ورلڈالیون کا دورۂ پاکستان ہاکی کیلئے تازہ ہوا کا جھونکا
آئندہ ماہ ورلڈ الیون کے خلاف شیڈول میچز کی وجہ سے امید ظاہر کی جارہی ہے۔
نریندربٹرا انڈین اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر ہونے کے ساتھ انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کے سربراہ بھی ہیں، انتہا پسند ہندو اور پاک، بھارت کھیلوں کے مقابلوں کے سخت مخالف سمجھے جاتے ہیں۔
واقفان حال کے مطابق بٹرا ہی کی مہربانیوں کی وجہ سے پاکستان ہاکی ٹیم بھارت میں شیڈول جونیئر ورلڈ کپ میں شرکت سے محروم رہی تھی،انڈین اولمپک ایسوسی ایشن کے صدرکا حال ہی میں ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں بٹرا نے ایک بار پھر واضح انداز میں کہا ہے کہ پاکستان سے کھیلوں کے تعلقات کی بحالی کا کوئی امکان نہیں، ان کے مطابق جب تک دونوں ممالک کے درمیان سیاسی سطح پر تعلقات میں بہتری نہیں آتی تب تک پاکستان سے سپورٹس روابط بحال نہیں کر سکتے۔
کچھ اسی طرح کی بولی بی سی سی آئی حکام بھی بولتے رہتے ہیں لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ یہ بولی سمجھنے کی بجائے پاک، بھارت سیریز کیلئے بی سی سی آئی حکام کے ترلے منتیں کرتا نظر آتا ہے، پاکستان ہاکی فیڈریشن کی تمام تر کوتاہیوں، غلطیوں اور غلط پالیسیوں کے باوجود حکام کو اس بات کا کریڈٹ ضرور دینا چاہیے کہ وہ بھارتی بیساکھیوں کا سہارا لینے کی بجائے اپنے مدد آپ کے تحت اوپر آنے کی کوششوں میں مصروف ہے، ورلڈ الیون کو ہی لے لیں، پاکستان کے خلاف2 میچوں کی سیریز میں حصہ لینے کیلئے ورلڈالیون کی ٹیم 8جنوری کو پاکستان آ رہی ہے، آسٹریلیا، ہالینڈ، ارجنٹائن، ملائشیا سمیت متعدد ممالک پر مشتمل ورلڈ الیون کراچی اور لاہور میں یہ میچز کھیلے گی۔
کہتے ہیں کہ جذبے سچے ہوں تو منزل مل ہی جایا کرتی ہے،پی ایچ ایف کی موجودہ انتظامیہ آغاز سے ہی ملک میں انٹرنیشنل ہاکی کی بحالی کیلئے سنجیدہ رہی ہے۔ 1994ء ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کے کپتان شہباز احمد سینئر دنیائے ہاکی کی وہ شخصیت ہیں جن کے نام کا ڈنکا آج بھی پوری دنیا میں بجتا ہے، عالمی سطح پر بھی ان کے چاہنے والوں کی کمی نہیں، دنیا بھر کے عظیم کھلاڑیوں کے ساتھ ان کی دوستیاں آج بھی ہمالیہ سے بلند اور سمندر کی گہرائیوں سے زیادہ گہری ہیں، شہباز سینئر کی دعوت پر نہ صرف ورلڈ الیون پاکستان کے دورے پر آ رہی ہے بلکہ کھیلوں کے اس عالمی میلہ کے موقع پر آسٹریلوی سابق کپتان چارلس ورتھ سمیت دنیا کے ممتاز پلیئرز بھی موجود ہوں گے۔
فیڈریشن کے مطابق ورلڈ الیون کے دورۂ پاکستان کے موقع پر بین الاقوامی شہرت کے حامل 5 غیر ملکی پلیئرز کو بھی مہمان بنانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، ان پلیئرز کا تعلق ہالینڈ، آسٹریلیا، جرمنی سے ہے۔ کھلاڑیوں میں بوویلنڈر، بلوشر، پال لیجٹن اور چارلس ورتھ شامل ہیں۔
انٹرنیشنل کھلاڑیوں کی آمد کے موقع پر پاکستان کے بھی5کھلاڑیوں کو ہال آف فیم میں شامل کیا جائے گا، ان پلیئرز میں خواجہ ذکاء الدین، شہباز سینئر، رشید جونیئر، منظور جونیئر، منظور الحسن، حسن سردار، اصلاح الدیں صدیقی،شہناز شیخ کے ناموں پر غور کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستانی اور انٹرنیشنل کھلاڑیوں کی ہاکی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں نہ صرف بھر پور خراج تحسین پیش کیا جائے گا بلکہ انہیں گولڈ میڈلز اور کیش پرائز سے بھی نوازا جائے گا۔
