دسمبر کے دکھ
سچ بولنے والے کی زبان اور اس کی انگلیاں کاٹ دی جائیں تب بھی وہ ہر زمین اور ہر موسم میں اپنی بہار دکھاتی ہیں۔
KARACHI:
دسمبر کا مہینہ ہمارے لیے غم کے کیسے کیسے کھاتے کھول دیتا ہے۔ دسمبر کے اسی مہینے میں ہمیں مشرقی پاکستان کو نظر انداز کرنے اور محکوم و محروم کرنے کی سزا ملی۔ بنگالی اکثریت میں تھے اور ہم اقلیت میں، لیکن ہم نے بٹ ماری کی انتہا کر دی۔ آخرکار بات وہاں تک پہنچی جب انھوں نے ہمیں خود سے الگ کرلیا اور ایک آزاد خود مختار قوم بن کر ابھرے اور آج وہ دنیا کی برادری میں محترم و مکرم ہیں۔
دسمبر کے اسی مہینے میں ہمارے ایک بڑے شاعر نے بھی ہم سے منہ موڑا تھا۔ اس کا نام شیخ ایاز تھا۔ اٹھارہویں صدی میں شاہ لطیف اور بیسویں صدی میں شیخ ایاز سندھی شاعری کے آسمان پر طلوع ہوئے۔ سچ تو یہ ہے کہ شاہ لطیف اگر سندھی ادب کا تاج محل ہیں تو شیخ ایاز کو اس ادب کے قطب مینار کے سوا کسی اور نام سے یاد نہیں کیا جاسکتا۔
وہ شاہ لطیف کے بعد سندھی ادب کا دوسرا سب سے بڑا نام ہیں اور آئندہ بھی شاید کوئی تیسرا، ان دونوں کی ہمسری کا دعویٰ نہ کرسکے۔ ان کی ادبی زندگی نصف صدی سے زیادہ پر محیط ہے اور اس نصف صدی کے دوران تنہا شیخ ایاز نے جتنا کام کیا، اتنا کام سندھی کے سیکڑوں ادیب مل کر بھی نہیں کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ صاحب کو اپنی زندگی میں جو عزت، شہرت اور محبت ملی اس کا عشر عشیر سندھ کے کسی دوسرے ادیب کے حصے میں نہیں آیا۔
اردو دنیا میں شیخ ایاز کا اعتراف کیا جاتا تھا، ان کی تکریم کی جاتی تھی، انھیں اپنوں میں سے سمجھا جاتا تھا۔ 58ء کے مارشل لاء نے سندھی زبان پر جو کلہاڑا چلایا اور پھر 72ء کی جمہوری حکومت نے سندھی اور اردو کے درمیان جو ملاکھڑا کرایا، اس نے دونوں زبانوں کے بیشتر ادیبوں کو غیر متوازن کر دیا۔ ایک ایسی زہریلی فصا میں شیخ ایاز دونوں طرف کے ان چند گنے چنے ادیبوں میں سے تھے جنھوں نے وقتی شہرت اور مقبولیت کے لیے اپنی تحریروں سے رواداری، مروت، محبت اور وضع داری کو نچوڑ کر نہیں پھینکا۔ وہ ان نام نہاد ادیبوں میں سے نہیں تھے جو قلم سے خنجر کا کام لیتے ہیں اور دلوں کے ٹکڑے کرتے چلے جاتے ہیں۔ وہ ان میں سے تھے جو نوکِ قلم سے دلوں کو رفو کرتے ہیں۔
شیخ ایاز کا قلم سے رشتہ آخری سانس تک قائم رہا۔ وہ لکھتے رہے اور کاغذوں کے ڈھیر لگاتے رہے۔ انھوں نے 50ء کی دہائی میں سندھی ادبی بورڈ کے رسالے ''مہران'' کے مدیر اور سندھی کے جید ادیب ابراہیم جویو کی فرمائش پر کچھ ادبی خط تحریر کیے تھے، یہ خط جو تعداد میں 22 ہیں، تاریخ، ادب اور زندگی کے مختلف معاملات اور موضوعات کو سمیٹتے ہیں۔ یہ خطوط سندھ، پنجاب اور بنگال کے مختلف شہروں سے لکھے گئے ایک بڑے ادیب کی نظر سے جغرافیے اور اس جغرافیے میں زندگی کرنے والوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
