جوزف کالونی کے گھروں سے اُٹھنے والا دھواں کس کے مُنہ پر کالک مَل گیا
ہم کس مُنہ سے اِس بات پر اصرار کر سکتے ہیں کہ اقلیتوں کے ساتھ سلوک کا ہمارا ٹریک ریکارڈ بھارت سے بہتر ہے.
9مارچ 2013ء ہفتے کے روز ' جب بادامی باغ لاہور کی جوزف کالونی کے مسیحی مکینوں کے گھروں کو نذر آتش کیا گیا' تو اس میں جہاں قیمتی اسباب جل کر خاکستر ہوا' وہاں عیسائی مقدس علامات کی بے حرمتی بھی ہوئی' اور اس کے ساتھ قومی پرچم کے سفید حصے پر بھی سیاہی پھر گئی۔
یہ سب کچھ اس مذہب کے پیروکار' ''مذہب کی خاطر'' کر رہے تھے' جس میں دوران جنگ بھی مخالفین کے گھر اور کھیتیاں جلانے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ بے بس اور بے گناہ عیسائیوں کے گھروں پر یہ قیامت ان نبی رحمتﷺ کے نام پر ڈھائی گئی، جن ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ اگر غیر مسلموں پر زیادتی کی گئی تو وہ روز محشر ان کی طرف سے مدعی ہوں گے۔
جی ہاں' لوگ اشتعال میں تھے' انہیں اشتعال دلایا گیا تھا' لیکن کیا اسلام کے نام لیواؤں اور حرمت رسول ﷺ پر کٹ مرنے والوں کو اشتعال دلانا اتنا ہی آسان ہے کہ کوئی کسی پر الزام عائد کرے اور وہ قانون کی عملداری کے برخلاف' ملزم کی ساری کمیونٹی پر چڑھ دوڑیں؟ ان کے گھروں کو مسمار کر دیں؟؟
پنجاب میں عیسائی برادری کے خلاف پیش آنے والا یہ اندوہناک سانحہ' اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل 5 فروری1997ء کو' مسلم لیگ (ن) کے ہی دور حکومت میں' خانیوال میں واقع عیسائی بستی شانتی نگر کے گھروں کو لوٹ مار کے بعد جلا دیا گیا' مشنری سکول اور کئی گرجا گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ اس المیے کی ابتدا مذہب کی توہین کے ایک جھوٹے الزام سے ہوئی تھی۔
دعویٰ کیا گیا تھا کہ قرآن کے چند جلے ہوئے اوراق شانتی نگر سے دو کلو میٹر دور سڑک کے کنارے بنی ہوئی ایک چھوٹی مسجد کے پاس ملے ہیں' اور ان پر ایک عیسائی کا نام لکھا ہوا ہے' جو وہی شخص ہے جس نے ان اوراق کو جلایا ہے۔ علاقے کی تمام مسجدوں نے اپنے لاؤڈ سپیکروں سے یہ دعویٰ نشر کرنا اور ایمان والوں کو ''جہاد'' پر اکسانا شروع کر دیا تھا' جس کی وجہ سے اس الم ناک حادثے نے جنم لیا۔ اگست 2009ء میں سانحہ گوجرہ کا سبب بھی توہین قرآن کا الزام بنا' جس کے نتیجے میں خواتین سمیت سات افراد جاں بحق ہوئے اور کئی گھروں کو جلا دیا گیا۔
لاہور میں پیش آنے والے اس حالیہ سانحے کی تفصیلات کے مطابق، 7 مارچ کو نور روڈ کے رہائشی شاہد عمران نے پولیس کو درخواست دی کہ وہ اپنے دوست شفیق کے ساتھ جوزف کالونی سے گزر رہا تھا کہ وہاں موجود ساون مسیح نے مبینہ طور پر گستاخانہ الفاظ کہے۔ بادامی باغ پولیس نے مقدمہ درج کر کے جمعہ کی شب ملزم کو گرفتار کر لیا۔ ہفتے کی صبح کو مبینہ گستاخانہ واقعے کے خلاف ہزاروں افراد بادامی باغ کے علاقے میں جمع ہو گئے اور پھر ہجوم نے بپھر کر جوزف کالونی کے گھروں کو آگ لگانا شروع کر دی۔ گھروں کے بیشتر مکین' ایک روز پہلے ہی گھروں کو تالے لگا کر علاقے سے باہر چلے گئے تھے۔ اگرچہ اس سانحے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن 170 کے قریب گھروں' دکانوں اور ایک گرجا گھر کو نذر آتش کر دیا گیا۔
جیسا کہ واقعہ کی تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس حادثے سے 36گھنٹے پہلے ملزم کو گرفتار کر چکی تھی،اس کے باوجود ضروری حفاظتی اقدامات کرکے سانحے کو نہیں روکا جا سکا۔اس واقعہ سے پنجاب حکومت کی مکمل طور پر ناکامی اور نااہلی بھی سا منے آتی ہے۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ مذکورہ بالا تینوں افسوسناک واقعات کے وقت مسلم لیگ (ن) برسر اقتدار تھی،لیکن کسی بھی موقع پر ایسے سانحوں سے بچنے کیلئے فیصلہ کن ضروری اقدامات نہیں کیے گئے۔سانحہ گوجرہ کے بعد پنجاب حکومت کی طرف سے شائع ہونے والے مذہبی ہم آہنگی کے اشتہار میں اس بات کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی گئی تھی کہ پڑوسی ملک کی نسبت ہمارا اقلیتوں سے سلوک کا ٹریک ریکارڈ بہت بہتر ہے۔
