رحمت کائنات ﷺ کے معمولات زندگی
آپؐ کا اخلاق قرآن تھا۔ ہمیشہ سچ بولتے، جھوٹ سے نفرت کرتے،وعدے کی پابندی کرتے، حق کی حمایت کرتے۔
SHABQADAR:
ذکر الٰہی :
اللہ کے رسول ﷺ کثرت سے ذکر الٰہی کرتے تھے۔ آپؐ ہر وقت اللہ کو یاد کرتے اور کثرت سے تسبیح و استغفار کرتے۔ ایک دن میں ستّر سے سو بار استغفار کرتے۔
چھوٹی چھوٹی باتوں پر اظہار تشکر فرماتے۔ جب خوش ہوتے تو فرماتے: اللہ کا شکر جس کے فضل سے نعمتیں تمام کو پہنچتی ہیں۔ جب کوئی نا پسندیدہ صورت حال پیش آتی تو بھی اللہ کا شکر ادا کرتے اور فرماتے: اللہ کا شکر ہر حال میں۔
نماز :
جب بھی کوئی معاملہ پیش آتا نماز کی طرف جلدی کرتے۔ نماز اپنے وقت پر پڑھتے۔ رات کا ایک طویل حصہ قیام کرتے۔ دورانِ قیام قرآن مجید کی قرأت ترتیل کے ساتھ کرتے۔ ہر آیت پر رکتے، آیات رحمت پر رک کر اللہ سے رحمت کا سوال کرتے، آیات عذاب پر رک کر پناہ مانگتے۔ اتنی عبادت کرتے کہ پاؤں سوج جاتے اور اگر کوئی استفسار کرتا تو فرماتے کیا، میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنو ں۔ لڑائی میں فتح ہوتی یا کوئی خوشی نصیب ہوتی تو فورا سجدہ کرتے۔
روزہ :
رمضان کے علاوہ شعبان میں بھی کثرت سے روزے رکھتے ۔ دیگر مہینوں میں بھی کبھی مسلسل روزے رکھتے کہ خیال ہوتا اب نہ چھوڑیں گے، کبھی چھوڑ دیتے تو لگتا اب نہ رکھیں گے۔ ہر قمری ماہ کی 15,14,13 تاریخ، پیر، جمعرات، محرم میں یومِ عاشورہ اور عشرۂ، ذوالحجہ کے روزے رکھتے۔ شوال کے چھے روزوں کا بھی اہتمام فرماتے۔ ماہ رمضان میں نیکیوں میں بہت بڑھ جاتے، خصوصاً صدقہ و خیرات کرنے میں تیز آندھی سے بھی زیادہ بڑھ جاتے۔ جبرائیل ؑ کے ساتھ قرآن مجید کا دور کرتے۔ جونہی رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا آپؐ خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے، خوب محنت کرتے اور کمر کس لیتے۔ ہر سال اعتکاف کرتے ۔ آپؐ کے ہر کام میں دوام ہوتا۔
عیدین:
عیدین پر خاص اہتمام فرماتے۔ غسل کرتے، بہترین لباس پہنتے۔ عید کے لیے پیدل آتے اور جاتے۔ عیدالفطر کے دن میٹھی چیز کھا کر نماز عید کے لیے جاتے۔ خطبہ ہمیشہ حمد و ثناء سے شروع کرتے اور اس میں قرآن مجید کی آیات پڑھتے۔ خطبے کے وقت آنکھیں سرخ ہو جاتیں اور آواز بلند ہوجاتی۔ خود بھی صدقہ کرتے اور دوسروں کو بھی صدقہ کرنے کا حکم دیتے۔ کوئی صدقہ لے کر آتا تو اس کو دعا دیتے۔ کسی سائل کو انکار نہ کرتے۔ اگر پاس کچھ نہ ہوتا تو خاموشی اختیار کرتے۔ مال کا ضیاع اور اسراف بالکل پسند نہ تھا۔
روز مرہ کے کام:
