یونیسکو سے وابستگی کے دوران تعلیم بالغاں کے موضوع پر تحقیقی کام کیا رحمان فراز

ویتنام کی جنگ دراصل امریکی معیشت پر بوجھ بن گئی تھی۔

فنون کے ابتدائی شمارے دیکھیں تو کوئی شمارہ میری نظم کے بغیر نہیں، معروف شاعر اور صحافی رحمان فراز کی جیون کہانی

پہلا منظر ......!!
گلگشت کالونی ملتان میں سہ پہر کے بعد پروفیسر سید صفدر امام کا گھر ایک بلند آہنگ بیٹھک میں تبدیل ہو جاتا تھا، جہاں بیچوں بیچ ان کا حقہ ہوتا تھا' وہاں ایک بہت سمارٹ شخص فلیٹ ہیٹ پہنے ریلے سائیکل پر سوار آتا، اسے بھی سید صفدر امام کی طرح حقہ کا ذوق تھا یہ وہ مہذب دانشور تھا جو انگریزی اور اردو صحافت کے علاوہ یونیسکو سے بھی وابستہ رہا۔

اس کے پاس امریکہ سے حاصل کیا ہوا' ڈپلومہ آف جرنلزم بھی تھا' اس کا تعلق جھنگ سے تھا' اسی زمانے میں رحمان فراز نے کئی مرتبہ اردو اکادمی میں اپنی نظمیں تنقید کیلئے پیش کیں اور ہم لوگوں نے محسوس کیا کہ اکادمی کے سینئر ناقدین چوہدری نذیر احمد' ڈاکٹر عرش صدیقی' پروفیسر فرخ درانی' عابد عمیق' مسعود اشعر اور فیاض تحسین اس شاعر کو سنجیدگی سے پڑھنے اور سننے لگے تھے۔ بہت سی تعریفوں کے بعد بھی اس شاعر کو میں نے خود پسندی کا شکار ہوتے نہیں دیکھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس شخص کو قدرت نے پیدا ہی روادار اور بردبار کیا ہے ...... عرصہ بعد پروفیسر شمیم ترمذی کے ساتھ رحمان فراز کے گھر حاضری دی تو دنیا ہی بدلی ہوئی پائی۔ میں محمد حسین آزاد نہیں کہ انشاء اللہ خان انشاء کے آخری دور کا نقشہ کھینچ سکوں۔

دوسرا منظر
ڈاکٹرز کہتے ہیں آپ کو بظاہر کوئی خطرناک بیماری نہیں ہے' آپ نے خود کو گھر میں ہی نظر بند کر لیا ہے' یہ نظر بندی ختم کریں اور چلا پھرا کریں لیکن بیٹا میں چلتا ہوں تو لڑکھڑا جاتا ہوں' کمر سیدھی نہیں ہوتی' پرسوں کی بات ہے میں نے سوچا اپنی ادویہ منگوالوں ایک عزیز دوست کا بیٹا ادویہ لا دیتا ہے۔ میں یہاں سے اٹھا' بال پوائنٹ اٹھایا' کلپ بورڈ اٹھانے کیلئے بڑھا تو مجھے چکر آیا اور میں گر گیا' میرا ہونٹ پھٹ گیا' سر پر بھی چوٹیں آئیں۔ میں گھر میں اکیلا پڑا رہتا ہوں' میرے بہت سے عزیز دوستوں کی وفات ہو گئی کسی نے مجھے بتایا ہی نہیں میرے پاس کوئی آتا ہی نہیں...!!

جدید اردو نظم کے اہم ترین شاعر رحمان فراز کے حوالے سے ڈاکٹر انوار احمد کے ایک مضمون کا اقتباس اور ان کی موجودہ صورتحال کا نقشہ آپ نے ملاحظہ کیا۔ آئیے 22 پیر خورشید کالونی ملتان کے ایک اداس گھر میں رہنے والے رحمان فراز کی جیون کہانی کی طرف بڑھتے ہیں :

شور کوٹ سے جھنگ کی طرف جائیں تو سات میل کے فاصلے پر برلب سڑک ایک موضع ''میرک سیال'' آتا ہے، جھنگ اور شور کوٹ سے بھی قدیم اس موضع کے بارے میں آثار قدیمہ والے کہہ چکے ہیں کہ اس کی کھدائی ہونا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ یہاں لوگوں کی بودو باش کے کتنے ادوار گزرے ہیں۔ رحمان فراز میرک سیال کے اسی قدیم موضع میں 26 اکتوبر 1935ء کو پیدا ہوئے، تقسیم سے پہلے میرک سیال کی نوے فیصد آبادی ہندوؤں پر مشتمل تھی، چند گھر سکھوں کے بھی تھے' مسلمان بہت کم تعداد میں تھے وہ بھی زمینداروں کے کام کاج کرنے والے، میرک سیال میں رحمان فراز کا گھرانہ ایک ایسا گھرانہ تھا جس کی اس زمانے میں بھی نمایاں شناخت بنتی تھی اور اس گھرانے کی شناخت علم و ادب سے گہری وابستگی تھی، رحمان فراز بتاتے ہیں:

