متحدہ نے بھی اسے فلسطینیوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ پوری دنیا میں ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف شدید ردعمل یہ ثابت کرتا ہے کہ ٹرمپ صیہونیت نوازی میں اس حد تک چلے گئے ہیں کہ انھیں پوری دنیا کی مخالفت کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے اور وہ صہیونیت کی خاطر پوری دنیا سے ٹکرانے کے لیے بھی تیار ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کہتے ہیں کہ ان کو کوئی دماغی عارضہ نہیں، لیکن ان کی امریکا اور پوری دنیا کے مفادات کے برعکس پالیسیوں اور مسلمانوں کے خلاف اقدامات ٹرمپ کے بیان کی تصدیق نہیں کرتے۔
ٹرمپ کے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے کی وجہ سے پوری دنیا میں دہشتگردی کی آگ مزید بھڑک سکتی ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ٹرمپ پوری انسانیت کا قتل کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور پوری دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے شعلوں میں جھونکنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کے اقدامات سے لگ رہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ دنیا سے امن وسلامتی کا نام ونشان تک مٹ جائے اور ہر ملک، شہر اور ہر گھر نفرت اور خوف کی آگ میں جل کر بھسم ہو جائے۔
ان کے متعصبانہ اقدامات کی وجہ سے دنیا بھر میں امریکی سفارتخانے اور امریکی عملہ خطرے کی حدود میں داخل ہوچکا ہے، جس کی مکمل ذمے داری امریکی صدر ٹرمپ پر ہے۔ ٹرمپ نے اپنے اسلام دشمنی سے بھرے ہوئے جذبات کی تسکین کی خاطر صرف مسلم ممالک کو ہی نقصان نہیں پہنچایا، بلکہ خود اپنے ہم وطنوں کو بھی دنیا بھر میں غیر محفوظ کر دیا ہے اور دنیا بھر میں امریکیوں کے خلاف نفرتیں جنم لے رہی ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ وہ واحد امریکی صدر ہیں جنھوں نے ریپبلکن پارٹی کا امیدوار نامزد ہوتے ہی مسلم دنیا مخالف ایجنڈے کو اپنے منشور کا حصہ بنا کر بیت المقدس میں صہیونی بستیاں بسانے کے شیطانی منصوبے کی حمایت کی اور پوری اسلامی دنیا پر اسلامی دہشتگردی کا لیبل لگایا۔ اسی تناظر میں ان کے مسلم کش انتہا پسندانہ منشور کے خلاف دنیا بھر سے ردعمل آنا شروع ہوا، مگر انھوں نے کسی بھی احتجاج کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے مسلم کش منشور کو امریکی پالیسیوں کا حصہ بنایا۔ اقتدار میں آتے ہی ٹرمپ انتظامیہ نے بیت المقدس کو اسرئیلی دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کی راہ بھی ہموار کرنا شروع کردی تھی، جسے ٹرمپ نے عملی جامہ پہنا کر اپنی اعلانیہ مسلم دشمنی کا ثبوت فراہم کردیا ہے۔
مسلمانوں کے قبلہ اول کو صہیونیت کا دارالحکومت تسلیم کرنے سے امریکی صدر نے درحقیقت مشرق وسطیٰ اور اسلامی دنیا میں ایک نئے خلفشار کی بنیاد رکھی ہے، جو بالآخر عالمی امن کی تباہی پر منتج ہوگی۔ قبلہ اول کے تحفظ کے لیے مسلم امہ اپنی جانیں دینے سے بھی گریز نہیں کرے گی اور اسرائیل سے اس کا قبضہ چھڑانے کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوگی۔ بیت المقدس مسلم دنیا کا قبلہ اول ہے اور اسے خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد مسلمانوں کے تیسرے مقدس ترین مقام کا درجہ حاصل ہے۔
