پاکستانی فلم بین الاقوامی مارکیٹ میں لانے کیلیے عوام کی سپورٹ ضروری ہے عائشہ خان
نئے فلم میکرز نےاچھی فلمیں بنا کر ثابت کردیا ہے کہ اگرانھیں وسائل دیے جائیں تو مایوس نہیں کرینگے
معروف ماڈل واداکارہ عائشہ خان نے کہاہے کہ نئے فلم میکرز نے بالی ووڈ کے مقابلے میں اچھی فلمیں بنا کر ثابت کردیا کہ انھیں اگر وسائل دیے جائیں تو مایوس نہیں کریں گے۔
عائشہ خان نے کہا فلم ہو یاٹی وی ڈرامہ انتخاب سوچ سمجھ کر ہی کرتی ہوں۔ فلم بینوں کے مثبت رسپانس نے بھی پاکستانی فلم انڈسٹری کو نئی زندگی دی ہے۔ فلموں کے ذریعے ثقافت کو بھی پروموٹ کیا جانا چاہیے، نئے ٹیلنٹ نے ناممکن کو ممکن کردکھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ فلم مقبول اور فاسٹ میڈیم ہے، وقت کے ساتھ اس کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ اسی لیے ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی فلم میں سرمایہ کاری کرنے لگی ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان فلم انڈسٹری کا ایک سنہری دور تھا ہمارے پاس پڑھے لکھے اور باصلاحیت ڈائریکٹر، تکنیکار، رائٹر، نغمہ نگار، فنکار، موسیقار اور گلوکار تھے جنہوں نے کم وسائل کے باوجود یادگار فلمیں تخلیق کیں کہ جن کا آج بھی طوطی بولتا ہے۔
دوسروں کی طرح ہم فلم میکنگ کے بدلتے رحجانات کے ساتھ خود کو ہم آہنگ نہ کرسکے، جس کا خمیازہ بحران کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ عائشہ خان نے کہا کہ موجودہ حالات میں فلم ایک پراڈکٹ کی طرح ہے، جس کے اچھے بناؤسنگھارکے ساتھ اس کی کامیاب پروموشن بھی ضروری ہے۔
پاکستانی فلموں کی کامیابی کا کریڈٹ فلم بینوں کو بھی جاتا ہے کیونکہ اگریہ اپنی فلموں کی حوصلہ افزائی نہ کرتے تو شاید فلم انڈسٹری کی بحالی ایک خواب ہی رہتی۔ ہمارے فلم میکر فلم اور سینما انڈسٹری کو بین الاقوامی مارکیٹ پر لانے کیلیے کوشاں ہیں۔اس کے لیے انھیں پاکستانی عوام کی سپورٹ کی مزید ضرورت ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میرے نزدیک تعداد سے زیادہ کوالٹی اہمیت رکھتی ہے۔ عائشہ خان نے مزید کہا کہ ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھا ہے، اسی لیے تقریبات میں بھی کم ہی جاتی ہوں۔
عائشہ خان نے کہا فلم ہو یاٹی وی ڈرامہ انتخاب سوچ سمجھ کر ہی کرتی ہوں۔ فلم بینوں کے مثبت رسپانس نے بھی پاکستانی فلم انڈسٹری کو نئی زندگی دی ہے۔ فلموں کے ذریعے ثقافت کو بھی پروموٹ کیا جانا چاہیے، نئے ٹیلنٹ نے ناممکن کو ممکن کردکھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ فلم مقبول اور فاسٹ میڈیم ہے، وقت کے ساتھ اس کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ اسی لیے ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی فلم میں سرمایہ کاری کرنے لگی ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان فلم انڈسٹری کا ایک سنہری دور تھا ہمارے پاس پڑھے لکھے اور باصلاحیت ڈائریکٹر، تکنیکار، رائٹر، نغمہ نگار، فنکار، موسیقار اور گلوکار تھے جنہوں نے کم وسائل کے باوجود یادگار فلمیں تخلیق کیں کہ جن کا آج بھی طوطی بولتا ہے۔
دوسروں کی طرح ہم فلم میکنگ کے بدلتے رحجانات کے ساتھ خود کو ہم آہنگ نہ کرسکے، جس کا خمیازہ بحران کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ عائشہ خان نے کہا کہ موجودہ حالات میں فلم ایک پراڈکٹ کی طرح ہے، جس کے اچھے بناؤسنگھارکے ساتھ اس کی کامیاب پروموشن بھی ضروری ہے۔
پاکستانی فلموں کی کامیابی کا کریڈٹ فلم بینوں کو بھی جاتا ہے کیونکہ اگریہ اپنی فلموں کی حوصلہ افزائی نہ کرتے تو شاید فلم انڈسٹری کی بحالی ایک خواب ہی رہتی۔ ہمارے فلم میکر فلم اور سینما انڈسٹری کو بین الاقوامی مارکیٹ پر لانے کیلیے کوشاں ہیں۔اس کے لیے انھیں پاکستانی عوام کی سپورٹ کی مزید ضرورت ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میرے نزدیک تعداد سے زیادہ کوالٹی اہمیت رکھتی ہے۔ عائشہ خان نے مزید کہا کہ ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھا ہے، اسی لیے تقریبات میں بھی کم ہی جاتی ہوں۔