''میرا تعلق پنجوانہ سیال خاندان سے ہے جو چھ صدیوں سے میرک سیال میں آباد تھا۔ ہمارے خاندان میں علمی روایت بہت پرانی ہے، میرے دادا فتح محمد خان سرکاری ملازم تھے، والد عبدالوہاب خان عربی، فارسی کے فاضل اور مڈل سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے، میرے ایک چچا جلال الدین خان بھی ہیڈ ماسٹر اور فارسی کے فاضل تھے، انہوں نے دو کتابیں لکھی ہیں ''نور اللغات فارسی'' اور ''نور التراکیب'' یہ دونوں کتابیں ملک نور الٰہی نے شائع کی تھیں جو ''احسان'' اخبار لاہور کے مالک اور میرے چچا کے قریبی دوست تھے' ہم بھی انہیں چچا ہی کہتے تھے۔

چچا جلال الدین کے بیٹے ڈاکٹر این اے سیال گائنی کے معروف ترین ڈاکٹر اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے پرنسپل بھی رہے۔ میرے والد کثیر المطالعہ شخص تھے اور ان کی زیادہ تر دوستیاں ہندوؤں سے تھیں جو بہت پڑھے لکھے لوگ تھے ہمارے گھر کے قریب ہی ایک ہندو سادھو بھان گر رہتا تھا، ابا جان بتاتے تھے کہ وہ عربی میں ماسٹرز تھا اور قرآن حکیم کو بھی اس نے کئی بار پڑھا تھا، ان کے ایک دوست دیوی دیال بھی تھے، گاؤں میں ہمارا اور دیوی دیال کا کنواں مشترک تھا، ان سے اکثر کنویں پر ملاقات ہوتی تھی، وہ ہندوؤں کے کسی کالج کے ریٹائرڈ پرنسپل تھے۔

والد صاحب قیام پاکستان کے بعد بہت افسردہ رہنے لگے، گھر میں اداس بیٹھے رہتے اور بھگت کبیر کے اشلوک گنگناتے رہتے، میں نے ایک دن کہا ابا جان! آپ باہر کیوں نہیں جاتے، لوگوں سے ملتے کیوں نہیں، انہوں نے لمبی سی آہ بھر کر کہا، یار مجھے جن لوگوں سے ملنا ہے وہ یہیں بیٹھے ہیں، یہ سرسید احمد خان بیٹھا ہے، یہ شبلی نعمانی، مجھے جب کسی سے ملنا ہوتا ہے تو میں ان سے مل لیتا ہوں، ان سے گفتگو بھی کرلیتا ہوں۔ پھر کہنے لگے میرے سارے دوست ہندو تھے' وہ بڑے فاضل لوگ تھے وہ سب چلے گئے تو میں کس سے بات کروں، اب جو لوگ ہیں وہ کپاس، گندم اور تمباکو کے نرخ ہی ڈسکس کرتے ہیں۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا، ہندو ہمارے مقابلے میں زیادہ تعلیم یافتہ اور زیادہ کلچرڈ تھے، جب بھی ملتے ہاتھ جوڑ کر ملتے، نمستے مہاراج' جھکے ہوئے عاجزی سے ہاتھ جوڑ کر ملنے والے جبکہ ہماری گردن الامان:''۔

رحمان فراز نے ابتدائی تعلیم میرک سیال سے حاصل کی، اس وقت پرائمری چوتھی جماعت تک تھا اور اسی درجے میں ہی پرائمری کا مقابلہ کا امتحان بھی ہوتا تھا، رحمان فراز نے چوتھی جماعت میں وکٹوریہ کراس سکالر شپ حاصل کیا جس کیلئے تحصیل سطح پر مقابلہ ہوا کرتا تھا، اس سکالر شپ کے اجراء کے بعد مسلسل دس سال ہندو طالبعلم ہی کامیاب ہوتے رہے، رحمان فراز وکٹوریہ کراس سکالر شپ حاصل کرنے والے پہلے مسلمان طالبعلم تھے۔

اس سکالر شپ کے ساتھ ایک شرط یہ بھی تھی کہ پانچویں جماعت سے انگریزی لازمی مضمون کے طور پر پڑھی جائے، سو یہ پانچویں جماعت میں شور کوٹ ہائی سکول میں داخل ہوئے اور سکول کے بورڈنگ ہاؤس میں رہنے لگے، چھٹی جماعت میں انہوں نے اردو کا فرسٹ پرائز حاصل کیا جو دو کتابوں پر مشتمل تھا ایک ''مختصر تاریخ ہند'' اور دوسری ''مسدس حالی'' ، مسدس حالی انہوں نے ساری حفظ کر لی تھی، اسی سکول میں تعلیم کے دوران انہیں شعر گوئی کا لپکا ہوا، سکول کے بیشتر طلباء ہندو تھے۔

چاندنی راتوں میں سکول کے بڑے صحن میں چارپائیاں نکال لی جاتیں اور بیت بازی شروع ہو جاتی، ایک طرف اکیلے رحمان فراز اور دوسری طرف طلباء کا ایک پورا گروپ، رحمان فراز پھر بھی انہیں ہرا دیتے، اسی ماحول میں رہتے ہوئے جب یہ آٹھویں جماعت میں آئے تو خود بھی شعر کہنے لگے، قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان میرک سیال سے جھنگ منتقل ہوگیا، گورنمنٹ ہائی سکول جھنگ صدر سے انہوں نے 1950ء میں میٹرک کیا اور ایف اے کیلئے گورنمنٹ کالج جھنگ میں داخلہ لے لیا' جہاں معروف شاعر بیدل پانی پتی ان سے ایک سال جونیئر جبکہ صاحبزادہ رفعت سلطان ایک سال سینئر تھے۔