گھر والوں کی خدمت کرنے کو عیب نہ سمجھتے۔ جوتا سی لیتے۔ اپنے کپڑوں پر پیوند لگا لیتے اور سی لیتے۔ اپنے ہاتھ سے بکری کا دودھ دھو لیتے۔ ذاتی صفائی و ستھرائی کا خاص خیال رکھتے خصوصا منہ کی صفائی کا۔ جب صبح سو کر اٹھتے تو سب سے پہلے مسواک کرتے۔ گھر میں داخل ہوتے تو پہلا کام مسواک کرنا ہوتا۔ سوتے وقت بھی مسواک آپؐ کے پاس ہوتا یعنی رات کو آخری کام یہی کرتے۔ ہر نماز کے لیے الگ وضو کرتے، وضو کا آغاز بسم اللہ سے کرتے، کبھی ایک ہی وضو سے کئی نمازیں پڑھ لیتے۔
کھانا پینا:
کھانا بسم اللہ پڑھ کر شروع کرتے۔ دائیں ہاتھ سے کھاتے، اپنے سامنے سے تناول فرماتے۔ تین انگلیوں سے کھاتے، کھانے کے بعد انگلیاں چاٹ لیتے۔ کھانا کھاتے ہوئے ٹیک نہ لگاتے۔ زمین پر بیٹھتے اور زمین پر کھاتے تھے۔ کسی کھانے میں عیب نہ نکالتے۔ کھانے کے بعد اَلْحَمْدُﷲ کہتے۔ سخت گرم مشروب پسند نہ کرتے ۔ پینے میں سب سے زیادہ پسندیدہ ٹھنڈی اور میٹھی چیز ہوتی۔
سونا جاگنا:
کبھی بستر پر سوتے، کبھی زمین پر۔ دائیں کروٹ پر لیٹتے۔ عشاء سے قبل سونا پسند نہ کرتے۔ رات سونے سے قبل سرمہ لگاتے۔ دعا پڑھ کر سوتے اور دعا پڑھتے ہوئے جاگتے۔
چال ڈھال:
آپؐ کی چال باوقار و پرسکون تھی۔ سیدھا چلتے اور یوں لگتا جیسے زمین سامنے سے تہہ ہو رہی ہو یا آپ ؐپہاڑی کی ڈھلوان سے اتر رہے ہوں۔ کبھی جوتا پہن کر اور کبھی ننگے پاؤں بھی چلتے۔ یہ بات ناپسند تھی کہ کوئی آپؐ کے پیچھے چلے۔
لباس:
جس قسم کا کپڑا میسر ہوتا پہن لیتے۔ سوتی، کتانی، اونی، بہتر سے بہتر اور پیوند لگا لباس بھی پہن لیتے۔ غرو ر و تکبر اور شہرت کے لباس کی مذمت فرماتے۔ مردوں کو ریشم پہننے سے منع کرتے۔ عمومی طور پر سبز رنگ پسند تھا۔
ملاقات کے موقع پر سلام میں پہل کرتے ، مصافحہ کرتے، جب تک دوسرا شخص ہاتھ نہ چھوڑ تا آپؐ بھی نہ چھوڑتے۔ سلام کا جواب زبان سے دیتے۔ ملاقات کے وقت بات دھیان سے سنتے، پورے جسم کے ساتھ دوسرے کی طرف متوجہ ہوتے۔
کسی مجمع میں جاتے تو جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتے۔ مجلس میں جب کوئی ہنستا تو آپؐ بھی تبسم فرماتے۔ کوئی باہر کا آدمی سخت کلامی کرتا یا بے باکی سے کام لیتا تو تحمل سے کام لیتے اور سخت جواب نہ دیتے۔ احسان کا بدلہ دینے والے کے سوا کسی کی تعریف پسند نہ کرتے نیز تعریف میں مبالغہ آرائی بھی ناپسند تھی ۔
مجلس کے اختتام پر اللہ کا ذکر کرتے۔
آپ ؐکثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے تھے اور آپؐ کے کلام میں لغو اور بے کار باتیں نہ ہوتی تھیں۔ آپ ؐ کا کلام واضح تھا، سمجھانے کے لیے ٹھہر ٹھہر کر بولتے۔ گفت گو میں نہ کسی کی غیبت ہوتی نہ طعنہ زنی، کسی کی عیب جوئی نہ کرتے، کسی کی اندرونی باتوں کی ٹوہ میں نہ رہتے۔
بہت خوش مزاج تھے، خوش ہوتے تو چہرہ مبارک چمک اٹھتا گویا چودھویں کا چاند ہو۔ جب ناراض ہوتے تو چہرے پر ناراضی کا اظہار ہوتا گویا جو دل کے اندر تھا وہی باہر تھا۔ نہ خوشی میں قہقہے نہ رونے میں چیخ و پکار، بس آنکھیں اشک بار ہوتی تھیں۔ حضرت جریر ؓ کہتے ہیں کہ '' آپؐ نے کبھی مجھے اپنے پاس آنے سے نہیں روکا اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے آپؐ کو دیکھا ہو اور آپؐ مسکرائے نہ ہوں۔''