اگر ماضی کے اوراق کا جائزہ لیا جائے تو لاہور کو 1990ء میں ہاکی ورلڈ کپ کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا، پاکستان سیمی فائنل میں آسٹریلیا کو2-1 سے زیر کرنے میں کامیاب رہا، 23فروری کو نیشنل ہاکی سٹیڈیم لاہور میں شیڈول فائنل مقابلے میں گرین شرٹس کا ٹاکرا ہالینڈ سے تھا، میچ کے دوران تماشائیوں کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔
پورے مقابلے کے دوران فضا پاکستان زندہ باد، پاکستان ہاکی ٹیم پائندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے گونجتی رہی، گو پاکستان یہ فائنل مقابلہ ایک کے مقابلے میں 3گول سے ہار گیا لیکن لاہور میں ورلڈکپ کے فائنل کا کامیاب انعقاد ہر حوالے سے یادگار رہا۔
ورلڈ کپ کے بعد بھی انٹرنیشنل ٹیموں کی پاکستان میں آمد کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا، پاکستان کو آخری انٹرنیشنل ایونٹس کی میزبانی کا موقع دسمبر2004ء کی ایف آئی ایچ چیمپئنز ٹرافی کے دوران حاصل ہوا، اس ایونٹ میں بھی شائقین کا جذبہ قابل دید تھا، منی ورلڈکپ کے حوالے سے پہچانے جانے والے اس ایونٹ میں گرین شرٹس ا پنی سرزمین پر تیسری پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
بعد ازاں حکومت اور کھیلوں کے ارباب اختیار کی نالائقیوں اور من مانیوں کی وجہ سے انٹرنیشنل ایونٹس پاکستان سے روٹھتے ہی چلے گئے، 3مارچ 2009ء وہ منحوس دن تھا جب لبرٹی کے مقام پر بعض شدت پسندوں نے سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ کر دیا، اس سانحہ نے پاکستان میں انٹرنیشنل ایونٹس کی میزبانی پر کاری ضرب لگائی، کرکٹ کے ساتھ ساتھ اس کا براہ راست منفی اثر ہاکی اور دوسری کھیلوں پر بھی پڑا اور عالمی ٹیموں نے پاکستان آنے سے صاف صاف انکار کر دیا۔
آئندہ ماہ ورلڈ الیون کے خلاف شیڈول میچز کی وجہ سے امید ظاہر کی جارہی ہے کہ اس سے نہ صرف پاکستان سپر ہاکی لیگ کی راہ ہموار ہو گی بلکہ ملک میں انٹرنیشنل ہاکی کی بحالی کے ساتھ قومی کھیل کو بھی اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلانے میں مدد ملے گی۔
واقفان حال کے مطابق بٹرا ہی کی مہربانیوں کی وجہ سے پاکستان ہاکی ٹیم بھارت میں شیڈول جونیئر ورلڈ کپ میں شرکت سے محروم رہی تھی،انڈین اولمپک ایسوسی ایشن کے صدرکا حال ہی میں ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں بٹرا نے ایک بار پھر واضح انداز میں کہا ہے کہ پاکستان سے کھیلوں کے تعلقات کی بحالی کا کوئی امکان نہیں، ان کے مطابق جب تک دونوں ممالک کے درمیان سیاسی سطح پر تعلقات میں بہتری نہیں آتی تب تک پاکستان سے سپورٹس روابط بحال نہیں کر سکتے۔
کچھ اسی طرح کی بولی بی سی سی آئی حکام بھی بولتے رہتے ہیں لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ یہ بولی سمجھنے کی بجائے پاک، بھارت سیریز کیلئے بی سی سی آئی حکام کے ترلے منتیں کرتا نظر آتا ہے، پاکستان ہاکی فیڈریشن کی تمام تر کوتاہیوں، غلطیوں اور غلط پالیسیوں کے باوجود حکام کو اس بات کا کریڈٹ ضرور دینا چاہیے کہ وہ بھارتی بیساکھیوں کا سہارا لینے کی بجائے اپنے مدد آپ کے تحت اوپر آنے کی کوششوں میں مصروف ہے، ورلڈ الیون کو ہی لے لیں، پاکستان کے خلاف2 میچوں کی سیریز میں حصہ لینے کیلئے ورلڈالیون کی ٹیم 8جنوری کو پاکستان آ رہی ہے، آسٹریلیا، ہالینڈ، ارجنٹائن، ملائشیا سمیت متعدد ممالک پر مشتمل ورلڈ الیون کراچی اور لاہور میں یہ میچز کھیلے گی۔