جھنگ کالج میں تعلیم کے دوران ان کی شعری صلاحیتیں مزید نکھر کر سامنے آئیں جس میں پروفیسر تقی انجم علیگ اور پروفیسر جابر علی سید کی حوصلہ افزائی کا بھی بہت ہاتھ تھا۔ سیکنڈ ایئر میں تھے کہ ڈاکٹر نذیر احمد بطور پرنسپل گورنمنٹ کالج جھنگ آگئے، انہی کے ہاتھوں رحمان فراز کو ''بیسٹ پویئٹ آف دی کالج'' کا ایوارڈ ملا، اس طرح انٹر کالجیٹ مشاعرہ منعقدہ گورنمنٹ زمیندارہ کالج گجرات سے بھی انہوں نے بطور شاعر پہلا انعام حاصل کیا، گورنمنٹ کالج جھنگ سے انہوں نے ''فرسٹ پرائز ان اردو'' بھی حاصل کیا، جھنگ سے ایف اے کرنے کے بعد رحمان فراز 1952ء میں گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان میں داخل ہوئے، ایمرسن کالج میں ملتان کے معروف ماہر آثاریات مرزا ابن حنیف اور معروف شاعر پروفیسر اصغر علی شاہ ان کے ہم جماعت تھے، ایمرسن کالج میں تعلیم کے دوران ہی ان کی خاص فکری و ادبی تربیت ہوئی، بتاتے ہیں :

''ملتان میں میری ابتدائی دوستی معروف صحافی حشمت وفا سے ہوئی، اس زمانے میں ''امروز'' لاہور سے شائع ہوتا تھا اور حشمت وفا ملتان میں ''امروز'' کے نمائندہ تھے، میری ان سے بڑی تیزی سے دوستی ہوئی وہ عموماً صبح کا ناشتہ کالج میں میرے ساتھ کرتے تھے' انہوں نے ہی مجھے ارشد ملتانی اور عطاء اللہ ملک سے ملوایا، ترقی پسندی کے اثرات بھی مجھ پر حشمت وفا کی وجہ سے ہوئے، پولیس اکثر حشمت وفا پر پابندی لگا دیتی تھی کہ تم تین مہینے شہر کی حدود میں نہیں آ سکتے، ان کی عدم موجودگی میں، میں ان کی خبریں ''امروز'' لاہور بھیجتا تھا، یوں صحافت کا چسکا بھی مجھے حشمت وفا کی وجہ سے ہی پڑا، حشمت وفا ہی مجھے ترقی پسند مصنفین کے اجلاس میں لے کر گئے جو ان دنوں قلعہ کہنہ پر نگار خانہ کے عقب میں ہوا کرتا تھا۔

مجھے یاد ہے اجلاس میں ہم سات آٹھ لوگ مستقل ہوتے تھے ہماری تعداد کبھی دس سے اوپر نہیں ہوئی، علامہ عتیق فکری، ارشد ملتانی، عطاء اللہ ملک، باسم میواتی، حشمت وفا، بہادر علی گردیزی یہ لوگ مستقل ممبر تھے، اجلاس میں تخلیقات پر گفتگو ہوتی تھی، یہ اس وقت کا ملتان تھا۔

ارد گرد ہی انٹیلی جنس والے پھرتے رہتے تھے' ایک بار وہ میرے ہاسٹل گھس آئے وہاں ہمارے وارڈن ایم وائی شیخ تھے انہوں نے ان کو مطمئن کرکے بھیج دیا کہ یہ سٹوڈنٹ میرے زیر نگرانی ہے میں اس کو اچھی طرح جانتا ہوں یہ ایسی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوسکتا۔ ملتان میں ضیاء صدیقی کے ہاں ''بزم ضیائے ادب'' کے مشاعروں میں بھی جاتا رہا، ضیاء صدیقی میرے بڑے بھائی فیض احمد شور کوٹی کے دوست تھے، بھائی نے ہی ان سے پہلی ملاقات کرائی تھی، ضیاء صدیقی کے ہاں ہی میری عبدالحمید عدم سے بھی ملاقات ہوئی، ایک بار میں، میرے بھائی فیض شور کوٹی اور ضیاء صدیقی عدم صاحب سے ملنے ڈیرہ اسماعیل خان بھی گئے تھے جہاں ہم دو راتیں ان کے مہمان رہے''۔

ایمرسن کالج ملتان میں بی اے کے امتحان جاری تھے' رحمان فراز کو پتہ چلا کہ مری لینگویج کے نام سے ایک سکول ہے جہاں غیر ملکیوں کو اردو پڑھائی جاتی ہے اور اس کیلئے ٹیچر چاہئیں جو گریجوایٹ ہوں یا کر رہے ہوں، رحمان فراز نے اس اسامی کیلئے اپلائی کیا اور سلیکٹ ہوکر مری لینگویج سکول مری پہنچ گئے۔ اس سکول میں گرمیوں کے چار مہینے پورے پاکستان سے غیر ملکی پڑھنے آتے، ستمبر میں امتحان ہوجاتے تھے، اکتوبر کے پہلے ہفتے وہ سکول ختم ہوجاتا تھا۔ اس سکول میں بہت سے ایسے غیر ملکی بھی زیر تعلیم تھے جو پاکستان میں مختلف پراجیکٹ پر کام کر رہے تھے۔

