لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
جمہوریت، جمہوریت کے کھیل میں جو ایک بہت خراب عنصر شامل ہوا ہے وہ ’’بدزبانی اور یاوہ گوئی‘‘ ہے۔
MELBOURNE:
کرپشن سے پاک پاکستان کی اگر کوئی توقع رکھتا ہے تو وہ ایسی ہی ایک لایعنی خواہش ہے، جیسے مغرب سے سورج کا طلوع ہونا۔ کرپشن کی غضب ناک کہانیاں گزشتہ تیس سال میں وہاں پہنچ گئی ہیں جو حد نگاہ سے کہیں آگے ہیں۔ کیونکہ اب کرپشن ایک گولڈ میڈل ہے جسے وکٹری کے نشان کے ساتھ گلے میں ڈالا جاتا ہے اور پارٹی لیڈر الٹا یہ سوال کرتا ہے کہ ''اگر میرے اثاثے میری آمدنی سے زیادہ ہیں تو کسی کو کیا تکلیف ہے۔''
کسی وزیر باتدبیر کے گھر سے بوریوں میں بھرے ڈالر اور غیر ملکی کرنسی نکلتی ہے تو وہ بھی V کا نشان بناکر مسکراتا ہوا میڈیا کے سامنے نظر آتا ہے۔ اسمبلی میں اپنی بے ایمانی اور کرپشن پہ خود تقریریں کرتا ہے۔ ڈیسک بجواتا ہے۔ وزیر اعلیٰ بھی اپنی پارٹی کے کرپٹ اور داغ دار ماضی کو سفید کورا کاغذ قرار دے کر کرپشن کو اپنا حق قرار دیتا ہے۔
ایک خاموش سمجھوتہ پارٹیوں کے درمیان ہے کہ ''جب تم اقتدار میں ہوگے تو ہم تمہاری کرپشن کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھیں گے، بلکہ تمہارے تخت شاہی کے چاروں پایوں کے نیچے بہتی گنگا سے بھی دور رہیں گے۔
یہی نہیں بلکہ اپنے تجربے کی بنیاد پر تمہیں کرپشن کے جدید طریقے بھی بتائیں گے، دوران اقتدار بالکل خاموش رہیں گے، لیکن جب اقتدار خطرے میں نظر آئے گا، یا الیکشن کی آمد آمد ہوگی تو ہم عوام کو دکھانے کے لیے تھوڑا بہت شور مچائیں گے، خود کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے کے لیے اپنے حواری، اپنے بیٹوں، بیٹیوں، سمدھی، داماد، سب کو میدان میں اتاریں گے اور تمہیں بے ایمان ثابت کرنے کی ''احمقانہ اور معصومانہ'' سی کوشش کریں گے، کیونکہ سمجھوتے اور ڈیل کے مطابق ''اگلی باری ہماری باری ہوگی''۔ یہ سب صرف اس لیے ہوگا تاکہ تمہیں معاہدہ یاد رہے، تمام ''بڑوں'' کی مدد سے اور سب سے زیادہ سفید محل والے کی مرضی و منشا سے جب ہم اقتدار میں آئیں گے تو تمہیں تمہارا کردار اور وعدہ یاد دلانے کی ضرورت پیش نہ آئے''۔
کرپشن کی کہانیاں جوں ہی عام ہوتی ہیں تو مجھے وہ کہاوت یاد آجاتی ہے ''اندھیر نگری چوپٹ راجہ، ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھاجہ'' جس کی گردن پتلی ہوئی اسے جیل میں ڈال دیا گیا، نیب بھی انھی پر پنجہ آزمائی کرتی ہے جن پر ہاتھ ڈالنے کا حکم اوپر سے ملتا ہے۔ یہ اوپر والے وردی پوش بھی ہوتے ہیں اور تھری پیس سوٹ اور شیروانی والے بھی۔ جن کے کہنے پر کمزور پی آر رکھنے والے ملزم کو ٹی وی اسکرین پر بڑا مجرم بناکر اس کا ٹرائل کیا جاتا ہے۔
