دستور پاکستان 1973ء میں آرٹیکل 6263 کیا ہے

سیاسی مصلحت اور غفلت کی وجہ سے آئین کی ان اہم شقوں پر کبھی مکمل عمل نہ ہو سکا

فوٹو: فائل

وطن عزیز کو معرض وجود میں آئے 65 برس سے بھی زائد بیت چکے ہیں مگر پھر بھی ہمارے یہاں جمہوری روایات صحیح معنوں میں پروان نہ چڑھ سکیں جس کی سب سے بڑی وجہ بار بار آمریت کے نفاذ کو قرار دیا جاتا ہے۔

گو اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک وجہ یہ بھی ہے مگر اب ہم جس قسم کے جمہوری دور سے گزر رہے ہیں اس کے بعد ہر ذہن میں یہ سوال اٹھنے لگا ہے کہ آخر ہمارے ہاں جمہوری نظام کیوں عوام کے لئے خاطر خواہ طور پر مفید ثابت نہیں ہو رہا ۔ اشرافیہ کو تو سب ٹھیک لگتا ہے، چاہے جمہوریت ہو یا آمریت ،کیونکہ ان کی ہر دور میں سنی جاتی ہے، مگر 80فیصد عوام کا کیا کریں جو ہر دور میں حا لات کی چکی کے دونوں پاٹوں میں ہمیشہ سے بری طرح پستے آئے ہیں ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوری نظام ہر حال میں آمریت سے بہتر ہے اور اگر جمہوری نظام کو صحیح معنوں میں لاگو کر کے بہترین عوامی نمائندوں کا انتخاب کیا جائے تو چند ہی سالوں میں اس کا نتیجہ ملک وقوم کی ترقی کی صورت میں نکلے گا ۔

بدقسمتی سے ہمارے یہاں جمہوری نظام کا رونا تو پورے زور و شور سے رویا جاتا ہے مگر جب اس پر صحیح معنوں میں عمل درآمد کی باری آتی ہے تو تمام سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے تحت ڈنڈی مارنے لگتی ہیں۔ آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں پارٹی الیکشن کرانے کی پابند ہیں مگر سوائے تحریک انصاف ، جماعت اسلامی اور اکا دکا جماعتوں کے کبھی کسی نے پارٹی الیکشن نہیں کروائے اور یہیں سے پارٹیوں میں آمریت یا وراثتی سیاست کی ابتدا ہوجاتی ہے۔

تحریک انصاف کے تو ابھی حال ہی میں پارٹی الیکشن ہوئے ہیں ، اگر دیکھا جائے تو تحریک انصاف کے بھی یہ پہلے پارٹی الیکشن ہیں اس سے قبل اس میں بھی عہدوں کے لئے نامزدگی ہوتی تھی ، جبکہ دیگر سیا سی جماعتوں نے الیکشن کمیشن کی ہدایت کے باوجود اپنی سابقہ روش کو برقرار رکھا اور پارٹی اجلاس بلا کر تمام پارٹی عہدیداروں کوبلامقابلہ منتخب کرا کے پارٹی الیکشن کی رپورٹ الیکشن کمیشن کو بھجوا دی ہے، اگر آئین کی رو سے دیکھا جائے تو انھوں نے اس پر مکمل عمل نہیں کیا۔

سیاسی پارٹیوں میں آمریت کی وجہ سے پہلے سے ہی جیتنے والے سیاستدان پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں، چاہے وہ جیسے بھی اچھے یا گھٹیا ہتھکنڈوں کو آزما کر کامیاب ہوئے ہوں۔ پارٹی ٹکٹوں کے حصول میں بھی پیسے کی سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور پسندیدہ حلقہ حاصل کرنے کے لاکھوں روپے ڈونیشن( نذرانہ ) پیش کیا جاتا ہے۔ لاکھوں ،کروڑوں روپے الیکشن پر لگانے والے یہ پروفیشنل سیاستدان ملک وقوم کی خدمت کا جذبہ کم اور اپنی دولت کو دن دوگنا رات چوگنا کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں، یوں کرپشن کی روایت کمزور ہونے کی بجائے مزید مضبوط ہوتی چلی جا رہی ہے۔

جب انتخابات کا مرحلہ قریب آتا ہے تو پارٹیوں کے نامزد کردہ اور آزاد امیدوارکا غذات نامزدگی جمع کرواتے ہیں، جس کے بعد گیند الیکشن کمیشن کے کورٹ میں آجاتی ہے یعنی اس کے کندھوں پر بھاری ذمے داری ہوتی ہے کہ ان امیدواروں میں سے اہل افراد کا چنائو کرے کہ کون الیکشن لڑنے کے قابل ہے، اس کے لئے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 موجود ہیں، اگر ان آرٹیکلز کے تحت امیدواروں کا چنائو ہوتا رہتا تو آج صورتحال مکمل طور پر مختلف ہوتی مگر اس سلسلے میں ہمیشہ مصلحت سے کام لیا گیا یا پھر غفلت برتی گئی۔

