گیس سے دل تک
انسان کی زندگی کے فیصلے بندہ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کرتا ہے، لہٰذا اس پر یقین کے ساتھ شکر ادا کرنا سیکھیے۔
PESHAWAR:
اس کا خیال تھا کہ اسے گیس کی وجہ سے درد اٹھ رہا ہے، پچھلے کئی دنوں سے اس کے کھانے کے اوقات میں بے ترتیبی پیدا ہو رہی تھی پھر آفس کے مسائل الگ ذہن میں الجھنیں پیدا کر رہے تھے، شاید اسی لیے تیزابیت ہوگئی ہو۔ اس سے پہلے بھی ایسا ہوتا رہا تھا اور اس کے لیے وہ ڈاکٹر کی تجویز کردہ ادویات بھی استعمال کر رہا تھا، لیکن اس بار فائدہ نہیں ہوا۔
دوڑے ایک نجی اسپتال کی جانب جنھوں نے بلڈ پریشر چیک کیا، کچھ زیادہ تھا، لہٰذا ایک گولی اسے کنٹرول کرنے کی دی اور پھر حسب عادت جیساکہ نجی اسپتالوں میں ہوتا ہے جس میں سوڈیم کی زیادہ مقدار شامل ہوتی ہے اس میں کچھ ادویات ڈال کر ڈرپ لگا دی گئی، لیکن ابھی ڈرپ کو لگے زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ اس نے درد سے کراہنا شروع کردیا، ڈاکٹر کے پاس پھر دوڑے کہ درد ہورہا ہے، پر وہ نیک مرد ٹالتا رہا اور ایمرجنسی میں دوسرے مریضوں کو دوائیں لکھ لکھ کر دیتا رہا، بہرحال بڑی تگ و دو کے بعد آکر اس نے بلڈ پریشر چیک کیا جو کبھی زیادہ کبھی کم ہو رہا تھا، تو کچھ گھبرا سا گیا اور کہا کہ انھیں کارڈیو لے کر جائیے۔ اس کے ساتھ ہدایت کی کہ کراچی کے مشہور سرکاری دل کے اسپتال لے کر جائیے۔
فوراً اسے لے کر اسپتال پہنچے، فوری طور پر ایمرجنسی میں ساری ضروری تراکیب استعمال کی گئیں اور ایک بزرگ ڈاکٹر نے ای سی جی رپورٹ دیکھ کر ڈیکلیئر کردیا کہ کوئی دل کی بیماری نہیں ہے۔ پوچھا گیا کہ خدانخواستہ اگر ایسا درد دوبارہ اٹھے تو کیا کیا جائے؟ فرمانے لگے یہاں لے کر آجائیے گا۔ وہی تیزابیت کی گولیاں جو پہلے بھی ڈاکٹر نے لکھ کر دی تھیں پکڑا دیں کہ میڈیکل اسٹور سے خرید کر استعمال کریں۔ لو جی چھٹی ہوئی، دل خوش ہوگیا کہ خیر سے دل کا تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
گھر پہنچے آرام سے اور خدا کا شکر ادا کیا، ایک دن خیریت سے گزرا لیکن پھر دوسرے روز ویسا ہی درد اٹھا، وہ خود سمجھدار تھا، ڈاکٹر کے یہاں جانے کے بجائے شہر کے ایک نجی بڑے اسپتال جانے کو کہا، فوری طور پر لے جایا گیا، پتا چلا کہ دل کا دورہ پڑا تھا، ایک وین اٹھانوے فیصد بند ہے، فوری طور پر بھلے مانسوں نے کچھ لیے دیے بغیر انجیو گرافی اور ساتھ ساتھ انجیو پلاسٹی بھی کر ڈالی۔ یوں خدا کی قدرت سے ایک جوان، صحت مند خوش باش انسان کو زندگی نے ایک نیا سبق دیا۔ ہر درد گیس کا درد نہیں ہوتا۔ کھانے کے اوقات پر ہی تناول کرنا بہترین ہے۔ تلی ہوئی مصالحے دار اشیا کھانا عقل مندی نہیں۔
انسان کی زندگی کے فیصلے بندہ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کرتا ہے، لہٰذا اس پر یقین کے ساتھ شکر ادا کرنا سیکھیے، بلاوجہ میں ٹینشن لینے سے کبھی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ ٹینشن خون کے دباؤ میں اضافہ کرکے انسان کو دیگر امراض میں مبتلا کردیتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بیماری اوپر والے کی جانب سے ہی آتی ہے لیکن اس کا سبب انسان کی غفلت بھی بنتی ہے۔ عام طور پر انسان میں بیماریاں نظام ہضم میں خرابی کے باعث پیدا ہوتی ہیں، جن کا ایک بڑا سبب اپھارہ یا گیس ہوتا ہے۔ آنتوں میں ننانوے فیصد نائٹروجن، آکسیجن، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین ہے، یہ آنتوں میں بھی پیدا ہوتی ہے اور ماحول سے بھی داخل ہوتی ہے، ایسی غذائیں جن میں ریشہ زیادہ ہوتا ہے ان سے گیس پیدا ہوتی ہے کہ اسے جذب ہونے کا وقت نہیں ملتا جب کہ ماحول سے گیس داخل ہونے کی وجہ معدہ اور کھانے کی بالائی نالی میں داخل ہونے والی آکسیجن اور نائٹروجن گیس ڈکار کی صورت میں باہر آجاتی ہے، جب کہ آنتوں میں پیدا ہونے والی گیس جیسے میتھین، ہائیڈروجن، کاربن ڈائی آکسائیڈ، ریاح کی شکل میں خارج ہوجاتی ہے۔
یہ عام طور پر بیکٹیریا کے اثر سے پیدا ہوتی ہے، یہ عموماً جذب یا خارج ہوجاتی ہے ورنہ اپھارہ ہوتا ہے اور ڈکاروں کی وجہ سے بھی پریشانی پیدا ہوتی ہے۔ دالیں، پھلیاں، گوبھی، مولی، زیادہ چکنائی والے کھانے، پیاز، زیادہ کھیرا اور مٹھائیاں وغیرہ کھانے سے گیس پیدا ہوتی ہے، لہٰذا ایسے کھانوں کے ساتھ پانی نہیں پینا چاہیے، بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ ہر چیز کھانے کے بعد پانی ضرور پیتے ہیں لیکن مٹھائی، کھیر اور پھل وغیرہ کے بعد پانی پینے کو شاید اسی لیے ڈاکٹر اور حکیم صاحبان کی جانب سے منع کیا جاتا ہے۔ اسی طرح سے تمباکو نوشی، چاکلیٹ، کافی اور کولڈ ڈرنکس وغیرہ بھی نظام ہضم میں غلط اوقات پر کھانے سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
اگر رات کو کسی تقریب پر مرغن کھانے تناول فرمائیے تو اس کے کم ازکم دو گھنٹے تک لیٹنے کی کوشش نہ کریں اور نہ ہی پیٹ پر کس کر پیٹی یا کمربند باندھیں اس سے سینے میں جلن اور دوسری پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔
اس تیز رفتار دور میں جب کہ ترقی بہت بڑھ چکی ہے، کھانے پینے کی اشیا میں بھی مقابلے بازی کی فضا پیدا ہوچکی ہے، ایک سے ایک پکوان اب جھٹ پٹ تیار ہوجاتا ہے، لیکن کھانے میں خیال رہے کہ کون سا کھانا آپ کی صحت کے لیے بہترین ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ قطرہ قطرہ چکنائی آپ کے دل کی کسی شریان میں جم رہی ہو اور آپ کو خبر بھی نہ ہو۔
زیادہ نشاستے دار اشیا مثلاً کارن فلیکس اور میدے سے بنی اشیا مثلاً ڈبل روٹی، شیرمال، پاپے، پوریاں اور بیکری کی دوسری اشیا کا روزمرہ کا استعمال بھی انسانی صحت کے لیے ایک خطرہ ہے، کیونکہ ان کے زیادہ یا روز کے استعمال سے رگوں میں دوران خون کم ہوجاتا ہے، جس سے رگیں سخت اور تنگ ہوکر مرض قلب کا سبب بن جاتی ہیں۔ امریکن کالج آف کارڈیالوجی میں یہ مطالعہ ہوچکا ہے۔