معلوم نہیں یہ بات متاثرہ کمیونٹی کی تالیف قلب کے لیے لکھی گئی تھی یا انہیں ڈرانے کے لیے۔ اب کی بار بھی حکومت نے لیپا پوتی سے کام لے کر سانحے کو دبانے کی کوشش کی ہے۔ میڈیا کے ذریعے اس واقعے کے پس منظر سے متعلق جو پہلو سامنے آئے ہیں ان خطوط پر سنجیدگی سے تحقیقات کو آگے بڑ ھانے کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے از خود نوٹس میں آئی جی پنجاب کی طرف سے پیش کی جانے والی ابتدائی رپورٹ کو مسترد کردیا ہے۔ مقام افسوس ہے کہ سننے میں آیا ہے کہ اس اندوہناک حا دثے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے پولیس کے اس اقدام کی تعریف کی کہ انہوں نے ''بروقت''مکانات حالی کرائے،جس کی وجہ سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
اگر پولیس مکینوں کو اپنے گھروںسے بھگانے کے بجائے ،مجمع کو اکٹھا ہونے سے روک لیتی تو یہ حادثہ ہی وقوع پذیر نہ ہوتا ۔جب تک اس واقعہ کے ذمہ داروں کاتعین کرکے ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی اور متاثرہ افراد کے نقصانات کا ازالہ نہیں کیا جاتا،اس وقت تک عیسائی کمیونٹی کو مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔کہا جارہا ہے کہ اس واقعہ کے پیچھے علاقے کے کچھ سیاسی با اثر افراد بھی ہوسکتے ہیں، جن کی ایک عرصے سے جوزف کالونی کی قیمتی زمین پر نظریں تھیں اور وہ اسے حاصل کرنا چاہتے تھے ۔اس کام کیلئے انہیں تاجر مافیا کی سپورٹ بھی حاصل تھی۔
یہ بھی کہا گیا کہ یہ واقعہ دراصل دو شرابیوںکی ذاتی لڑائی تھی جسے بعد ازاں کچھ لوگوں نے اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ بہرحال حقیقت جو بھی ہو ،اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ذمہ داروں کے خلاف مکمل کارروائی ہوگی اور متاثرین کے نقصانات کا ازالہ کردیا جائے گا،تو بھی مسیحی برادری کی مذہبی علامات اور گرجاگھرکی بے حرمتی کرکے ان کے جذبات کو جس طرح سے ٹھیس پہنچائی گئی ہے اس کا ازالہ کیسے ہوگا؟کیا اس پر بھی توہین مذہب کے قانون کے تحت کوئی مقدمہ درج ہوگا؟
پاکستان میں مجموعی طورپر اقلیتوں کو مختلف مسائل درپیش رہے ہیں۔ سندھ سے ہندوئوں کی بھارت منتقلی کی بات ہو،یا ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان بنا کر شادیا ں رچانے کا معاملہ ہو،کسی بھی مسئلے پر متاثرہ کمیونٹی کو مطمئن نہیں کیا جاسکا اورنہ ہی مکمل تحقیقات کے بعد تمام حقائق سامنے لا کر معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا گیا ہے ۔ اسی طرح صوبہ خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقوں سے سکھ اقلیت کی زبر دستی بے دخلی کا معاملہ بھی ارباب اختیار کی توجہ کا متقاضی ہے۔
پھر اس حالیہ واقعے کے بعد پاکستان میں اقلیتوں کی بدتر صورتحال بین الاقوامی سطح پر نظروں میں آگئی ہے۔ضروری ہے کہ ان حقائق سے نظریں چرانے کے بجائے ان کا حل تلاش کیا جائے۔اس سے پاکستان میں اقلیتوں کی صورتحال بھی بہتر ہوگی اور ملک کا مثبت امیج بھی بحال ہوگا۔محض اقلیتی نمائندوں کو پارلیمنٹ میں رکنیت دے کر یا ان کی نشستیں بڑھا کر اس مسئلے کو حل نہیں کیا جا سکتا۔
