بیت المقدس اسرائیل کے چنگل میں

امریکی سپر پاور کی آشیرباد سے اسرائیلی حکومت القدس شریف پر قبضے کے عیارّانہ پلان پہ عمل پیرا ہو گئی، رپورٹ

آج مشرقی بیت المقدس میں واقع یہودی بستیوں میں ’’دو لاکھ یہود‘‘ آباد ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

6 دسمبر 2017ء کو آخر بلی تھیلے سے باہر آگئی، جب امریکی صدر، ڈونالڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت کی حیثیت سے تسلیم کرلیا۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ امریکی سفارت خانہ اگلے تین برس میں تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کردیا جائے گا۔

امریکی صدر نے مختلف وجوہ کی بنا پر یہ متنازع قدم اٹھایا جن میں امت مسلمہ کی نااتفاقی، یہود سے قربت، امریکا میں عیسائی صیہونیوں کا بڑھتا اثرورسوخ اور کاروباری مفادات نمایاں ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے بعض ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ صدر ٹرمپ کو اس ضمن میں ایک بااثر عرب شہزادے کی حمایت بھی حاصل تھی۔

ڈونالڈ ٹرمپ کا یہ فیصلہ اچانک ضرور ہے مگر غیر متوقع نہیں! یہ برطانیہ اور امریکا ہی ہیں جن کے بل بوتے پر یہود اسرائیل کا قیام عمل میں لائے۔ جب 1917ء میں ''اعلان بالفور'' کے ذریعے یہودی بینک کاروں اور سرمایہ داروں نے برطانوی حکومت کی حمایت سے اسرائیل قائم کرنے کا عندیہ ظاہر کیا، تو 1919ء میں امریکی حکومت نے بھی سرکاری طور پر اس اقدام پر مہر تصدیق ثبت کردی تھی۔

21 ستمبر 1922ء کو امریکی پارلیمنٹ (کانگریس) نے یہ قرارداد منظور کرلی کہ فلسطین میں یہود کے لیے ایک وطن قائم کیا جائے گا۔ دراصل بیسویں صدی کے اوائل تک یہودی سرمایہ دار امریکا میں ایک بڑی قوت بن چکے تھے۔ ان کے اثرورسوخ کی وجہ سے امریکی حکمران طبقہ یہود کے مفادات کا نگران بن گیا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا نے فلسطین میں مقیم یہود کو وافر تعداد میں جدید ترین اسلحہ دیا۔ اسی اسلحے کی بدولت یہود کم تعداد میں ہونے کے باوجود عرب افواج پر غالب آگئے اور انہوں نے اپنی مملکت اسرائیل قائم کرلی۔

29 نومبر 1947ء کے دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرار دیا کہ بیت المقدس کو ایک بین الاقوامی شہر کا درجہ دے دیا جائے کیونکہ وہاں دنیا کے تین بڑے مذاہب...عیسائیت، اسلام اور یہودیت کے مقدس مقامات واقع ہیں۔ مگر یہود نے زبردستی اس مقدس شہر پر قبضہ کرلیا۔ یہی نہیں، اسرائیلی حکومت نے 5 دسمبر 1949ء کو اعلان کر ڈالا کہ بیت المقدس اسرائیل کا دارالحکومت ہوگا۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی بیت المقدس کو بین الاقوامی شہر قرار دے چکی تھی، اسی لیے دنیا کے کسی بھی ملک نے اسرائیلی فیصلہ تسلیم نہیں کیا۔ بیشتر ممالک نے تل ابیب ہی میں اپنے سفارت خانے کھولے اور بیت المقدس میں سفارتی سرگرمیاں انجام دینے سے گریز کیا۔

بیسویں صدی کے آخری دہائیوں میں یہ صورتحال سامنے آئی کہ خطے میں دو مملکتیں... اسرائیل اور فلسطین قائم کردی جائیں۔ مشرقی بیت المقدس میں فلسطینی مسلمانوں کی آبادی زیادہ تھی۔ لہٰذا وہ مستقبل کی ریاست فلسطین کا دارالحکومت قرار پایا۔ مغربی بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بننا تھا۔ دنیا کے تقریباً سبھی ممالک نے اس صورت کو تسلیم کرلیا اور قرار دیا کہ یوں خطّے میں امن و امان آسکے گا۔