ایک دفعہ گھر تشریف لائے تو دیکھا گھر میں تصویر والا پردہ لٹک رہا ہے۔ آپؐ نے ناگواری کا اظہار کیا اور حضرت عائشہؓ سے کہا اس کو تبدیل کر دو۔
اخلاق:
آپؐ کا اخلاق قرآن تھا۔ ہمیشہ سچ بولتے، جھوٹ سے نفرت کرتے ، وعدے کی پابندی کرتے۔ حق کی حمایت کرتے۔ دیانت داری کا یہ عالم تھا کہ دشمن بھی صادق اور امین کہہ کر پکارتے۔ بہت بہادر اور نڈر تھے۔ مشکلات اور مصائب میں صبر کرنے والے تھے۔ نہایت بردبار اور متحمل تھے ۔
ازواج مطہراتؓ سے برتاؤ:
ازواجؓ کے ساتھ نہایت اچھا برتاؤ تھا، خوش خلقی سے پیش آتے۔
آپؐ نے فرمایا: ''تم میں سب سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہے اور میں تم میں سب سے بڑھ کر اپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہوں۔''
ازواجِ مطہراتؓ کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ کرتے۔ سفر پر لے جانے کے لیے ان کے درمیان قرعہ ڈالتے۔بچوں کے ساتھ انتہائی شفقت سے پیش آتے۔ ان کے پاس سے گزرتے تو خود سلام کرتے
فاطمہ ؓ آتیں تو ان کا ہاتھ اور ماتھا چومتے پھر خاص جگہ پر بٹھاتے۔ بچوں سے محبت اور لاڈ پیار کرتے۔
فجر کی نماز کے بعد مسجد میں ساتھیوں کے درمیان بیٹھ جاتے، ان کی باتیں سنتے، کوئی خواب سناتا تو مطلب بیان کرتے۔ شعر بھی سنتے، اس پر انعام بھی دیتے۔ غنیمت یا صدقہ بانٹتے۔ ہدیہ قبول کر تے اور بدلے میں بھی دیتے تھے۔ خوش بُو بہت پسند تھی اس لیے خوش بُو کا تحفہ کبھی ردّ نہ کرتے ۔ اچھے نام پسند کرتے اور برے نام تبدیل کر دیتے۔ ساتھیوں کے نام پیار سے بھی لیتے۔ مہمان نوازی میں کبھی ایسا بھی ہوتا کہ گھر میں موجود سب خوراک مہمانوں کی نذر ہو جاتی اور اہل خانہ فاقہ کرتے۔ دعوت بھی قبول کرتے، اگر کوئی غلام جو کی روٹی کی دعوت کرتا تو شرف قبولیت بخشتے۔ لوگوں کی ہدایت کے لیے تڑپتے۔ مصیبت زدوں کے کام آتے۔ یتیموں کی سرپرستی کرتے۔ مقروضوں کا قرض اتارنے میں مدد کرتے۔ غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کرتے، انہیں آزاد کرتے اور آزاد کرنے کی تاکید فرماتے۔ سوالیوں کے ساتھ معاملہ بہت مشفقانہ تھا ۔ لوگوں کے غم میں شریک رہتے۔
جانوروں پر خاص رحمت و شفقت فرماتے۔
ایک سفر کے دوران ایک صحابی نے چڑیا کے بچے پکڑ لیے جس پر چڑیا شور مچانے لگی تو انہیں بچے واپس گھونسلے میں رکھنے کا حکم دیا۔
ایک اونٹ آپؐ کو دیکھ کر مالک کی زیادتی کی شکایت بلبلانے کے انداز میں کرنے لگا تو آپؐ نے اس کے مالک کو تنبیہ کرتے ہوئے اللہ سے ڈرنے کی ہدایت فرمائی۔درختوں کو بلاوجہ کاٹنے اور کھیتیاں خراب کرنے سے منع فرماتے۔گویا تمام مخلوقات کے ساتھ آپؐ کا معاملہ مثالی تھا۔