اینکر پرسن خود اپنی عدالت اپنے گاڈ فادر کی مرضی سے لگا کر ایک کے بعد ایک فرد جرم عائد کرتا رہتا ہے اور مال بٹورتا رہتا ہے۔ لیکن کرپشن کا جو وزیر یا بادشاہ گلے گلے بے ایمانی میں ڈوبا ہوتا ہے، اسے ''بڑوں'' کی مدد سے فوراً بیرون ملک فرار کروا دیا جاتا ہے۔ عدالت انھیں مفرور اور اشتہاری قرار دیتی ہے۔ لیکن وہ ملک سے باہر جاتے ہی ''بیمار'' پڑ جاتے ہیں۔ دل کا عارضہ فوراً لاحق ہوجاتا ہے۔
انجیوگرافی کی رپورٹ بھی بڑی خطرناک آتی ہے۔ فائیو اسٹار ہوٹلوں جیسے چمکتے اسپتالوں میں وہ مریض بن کر بستر پہ لیٹے نظر آتے ہیں۔ حالت کو اور زیادہ تشویش ناک ظاہر کرنے کے لیے آکسیجن ماسک بھی لگا دیا جاتا ہے۔ حالت ایسی خراب ظاہر کی جاتی ہے کہ اب گئے اور تب گئے۔ جتنے عرصے یہ اسپتال میں رہ کر عیش کرتے ہیں اس عرصے میں منکر نکیر ''ڈیل'' کرلیتے ہیں اور ''لب دم'' مریض اچانک صحت یاب ہوکر الیکشن لڑنے کی تیاری شروع کردیتا ہے۔
جب بھی کرپشن کے خلاف کوئی ذمے دار آدمی بات کرتا ہے تو فوراً جمہوریت کو خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔ کون سی جمہوریت اور کہاں کی جمہوریت؟ خواہ شیروانی ہو یا وردی۔ ہر دو صورتوں میں آمریت ہی مسلط رہتی ہے۔ البتہ بقول غالبؔ:
دل کے بہلانے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
ہر دو صورتوں میں ''پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں'' ان کا رہتا ہے جو فوجی بوٹوں کی خاک اپنے دامن سے صاف کرنا جانتے ہوں، یا تھری پیس سوٹ پہننے والوں کے لباس کی شکنیں دور کرنا جانتے ہوں۔ کوتوال شہر جب اپنا ہو تو چوروں کے لیے راستے کھل جاتے ہیں۔ ستر برس سے یہ کھیل جاری ہے۔ وہی ڈگڈگی ہے، وہی بندریا ہے۔ وہی ڈگڈگی بجانے والے ہاتھ ہیں، اور وہی تماشائی ہیں۔ یہ تماشائی جنھیں عوام کہا جاتا ہے، خوب ہیں۔ سارا کھیل جانتے ہیں کہ بندریا کس کی ڈگڈگی پہ ناچ رہی ہے۔ بندر کس کی ہدایت پر اسے منانے آتا ہے؟ اور کھیل کے اختتام پر پیسے بٹور کے اگلے محلے روانہ ہوجاتا ہے، پھر سے یہی پرانا کھیل دکھانے۔
جمہوریت، جمہوریت کے کھیل میں جو ایک بہت خراب عنصر شامل ہوا ہے وہ ''بدزبانی اور یاوہ گوئی'' ہے۔ انسان کا باطن اور خاندان اس کی زبان میں پوشیدہ ہے۔ آپ جناب والی گفتگو تو اب ماضی کا قصہ بن گئی ہے۔ سیاست دان اسمبلی کے ممبران پارٹی لیڈر اور حکمران جو زبان استعمال کرتے ہیں اس سے ان کا شجرۂ نسب صاف ظاہر ہوتا ہے۔ تو تکار سے شرفا میں ملازموں سے بھی بات نہیں کی جاتی، چہ جائیکہ گالم گلوچ؟
جمہوریت جنھیں خطرے میں نظر آتی ہے ان کا اپنا وجود خطرے میں ہے۔ کیا یہی جمہوریت ہے کہ کوئی فلائٹ کسی وی وی آئی پی شخصیت کی وجہ سے تین تین گھنٹے لیٹ کردی جاتی ہے۔ بادشاہ سلامت کی سواری جس طرف سے گزرے ہاہاکار مچی ہوتی ہے۔ ایمبولینس تک کو راستہ نہیں دیا جاتا۔ کراچی شہر کو جان بوجھ کر دہشتگردوں کے حوالے کرکے امن و امان تباہ کیا جا رہا ہے۔ غلاظت اور گندگی کے ڈھیر اس شہر کی پہچان بن گئے ہیں۔ بس سارا زور ہر طرح کی سہولت کا یا تو اسلام آباد کے لیے ہے یا لاہور کے لیے۔ بڑی اچھی بات ہے۔ لیکن کراچی بھی سوتیلا نہیں، جو چنگچی رکشوں اور گندگی کے حوالے کر دیا گیا ہے؟