امریکا شروع دن سے مملکت اسرائیل کو بھاری مالی و عسکری امداد دے رہا ہے۔اسی امداد کے ذریعے اسرائیل مشرق وسطیٰ ہی نہیں دنیا میں ایک بڑی عسکری و معاشی قوت بن گیا۔ جب دو مملکتیں قائم کرنے کا نظریہ سامنے آیا، تو امریکی حکمران طبقے نے 8 نومبر 1995ء کو ''یروشلم ایمبیسی ایکٹ'' منظور کرلیا۔ اس قانون کے ذریعے قرار پایا کہ مئی 1999ء تک امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کردیا جائے گا۔

اسرائیلی حکومت مگر مملکت فلسطین کے قیام میں رکاوٹیں ڈالنے لگی۔ اس سلسلے میں مختلف تاویلیں پیش کی گئیں۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں نے پھر یہ بھی کوشش کی کہ فلسطینیوں کی دو بڑی جماعتوں، الفتح اور حماس کے مابین پھوٹ ڈلوا دے۔ اس مشن میں وہ کامیاب رہیں۔ چناں چہ اسرائیلی سازشوں کے باعث اب تک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں نہیں آسکا۔

1995ء کے بعد آنے والے تمام امریکی صدور نے یروشلم ایمبیسی ایکٹ پر عمل درآمد نہیں کیا... وہ اسرائیل ۔فلسطین مسئلے میں غیر جانبدار رہنا چاہتے تھے۔ تاہم صدر ڈونالڈ ٹرمپ قدامت پسند لیڈر ہیں۔ پھر انہوں نے انتخابی مہم میں سفید فام قدامت پسند ووٹروں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکی سفارت خانہ یروشلم لے جائیں گے۔ اسی لیے انہوں نے اپنا وعدہ پورا کردیا۔حسب توقع دنیا بھر میں صدر ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت کی گئی۔عالم اسلام کے سبھی بڑے ممالک میں امریکی صدر اور امریکا و اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہوئے۔غزہ میں تو مظاہرین پہ اسرائیلی فوج نے بم باری کر دی جس سے چار فلسطینی شہید اور کئی زخمی ہو گئے۔ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف احتجاج تاحال جاری ہے۔

امریکا دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے علی الاعلان بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلیا ۔ اب رفتہ رفتہ خصوصاً یورپ کے ممالک بھی امریکا کے نقش قدم پر چل سکتے ہیں۔ اگرچہ بیشتر یورپی ملکوں نے فی الحال ٹرمپ کے فیصلے پر اظہار ناخوشی کیا ہے۔یہ فیصلہ یقیناً صدر ٹرمپ نے تنہا نہیں کیا، انہیں حکمران جماعت، ریپلکن پارٹی کے بیشتر ارکان کانگریس کی حمایت حاصل ہوگی۔ یہ عین ممکن ہے کہ صدر ٹرمپ یہ بھی سمجھتے ہوں کہ اس فیصلے سے شوروغوغا تو بہت بلند ہوگا مگر خاص طور پر اسلامی ممالک کے حکمرانوں میں اتنا بوتا نہیں کہ وہ امریکا کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام کرسکیں۔

اس وقت متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، ملائشیا، ترکی، انڈونیشیا، قطر، مصر، کویت، الجزائر اور پاکستان امریکا کے تجارتی ساتھیوں میں شامل نمایاں اسلامی ملک ہیں۔ صدر ٹرمپ کے حالیہ متنازع فیصلے کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ درج بالا اسلامی ممالک زبانی جمع خرچ ہی سے احتجاج کریں گے یا تجارتی تعلقات ختم یا محدود کرکے بھی اپنی ناراضی دکھائیں گے۔ماضی میں سعودی شاہ فیصل نے امریکا کا تیل بند کر کے وہاں ہلچل مچا دی تھی۔اب ٹرمپ نے امت مسلمہ کو للکار کر دیکھنا چاہا ہے کہ کوئی جی دار اور غیرت مند اسلامی حکمران موجود ہے یا کرسیوں پر سبھی مفادات کے اسیر بیٹھے ہیں۔