مری لینگویج سکول میں ملازمت کے دوران انہوں نے کوئٹہ، لاہور، پنڈی، ساہیوال، ملتان اور مری میں پڑھایا، مری لینگویج سکول میں تدریس کے دوران ہی یہ کچھ عرصہ امریکن ایمبیسی میں بھی اردو پڑھاتے رہے، جہاں انہیں پتہ چلا کہ یونیسکو میں کچھ اسامیاں ہیں، امریکن ایمبیسی کے تھرڈ سیکرٹری جوان کے سٹوڈنٹ تھے نے رحمان فراز سے کہا آپ کیوں نہیں اپلائی کرتے' یوں یہ سکالر شپ پر امریکہ چلے گئے، وہاں انہوں نے یونیسکو میں ملازمت بھی کی اور جرنلزم میں ڈپلومہ بھی، بتاتے ہیں:

''یونیسکو کے ساتھ میں بطور ریسرچ سکالر وابستہ ہوا اور میرا موضوع تھا تعلیم بالغاں، اس سلسلے میں مصر گیا اور قاہرہ میں، میں نے ٹریننگ بھی حاصل کی، مصر کے بعد وہ مجھے مزید ٹریننگ کیلئے انڈونیشیا بھیج رہے تھے لیکن وہاں حکومت کا تختہ الٹ گیا، اس لئے میں انڈونیشیا نہیں جاسکا۔ میں نے جو ریسرچ کی تھی اس کی بنیاد پر ہم اپر پنجاب میں کچھ کرنے والے تھے لیکن امریکہ ان دنوں ویتنام کی جنگ میں بری طرح پھنسا ہوا تھا اور جنگ اس کی معیشت پر بار بن گئی تھی، امریکہ وہاں سے افراتفری کے عالم میں نکلا چنانچہ انہوں نے مغربی پاکستان میں جتنے بھی یونیسکو کے مراکز تھے سب بند کردئیے البتہ مشرقی پاکستان کے کچھ مراکز کھلے رہے، میری تمام تر ریسرچ بھی یونیسکو کی بھینٹ چڑھ گئی، امریکی اسے ساتھ باندھ کر لے گئے جس کا بعد میں کچھ پتہ نہ چلا، یونیسکو میں میری ملازمت کا دورانیہ 5 سال کا ہے' اس دوران میں امریکہ، مصر، لاہور، ساہیوال، پنڈی اور کوئٹہ میں رہا''۔

رحمان فراز کو صحافت کی طرف ان کے دوست حشمت وفا لائے، امریکہ میں قیام کے دوران انہوں نے ڈپلومہ بھی جرنلزم میں کیا، یونیسکو سے وابستگی ختم ہونے کے بعد یہ دوبارہ ملتان آگئے، ان دنوں ''کوہستان'' ملتان سے شائع ہوتا تھا اور اس اخبار کو سب ایڈیٹرز کی ضرورت تھی، کوہستان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر ملک منظور جو ایمرسن کالج میں ان سے ایک سال سینئر تھے، انہیں کوہستان میں لے آئے، کوہستان میں کام کرتے ہوئے کچھ عرصہ ہی گزرا تھا کہ ملتان کینٹ میں گھومتے ہوئے ان کی ملاقات ڈاکٹر مبشر حسن سے ہوگئی جن سے ان کی لاہور کے قیام کے دنوں سے شناسائی تھی، رحمان فراز نے بتایا:

''ڈاکٹر مبشر حسن ملتے ہی کہنے لگے یہاں کیسے، میں نے کہا میں یہاں جاب کررہا ہوں پھر مجھے کہا کہ بھٹو صاحب سے ملے ہو میں نے کہا نہیں، تو کہا آؤ تمہیں بھٹو صاحب سے ملواتے ہیں۔ بھٹو صاحب اس وقت تھانہ کینٹ کی بیک سائیڈ پر کھر ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے تھے، ان سے ملے تو مجھے یاد ہے بھٹو صاحب کے منہ سے پہلا جملہ ہی یہ نکلا' ''بھئی تم کیسے ڈاکٹر مبشر حسن کے دوست ہو ہم نے تو ایوب خان کے خلاف تحریک شروع کررکھی ہے اور تم ایوب خان کے حامی اخبار کوہستان میں کام کرتے ہو''، میرے بولنے سے پہلے ہی ڈاکٹر مبشر حسن بول پڑے جی میں نے ان کا انتظام نوائے وقت میں کر دیا ہے، اگلے مہینے یہ کوہستان میں نہیں ہونگے۔