اگر ان آرٹیکلز کے تحت دیکھا جائے تو سیاستدانوں کی موجودہ لاٹ میں سے اکثریت آدھی شقیں بھی پوری کرتی دکھائی نہیں دیتی، ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ آج تک یہ آرٹیکلز زیر بحث ہی نہیں آئے جس کی وجہ سے عوام کی اکثریت ان سے لاعلم ہی تھی، وہ تو بھلا ہو تحریک منھاج القران کے قائد علامہ طاہر القادری کا کہ انھوں نے اس مسئلے کی طرف توجہ دلائی ، یوں عوام کی دلچسپی بھی بڑھ گئی اور میڈیا نے بھی اس مسئلے پر خوب لتے لئے ، اب موجودہ الیکشن کمیشن نے ان آرٹیکلز کو مکمل طور پر لاگو کرنے کا عندیہ دیا ہے جس سے سیاسی ایوانوں میں چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں ، گویا آئین کو بنانے والے اور اس کے رکھوالے سیاستدان آئین کو دوسروں پر لاگو کرنا چاہتے ہیں مگر جب اپنی باری آتی ہے تو سیاسی بیانات داغنے اور تحفظات کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔

یوں الیکشن کمیشن پر دبائوبڑھا کر اپنی مرضی کا فیصلہ لینا چاہتے ہیں تاکہ وہ ہر حال میں الیکشن لڑیں اور پھر قومی خزانے کی بہتی گنگا میں من چاہا اشنان کرسکیں ۔ مگر اب ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ الیکشن کمیشن ہر حال میں آئین کی پاسداری کرنا چاہتا ہے اور ملک و قوم کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے اب یہ انتہائی ضروری بھی ہو گیا ہے تاکہ ایسے عوامی نمائندے ہی الیکشن لڑیں جو صحیح معنوں میں ان آرٹیکلز میں طے کردہ معیار پر پورے اترتے ہوں۔

آرٹیکل 63,62 کا متن:

آرٹیکل 62:

شرائط اہلیت ممبران مجلس شوریٰ(پارلیمنٹ):

(1 ) کوئی شخص اہل نہیں ہو گا، رکن منتخب ہونے یا چنے جانے کا،بطور ممبر مجلس شوریٰ یا پارلیمنٹ کے،ماسوائے یہ کہ:

(الف) وہ پاکستان کا شہری ہو۔

(ب) وہ قومی اسمبلی کی صورت میں پچیس سال سے کم عمر کانہ ہو اور بطور ووٹر اس کے نام کا اندراج کسی بھی انتخابی فہرست میں موجود ہو جو پاکستان کے کسی حصے میں جنرل سیٹ یا غیر مسلم سیٹ کے لئے ہو، اور صوبے کے کسی حصے میں اگر عور ت کی مخصوص سیٹ ہو تو اس کے لئے۔

(ج) وہ سینیٹ کی صورت میں تیس سال سے کم عمر کا نہ ہو اور صوبے کے کسی ایریا میں اس کا نام بطور ووٹر درج ہو، یا جیسی بھی صورت ہو، فیڈرل کیپیٹل یا فاٹا میں جہاں سے وہ ممبر شپ حاصل کر رہا ہو۔

(د) وہ اچھے کردار کا حامل ہو اور عام طور پر احکام اسلامی سے انحراف میں مشہور نہ ہو۔

(ہ) وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو ، اور اسلام کے منشور کردہ فرائض کا پابند ہو ، نیز کبیرہ گناہ سے اجتناب کرتا ہو۔

(و) وہ سمجھدار ہو ، پارسا ہو،ایماندار اور امین ہو،اور کسی عدالت کا فیصلہ اس کے برعکس نہ ہو۔

(ز) اس نے پاکستان بننے کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کام نہ کیا ہو اور نظریہ پاکستان کی مخالفت نہ کی ہو۔

(2) نا اہلیت مندرجہ پیرا گراف (د) اور (ہ) کا کسی ایسے شخص پر اطلاق نہ ہو گا، جو نان مسلم ہو لیکن ایسا شخص اچھی شہرت کا حامل ہو۔

آرٹیکل 63:

نا اہلیت برائے ممبر شپ مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ):

(1) کوئی شخص مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے رکن کے طور پر منتخب ہونے یا چنے جانے اور رکن رہنے کیلئے نا اہل ہو گا، اگر

