ہم پردباؤ ڈالنے والا ابھی پیدا نہیں ہوا چیف جسٹس پاکستان
اگر کسی کا دباؤ ہوتا تو حدیبیہ پیپر ملز کیس کا فیصلہ وہ نہ آتا جو آیا ہے، جسٹس میاں ثاقب نثار
چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ عدلیہ پر دباؤ ڈالنے والا ابھی پیدا نہیں ہوا اور ہم اپنے آئین کا تحفظ کریں گے۔
لاہور میں تقریب سے خطاب کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثارکا کہنا تھا کہ گزشتہ روزہم نے عمران خان کی نااہلی سے متعلق فیصلہ سنایا، مجھے نہیں پتا تھا کہ حدیبیہ پیپرملزکیس کا فیصلہ اسی دن آنا ہے، عدلیہ پرکوئی دباؤ نہیں، ہم آزادی کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور ہرجج کو رائے دینے کا حق ہے، ہم پر دباؤ ڈالنے والا ابھی پیدا نہیں ہوا، ہم نے تمام فیصلے قانون کے مطابق کیے، اگرکسی کا دباؤ ہوتا تو حدیبیہ پیپر ملز کیس کا فیصلہ وہ نہ آتا جو آیا ہے۔
جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ میں نے اور میرے ساتھیوں نے آئین کے تحفظ کی قسم کھائی ہے، اپنے بچوں کر شرمندہ چھوڑ کر نہیں جاؤں گا، عدلیہ آپ کا بزرگ ہے، آپ کے خلاف فیصلہ ہو تو یہ گالیاں نہ دیں کہ بابا کسی پلان کا حصہ بن چکا، یہ بابا نا تو کسی پلان کا حصہ بنا ہے اور نہ بنے گا، جج پوری ایمانداری اوردیانت سے فیصلہ کرتے ہیں، قانون میں اگر کہیں غلطی ہو تو نشاندہی کرنا جج کی ذمے داری ہے۔
جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ اے ڈی آر سسٹم کو مکمل طور پر سپورٹ کرتا ہوں ، یہ واحد حل ہے جس کے ذریعے ہم مقدمہ بازی جیسی لعنت سے چھٹکارہ حاصل کرسکتے ہیں، ہر مقدمہ میں ایک آدمی سچا ہوتا ہے لیکن وہ سالہا سال اپنی سچائی ثابت کرتے ہوئے بعض اوقات جھوٹا ثابت ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک کمزور بوڑھی عورت کے اڑھائی مرلے کے مکان ہر قبضہ ہو جاتا ہے اور وہ بے چاری عورت اس مکان کو واپس لینے کے لئے دھکے کھانے پر مجبور ہو جاتی ہے، یہ ہمارے معاشرے کا استحصال ہے، ہمیں وکالت کو عبادت سمجھ کرنا ہے، کاروبار سمجھ کر نہیں ، انسان مرنے والے کا دکھ تو شاید بھول جاتا ہے لیکن مقدمے بازی کا دکھ کبھی نہیں بھولتا۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ میں اس سسٹم کا بہت درد محسوس کرتا ہوں لیکن میرے پاس کوئی ایسا چراغ نہیں ہے کہ اس نظام کو بدل دوں، جس معاشرے میں 13 سال مالک مکان کو کرایہ دار سے مکان خالی کروانے میں لگ جائیں اس معاشرے میں مقدمہ بازی لعنت کے سوا کچھ نہیں ہے، ہم اس معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں بیٹے کو بیٹا ہونا ثابت کرنے کیلئے سالوں مقدمہ لڑنا پڑتا ہے، بیوہ کو پنشن لینے کیلئے 11،11 سال دھکے کھانے پڑتے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب تک ہم نے اس عدالتی نظام کی بنیادوں کو نہیں بدلا، اوپری ڈھانچہ بدلنا ناممکن ہے، مقننہ کہ ذمہ داری ہے کہ قانون سازی کرے اور پرانے و دقیانوسی قوانین کو بدلے، ہمارا کام اصلاحات کرنا نہیں نشاندہی کرنا ہے، جب مقننہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرے گی تو ہمیں آگے آنا پڑے گا، ہمیں خود سے نئے طریقے متعارف کروانا پڑیں گے، لوگ انصاف کیلئے ہماری جانب دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اس وقت مقدمات کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں لیکن اس بوجھ سے باہر نکلنا بہت ضروری ہو چکا ہے، ہمیں میڈیا کی بہت ضرورت ہے کہ وہ عوامی آگاہی کی ذمہ داری پوری کرے۔