کرپشن سے پاک پاکستان کی اگر کوئی توقع رکھتا ہے تو وہ ایسی ہی ایک لایعنی خواہش ہے، جیسے مغرب سے سورج کا طلوع ہونا۔ کرپشن کی غضب ناک کہانیاں گزشتہ تیس سال میں وہاں پہنچ گئی ہیں جو حد نگاہ سے کہیں آگے ہیں۔ کیونکہ اب کرپشن ایک گولڈ میڈل ہے جسے وکٹری کے نشان کے ساتھ گلے میں ڈالا جاتا ہے اور پارٹی لیڈر الٹا یہ سوال کرتا ہے کہ ''اگر میرے اثاثے میری آمدنی سے زیادہ ہیں تو کسی کو کیا تکلیف ہے۔''
کسی وزیر باتدبیر کے گھر سے بوریوں میں بھرے ڈالر اور غیر ملکی کرنسی نکلتی ہے تو وہ بھی V کا نشان بناکر مسکراتا ہوا میڈیا کے سامنے نظر آتا ہے۔ اسمبلی میں اپنی بے ایمانی اور کرپشن پہ خود تقریریں کرتا ہے۔ ڈیسک بجواتا ہے۔ وزیر اعلیٰ بھی اپنی پارٹی کے کرپٹ اور داغ دار ماضی کو سفید کورا کاغذ قرار دے کر کرپشن کو اپنا حق قرار دیتا ہے۔
ایک خاموش سمجھوتہ پارٹیوں کے درمیان ہے کہ ''جب تم اقتدار میں ہوگے تو ہم تمہاری کرپشن کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھیں گے، بلکہ تمہارے تخت شاہی کے چاروں پایوں کے نیچے بہتی گنگا سے بھی دور رہیں گے۔
یہی نہیں بلکہ اپنے تجربے کی بنیاد پر تمہیں کرپشن کے جدید طریقے بھی بتائیں گے، دوران اقتدار بالکل خاموش رہیں گے، لیکن جب اقتدار خطرے میں نظر آئے گا، یا الیکشن کی آمد آمد ہوگی تو ہم عوام کو دکھانے کے لیے تھوڑا بہت شور مچائیں گے، خود کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے کے لیے اپنے حواری، اپنے بیٹوں، بیٹیوں، سمدھی، داماد، سب کو میدان میں اتاریں گے اور تمہیں بے ایمان ثابت کرنے کی ''احمقانہ اور معصومانہ'' سی کوشش کریں گے، کیونکہ سمجھوتے اور ڈیل کے مطابق ''اگلی باری ہماری باری ہوگی''۔ یہ سب صرف اس لیے ہوگا تاکہ تمہیں معاہدہ یاد رہے، تمام ''بڑوں'' کی مدد سے اور سب سے زیادہ سفید محل والے کی مرضی و منشا سے جب ہم اقتدار میں آئیں گے تو تمہیں تمہارا کردار اور وعدہ یاد دلانے کی ضرورت پیش نہ آئے''۔
کرپشن کی کہانیاں جوں ہی عام ہوتی ہیں تو مجھے وہ کہاوت یاد آجاتی ہے ''اندھیر نگری چوپٹ راجہ، ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھاجہ'' جس کی گردن پتلی ہوئی اسے جیل میں ڈال دیا گیا، نیب بھی انھی پر پنجہ آزمائی کرتی ہے جن پر ہاتھ ڈالنے کا حکم اوپر سے ملتا ہے۔ یہ اوپر والے وردی پوش بھی ہوتے ہیں اور تھری پیس سوٹ اور شیروانی والے بھی۔ جن کے کہنے پر کمزور پی آر رکھنے والے ملزم کو ٹی وی اسکرین پر بڑا مجرم بناکر اس کا ٹرائل کیا جاتا ہے۔
اینکر پرسن خود اپنی عدالت اپنے گاڈ فادر کی مرضی سے لگا کر ایک کے بعد ایک فرد جرم عائد کرتا رہتا ہے اور مال بٹورتا رہتا ہے۔ لیکن کرپشن کا جو وزیر یا بادشاہ گلے گلے بے ایمانی میں ڈوبا ہوتا ہے، اسے ''بڑوں'' کی مدد سے فوراً بیرون ملک فرار کروا دیا جاتا ہے۔ عدالت انھیں مفرور اور اشتہاری قرار دیتی ہے۔ لیکن وہ ملک سے باہر جاتے ہی ''بیمار'' پڑ جاتے ہیں۔ دل کا عارضہ فوراً لاحق ہوجاتا ہے۔