انسانی نفس کی بہت سی گتھیوں اور گرہوں کو کھولتے ہیں۔ ان خطوط کا سندھی مجموعہ بہت پہلے شائع ہوچکا تھا۔ اب سے 15برس پہلے جب اس کا اردو ترجمہ مجھے ملا تو جی خوش ہوگیا اور میرپور خاص کے کرن سنگھ کے لیے دل سے دعا نکلی جنھوں نے شیخ ایاز کے خطوط کا اردو میں اتنا رواں اور عمدہ ترجمہ کیا۔ میں اس کی قائل ہوں کہ مختلف زبانوں کے ترجمے ہمیں نئی تخلیقی دنیاؤں سے آشنا کرتے ہیں اور بہت سی غلط فہمیوں، بہت سے تعصبات کے کانٹے ہمارے دل سے چن لیتے ہیں۔
''شیخ ایاز کے خطوط'' سے پہلے کرن سنگھ نے ایاز کی ایک کتاب ''ساہیوال جیل کی ڈائری'' کا بھی ترجمہ کیا تھا اور اس کی بھی اردو حلقوں میں بہت پذیرائی ہوئی تھی۔ اسی طرح یہ خطوط اردو کی ادبی دنیا میں بہت دنوں تک موضوع گفتگو رہے۔
سندھ کے دکھ ان خطوں میں ببول کے کانٹوں کی طرح اگے ہوئے ہیں جو پڑھنے والے کی آنکھوں میں چبھ جاتے ہیں۔ ایک خط میں ایاز نے بیلدار سے پوچھا! ''تمہیں تنخواہ کتنی ملتی ہے؟''
''صاحب! کیا پوچھتے ہو! صرف چالیس روپے تنخواہ ہے۔ میرے تین بچے، بیوی اور بوڑھی ماں ہے۔ پیاز اور روٹی بھی بہ مشکل نصیب ہوتی ہے۔ سامنے بیلے میں شبانی بلوچ رہتے ہیں۔ ان کے پاس گائیں اور بھیڑیں ہیں، ان سے کبھی کبھار مفت میں لسی مل جاتی ہے تو عیش کرلیتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے تن درست رکھا ہوا ہے، ورنہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ آج کل مصیبت میں کون کسی کا ہوتا ہے۔ سارا دن دریا سے پانی بھر کر اس بند پر چھڑکتا ہوں، گھڑے اٹھا اٹھاکر کندھوں پر داغ پڑگئے ہیں۔''
اس نے مجھے اپنے دونوں کندھوں پر کالے کالے داغ دکھائے جو کسی تہجد گزار کی پیشانی پر بنی محراب کی طرح لگ رہے تھے۔
''صاحب! پرسوں عید ہے، ہمیں اب تک تنخواہ کیوں نہیں ملی ہے؟ تنخواہ ملتی تو بچوں کے لیے نئے لٹھے کی ایک ایک قمیص بنوا دیتا۔'' بیلدار نے کہا۔ اتنے میں مقدم نے کہا۔ ''صاحب! مجھے پچاس روپے ہر ماہ ملتے ہیں، مگر ان سے میرا گزارا نہیں ہوتا۔ اللہ جانے اس مرتبہ تنخواہ کیوں نہیں ملی؟ بچوں کو ایک وقت کی روٹی نصیب ہوتی ہے تو دوسرے وقت کی نہیں۔''
1955ء کے سندھ کی جو تصویر ایاز کے اس خط میں نظر آتی ہے وہ آج بھی لگ بھگ وہی ہے۔ مقدم، بیلدار، ہاری اور کلرک اسی طرح بھوکے ہیں جب کہ پچھلے کئی برسوں سے سندھ اسمبلی میں گلاب کی طرح کھلے ہوئے چہرے والوں نے سندھ کی خدمت کا حلف اٹھایا ہے لیکن کیا سندھ کے دیہات اور کیا شہر، ان میں آباد بیشتر چہروں پر دکھ کی وہ سیاہی اور آنکھوں میں وہ گہری ناامیدی ہے جسے دیکھ کر دل ٹکڑے ہوتا ہے۔