1948ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیلی فوج نے مغربی بیت المقدس پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس جنگ کے دوران فلسطین سے ساڑھے سات لاکھ فلسطینی مسلمان گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ فلسطینی اس آفت عظیم کو ''النکبہ'' (خوفناک تباہی) کے نام سے یاد کرتے ہیں۔



1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیلی فوج نے مشرقی بیت المقدس پر بھی قبضہ کرلیا۔ اس قبضے کو کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا مگر صدر ٹرمپ کے حالیہ بیان سے رفتہ رفتہ صورت حال تبدیل ہوسکتی ہے۔ وجہ یہ کہ اسرائیلی حکومت مختلف اقدامات سے مشرقی بیت المقدس کو ہتھیانے کی سرتوڑ کوشش کررہی ہے۔ان اقدامات کی داستان عیاں کرتی ہے کہ عالم اسلام خواب ِغفلت سے بیدار نہ ہوا تو اسرائیل پورے بیت المقدس کو ہڑپ کر لے گا اور ڈکار بھی نہیں مارے گا۔

مشرقی بیت المقدس میں اسرائیلی کے ہتھکنڈے

مشرقی بیت المقدس ہی میں مسجد اقصیٰ اور مسلمانوں کے دیگر مقدس مقامات واقع ہیں۔ امت کے نزدیک یہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعد عالم اسلام کا تیسرا مقدس ترین شہر ہے۔ اسی لیے تمام مسلمان بیت المقدس کو بہت عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔جب 1948ء میں اسرائیل نے مغربی بیت المقدس پر قبضہ کیا، تو وہاں مقیم سبھی مسلمان مشرقی حصے میں منتقل ہوگئے تھے۔ پھر 1967ء میں مشرقی بیت المقدس پر بھی اسرائیل قابض ہوگیا۔ تب سے اسرائیلی حکومت ایسے مختلف اقدامات کررہی ہے جن کے ذریعے نہ صرف بیت المقدس سے زیادہ سے زیادہ مسلمان بے دخل ہوجائیں بلکہ مقامی آبادی میں یہود کی تعداد بڑھ سکے۔


1980ء میں اسرائیلی حکومت نے ''یروشلم ایکٹ'' نامی قانون منظور کرلیا۔ اس قانون کے تحت تمام اسرائیلی قوانین مشرقی بیت المقدس پر بھی لاگو کردیئے گئے۔ مقصد یہی تھا کہ مشرقی بیت المقدس پر اپنے قبضے کو مستحکم کیا جاسکے۔ اسرائیلی حکمران طبقے کی منشا یہی ہے کہ پورے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنا یا جائے۔ یہ منزل پانے کی خاطر اسرائیلی حکومت اپنی پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اور دیگر انتظامی اداروں کو بھی یروشلم میں لے آئی۔

تاریخ شاہد ہے کہ یہود نے فلسطین میں مسلمانوں سے زمینیں خرید کر انہیں بے دخل کیا۔ اسرائیلی حکومت مشرقی بیت المقدس میں بھی اسی پالیسی پر کاربند ہوگئی۔ یہی نہیں، زمینیں چھیننے کی خاطر زور زبردستی سے بھی کام لیا گیا۔ مسلمانوں کی زمینیں ہتھیا کر وہاں یہودی بستیاں قائم کی جانے لگیں۔ آج مشرقی بیت المقدس کا ''86 فیصد حصہ'' اسرائیل کے براہ راست کنٹرول میں ہے۔ اس علاقے میں تقریباً پونے پانچ لاکھ لوگ بستے ہیں۔ ان میں 58 فیصد مسلمان ہیں اور بقیہ یہودی۔ مگر مسلمانوں اور یہود کے معیار زندگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہود کو سرکاری طور پر تمام سہولیات و آسائش میسر ہیں جبکہ مسلمانوں کو بنیادی سہولیات زندگی دیتے ہوئے بھی قسم قسم کی رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں۔ مدعا یہی ہے کہ مشرقی بیت المقدس کے مسلمان اپنی جائیدادیں یہود کو فروخت کرکے مغربی کنارے یا غزہ چلے جائیں۔