اس موضوع پر مختلف انداز سے تحقیق کی گئی ہے کہ کون سی غذائیں انسانی صحت کے لیے خطرناک ہیں۔ کیا زیادہ نشاستہ والی غذائیں انسانی صحت کے لیے مفید ہیں، تو اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ غذا وہی اچھی جو متوازن اور قدرتی طریقوں سے حاصل کی گئی ہو، لیکن آخر میں ایک انسان اور اچھی سی بات جو ایک بڑے ڈاکٹر نے بڑے وثوق سے کہی تھی کہ اسلام میں دو وقت کی روٹی کا تصور بہت زبردست اور صحت بخش ہے۔ لہٰذا اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اس کا خیال تھا کہ اسے گیس کی وجہ سے درد اٹھ رہا ہے، پچھلے کئی دنوں سے اس کے کھانے کے اوقات میں بے ترتیبی پیدا ہو رہی تھی پھر آفس کے مسائل الگ ذہن میں الجھنیں پیدا کر رہے تھے، شاید اسی لیے تیزابیت ہوگئی ہو۔ اس سے پہلے بھی ایسا ہوتا رہا تھا اور اس کے لیے وہ ڈاکٹر کی تجویز کردہ ادویات بھی استعمال کر رہا تھا، لیکن اس بار فائدہ نہیں ہوا۔
دوڑے ایک نجی اسپتال کی جانب جنھوں نے بلڈ پریشر چیک کیا، کچھ زیادہ تھا، لہٰذا ایک گولی اسے کنٹرول کرنے کی دی اور پھر حسب عادت جیساکہ نجی اسپتالوں میں ہوتا ہے جس میں سوڈیم کی زیادہ مقدار شامل ہوتی ہے اس میں کچھ ادویات ڈال کر ڈرپ لگا دی گئی، لیکن ابھی ڈرپ کو لگے زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ اس نے درد سے کراہنا شروع کردیا، ڈاکٹر کے پاس پھر دوڑے کہ درد ہورہا ہے، پر وہ نیک مرد ٹالتا رہا اور ایمرجنسی میں دوسرے مریضوں کو دوائیں لکھ لکھ کر دیتا رہا، بہرحال بڑی تگ و دو کے بعد آکر اس نے بلڈ پریشر چیک کیا جو کبھی زیادہ کبھی کم ہو رہا تھا، تو کچھ گھبرا سا گیا اور کہا کہ انھیں کارڈیو لے کر جائیے۔ اس کے ساتھ ہدایت کی کہ کراچی کے مشہور سرکاری دل کے اسپتال لے کر جائیے۔
فوراً اسے لے کر اسپتال پہنچے، فوری طور پر ایمرجنسی میں ساری ضروری تراکیب استعمال کی گئیں اور ایک بزرگ ڈاکٹر نے ای سی جی رپورٹ دیکھ کر ڈیکلیئر کردیا کہ کوئی دل کی بیماری نہیں ہے۔ پوچھا گیا کہ خدانخواستہ اگر ایسا درد دوبارہ اٹھے تو کیا کیا جائے؟ فرمانے لگے یہاں لے کر آجائیے گا۔ وہی تیزابیت کی گولیاں جو پہلے بھی ڈاکٹر نے لکھ کر دی تھیں پکڑا دیں کہ میڈیکل اسٹور سے خرید کر استعمال کریں۔ لو جی چھٹی ہوئی، دل خوش ہوگیا کہ خیر سے دل کا تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
گھر پہنچے آرام سے اور خدا کا شکر ادا کیا، ایک دن خیریت سے گزرا لیکن پھر دوسرے روز ویسا ہی درد اٹھا، وہ خود سمجھدار تھا، ڈاکٹر کے یہاں جانے کے بجائے شہر کے ایک نجی بڑے اسپتال جانے کو کہا، فوری طور پر لے جایا گیا، پتا چلا کہ دل کا دورہ پڑا تھا، ایک وین اٹھانوے فیصد بند ہے، فوری طور پر بھلے مانسوں نے کچھ لیے دیے بغیر انجیو گرافی اور ساتھ ساتھ انجیو پلاسٹی بھی کر ڈالی۔ یوں خدا کی قدرت سے ایک جوان، صحت مند خوش باش انسان کو زندگی نے ایک نیا سبق دیا۔ ہر درد گیس کا درد نہیں ہوتا۔ کھانے کے اوقات پر ہی تناول کرنا بہترین ہے۔ تلی ہوئی مصالحے دار اشیا کھانا عقل مندی نہیں۔
انسان کی زندگی کے فیصلے بندہ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کرتا ہے، لہٰذا اس پر یقین کے ساتھ شکر ادا کرنا سیکھیے، بلاوجہ میں ٹینشن لینے سے کبھی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ ٹینشن خون کے دباؤ میں اضافہ کرکے انسان کو دیگر امراض میں مبتلا کردیتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بیماری اوپر والے کی جانب سے ہی آتی ہے لیکن اس کا سبب انسان کی غفلت بھی بنتی ہے۔ عام طور پر انسان میں بیماریاں نظام ہضم میں خرابی کے باعث پیدا ہوتی ہیں، جن کا ایک بڑا سبب اپھارہ یا گیس ہوتا ہے۔ آنتوں میں ننانوے فیصد نائٹروجن، آکسیجن، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین ہے، یہ آنتوں میں بھی پیدا ہوتی ہے اور ماحول سے بھی داخل ہوتی ہے، ایسی غذائیں جن میں ریشہ زیادہ ہوتا ہے ان سے گیس پیدا ہوتی ہے کہ اسے جذب ہونے کا وقت نہیں ملتا جب کہ ماحول سے گیس داخل ہونے کی وجہ معدہ اور کھانے کی بالائی نالی میں داخل ہونے والی آکسیجن اور نائٹروجن گیس ڈکار کی صورت میں باہر آجاتی ہے، جب کہ آنتوں میں پیدا ہونے والی گیس جیسے میتھین، ہائیڈروجن، کاربن ڈائی آکسائیڈ، ریاح کی شکل میں خارج ہوجاتی ہے۔
یہ عام طور پر بیکٹیریا کے اثر سے پیدا ہوتی ہے، یہ عموماً جذب یا خارج ہوجاتی ہے ورنہ اپھارہ ہوتا ہے اور ڈکاروں کی وجہ سے بھی پریشانی پیدا ہوتی ہے۔ دالیں، پھلیاں، گوبھی، مولی، زیادہ چکنائی والے کھانے، پیاز، زیادہ کھیرا اور مٹھائیاں وغیرہ کھانے سے گیس پیدا ہوتی ہے، لہٰذا ایسے کھانوں کے ساتھ پانی نہیں پینا چاہیے، بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ ہر چیز کھانے کے بعد پانی ضرور پیتے ہیں لیکن مٹھائی، کھیر اور پھل وغیرہ کے بعد پانی پینے کو شاید اسی لیے ڈاکٹر اور حکیم صاحبان کی جانب سے منع کیا جاتا ہے۔ اسی طرح سے تمباکو نوشی، چاکلیٹ، کافی اور کولڈ ڈرنکس وغیرہ بھی نظام ہضم میں غلط اوقات پر کھانے سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
اگر رات کو کسی تقریب پر مرغن کھانے تناول فرمائیے تو اس کے کم ازکم دو گھنٹے تک لیٹنے کی کوشش نہ کریں اور نہ ہی پیٹ پر کس کر پیٹی یا کمربند باندھیں اس سے سینے میں جلن اور دوسری پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔
اس تیز رفتار دور میں جب کہ ترقی بہت بڑھ چکی ہے، کھانے پینے کی اشیا میں بھی مقابلے بازی کی فضا پیدا ہوچکی ہے، ایک سے ایک پکوان اب جھٹ پٹ تیار ہوجاتا ہے، لیکن کھانے میں خیال رہے کہ کون سا کھانا آپ کی صحت کے لیے بہترین ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ قطرہ قطرہ چکنائی آپ کے دل کی کسی شریان میں جم رہی ہو اور آپ کو خبر بھی نہ ہو۔
زیادہ نشاستے دار اشیا مثلاً کارن فلیکس اور میدے سے بنی اشیا مثلاً ڈبل روٹی، شیرمال، پاپے، پوریاں اور بیکری کی دوسری اشیا کا روزمرہ کا استعمال بھی انسانی صحت کے لیے ایک خطرہ ہے، کیونکہ ان کے زیادہ یا روز کے استعمال سے رگوں میں دوران خون کم ہوجاتا ہے، جس سے رگیں سخت اور تنگ ہوکر مرض قلب کا سبب بن جاتی ہیں۔ امریکن کالج آف کارڈیالوجی میں یہ مطالعہ ہوچکا ہے۔
اس موضوع پر مختلف انداز سے تحقیق کی گئی ہے کہ کون سی غذائیں انسانی صحت کے لیے خطرناک ہیں۔ کیا زیادہ نشاستہ والی غذائیں انسانی صحت کے لیے مفید ہیں، تو اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ غذا وہی اچھی جو متوازن اور قدرتی طریقوں سے حاصل کی گئی ہو، لیکن آخر میں ایک انسان اور اچھی سی بات جو ایک بڑے ڈاکٹر نے بڑے وثوق سے کہی تھی کہ اسلام میں دو وقت کی روٹی کا تصور بہت زبردست اور صحت بخش ہے۔ لہٰذا اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