یوں ڈاکٹر مبشر حسن مجھے نوائے وقت میں لے آئے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب بیگم حمید نظامی اور مجید نظامی کے درمیان جھگڑا ہوگیا تھا، کچھ عرصہ میں نے نوائے وقت ملتان میں کام کیا، مجھے پتہ چلا کہ مجھے نکال رہے ہیں تو میں ڈاکٹر مبشر حسن کے پاس گیا یہ مجھے بیگم حمید نظامی کے پاس لے گئے لیکن وہاں کے حالات دیکھ کر میں نے نوائے وقت خود ہی چھوڑ دیا۔ کچھ عرصہ کیلئے میں نے پاکستان ٹائمز میں بھی کام کیا جس کیلئے مسعود اشعر نے مجھے فون کرکے ''امروز'' کے دفتر بلایا اور آئی اے رحمان سے ملوایا تھا۔ 7 جولائی 1970ء کو جب مساوات کا اجراء ہوا تو میں اس کی پہلی ٹیم کا حصہ تھا جس میں شفقت تنویر مرزا، احمد بشیر، حسین نقی اور منو بھائی شامل تھے، مساوات کیلئےملتان سے اور لوگ بھی کام کرنے کے خواہش مند تھے لیکن سب کو انکار کردیا گیا کہ یہ سیٹ رحمان فراز کیلئے ہے۔ دراصل یہ لوگ رحمان فراز کو اس سیٹ پر بھوکوں مارنے کیلئے لائے تھے۔ میں مساوات کے اجراء سے اس کی بندش تک وابستہ رہا لیکن مساوات کی انتظامیہ نے مجھے کبھی باقاعدگی سے معاوضہ نہیں دیا، آخری وقت میں تو یہ حال ہوگیا تھا کہ میرے پاس ڈاک بھیجنے کے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے۔''


رحمان فراز جدید اردو نظم کے ان شعراء میں شامل ہیں جن کا اپنے عہد کی نامور علمی و ادبی شخصیات سے گہرا تعلق رہا، ان میں مجید امجد، ن م راشد، احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا، میرزا ادیب' استاد یوسف ظفر، جعفر طاہر، احمد ظفر اور سید علی عباس جلالپوری جیسی شخصیات شامل ہیں۔ لاہور، ساہیوال، راولپنڈی اور مری میں یونیسکو سے وابستگی کے دوران ان نامور شخصیات کے ساتھ ان کا روز کا اٹھنا بیٹھنا تھا۔ احمد ندیم قاسمی سے ان کی دوستی 1963ء میں ہوئی جو ان کی وفات تک قائم رہی، رحمان فراز فنون کے اجراء اور اس کے پہلے دفتر کی بے سروسامانی کو بھی اپنی یادوں میں محفوظ کئے ہوئے ہیں' بتاتے ہیں:

فنون کا پہلا آفس لاہور میں بائبل ہاؤس کے سامنے اور مدینہ سٹیشنری کے اوپر ایک بہت بڑے چوبارہ میں تھا جس کے آگے برآمدہ تھا، برآمدہ بھی ایسا کہ اسے بند کردیا جاتا تو کمرہ بن جاتا، پچھلے کمرے میں فنون کے معاون مدیر حبیب اشعر دہلوی مطب کرتے تھے' اگلے برآمدہ کو صاف کرکے کرسیاں اور بڑا سا میز رکھ دیا گیا تھا، میں نے ایک بار وہاں قاسمی صاحب کو جھاڑو دیتے بھی دیکھا، اس وقت ان کے اتنے وسائل ہی نہیں تھے کہ ملازم رکھتے اگر آپ فنون کے ابتدائی شمارے دیکھیں تو کوئی شمارہ میری نظم کے بغیر نہیں ہے، قاسمی صاحب نے مجھے ایک خط میں لکھا تھا کہ آپ کی نظم اتنی مکمل ہوتی ہے کہ بعض اوقات ہمیں حیرت ہوتی ہے' نظم آپ کی پہچان بن چکی ہے۔

میں قاسمی صاحب کے بہت قریب رہا ہوں' انہوں نے اپنی زندگی کے بہت سے واقعات بھی مجھے سنائے، مثلاً انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک بار وہ انارکلی سے نیلا گنبد کی طرف آرہے تھے کہ سامنے سے ابراہیم جلیس آتا دکھائی دیا، اس نے ملتے ہی کہا ، قاسمی صاحب 24 گھنٹے ہوگئے ہیں میں نے کچھ نہیں کھایا، میں نے کہا میرے پاس صرف اٹھنی ہے کھانا میں نے بھی ہے تو کہنے لگا واہ کام بن گیا یوں میں نے اور ابراہیم جلیس نے دو دو آنے کے چکڑ چھولے لئے' اس زمانے میں موٹی تندوری روٹی ایک آنے کی ملتی تھی ہم نے چار آنے کی چار روٹیاں لیں، کھانا کھایا تو سارے ''پیسے'' ختم ہوگئے، میں نے کہا سگریٹ کہاں سے پئے جائیں ابراہیم جلیس کہنے لگا وہ کوئی مسئلہ نہیں قریب ہی ایک دکان پر میرا کھاتا چلتا ہے یوں اس نے چھ سگریٹ لئے تین آپ رکھے اور تین مجھے دیئے۔