(الف) وہ فاتر العقل ہو اور کسی مجاز عدالت کی طرف سے ایسا قرار دیا گیا ہو ، یا

(ب) وہ غیر بریت یا فتہ دیوالیہ ہو یا


(ج) وہ پاکستان کا شہری نہ رہے ، یا کسی بیرونی ریاست کی شہریت حاصل کرے، یا

(د) وہ پاکستان کی ملازمت میں کسی منفعت بخش عہدے پر فائز ہو ماسوائے ایسے عہدے کے جسے قانون کے ذریعے ایسا عہدہ قرار دیا گیا ہو، جس پر فائز شخص نا اہل نہیں ہوتا ، یا

(ہ) اگر وہ کسی ایسی آئینی باڈی یا کسی باڈی کی ملازمت میں ہو ، جو حکومت کی ملکیت یا اس کے زیر نگرانی ہو ، یا جس میں حکومت کنٹرولنگ حصہ یا مفاد رکھتی ہو، یا

(و) پاکستان کا شہری ہوتے ہوئے بھی زیر دفعہ 14B شہریت پاکستان ایکٹ 1951ء کے وہ وقتی طور پر نا اہل ہو جائے ، آزاد اور جموں کشمیر کے رائج الوقت قانون کے تحت لیجسلیٹو اسمبلی آزاد جموں اور کشمیر کا ممبر منتخب ہو سکتا ہو۔

(ر) اسے کسی عدالت مجاز سے ایسی رائے کی تشہیر ، یا کسی ایسے طریقے پر عمل کرنا ، جو پاکستان کے نظریہ ، اقتدار اعلیٰ ، سالمیت ،یا سلامتی یا اخلاقیات یا امن عامہ کے قیام یا پاکستان کی عدلیہ کی دیانتداری یا آزادی کے لئے مضر ہو ، یا جو پاکستان کی مسلح افواج یا عدلیہ کو بدنام کرے ، یا اس کی تضحیک کا باعث ہو ، اس جرم کی سزا ہوئی ہو اور اس کو پانچ سال رہا ہوئے نہ گزرے ہوں۔

(ح) اسے کسی ایسے جرم کے لئے سزا یابی پر جو اخلاقی پستی کا جرم ہو اور اس پر سزا کم از کم دو سال ہو چکی ہو اور اس کو پانچ سال رہا ہوئے نہ گزرے ہوں۔

(ط) اسے پاکستان کی ملازمت ،یا کارپوریشن ، یا دیگر آفس ، جو قائم یا کنٹرول کردہ ہو ، فیڈرل گورنمنٹ کا ، صوبائی گورنمنٹ کا ، یا لوکل گورنمنٹ کا ، سے غلط روی کی بنیا د پر ہٹا دیا گیا ہو، اور اس کی بر طرفی کو پانچ سال کا عرصہ نہ گزر گیا ہو۔

(ی) اسے پاکستان کی ملازمت سے ہٹا دیا گیا ہو، یا جبری طور پر ریٹائرڈ کیا گیا ہو، یا کارپوریشن ، یا دیگر آفس، جو قائم یا کنٹرول کردہ ہو، فیڈرل گورنمنٹ کا ، صوبائی گورنمنٹ کا، یا لوکل گورنمنٹ کا، سے غلط روی کی بنیاد پر ہٹا دیا گیا ہو ، یا ریٹائرڈ کیا گیا ہو، اور اس کی ملازمت میں رہنے کو تین سال کا عرصہ نہ گزر گیا ہو۔

(ک) اسے پاکستان کی ملازمت سے ، یا قانونی باڈی، یا دیگر باڈی ، جو قائم یا کنٹرول کردہ ہو، فیڈرل گورنمنٹ کا ، صوبائی گورنمنٹ کا ، یا لوکل گورنمنٹ کا ، سے نکالا گیا ہو، اور اس کی ملازمت سے نکالنے کو دو سال کا عرصہ نہ گزر گیا ہو۔

(ل) وہ خواہ بذات خود یااس کے مفاد میں ، یا اس کے فائدے کے لیے ، یا اس کے حساب میں،

یا کسی ہندو غیر منقسم خاندان کے رکن طور پر کسی شخص یا اشخاص کی جماعت کے ذریعے ، کسی معاہدے میں کوئی حصہ یا مفاد رکھتا ہو،جو انجمن امداد باہمی اور حکومت کے درمیان کوئی معاہدہ نہ ہو، جو حکومت کو مال فراہم کرنے کے لئے، اس کے ساتھ کئے ہوئے کسی معاہدے کی تکمیل یا خدمات کی انجام دہی کے لئے ہو۔