ذکر الٰہی :
اللہ کے رسول ﷺ کثرت سے ذکر الٰہی کرتے تھے۔ آپؐ ہر وقت اللہ کو یاد کرتے اور کثرت سے تسبیح و استغفار کرتے۔ ایک دن میں ستّر سے سو بار استغفار کرتے۔
چھوٹی چھوٹی باتوں پر اظہار تشکر فرماتے۔ جب خوش ہوتے تو فرماتے: اللہ کا شکر جس کے فضل سے نعمتیں تمام کو پہنچتی ہیں۔ جب کوئی نا پسندیدہ صورت حال پیش آتی تو بھی اللہ کا شکر ادا کرتے اور فرماتے: اللہ کا شکر ہر حال میں۔
نماز :
جب بھی کوئی معاملہ پیش آتا نماز کی طرف جلدی کرتے۔ نماز اپنے وقت پر پڑھتے۔ رات کا ایک طویل حصہ قیام کرتے۔ دورانِ قیام قرآن مجید کی قرأت ترتیل کے ساتھ کرتے۔ ہر آیت پر رکتے، آیات رحمت پر رک کر اللہ سے رحمت کا سوال کرتے، آیات عذاب پر رک کر پناہ مانگتے۔ اتنی عبادت کرتے کہ پاؤں سوج جاتے اور اگر کوئی استفسار کرتا تو فرماتے کیا، میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنو ں۔ لڑائی میں فتح ہوتی یا کوئی خوشی نصیب ہوتی تو فورا سجدہ کرتے۔
روزہ :
رمضان کے علاوہ شعبان میں بھی کثرت سے روزے رکھتے ۔ دیگر مہینوں میں بھی کبھی مسلسل روزے رکھتے کہ خیال ہوتا اب نہ چھوڑیں گے، کبھی چھوڑ دیتے تو لگتا اب نہ رکھیں گے۔ ہر قمری ماہ کی 15,14,13 تاریخ، پیر، جمعرات، محرم میں یومِ عاشورہ اور عشرۂ، ذوالحجہ کے روزے رکھتے۔ شوال کے چھے روزوں کا بھی اہتمام فرماتے۔ ماہ رمضان میں نیکیوں میں بہت بڑھ جاتے، خصوصاً صدقہ و خیرات کرنے میں تیز آندھی سے بھی زیادہ بڑھ جاتے۔ جبرائیل ؑ کے ساتھ قرآن مجید کا دور کرتے۔ جونہی رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا آپؐ خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے، خوب محنت کرتے اور کمر کس لیتے۔ ہر سال اعتکاف کرتے ۔ آپؐ کے ہر کام میں دوام ہوتا۔
عیدین:
عیدین پر خاص اہتمام فرماتے۔ غسل کرتے، بہترین لباس پہنتے۔ عید کے لیے پیدل آتے اور جاتے۔ عیدالفطر کے دن میٹھی چیز کھا کر نماز عید کے لیے جاتے۔ خطبہ ہمیشہ حمد و ثناء سے شروع کرتے اور اس میں قرآن مجید کی آیات پڑھتے۔ خطبے کے وقت آنکھیں سرخ ہو جاتیں اور آواز بلند ہوجاتی۔ خود بھی صدقہ کرتے اور دوسروں کو بھی صدقہ کرنے کا حکم دیتے۔ کوئی صدقہ لے کر آتا تو اس کو دعا دیتے۔ کسی سائل کو انکار نہ کرتے۔ اگر پاس کچھ نہ ہوتا تو خاموشی اختیار کرتے۔ مال کا ضیاع اور اسراف بالکل پسند نہ تھا۔
روز مرہ کے کام:
گھر والوں کی خدمت کرنے کو عیب نہ سمجھتے۔ جوتا سی لیتے۔ اپنے کپڑوں پر پیوند لگا لیتے اور سی لیتے۔ اپنے ہاتھ سے بکری کا دودھ دھو لیتے۔ ذاتی صفائی و ستھرائی کا خاص خیال رکھتے خصوصا منہ کی صفائی کا۔ جب صبح سو کر اٹھتے تو سب سے پہلے مسواک کرتے۔ گھر میں داخل ہوتے تو پہلا کام مسواک کرنا ہوتا۔ سوتے وقت بھی مسواک آپؐ کے پاس ہوتا یعنی رات کو آخری کام یہی کرتے۔ ہر نماز کے لیے الگ وضو کرتے، وضو کا آغاز بسم اللہ سے کرتے، کبھی ایک ہی وضو سے کئی نمازیں پڑھ لیتے۔