صرف یہی نہیں، حضرت نبی آخرالزمان محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتویں آسمان کی جانب عرش معلیٰ کا مقدس سفر بھی مسجد اقصیٰ سے شروع ہوا تھا، اس لیے مسلم دنیا اپنے اس مقدس مقام کی حفاظت کے لیے بھی مر مٹنے کو تیار رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیت المقدس کے اطراف میں موجود فلسطینی نہتے ہونے کے باوجود برسوں سے اسرائیلی ٹینکوں کے سامنے ڈٹے کھڑے ہیں۔ 14 مئی 1948ء کو دنیا پر ناجائز وجود پانے والی ریاست اسرائیل نے اپنے قیام کے بعد سے آج تک وہ کون سا ظلم ہے جو مقدس فلسطین کے بے گناہ، معصوم اور مظلوم باسیوں پر روا نہیں رکھا ہو گا، لیکن کبھی بھی آپ نے فلسطینی بہادروں کے منہ سے ایک لفظ بھی مایوسی و ناامیدی اور کم ہمتی کا نہیں سنا ہوگا۔ اب بھی فلسطینیوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے، بلکہ وہ پہلے سے زیادہ استقامت اور جرأت کے ساتھ امریکی صدر کے فیصلے کو مسترد کررہے ہیں۔
حماس نے تو امریکی صدر کو جہنم کا دروازہ کھولنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ دنیا بھر میں موجود مسلمان امریکی صدر کے فیصلے کو مسترد کر چکے ہیں، لیکن اسے مسلمانوں پر مسلط کرنے کے نتائج بھیانک نکل سکتے ہیں۔ صہیونیوں کے انتہاپسند نمایندے ڈونلڈ ٹرمپ اگر اسلامی دنیا اور اقوام عالم کی خفگی اور مزاحمت کو نظرانداز کرکے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کی جنونیت پر کاربند رہتے ہیں تو اس سے امریکا اور اسرائیل کے خلاف ایک بڑی جنگ کا آغاز خارج ازامکان نہیں ہوگا۔ ٹرمپ نے یہ فیصلہ کرکے علاقائی اور عالمی امن کی نہیں، ایک نئے فساد اور عالمی تباہی کی بنیاد رکھی ہے۔
اس بات میں تو کوئی شک کی گنجائش ہی نہیں رہی کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے خلاف کل بھی متحد تھے اور آج بھی متحد ہیں۔ دونوں نے ہمیشہ مسلم ممالک میں خونریزی اور بدامنی کی آگ بھڑکائی ہے اور مسلمانوں کے مفادات کو نقصان پہنچایا ہے۔ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے تو اب باقاعدہ مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کردیا گیا ہے۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ مسلمانوں کو بھی متحد ہوجانا چاہیے۔ ڈونلڈٹرمپ نے اب جو گتھی الجھائی ہے وہ مسلم امہ کو بڑی دانش سے سلجھانے کی ضرورت ہے۔ آج مسلم ممالک کے مابین اتحاد اور یکجہتی کی اشدضرورت ہے۔مسلم ممالک قرآن کی روشنی میں ''امت واحدہ'' بننے اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کی کوشش کریں۔
عالم اسلام کے پاس ہر قسم کے عسکری اور معاشی وسائل موجود ہیں۔ اگر اسلامی ممالک متحد ہوجائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کا بال بیکا نہیں کرسکتی۔ اسلام دشمنوں نے اسلامی ممالک کو مختلف حیلے بہانوں سے تقسیم کررکھا ہے۔ یہ تقسیم اور انتشار عالم اسلام کے لیے زہر قاتل ہے۔ مسلمانوں کو اپنے اختلافات ختم کرکے ایک ہونا ہوگا اور مسلم ممالک ، او آئی سی کو بیانات سے آگے بڑھ کر ٹھوس سفارتی اقدامات اْٹھانے چاہئیں۔ مسلم ممالک کے مابین شدید اختلافات اپنی جگہ، ان کو صرف ایک کاز کے لیے نظرانداز کرکے ٹرمپ کو فیصلہ واپس لینے پر مجبور کرنے کے یک نکاتی ایجنڈے پر متحد ہونا چاہیے۔ مسلمانوں کے لیے متحد ہونے کا یہ اہم موقع ہے۔ مسلم ممالک میں سعودی عرب، پاکستان، ترکی اور ایران اہم ممالک ہیں۔ ان کو آگے بڑھ کر اپنی ذمے داری پوری کرنا ہوگی اور تمام مسلمانوں کو متحد ہونا ہوگا۔