مجھے قاسمی صاحب اور ڈاکٹر وزیر آغا کی لڑائی کی ابتداء بھی یاد ہے جو آخری دم تک چلی' انہوں نے ساری عمر ایک دوسرے کو معاف نہیں کیا۔ فنون کے ابتدائی شماروں میں وزیر آغا کی نظمیں اور مضامین بھی شائع ہوتے تھے کسی ابتدائی شمارے میں وزیر آغا نے ایک مضمون لکھا ''میرا جی اور وشنو مت''، فنون کا اگلا شمارہ آیا تو اس میں ہندوستان کے بڑے معروف نقاد عمیق حنفی نے مضمون لکھا ''میرا جی وشنو مت اور وزیر آغا'' اور اس میں انہوں نے وزیر آغا کے خوب لتے لئے، اسی مضمون کی وجہ سے دونوں میں بگاڑ پیدا' ہوا، وزیر آغا کا خیال تھا کہ یہ مضمون قاسمی صاحب نے لکھوایا ہے۔''

رحمان فراز کا بنیادی تعلق جھنگ سے ہے، جھنگ جہاں مغلوں کے دور سے علمی و ادبی روایت چلی آرہی تھی میں پنجابی اور اردو کے بہت سے اہم ترین شاعر سامنے آئے، جن میں دمودر داس، بھائی ویرسنگھ، شیر افضل جعفری، مجید امجد، جعفر طاہر، معین تابش، بیدل پانی پتی، رام ریاض' صفدر سلیم سیال اور رحمان فراز شامل ہیں۔ شیر افضل جعفری جنہوں نے اردو شاعری میں مقامی ڈکشن کا پیوند لگایا، رحمان فراز کے والد کے دوستوں میں شامل تھے اسی طرح جعفر طاہر رحمان فراز کے بڑے بھائی فیض شور کوٹی کے کلاس فیلو اور قریبی دوست تھے۔ ہم نے مجید امجد اور جعفر طاہر کی شاعری میں منفرد ترین ڈکشن کے حوالے سے سوال کیا تو کہنے لگے:



مجید امجد کا شروع ہی سے جھنگ کے کچھ ہندو شاعروں سے دوستانہ تھا، یہ سب لوگ شام کو اکٹھے ہوتے تھے اور جو کچھ لکھا ہوتا، ایک دوسرے کو سناتے، ہندی ڈکشن سے مجید امجد کی رغبت اسی دور کی ہے لیکن یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ مجید امجد مولانا ظفر علی خان سے بہت متاثر تھے، خصوصاً ان کا جو قافیہ بندی کا شعور تھا' مولانا کا ایک شعر ہے:

توقع خیر کی رکھو نہ لبرل سے نہ ٹوری سے

کبھی آٹا نکل سکتا نہیں چونے کی بوری سے

اب یہ ''ٹوری'' کے ساتھ ''بوری'' کا قافیہ باندھنا انہی کا کمال تھا، امجد صاحب کہتے تھے کہ میں نے جوش کو پڑھا مجھے انہوں نے اتنا متاثر نہیں کیا دوسروں کو وہ بہت اچھے لگے لیکن میں اپنی الگ راہ بنانا چاہتا تھا' انہوں نے اپنی الگ راہ اس طرح بنائی کہ اپنی ڈکشن سے تلازمہ کو توڑا' جو ذخیرہ الفاظ اور جو تراکیب ان کے ہال ملتی ہیں وہ دوسرے شاعروں کے ہاں بہت کم بلکہ ہے ہی نہیں یہ ان کی ذاتی کاوش تھی، امجد صاحب میر انیس سے بھی بہت متاثر تھے۔ ساہیوال میں قیام کے دوران میرا مجید امجد صاحب سے بہت گہرا تعلق رہا۔

جھنگ کے شاعر جعفر طاہر مجھ سے عمر میں بڑے اور میرے بھائی فیض احمد شور کوٹی کے کلاس فیلو تھے، جعفر طاہر فوج کی ملازمت کے سلسلہ میں بہت سے علاقوں میں رہے، اس لئے ان کے ہاں بھی ڈکشن بہت وسیع اور مختلف تھا لیکن جعفر طاہر اور مجید امجد کے موضوعات قطعی مختلف ہیں' ان دونوں کا موازنہ بنتا ہی نہیں۔ جعفر طاہر نے جو ''ہفت کشور'' لکھی ہے اس کے کچھ حصے انہوں نے راولپنڈی میں مجھے خود سنائے تھے، وہ کہتے تھے میں وہ شاعری کررہا ہوں جو آج تک کسی نے نہیں کی۔''

رحمان فراز نے مغربی ادب اور ادبی تحریکوں کا مطالعہ بہت باریک بینی سے کیا' ایزرا پاؤنڈ' ٹی ایس ایلیٹ اور آئر لینڈ کے شاعر ڈبلیو بی ییٹس ان کے پسندیدہ شعراء میں رہے' انہوں نے انگریزی کی کچھ نظموں کے تراجم بھی کئے' ترقی پسند تحریک کے بھی ان کی شاعری پر گہرے اثرات ہیں' ہندی اور فارسی ادب سے بھی رغبت رہی قدیم فارسی شاعری کے علاوہ جدید فارسی شاعری بھی ان کے مطالعہ میں رہی' رحمان فراز ان شعراء میں شامل ہیں جو زندگی بھر صلہ و ستائش کی تمنا کئے بغیر تخلیقی کام کرتے رہے۔

ادبی محافل سے اس قدر گریزاں کہ کبھی کسی مشاعرہ میں نہیں گئے' البتہ دوستوں کی محافل میں اپنا کلام ضرور سنا دیتے وہ بھی فرمائش کرنے پر، جدید اردو نظم کے اہم ترین شاعر ہونے کے باوجود ادبی دنیا میں انہیں وہ شہرت نہیں مل سکی جس کے یہ حقدار تھے' اس کی ایک وجہ تو ان کا اپنا مزاج دوسرا ان کی کتابوں کی عدم اشاعت ہے۔