سندھ کا جاگیرداری نظام شاہ لطیف، صوفی شاہ عنایت سے شیخ ایاز تک سب ہی کے دلوں کا ناسور رہا ہے۔ ایاز کو بھوربن کے خوبصورت جنگلوں اور منظروں میں بھی اس ناسور کی یاد آتی ہے اور وہ ٹالسٹائی کی ''اینا کرینینا'' پڑھتے ہوئے جاگیرداری نظام کو ایک نئے زاویے سے یاد کرتے ہیں:
''یہ کتاب میں نے پہلے بھی پڑھی تھی مگر اس وقت اتنی ذہنی پختگی نہ تھی کہ ٹالسٹائی کی کردار نگاری کا پورا لطف حاصل کرسکتا۔ اسی طرح میں نے مغرب کا دیگر کلاسیکی ادب بھی بار بار پڑھا ہے اور ہر مرتبہ نیا لطف حاصل کیا ہے۔ میں نے مغرب کے جدید و قدیم دور کے کم و بیش سب ہی ناول پڑھے ہیں لیکن میرے خیال میں ٹالسٹائی کے مقابل کا ادب دنیا ابھی تک پیدا نہیں کرسکی ہے۔ انسان کی کمزوریوں اور خامیوں کا اتنا ادراک اور اس کے باوجود انسانوں سے اتنی محبت، ماحول کی ایسی دلکش عکاسی اور تاریخی ارتقا کا صحیح اندازہ، انسان کے ابدی مسائل، زندگی اور موت، جوانی اور بڑھاپا، گناہ اور ثواب وغیرہ کا ایسا گہرا مطالعہ اور شگفتہ نظریہ دنیا کے کسی اور ادیب کے ہاں نہیں ملتا، خصوصاً سندھی ادیب کے لیے تو ٹالسٹائی کا مطالعہ بے حد ضروری ہے کیونکہ ہم بھی اسی زمینداری اور جاگیرداری نظام سے نکل رہے ہیں جو ٹالسٹائی کے دور میں موجود تھا۔''
50ء کی دہائی میں شیخ ایاز کو یقین تھا کہ سندھ زمینداری اور جاگیرداری نظام سے نکل رہا ہے۔ اس وقت ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ سندھ کی سونا اگلتی ہزاروں ایکڑ زمین ریوڑیوں اور بتاشوں کی طرح کچھ لوگ اپنی 'خدمات' کے عوض خود میں تقسیم کرنے والے ہیں اور سندھ کو نئے دکھ بھوگنے ہیں، نئی ذلتوں کا سامنا کرنا ہے۔
یوں تو ایاز کے بیشتر خط دل میں کھب جاتے ہیں لیکن 1961ء کے اگست میں انھوں نے ایک خط سیدو شریف سے لکھا ہے اور اس میں منصور حلاج کے نعرۂ انا الحق کا ذکر کرتے ہوئے وہ اپنی زبان کو دانتوں سے کاٹ لیتے ہیں اور اس سے سوال کرتے ہیں:
''معلوم نہیں تو کب سارا سچ کہے گی؟ معلوم نہیں تجھے کب کاٹ کر پھینکیں گے۔''
''بھائی کیا انسان کی کٹی ہوئی زبان کو کہیں اگایا نہیں جاسکتا؟ میرے خیال میں تو جب بسنت کی پہلی ہوا چلے گی تو یہ ضرور پھلے پھولے گی اور اس میں سے گلاب کے پھول جیسا سچ نکل کر مہکے گا۔''
حق یہی ہے کہ سچ بولنے والے کی زبان اور اس کی انگلیاں کاٹ دی جائیں تب بھی وہ ہر زمین اور ہر موسم میں اپنی بہار دکھاتی ہیں۔ ایاز کے ان خطوط میں جو سچ لکھا گیا، وہ کرن سنگھ کے قلم سے اردو کی زمین میں بھی برگ و بار لایا۔ سچ موسموں کا محتاج نہیں، سدا بہار ہے۔ ایاز ایک بڑے اور سچے ادیب تھے تب ہی ان کا لکھا ہوا سچ ان کے بعد بھی ہمیں اپنی چھب دکھاتا ہے۔