کھانا پینا:
کھانا بسم اللہ پڑھ کر شروع کرتے۔ دائیں ہاتھ سے کھاتے، اپنے سامنے سے تناول فرماتے۔ تین انگلیوں سے کھاتے، کھانے کے بعد انگلیاں چاٹ لیتے۔ کھانا کھاتے ہوئے ٹیک نہ لگاتے۔ زمین پر بیٹھتے اور زمین پر کھاتے تھے۔ کسی کھانے میں عیب نہ نکالتے۔ کھانے کے بعد اَلْحَمْدُﷲ کہتے۔ سخت گرم مشروب پسند نہ کرتے ۔ پینے میں سب سے زیادہ پسندیدہ ٹھنڈی اور میٹھی چیز ہوتی۔
سونا جاگنا:
کبھی بستر پر سوتے، کبھی زمین پر۔ دائیں کروٹ پر لیٹتے۔ عشاء سے قبل سونا پسند نہ کرتے۔ رات سونے سے قبل سرمہ لگاتے۔ دعا پڑھ کر سوتے اور دعا پڑھتے ہوئے جاگتے۔
چال ڈھال:
آپؐ کی چال باوقار و پرسکون تھی۔ سیدھا چلتے اور یوں لگتا جیسے زمین سامنے سے تہہ ہو رہی ہو یا آپ ؐپہاڑی کی ڈھلوان سے اتر رہے ہوں۔ کبھی جوتا پہن کر اور کبھی ننگے پاؤں بھی چلتے۔ یہ بات ناپسند تھی کہ کوئی آپؐ کے پیچھے چلے۔
لباس:
جس قسم کا کپڑا میسر ہوتا پہن لیتے۔ سوتی، کتانی، اونی، بہتر سے بہتر اور پیوند لگا لباس بھی پہن لیتے۔ غرو ر و تکبر اور شہرت کے لباس کی مذمت فرماتے۔ مردوں کو ریشم پہننے سے منع کرتے۔ عمومی طور پر سبز رنگ پسند تھا۔
ملاقات کے موقع پر سلام میں پہل کرتے ، مصافحہ کرتے، جب تک دوسرا شخص ہاتھ نہ چھوڑ تا آپؐ بھی نہ چھوڑتے۔ سلام کا جواب زبان سے دیتے۔ ملاقات کے وقت بات دھیان سے سنتے، پورے جسم کے ساتھ دوسرے کی طرف متوجہ ہوتے۔
کسی مجمع میں جاتے تو جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتے۔ مجلس میں جب کوئی ہنستا تو آپؐ بھی تبسم فرماتے۔ کوئی باہر کا آدمی سخت کلامی کرتا یا بے باکی سے کام لیتا تو تحمل سے کام لیتے اور سخت جواب نہ دیتے۔ احسان کا بدلہ دینے والے کے سوا کسی کی تعریف پسند نہ کرتے نیز تعریف میں مبالغہ آرائی بھی ناپسند تھی ۔
مجلس کے اختتام پر اللہ کا ذکر کرتے۔
آپ ؐکثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے تھے اور آپؐ کے کلام میں لغو اور بے کار باتیں نہ ہوتی تھیں۔ آپ ؐ کا کلام واضح تھا، سمجھانے کے لیے ٹھہر ٹھہر کر بولتے۔ گفت گو میں نہ کسی کی غیبت ہوتی نہ طعنہ زنی، کسی کی عیب جوئی نہ کرتے، کسی کی اندرونی باتوں کی ٹوہ میں نہ رہتے۔
بہت خوش مزاج تھے، خوش ہوتے تو چہرہ مبارک چمک اٹھتا گویا چودھویں کا چاند ہو۔ جب ناراض ہوتے تو چہرے پر ناراضی کا اظہار ہوتا گویا جو دل کے اندر تھا وہی باہر تھا۔ نہ خوشی میں قہقہے نہ رونے میں چیخ و پکار، بس آنکھیں اشک بار ہوتی تھیں۔ حضرت جریر ؓ کہتے ہیں کہ '' آپؐ نے کبھی مجھے اپنے پاس آنے سے نہیں روکا اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے آپؐ کو دیکھا ہو اور آپؐ مسکرائے نہ ہوں۔''