کہتے ہیں کہ جذبے سچے ہوں تو منزل مل ہی جایا کرتی ہے،پی ایچ ایف کی موجودہ انتظامیہ آغاز سے ہی ملک میں انٹرنیشنل ہاکی کی بحالی کیلئے سنجیدہ رہی ہے۔ 1994ء ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کے کپتان شہباز احمد سینئر دنیائے ہاکی کی وہ شخصیت ہیں جن کے نام کا ڈنکا آج بھی پوری دنیا میں بجتا ہے، عالمی سطح پر بھی ان کے چاہنے والوں کی کمی نہیں، دنیا بھر کے عظیم کھلاڑیوں کے ساتھ ان کی دوستیاں آج بھی ہمالیہ سے بلند اور سمندر کی گہرائیوں سے زیادہ گہری ہیں، شہباز سینئر کی دعوت پر نہ صرف ورلڈ الیون پاکستان کے دورے پر آ رہی ہے بلکہ کھیلوں کے اس عالمی میلہ کے موقع پر آسٹریلوی سابق کپتان چارلس ورتھ سمیت دنیا کے ممتاز پلیئرز بھی موجود ہوں گے۔
فیڈریشن کے مطابق ورلڈ الیون کے دورۂ پاکستان کے موقع پر بین الاقوامی شہرت کے حامل 5 غیر ملکی پلیئرز کو بھی مہمان بنانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، ان پلیئرز کا تعلق ہالینڈ، آسٹریلیا، جرمنی سے ہے۔ کھلاڑیوں میں بوویلنڈر، بلوشر، پال لیجٹن اور چارلس ورتھ شامل ہیں۔
انٹرنیشنل کھلاڑیوں کی آمد کے موقع پر پاکستان کے بھی5کھلاڑیوں کو ہال آف فیم میں شامل کیا جائے گا، ان پلیئرز میں خواجہ ذکاء الدین، شہباز سینئر، رشید جونیئر، منظور جونیئر، منظور الحسن، حسن سردار، اصلاح الدیں صدیقی،شہناز شیخ کے ناموں پر غور کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستانی اور انٹرنیشنل کھلاڑیوں کی ہاکی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں نہ صرف بھر پور خراج تحسین پیش کیا جائے گا بلکہ انہیں گولڈ میڈلز اور کیش پرائز سے بھی نوازا جائے گا۔
اگر ماضی کے اوراق کا جائزہ لیا جائے تو لاہور کو 1990ء میں ہاکی ورلڈ کپ کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا، پاکستان سیمی فائنل میں آسٹریلیا کو2-1 سے زیر کرنے میں کامیاب رہا، 23فروری کو نیشنل ہاکی سٹیڈیم لاہور میں شیڈول فائنل مقابلے میں گرین شرٹس کا ٹاکرا ہالینڈ سے تھا، میچ کے دوران تماشائیوں کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔
پورے مقابلے کے دوران فضا پاکستان زندہ باد، پاکستان ہاکی ٹیم پائندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے گونجتی رہی، گو پاکستان یہ فائنل مقابلہ ایک کے مقابلے میں 3گول سے ہار گیا لیکن لاہور میں ورلڈکپ کے فائنل کا کامیاب انعقاد ہر حوالے سے یادگار رہا۔
ورلڈ کپ کے بعد بھی انٹرنیشنل ٹیموں کی پاکستان میں آمد کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا، پاکستان کو آخری انٹرنیشنل ایونٹس کی میزبانی کا موقع دسمبر2004ء کی ایف آئی ایچ چیمپئنز ٹرافی کے دوران حاصل ہوا، اس ایونٹ میں بھی شائقین کا جذبہ قابل دید تھا، منی ورلڈکپ کے حوالے سے پہچانے جانے والے اس ایونٹ میں گرین شرٹس ا پنی سرزمین پر تیسری پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
بعد ازاں حکومت اور کھیلوں کے ارباب اختیار کی نالائقیوں اور من مانیوں کی وجہ سے انٹرنیشنل ایونٹس پاکستان سے روٹھتے ہی چلے گئے، 3مارچ 2009ء وہ منحوس دن تھا جب لبرٹی کے مقام پر بعض شدت پسندوں نے سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ کر دیا، اس سانحہ نے پاکستان میں انٹرنیشنل ایونٹس کی میزبانی پر کاری ضرب لگائی، کرکٹ کے ساتھ ساتھ اس کا براہ راست منفی اثر ہاکی اور دوسری کھیلوں پر بھی پڑا اور عالمی ٹیموں نے پاکستان آنے سے صاف صاف انکار کر دیا۔
آئندہ ماہ ورلڈ الیون کے خلاف شیڈول میچز کی وجہ سے امید ظاہر کی جارہی ہے کہ اس سے نہ صرف پاکستان سپر ہاکی لیگ کی راہ ہموار ہو گی بلکہ ملک میں انٹرنیشنل ہاکی کی بحالی کے ساتھ قومی کھیل کو بھی اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلانے میں مدد ملے گی۔