دسمبر کا مہینہ ہمارے لیے غم کے کیسے کیسے کھاتے کھول دیتا ہے۔ دسمبر کے اسی مہینے میں ہمیں مشرقی پاکستان کو نظر انداز کرنے اور محکوم و محروم کرنے کی سزا ملی۔ بنگالی اکثریت میں تھے اور ہم اقلیت میں، لیکن ہم نے بٹ ماری کی انتہا کر دی۔ آخرکار بات وہاں تک پہنچی جب انھوں نے ہمیں خود سے الگ کرلیا اور ایک آزاد خود مختار قوم بن کر ابھرے اور آج وہ دنیا کی برادری میں محترم و مکرم ہیں۔
دسمبر کے اسی مہینے میں ہمارے ایک بڑے شاعر نے بھی ہم سے منہ موڑا تھا۔ اس کا نام شیخ ایاز تھا۔ اٹھارہویں صدی میں شاہ لطیف اور بیسویں صدی میں شیخ ایاز سندھی شاعری کے آسمان پر طلوع ہوئے۔ سچ تو یہ ہے کہ شاہ لطیف اگر سندھی ادب کا تاج محل ہیں تو شیخ ایاز کو اس ادب کے قطب مینار کے سوا کسی اور نام سے یاد نہیں کیا جاسکتا۔
وہ شاہ لطیف کے بعد سندھی ادب کا دوسرا سب سے بڑا نام ہیں اور آئندہ بھی شاید کوئی تیسرا، ان دونوں کی ہمسری کا دعویٰ نہ کرسکے۔ ان کی ادبی زندگی نصف صدی سے زیادہ پر محیط ہے اور اس نصف صدی کے دوران تنہا شیخ ایاز نے جتنا کام کیا، اتنا کام سندھی کے سیکڑوں ادیب مل کر بھی نہیں کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ صاحب کو اپنی زندگی میں جو عزت، شہرت اور محبت ملی اس کا عشر عشیر سندھ کے کسی دوسرے ادیب کے حصے میں نہیں آیا۔
اردو دنیا میں شیخ ایاز کا اعتراف کیا جاتا تھا، ان کی تکریم کی جاتی تھی، انھیں اپنوں میں سے سمجھا جاتا تھا۔ 58ء کے مارشل لاء نے سندھی زبان پر جو کلہاڑا چلایا اور پھر 72ء کی جمہوری حکومت نے سندھی اور اردو کے درمیان جو ملاکھڑا کرایا، اس نے دونوں زبانوں کے بیشتر ادیبوں کو غیر متوازن کر دیا۔ ایک ایسی زہریلی فصا میں شیخ ایاز دونوں طرف کے ان چند گنے چنے ادیبوں میں سے تھے جنھوں نے وقتی شہرت اور مقبولیت کے لیے اپنی تحریروں سے رواداری، مروت، محبت اور وضع داری کو نچوڑ کر نہیں پھینکا۔ وہ ان نام نہاد ادیبوں میں سے نہیں تھے جو قلم سے خنجر کا کام لیتے ہیں اور دلوں کے ٹکڑے کرتے چلے جاتے ہیں۔ وہ ان میں سے تھے جو نوکِ قلم سے دلوں کو رفو کرتے ہیں۔
شیخ ایاز کا قلم سے رشتہ آخری سانس تک قائم رہا۔ وہ لکھتے رہے اور کاغذوں کے ڈھیر لگاتے رہے۔ انھوں نے 50ء کی دہائی میں سندھی ادبی بورڈ کے رسالے ''مہران'' کے مدیر اور سندھی کے جید ادیب ابراہیم جویو کی فرمائش پر کچھ ادبی خط تحریر کیے تھے، یہ خط جو تعداد میں 22 ہیں، تاریخ، ادب اور زندگی کے مختلف معاملات اور موضوعات کو سمیٹتے ہیں۔ یہ خطوط سندھ، پنجاب اور بنگال کے مختلف شہروں سے لکھے گئے ایک بڑے ادیب کی نظر سے جغرافیے اور اس جغرافیے میں زندگی کرنے والوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