انجیوگرافی کی رپورٹ بھی بڑی خطرناک آتی ہے۔ فائیو اسٹار ہوٹلوں جیسے چمکتے اسپتالوں میں وہ مریض بن کر بستر پہ لیٹے نظر آتے ہیں۔ حالت کو اور زیادہ تشویش ناک ظاہر کرنے کے لیے آکسیجن ماسک بھی لگا دیا جاتا ہے۔ حالت ایسی خراب ظاہر کی جاتی ہے کہ اب گئے اور تب گئے۔ جتنے عرصے یہ اسپتال میں رہ کر عیش کرتے ہیں اس عرصے میں منکر نکیر ''ڈیل'' کرلیتے ہیں اور ''لب دم'' مریض اچانک صحت یاب ہوکر الیکشن لڑنے کی تیاری شروع کردیتا ہے۔
جب بھی کرپشن کے خلاف کوئی ذمے دار آدمی بات کرتا ہے تو فوراً جمہوریت کو خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔ کون سی جمہوریت اور کہاں کی جمہوریت؟ خواہ شیروانی ہو یا وردی۔ ہر دو صورتوں میں آمریت ہی مسلط رہتی ہے۔ البتہ بقول غالبؔ:
دل کے بہلانے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
ہر دو صورتوں میں ''پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں'' ان کا رہتا ہے جو فوجی بوٹوں کی خاک اپنے دامن سے صاف کرنا جانتے ہوں، یا تھری پیس سوٹ پہننے والوں کے لباس کی شکنیں دور کرنا جانتے ہوں۔ کوتوال شہر جب اپنا ہو تو چوروں کے لیے راستے کھل جاتے ہیں۔ ستر برس سے یہ کھیل جاری ہے۔ وہی ڈگڈگی ہے، وہی بندریا ہے۔ وہی ڈگڈگی بجانے والے ہاتھ ہیں، اور وہی تماشائی ہیں۔ یہ تماشائی جنھیں عوام کہا جاتا ہے، خوب ہیں۔ سارا کھیل جانتے ہیں کہ بندریا کس کی ڈگڈگی پہ ناچ رہی ہے۔ بندر کس کی ہدایت پر اسے منانے آتا ہے؟ اور کھیل کے اختتام پر پیسے بٹور کے اگلے محلے روانہ ہوجاتا ہے، پھر سے یہی پرانا کھیل دکھانے۔
جمہوریت، جمہوریت کے کھیل میں جو ایک بہت خراب عنصر شامل ہوا ہے وہ ''بدزبانی اور یاوہ گوئی'' ہے۔ انسان کا باطن اور خاندان اس کی زبان میں پوشیدہ ہے۔ آپ جناب والی گفتگو تو اب ماضی کا قصہ بن گئی ہے۔ سیاست دان اسمبلی کے ممبران پارٹی لیڈر اور حکمران جو زبان استعمال کرتے ہیں اس سے ان کا شجرۂ نسب صاف ظاہر ہوتا ہے۔ تو تکار سے شرفا میں ملازموں سے بھی بات نہیں کی جاتی، چہ جائیکہ گالم گلوچ؟
جمہوریت جنھیں خطرے میں نظر آتی ہے ان کا اپنا وجود خطرے میں ہے۔ کیا یہی جمہوریت ہے کہ کوئی فلائٹ کسی وی وی آئی پی شخصیت کی وجہ سے تین تین گھنٹے لیٹ کردی جاتی ہے۔ بادشاہ سلامت کی سواری جس طرف سے گزرے ہاہاکار مچی ہوتی ہے۔ ایمبولینس تک کو راستہ نہیں دیا جاتا۔ کراچی شہر کو جان بوجھ کر دہشتگردوں کے حوالے کرکے امن و امان تباہ کیا جا رہا ہے۔ غلاظت اور گندگی کے ڈھیر اس شہر کی پہچان بن گئے ہیں۔ بس سارا زور ہر طرح کی سہولت کا یا تو اسلام آباد کے لیے ہے یا لاہور کے لیے۔ بڑی اچھی بات ہے۔ لیکن کراچی بھی سوتیلا نہیں، جو چنگچی رکشوں اور گندگی کے حوالے کر دیا گیا ہے؟