مگر شرط یہ ہے ، کہ اس پیرے کے تحت نا اہلیت کا اطلاق کسی شخص پر نہیں ہو گا،

(اول) جو کہ معاہدے میں حصہ یا مفاد ، اس کو وراثت یا جانشینی کے ذریعے ، یا موصی یا موصی لہ،وصی یا مہتمم ترکہ کے طور پر منتقل ہوا ہو، جب تک اس کو اس کے اس طور پر منتقل ہونے کے بعد چھ ماہ کا عرصہ نہ گزر جائے۔

(دوم) جو کہ معاہد ہ کمپنی آر ڈیننس 1984ء میں تعریف کردہ ، کسی ایسی کمپنی عامہ نے کیا ہو، یا اس کی طرف سے کیا گیا ہو، جس کا وہ حصہ دار ہو،لیکن کمپنی کے تحت کسی منفعت بخش عہدے پر فائز مختار انتظامی نہ ہو، یا

(سوم) جو کہ وہ ایک غیر منقسم ہندو خاندان کا فرد ہو اور اس معاہدے میں خاندان کے کسی فرد نے علیحدہ کاروبار کے دوران کیا ہو،کوئی حصہ یا مفاد نہ رکھتا ہو، یا

(تشریح) اس آرٹیکل میں ''مال'' میں زرعی پیداوار یا جنس ، جو اس نے کاشت یا پیدا کی ہو، یا ایسا مال شامل نہیں ہے ، جسے فراہم کرنا اس پر حکومت کی ہدایت یا فی الوقت نافذ العمل کسی قانون کے تحت فرض ہو، یا وہ اس کے لئے پابند ہو۔

(س) وہ پاکستان کی ملازمت میں حسب ذیل عہدوں کے علاوہ کسی منفعت بخش عہدے پر فائز ہو، یعنی:

(اول) کوئی عہدہ جو ایسا کل وقتی عہدہ نہ ہو، جس کا معاوضہ یا تو تنخواہ کے ذریعے یا فیس کے ذریعے ملتا ہو،

(دوم) نمبردار کا عہدہ خواہ اس نام سے یا کسی دوسرے نا م سے موسوم ہو۔

(سوم) قومی رضا کار

(چہارم) کوئی عہدہ جس پر فائز شخص مذکورہ عہدے پر فائز ہونے کی وجہ سے کسی فوج کی تشکیل یا قیام کا حکم وضع کرنے والے کسی قانون کے تحت فوجی تربیت یا فوجی ملازمت کے لئے طلب کیے جانے کا مستوجب ہو، یا

(ع) اگر اس نے قرضہ دو ملین روپیہ یا زیادہ لیا ہے ، کسی بینک ، فنانشل ادارے ، کو آپریٹو سو سائٹی یا کو آپریٹو باڈی سے، اپنے نام پر ، یا اپنی بیوی ؍ خاوند یا بچوں کے نام پر ، جو ایک سال تک واپس ادائیگی نہ ہو سکی ہو، یا اس قرضہ کو معاف کروایا گیا ہو۔

(غ) وہ یا اس کی بیوی ، یا کفالت کار ، کوتاہی کر چکے ہوں، گورنمنٹ بقایا جات میں ، یوٹیلٹی بلز اخراجات میں ، بشمولہ ٹیلیفون ، بجلی ، گیس اور پانی چارجز زائد از دس ہزار روپیہ چھ ماہ تک ، دائری کاغذات نامزدگی تک۔

(ف) اسے فی الوقت نافذالعمل کسی قانون کے تحت مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) یا کسی صوبائی اسمبلی کے رکن کے طور پر منتخب ہونے یا چنے جانے کے لئے نااہل قرار دے دیا گیا ہو۔

(تشریح) اس پیرا گراف کے مقصد کے لئے ''قانون'' میں شامل نہ ہو گا، وہ قانون جو کسی آرڈیننس زیر آرٹیکل89-128کے ذریعے نافذ کیا گیا ہو۔

(۲) اگر کوئی سوال اٹھے کہ آیا مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کا کوئی رکن ، رکن رہنے کے لئے نا اہل ہو گیا ہے تو اسپیکر یا جیسی بھی صورت ہو چیرمین ، ماسوائے اس کے وہ فیصلہ کرے کہ یہ سوال پیدا نہ ہوا ہے ، اس سوال کو الیکشن کمیشن کو ریفر اندر معیاد تیس یوم کرے اور اگر وہ نہ بھیجے تو یہ تصورکیا جائے گا کہ الیکشن کمیشن کو بھیجا جائے گا۔

(۳) الیکشن کمیشن اس سوال کو اندر نوے یوم فیصلہ کرے گا اور اگر اس کی رائے میں ممبر نا اہل ہو گیا ہے، تو اس کی ممبر شپ تحلیل ہو جائے گی اور اس کی سیٹ خالی ہو جائے گی۔
Load Next Story