رحمان فراز کے بڑے بھائی فیض احمد شیر کوٹی جو اردو اور فارسی کے شاعر تھے سے رحمان فراز نے وعدہ کیا تھا کہ وہ پہلے ان کی شاعری چھپوائیں گے بعد ازاں اپنی شاعری کو منظر عام پر لائیں گے لیکن زندگی بھر ان کے حالات ایسے رہے کہ یہ دونوں منصوبے ادھورے رہ گئے۔ اگر رحمان فراز کی شاعری بروقت منظر عام پر آتی تو آج ان کا شمار اہم ترین نظم نگاروں میں ہوتا اور ان کی پذیرائی کا عالم بھی کچھ اور ہوتا۔ ایک زمانے کی تاخیر کے بعد 2016ء میں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ اردو نے ''کلیات رحمان فراز'' شائع کی جو اس جامعہ کے طالب علم ڈاکٹر وسیم عباس نے اپنے ایم فل کے مقالہ کے لئے مدون کی' اس کلیات میں رحمان فراز کے چار مجموعے شامل ہیں۔

جن کے نام ہیں ''حرف جو گونجتی صدا ہیں'' ''اجل کی تماشا گہوں میں'' مسافر دشت و ظلمت کے اور ''اب خزاں کی شام ہے''۔ رحمان فراز بتاتے ہیں کہ ''یہ کلیات مکمل نہیں ہے میری کلیات کا دوسرا حصہ جو اس سے بھی ضخیم ہے وہ ابھی چھپنا ہے (پھر ایک کربناک مسکراہٹ کے ساتھ کہا پتہ نہیں چھپنا بھی ہے یا نہیں)۔ میں اس کلیات کی اشاعت پر بہت خوش تھا لیکن چھپنے کے بعد خوش نہیں ہوں کیونکہ اس میں بہت زیادہ اغلاط ہیں کسی نے بیٹھ کر اس کی پروف ریڈنگ ہی نہیں کی، اگر کسی میں ہمت ہو یا خدا کسی کو توفیق دے تو میں انہیں تصحیح شدہ پوری کلیات دے دوں گا یہ آدھی ہے بلکہ آدھی سے بھی کم''۔ رحمان فراز کے بڑے بھائی فیض احمد شور کوٹی پر بھی ان دنوں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی میں ایم فل ہو رہا ہے۔

پاکستان کے معروف فلسفی، ادیب اور دانشور سید علی عباس جلالپوری بہت کم لوگوں کو اپنے قریب آنے دیتے تھے، دوست تو وہ کسی کسی کو ہی بناتے تھے لیکن رحمان فراز کا یہ اعزاز ہے کہ انہیں سید علی عباس جلالپوری نے نہ صرف دوست بنایا بلکہ اس دوستی کو نبھایا بھی، رحمان فراز اپنے اس عظیم دوست کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں:

''سید علی عباس جلالپوری سے میری دوستی معروف شاعر احمد ہمیش کی وجہ سے ہوئی' احمد ہمیش ان دنوں لاہور میں میرے ساتھ ہی مقیم تھے انہوں نے ہی سید علی عباس جلالپوری سے ملوایا اور پھر رفتہ رفتہ میرا ان سے تعلق بہت بڑھ گیا یہاں تک کہ میں روز ان کے ساتھ شام کی سیر کو جاتا تھا' ان سے اکثر ان کے کالج میں بھی ملاقاتیں ہوتی تھیں' ایک دن میں ان کے ساتھ سٹاف روم میں بیٹھا ہوا تھا کہ شاہ جی نے مجھے کہا جانا نہیں ''میں ٹوکری سٹ کے آیا'' وہ پیریڈ کو ٹوکری کہتے تھے' وہاں دو تین پروفیسر بیٹھے ہوئے تھے، ان میں سے ایک باجوہ صاحب تھے جو مجھے کہنے لگے فراز صاحب! آپ کے پاس کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ شام کے چار بجتے ہی شاہ جی اپنی سٹک لے کر سیر کے لئے آپ کے دروازے پرکھڑے ہوتے ہیں۔

ہمیں تو شاہ جی گھاس بھی نہیں ڈالتے۔ میں نے کہا ، باجوہ صاحب آپ میں اور مجھ میں ایک فرق ہے، میں ان کے سامنے ایک جاہل آدمی ہوں' یہ بندہ علم کا سمندر ہے یہ مجھے جو کچھ کہتے ہیں میں اس پر صاد کرتا ہوں میں نے ان کو کبھی ٹوکا نہیں' ٹوکوں گا تو ڈانٹ کھاؤں گا کیونکہ میرے پاس وہ علم نہیں ہے' آپ جیسے لوگوں کے پلے تو کچھ ہے نہیں' آپ ان سے الجھتے ہیں پھر ڈانٹ کھاتے ہیں۔ شاہ جی بڑے عالم فاضل آدمی تھے' ان کا کام بھی بہت بڑا ہے بہت کم لوگ ہیں جنہوں نے اس فیلڈ میں کام کیا ہو۔ ان میں بڑی حس مزاح تھی لیکن ان کے جو بہت قریبی دوست تھے انہی کے ساتھ وہ کھل کر بات کرتے تھے۔ اپنی تمام تر علمیت کے باوجود شاہ جی میں ایک خامی تھی، یہ کہ وہ اپنے سوا کسی کو بڑا نہیں سمجھتے تھے اور کوئی بحث کرتا تو اسے ڈانٹ پلاتے تھے' وہ بہت غصیلی طبیعت کے آدمی تھے،ایک تو سید بادشاہ اوپر سے جلالپوری' میں نے نوٹ کیا جب ہم شام کی سیر کے لئے جاتے تھے تو وہ ہمیشہ کوشش کرتے تھے کہ دو قدم مجھ سے آگے رہیں۔''