انسانی نفس کی بہت سی گتھیوں اور گرہوں کو کھولتے ہیں۔ ان خطوط کا سندھی مجموعہ بہت پہلے شائع ہوچکا تھا۔ اب سے 15برس پہلے جب اس کا اردو ترجمہ مجھے ملا تو جی خوش ہوگیا اور میرپور خاص کے کرن سنگھ کے لیے دل سے دعا نکلی جنھوں نے شیخ ایاز کے خطوط کا اردو میں اتنا رواں اور عمدہ ترجمہ کیا۔ میں اس کی قائل ہوں کہ مختلف زبانوں کے ترجمے ہمیں نئی تخلیقی دنیاؤں سے آشنا کرتے ہیں اور بہت سی غلط فہمیوں، بہت سے تعصبات کے کانٹے ہمارے دل سے چن لیتے ہیں۔
''شیخ ایاز کے خطوط'' سے پہلے کرن سنگھ نے ایاز کی ایک کتاب ''ساہیوال جیل کی ڈائری'' کا بھی ترجمہ کیا تھا اور اس کی بھی اردو حلقوں میں بہت پذیرائی ہوئی تھی۔ اسی طرح یہ خطوط اردو کی ادبی دنیا میں بہت دنوں تک موضوع گفتگو رہے۔
سندھ کے دکھ ان خطوں میں ببول کے کانٹوں کی طرح اگے ہوئے ہیں جو پڑھنے والے کی آنکھوں میں چبھ جاتے ہیں۔ ایک خط میں ایاز نے بیلدار سے پوچھا! ''تمہیں تنخواہ کتنی ملتی ہے؟''
''صاحب! کیا پوچھتے ہو! صرف چالیس روپے تنخواہ ہے۔ میرے تین بچے، بیوی اور بوڑھی ماں ہے۔ پیاز اور روٹی بھی بہ مشکل نصیب ہوتی ہے۔ سامنے بیلے میں شبانی بلوچ رہتے ہیں۔ ان کے پاس گائیں اور بھیڑیں ہیں، ان سے کبھی کبھار مفت میں لسی مل جاتی ہے تو عیش کرلیتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے تن درست رکھا ہوا ہے، ورنہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ آج کل مصیبت میں کون کسی کا ہوتا ہے۔ سارا دن دریا سے پانی بھر کر اس بند پر چھڑکتا ہوں، گھڑے اٹھا اٹھاکر کندھوں پر داغ پڑگئے ہیں۔''
اس نے مجھے اپنے دونوں کندھوں پر کالے کالے داغ دکھائے جو کسی تہجد گزار کی پیشانی پر بنی محراب کی طرح لگ رہے تھے۔
''صاحب! پرسوں عید ہے، ہمیں اب تک تنخواہ کیوں نہیں ملی ہے؟ تنخواہ ملتی تو بچوں کے لیے نئے لٹھے کی ایک ایک قمیص بنوا دیتا۔'' بیلدار نے کہا۔ اتنے میں مقدم نے کہا۔ ''صاحب! مجھے پچاس روپے ہر ماہ ملتے ہیں، مگر ان سے میرا گزارا نہیں ہوتا۔ اللہ جانے اس مرتبہ تنخواہ کیوں نہیں ملی؟ بچوں کو ایک وقت کی روٹی نصیب ہوتی ہے تو دوسرے وقت کی نہیں۔''
1955ء کے سندھ کی جو تصویر ایاز کے اس خط میں نظر آتی ہے وہ آج بھی لگ بھگ وہی ہے۔ مقدم، بیلدار، ہاری اور کلرک اسی طرح بھوکے ہیں جب کہ پچھلے کئی برسوں سے سندھ اسمبلی میں گلاب کی طرح کھلے ہوئے چہرے والوں نے سندھ کی خدمت کا حلف اٹھایا ہے لیکن کیا سندھ کے دیہات اور کیا شہر، ان میں آباد بیشتر چہروں پر دکھ کی وہ سیاہی اور آنکھوں میں وہ گہری ناامیدی ہے جسے دیکھ کر دل ٹکڑے ہوتا ہے۔