ایک دفعہ گھر تشریف لائے تو دیکھا گھر میں تصویر والا پردہ لٹک رہا ہے۔ آپؐ نے ناگواری کا اظہار کیا اور حضرت عائشہؓ سے کہا اس کو تبدیل کر دو۔
اخلاق:
آپؐ کا اخلاق قرآن تھا۔ ہمیشہ سچ بولتے، جھوٹ سے نفرت کرتے ، وعدے کی پابندی کرتے۔ حق کی حمایت کرتے۔ دیانت داری کا یہ عالم تھا کہ دشمن بھی صادق اور امین کہہ کر پکارتے۔ بہت بہادر اور نڈر تھے۔ مشکلات اور مصائب میں صبر کرنے والے تھے۔ نہایت بردبار اور متحمل تھے ۔
ازواج مطہراتؓ سے برتاؤ:
ازواجؓ کے ساتھ نہایت اچھا برتاؤ تھا، خوش خلقی سے پیش آتے۔
آپؐ نے فرمایا: ''تم میں سب سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہے اور میں تم میں سب سے بڑھ کر اپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہوں۔''
ازواجِ مطہراتؓ کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ کرتے۔ سفر پر لے جانے کے لیے ان کے درمیان قرعہ ڈالتے۔بچوں کے ساتھ انتہائی شفقت سے پیش آتے۔ ان کے پاس سے گزرتے تو خود سلام کرتے
فاطمہ ؓ آتیں تو ان کا ہاتھ اور ماتھا چومتے پھر خاص جگہ پر بٹھاتے۔ بچوں سے محبت اور لاڈ پیار کرتے۔
فجر کی نماز کے بعد مسجد میں ساتھیوں کے درمیان بیٹھ جاتے، ان کی باتیں سنتے، کوئی خواب سناتا تو مطلب بیان کرتے۔ شعر بھی سنتے، اس پر انعام بھی دیتے۔ غنیمت یا صدقہ بانٹتے۔ ہدیہ قبول کر تے اور بدلے میں بھی دیتے تھے۔ خوش بُو بہت پسند تھی اس لیے خوش بُو کا تحفہ کبھی ردّ نہ کرتے ۔ اچھے نام پسند کرتے اور برے نام تبدیل کر دیتے۔ ساتھیوں کے نام پیار سے بھی لیتے۔ مہمان نوازی میں کبھی ایسا بھی ہوتا کہ گھر میں موجود سب خوراک مہمانوں کی نذر ہو جاتی اور اہل خانہ فاقہ کرتے۔ دعوت بھی قبول کرتے، اگر کوئی غلام جو کی روٹی کی دعوت کرتا تو شرف قبولیت بخشتے۔ لوگوں کی ہدایت کے لیے تڑپتے۔ مصیبت زدوں کے کام آتے۔ یتیموں کی سرپرستی کرتے۔ مقروضوں کا قرض اتارنے میں مدد کرتے۔ غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کرتے، انہیں آزاد کرتے اور آزاد کرنے کی تاکید فرماتے۔ سوالیوں کے ساتھ معاملہ بہت مشفقانہ تھا ۔ لوگوں کے غم میں شریک رہتے۔
جانوروں پر خاص رحمت و شفقت فرماتے۔
ایک سفر کے دوران ایک صحابی نے چڑیا کے بچے پکڑ لیے جس پر چڑیا شور مچانے لگی تو انہیں بچے واپس گھونسلے میں رکھنے کا حکم دیا۔
ایک اونٹ آپؐ کو دیکھ کر مالک کی زیادتی کی شکایت بلبلانے کے انداز میں کرنے لگا تو آپؐ نے اس کے مالک کو تنبیہ کرتے ہوئے اللہ سے ڈرنے کی ہدایت فرمائی۔درختوں کو بلاوجہ کاٹنے اور کھیتیاں خراب کرنے سے منع فرماتے۔گویا تمام مخلوقات کے ساتھ آپؐ کا معاملہ مثالی تھا۔