رحمان فراز 1960ء کے قریب امریکہ سے جرنلزم کا ڈپلومہ کرکے آئے' روزنامہ کوہستان' نوائے وقت' پاکستان ٹائمز اور مساوات سے وابستہ رہنے کے باوجود صحافتی دنیا بھی انہیں وہ مقام نہ دے سکی جس کے یہ مستحق تھے۔ ضیاء دور میں ''مساوات'' کی بندش کے بعد یہ ملتان کے ایک پرائیویٹ ہسپتال سے بطور ایڈمنسٹریٹر وابستہ رہے بعد ازاں انہوں نے ایل ایل بی کیا اور قریباً 10 سال وکالت کے پیشہ سے وابستہ رہے' آخر دمہ کے مرض کی وجہ سے ان کا یہ روز گار بھی جاتا رہا' ریڈیو پاکستان ملتان سے بھی یہ بطور رائٹر وابستہ رہے ۔

جہاں انہوں نے بہت سے فیچر لکھنے کے ساتھ ساتھ غنائیے بھی لکھے جن میں سے ان کا ایک غنائیہ ناہید اختر کی آواز میں بھی ریکارڈ ہوا۔ رحمان فراز انگریزی زبان میں خاص مہارت کی وجہ سے اپنے گھر پر ایم اے انگریزی کے طلباء کو بھی پڑھایا کرتے تھے۔ ان کی اہلیہ بھی ملتان کے ایک سکول سے بطور انگلش ٹیچر وابستہ رہیں۔ رحمان فراز ان دنوں خورشید کالونی ملتان میں اپنی فالج زدہ اہلیہ کے ساتھ مقیم ہیں' خدا نے انہیں اولاد کی نعمت سے محروم رکھا' یہ کبھی اپنی اس محرومی کا کسی سے ذکر نہیں کرتے' کسی بھی طرح کی آمدنی سے محروم یہ دونوں میاں بیوی اپنے ''خانہ ویراں'' میں ایک ایسی زندگی گزار رہے ہیں جس میں صبر ہے، شکر ہے اور خدا کی موجودگی ہے۔

بھٹو صاحب نے کہا رحمان ؟ What is This
بھٹو صاحب سے میری پہلی ملاقات ڈاکٹر مبشر حسن نے ملتان میں کرائی تھی، میں جب مساوات کیلئے کام کرنے لگا تو وہ مجھے ذاتی طور پر جاننے لگے، اس شناسائی کے پیچھے دراصل ایک واقعہ تھا، ایک بار لیاقت پور کے جلسے میں بھٹو صاحب پر حملہ ہوا تھا' جس میں امان اللہ خان جو بعد ازاں گورنر کھر کے سیکرٹری بنے کا اینٹ لگنے سے بازو ٹوٹ گیا تھا، امان اللہ خان کار کی اگلی سیٹ پر بیٹھے تھے اور میں ان کے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھا تھا، جہاں میرے ساتھ کوئی اور صاحب بھی تھے جن کا جبڑا اینٹ لگنے سے ٹوٹ گیا وہ میرے اوپر گر گئے' ان کے اوپر گرنے سے میں محفوظ رہا۔ اس رات' رات کے ایک بجے تک میں نے لاہور تا کراچی تمام اخبارات کو اس حملے کی خبریں فون پر لکھوائیں' اس وجہ سے بھٹو صاحب مجھے ذاتی طور پر جانتے تھے۔

مساوات مجھے معاوضہ کی ادائی نہیں کر رہا تھا تو میری ایک بار بھٹو صاحب سے ملتان ایئرپورٹ پر ملاقات ہو گئی میں نے ان کو اپنے واجبات سے متعلق ایک لفافہ دیا جسے دیکھ کر بھٹو صاحب نے کہا رحمان؟ What is this میں نے کہا سر ڈیلی مساوات نے میرے 34ہزار روپے دینے ہیں میرے گھر میں تو روٹی کے لالے پڑے ہیں۔ بھٹو صاحب کہنے لگے 34ہزار تو بڑی رقم ہے اور مساوات غریب ادارہ ہے کہاں سے دے گا۔ میرے ساتھ معروف صحافی ولی محمد واجد بھی تھے، انہوں نے کہا سر یہ آپ کے پرانے ساتھی ہیں، انہوں نے آپ کے لئے بہت کام کیا ہے۔ بھٹو صاحب نے اچھا کہا اور میرے سامنے وہ لفافہ اپنے سوٹ کی جیب میں ڈال لیا لیکن میرا معاوضہ کبھی ادا نہ ہوسکا''۔
Load Next Story