سندھ کا جاگیرداری نظام شاہ لطیف، صوفی شاہ عنایت سے شیخ ایاز تک سب ہی کے دلوں کا ناسور رہا ہے۔ ایاز کو بھوربن کے خوبصورت جنگلوں اور منظروں میں بھی اس ناسور کی یاد آتی ہے اور وہ ٹالسٹائی کی ''اینا کرینینا'' پڑھتے ہوئے جاگیرداری نظام کو ایک نئے زاویے سے یاد کرتے ہیں:
''یہ کتاب میں نے پہلے بھی پڑھی تھی مگر اس وقت اتنی ذہنی پختگی نہ تھی کہ ٹالسٹائی کی کردار نگاری کا پورا لطف حاصل کرسکتا۔ اسی طرح میں نے مغرب کا دیگر کلاسیکی ادب بھی بار بار پڑھا ہے اور ہر مرتبہ نیا لطف حاصل کیا ہے۔ میں نے مغرب کے جدید و قدیم دور کے کم و بیش سب ہی ناول پڑھے ہیں لیکن میرے خیال میں ٹالسٹائی کے مقابل کا ادب دنیا ابھی تک پیدا نہیں کرسکی ہے۔ انسان کی کمزوریوں اور خامیوں کا اتنا ادراک اور اس کے باوجود انسانوں سے اتنی محبت، ماحول کی ایسی دلکش عکاسی اور تاریخی ارتقا کا صحیح اندازہ، انسان کے ابدی مسائل، زندگی اور موت، جوانی اور بڑھاپا، گناہ اور ثواب وغیرہ کا ایسا گہرا مطالعہ اور شگفتہ نظریہ دنیا کے کسی اور ادیب کے ہاں نہیں ملتا، خصوصاً سندھی ادیب کے لیے تو ٹالسٹائی کا مطالعہ بے حد ضروری ہے کیونکہ ہم بھی اسی زمینداری اور جاگیرداری نظام سے نکل رہے ہیں جو ٹالسٹائی کے دور میں موجود تھا۔''
50ء کی دہائی میں شیخ ایاز کو یقین تھا کہ سندھ زمینداری اور جاگیرداری نظام سے نکل رہا ہے۔ اس وقت ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ سندھ کی سونا اگلتی ہزاروں ایکڑ زمین ریوڑیوں اور بتاشوں کی طرح کچھ لوگ اپنی 'خدمات' کے عوض خود میں تقسیم کرنے والے ہیں اور سندھ کو نئے دکھ بھوگنے ہیں، نئی ذلتوں کا سامنا کرنا ہے۔
یوں تو ایاز کے بیشتر خط دل میں کھب جاتے ہیں لیکن 1961ء کے اگست میں انھوں نے ایک خط سیدو شریف سے لکھا ہے اور اس میں منصور حلاج کے نعرۂ انا الحق کا ذکر کرتے ہوئے وہ اپنی زبان کو دانتوں سے کاٹ لیتے ہیں اور اس سے سوال کرتے ہیں:
''معلوم نہیں تو کب سارا سچ کہے گی؟ معلوم نہیں تجھے کب کاٹ کر پھینکیں گے۔''
''بھائی کیا انسان کی کٹی ہوئی زبان کو کہیں اگایا نہیں جاسکتا؟ میرے خیال میں تو جب بسنت کی پہلی ہوا چلے گی تو یہ ضرور پھلے پھولے گی اور اس میں سے گلاب کے پھول جیسا سچ نکل کر مہکے گا۔''
حق یہی ہے کہ سچ بولنے والے کی زبان اور اس کی انگلیاں کاٹ دی جائیں تب بھی وہ ہر زمین اور ہر موسم میں اپنی بہار دکھاتی ہیں۔ ایاز کے ان خطوط میں جو سچ لکھا گیا، وہ کرن سنگھ کے قلم سے اردو کی زمین میں بھی برگ و بار لایا۔ سچ موسموں کا محتاج نہیں، سدا بہار ہے۔ ایاز ایک بڑے اور سچے ادیب تھے تب ہی ان کا لکھا ہوا سچ ان کے بعد بھی ہمیں اپنی چھب دکھاتا ہے۔