آج مشرقی بیت المقدس میں واقع یہودی بستیوں میں ''دو لاکھ یہود'' آباد ہیں۔ یہ تمام بستیاں فلسطینی مسلمانوں سے ہتھیائی یا خریدی زمینوں پر بنائی گئی ہیں۔ اسرائیلی حکومت کی دیدہ دلیری دیکھیے کہ اس نے عین اسلامی محلوں کے درمیان بھی ایک یہودی بستی قائم کردی۔ وہاں اسرائیلی فوج کی حفاظت میں دو ہزار یہودی رہتے ہیں۔

2002ء میں اسرائیل نے مغربی کنارے میں ایک دیوار بنانا شروع کی جو علاقے میں سانپ کے مانند بل کھاتی پھیلی ہوئی ہے۔ اس نے مغربی کنارے اور بیت المقدس میں مسلمانوں کے قصبوں، دیہات، محلوں اور خاندانوں کو تقسیم کردیا۔ لہٰذا اب مسلمانوں کو ایک جگہ سے دوسرے مقام تک جانے میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ دیوار مشرقی بیت المقدس میں آباد مسلمانوں کی مشکلوں میں اضافہ کرنے کی خاطر بھی بنائی گئی۔

مستقبل کی فلسطینی ریاست میں مغربی کنارا اور غزہ پٹی شامل ہوں گے۔ اسرائیلی حکومت مگر مغربی کنارے میں بیت المقدس کے نزدیک زیادہ سے زیادہ یہودی بستیاں تعمیر کررہی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ان بستیوں کو یروشلم کا حصہ دکھا کر اس علاقے پر بھی قبضہ کیا جاسکے۔ان یہودی بستیوں کی زیادہ تعداد مشرقی بیت المقدس کے نزدیک واقع ہے۔ یہ بھی اسرائیلی حکمران طبقے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ ان بستیوں میں تقریباً دو لاکھ یہودی آباد ہیں۔ اگر اسرائیل نے ان بستیوں کو مشرقی بیت المقدس کا حصہ بنایا، تو علاقے میں مسلمان اقلیت میں بدل جائیں گے۔ اسرائیلی حکومت یہی صورت حال پیدا کرنا چاہتی ہے تاکہ مسلمان پھر مشرقی بیت المقدس کو مجوزہ فلسطینی ریاست کا دارالحکومت نہ بناسکیں۔ یہودی اکثریت ہونے کے ناتے علاقے پر ان کا دعویٰ کمزور پڑجائے گا۔

مشرقی بیت المقدس میں رہائش پذیر مسلمانوں کو مکان، دفتر یا دکان بنانے اور کاروبار شروع کرنے کی خاطر بلدیہ شہر سے لائسینس لینا پڑتا ہے۔ لیکن یہودی بلدیہ مسلمانوں کی ''99 فیصد'' درخواستیں نامنظور کردیتی ہے۔ یہ اسرائیلی حکومت کا مسلمانان مشرقی بیت المقدس پر ایک اور کاری وار ہے۔ مسلمانوں کو پھر اجازت نامے کے بغیر گھر یا دکان تعمیر کرنا پڑتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق علاقے میں ایسی ''20 ہزار'' تعمیرات وجود میں آچکیں جو اسرائیلی قانون کی رو سے غیر قانونی ہیں۔

بیت المقدس میں سوا تین لاکھ فلسطینی مسلمان آباد ہیں۔ ان میں صرف 59 فیصد کو پانی، عوامی ٹرانسپورٹ، سیوریج لائنوں اور دیگر سرکاری سہولیات حاصل ہیں۔ بقیہ ایک لاکھ چالیس ہزار فلسطینی گویا بے بس و مجبور عوام کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ مزید یہ کہ اسرائیلی حکومت نے ان پر ٹیکسوں کا انبار لاد رکھا ہے۔ ان تمام مصائب کی وجہ سے مشرقی بیت المقدس میں مقیم مسلمان رفتہ رفتہ ہجرت کرکے مغربی کنارے جارہے ہیں۔ اسرائیلی حکمران طبقے نے بیت المقدس پر قبضے کا جو شاطرانہ اور ظالمانہ پلان تیار کیا ہے، اس میں اسے کامیابی ملتی نظر آتی ہے۔n
Load Next Story