ڈرون حملوں میں جاں بحق ہونیوالے بچے دہشت گرد نہیں ہو سکتے لاہور ہائیکورٹ

بیگناہوں کونشانہ بنایا جارہا ہے، صرف پارلیمانی قرارداد سے امریکا کونہیں روکاجا سکتا

ہائیکورٹ سماعت نہیں کرسکتی:حکومتی وکیل، بنیادی حقوق کا معاملہ ہے،دیگر ادارے کام نہیں کررہے توہم چپ نہیں رہ سکتے،چیف جسٹس فوٹو: فائل

لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ڈرون حملوں کیخلاف درخواست کی سماعت کے دوران قراردیا ہے کہ صرف پارلیمنٹ کی قرارداد سے امریکا کوڈرون حملوں سے نہیں روکا جا سکتا۔

بچوں،عورتوں اوربیگناہ افراد کو نشانہ بنایا جارہا ہے اب تک176 بچے ان حملوں میں شہید ہو چکے ہیں، یہ بچے دہشت گرد نہیں ہوسکتے، سماعت شروع ہوئی توڈپٹی اٹارنی جنرل یاسمین سہگل نے کہاکہ عدالت ڈرون حملوں کے خلاف کیس کی سماعت نہیں کرسکتی۔ پارلیمنٹ نے قراردادیں منظور کر رکھی ہیں، اس لیے یہ معاملہ سپریم کورٹ دیکھ سکتی ہے یا پارلیمنٹ، چیف جسٹس نے کہاکہ حکومت یہ مسئلہ سفارتی سطح پر کیوں نہیں اٹھاتی؟ یہ پانی، بجلی، گیس کی عدم فراہمی نہیں بلکہ انسانی جانوںاور بنیادی حقوق کے تحفظ کا معاملہ ہے اور ان کا تحفظ عدالتوں کی ذمے داری ہے۔




اگر ریاست کے دیگرادارے اپنی ذمے داریاں ادا نہیں کر رہے توعدالتیں اس پرخاموش نہیں رہ سکتیں۔ ہمارا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ضرور ہے لیکن ہم ایک پرامن ملک ہیں۔ یہاں ڈرون حملوں کے ذریعے معصوم بچوں اوربیگناہ شہریوں کے نشانہ بنائے جانے کوکسی صورت درست قرارنہیں دیا جا سکتا۔ پاکستانی شہری اگرکوئی غلط کام کریں توکیا کوئی دوسرا ملک ان کے خلاف کارروائی کرسکتا ہے؟درخواست گزار حافظ سعید کے وکیل اے کے ڈوگر کہا کہ اس شخص کے خلاف صرف پاکستان کے قانون کے تحت ہی کارروائی ہوسکتی ہے۔

چیف جسٹس نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ اگراس کیس میں عدالتی دائرہ اختیارپر انھیں کوئی اعتراض ہے تو دلائل دیں، یاسمین سہگل نے استدعا کی کہ وزارت خارجہ اور داخلہ سے ہدایات لینا پڑیں گی، اس لیے لمبی تاریخ دی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیس انتہائی اہم ہے، زیادہ وقت نہیں دیا جاسکتا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عابد حسن منٹو کو عدالتی معاون مقرر کرنے کی درخواست کی جس پرچیف جسٹس نے کہاکہ عدالت ان سے پہلے پوچھے گی۔ مزید سماعت 4اپریل تک ملتوی کردی گئی۔
Load Next Story