لاہور میں تقریب سے خطاب کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثارکا کہنا تھا کہ گزشتہ روزہم نے عمران خان کی نااہلی سے متعلق فیصلہ سنایا، مجھے نہیں پتا تھا کہ حدیبیہ پیپرملزکیس کا فیصلہ اسی دن آنا ہے، عدلیہ پرکوئی دباؤ نہیں، ہم آزادی کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور ہرجج کو رائے دینے کا حق ہے، ہم پر دباؤ ڈالنے والا ابھی پیدا نہیں ہوا، ہم نے تمام فیصلے قانون کے مطابق کیے، اگرکسی کا دباؤ ہوتا تو حدیبیہ پیپر ملز کیس کا فیصلہ وہ نہ آتا جو آیا ہے۔
جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ میں نے اور میرے ساتھیوں نے آئین کے تحفظ کی قسم کھائی ہے، اپنے بچوں کر شرمندہ چھوڑ کر نہیں جاؤں گا، عدلیہ آپ کا بزرگ ہے، آپ کے خلاف فیصلہ ہو تو یہ گالیاں نہ دیں کہ بابا کسی پلان کا حصہ بن چکا، یہ بابا نا تو کسی پلان کا حصہ بنا ہے اور نہ بنے گا، جج پوری ایمانداری اوردیانت سے فیصلہ کرتے ہیں، قانون میں اگر کہیں غلطی ہو تو نشاندہی کرنا جج کی ذمے داری ہے۔
جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ اے ڈی آر سسٹم کو مکمل طور پر سپورٹ کرتا ہوں ، یہ واحد حل ہے جس کے ذریعے ہم مقدمہ بازی جیسی لعنت سے چھٹکارہ حاصل کرسکتے ہیں، ہر مقدمہ میں ایک آدمی سچا ہوتا ہے لیکن وہ سالہا سال اپنی سچائی ثابت کرتے ہوئے بعض اوقات جھوٹا ثابت ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک کمزور بوڑھی عورت کے اڑھائی مرلے کے مکان ہر قبضہ ہو جاتا ہے اور وہ بے چاری عورت اس مکان کو واپس لینے کے لئے دھکے کھانے پر مجبور ہو جاتی ہے، یہ ہمارے معاشرے کا استحصال ہے، ہمیں وکالت کو عبادت سمجھ کرنا ہے، کاروبار سمجھ کر نہیں ، انسان مرنے والے کا دکھ تو شاید بھول جاتا ہے لیکن مقدمے بازی کا دکھ کبھی نہیں بھولتا۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ میں اس سسٹم کا بہت درد محسوس کرتا ہوں لیکن میرے پاس کوئی ایسا چراغ نہیں ہے کہ اس نظام کو بدل دوں، جس معاشرے میں 13 سال مالک مکان کو کرایہ دار سے مکان خالی کروانے میں لگ جائیں اس معاشرے میں مقدمہ بازی لعنت کے سوا کچھ نہیں ہے، ہم اس معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں بیٹے کو بیٹا ہونا ثابت کرنے کیلئے سالوں مقدمہ لڑنا پڑتا ہے، بیوہ کو پنشن لینے کیلئے 11،11 سال دھکے کھانے پڑتے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب تک ہم نے اس عدالتی نظام کی بنیادوں کو نہیں بدلا، اوپری ڈھانچہ بدلنا ناممکن ہے، مقننہ کہ ذمہ داری ہے کہ قانون سازی کرے اور پرانے و دقیانوسی قوانین کو بدلے، ہمارا کام اصلاحات کرنا نہیں نشاندہی کرنا ہے، جب مقننہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرے گی تو ہمیں آگے آنا پڑے گا، ہمیں خود سے نئے طریقے متعارف کروانا پڑیں گے، لوگ انصاف کیلئے ہماری جانب دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اس وقت مقدمات کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں لیکن اس بوجھ سے باہر نکلنا بہت ضروری ہو چکا ہے، ہمیں میڈیا کی بہت ضرورت ہے کہ وہ عوامی آگاہی کی ذمہ داری پوری کرے۔