صرف حکومتی سطح پر ضروری اقدامات کرنے سے مسئلے کا مستقل اور دیرپا حل تلاش نہیں کی جا سکتا۔معاشرتی اور سماجی سطح پر لوگوں کے رویوں اور سوچ میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔انٹیلی جنشیا، سول سوسائٹی ،پڑھے لکھے طبقات اور مذہبی سکالر وں کواس ضمن میں اپنا فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس سانحے پر مذہبی رہنمائوں کی صرف زبانی مذمت کافی نہیں بلکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان جماعتوں کے سرکردہ رہنما متاثرہ جگہ کا دورہ کرکے مظلوموں سے عملی طور پر اظہار ہمدردی کرتے لیکن ہماری معلومات کے مطابق تادم تحریر ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آیا۔ موجودہ حالات میں تو معاشرے میں انتہا پسندی اس حد تک سرایت کر چکی ہے کہ لوگ اختلافی نقطہ نظر کو سننے کیلئے بھی تیار نہیں اور مخالف فرقے کو قبول کرنے پر بھی آمادہ نہیں۔
ان حالات میں مذہبی اقلیتوں کیلئے رواداری اور بھائی چارے کی فضا تیار کرنے کیلئے معاشرتی سطح پر بہت بڑی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔شہریوں میں صبروتحمل پیدا کرنا ہوگا کہ وہ قانون کوہاتھ میں لینے کی بجائے قانون کی عملدآری کرانے میں اپنا کردار ادا کریں۔اسلام میں ایک بے گناہ کے قتل کو پور ی انسانیت کا قتل کہا گیا ہے جبکہ معاشرے میں دہشت پھیلانے والی سر گرمیوں کو تو فساد فی الارض کا نام دیا گیا ہے، جو کہ اس سے بھی بڑا اور ناقابل معافی جرم ہے۔جب تک پاکستان میں بسنے والے اقلیتی شہری خود کو برابرکا شہری اور محفوظ نہیں سمجھیں گے اس وقت تک قائداعظمؒ کے پاکستان کا خواب پورا نہیں ہوگا اور قومی پرچم کے رنگ بھی ادھورے رہیں گے۔
کچھ بھی نہیں بدلا
(سانحہ شانتی نگر پر ممتاز دانشور اقبال احمد مرحوم کی یادگار تحریر سے اقتباس)
6 فروری 1997ء کو شانتی نگر کے بدقسمت عیسائی باشندوںکے ساتھ جنونی مسلمانوں کے ہجوم نے جو دہشت ناک کارروائی کی اس کی روداد بیشتر اخباروں میں یکساں ہے۔ فساد برپا کرنے والوں نے تیرہ گرجا گھر تباہ کئے اور سیکڑوں گھر جلا ڈالے۔ لیکن اعداد و شمار اس جرم کی سنگینی کا پوری طرح اظہار کرنے سے قاصر ہیں جس کا ارتکاب اکثریتی مذہبی گروہ کے ایک حصے نے اقلیتی عقیدے سے تعلق رکھنے والے اپنے ہم وطن شہریوں کے خلاف کیا ہے۔
دستیاب ہونے والے شواہد اس جانب بھی اشارہ کرتے ہیں کہ لوگوں کو اس ظالمانہ کارروائی پر اکسانے اور اس کی تنظیم کرنے کے عمل میں ضلع خانیوال کی پولیس فورس کے کچھ ارکان باقاعدہ شامل تھے جبکہ باقی ارکان نے ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہوئے تماشا دیکھتے رہنے کا طرز عمل اختیار کر کے اس جرم میں اعانت کی۔ چند ایک کے بارے میں اطلاع ہے کہ انہوں نے لوٹ مار میں بھی حصہ لیا۔ اس بھیانک خواب کا انجام اس وقت ہوا جب قانون نافذ کرنے کے لئے فوج وہاں پہنچی۔ حالیہ یادداشت کی رو سے یہ فرقہ وارانہ تشدد کا بدترین واقعہ تھا۔
اخلاقی اصولوں کے قائل کسی معاشرے میں ایسا بھیانک واقعہ رونما ہوتا تو ذرائع ابلاغ اور تعلیم یافتہ طبقات اس خرابی کی جڑ تک پہنچنے کے لئے غور و فکر شروع کرتے۔ ہمیں حکومت اور سیاسی پارٹیوں کی جانب سے بھی یہ توقع کرنے کا حق تھا کہ وہ اعتماد بحال کرنے' اقدار کا اثبات کرنے اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے علامتی اور حقیقی اقدامات کریں۔ لیکن اس قسم کی کسی تشویش یا خود تنقیدی کا کوئی نشان نہیں ملتا۔
وفاقی یا صوبائی حکومت کے کسی سیاسی عہدے دار نے اس بدقسمت بستی کا دورہ نہیں کیا جس کا نام ''شانتی نگر'' بجائے خود ایک طنز بن گیا ہے۔ کسی منتخب یا غیر منتخب سیاسی لیڈر نے وہاں جا کر ان ڈرے ہوئے' ستم رسیدہ لوگوں کو دلاسا دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ جن کے 700 یا اس سے زیادہ گھر جلا دیئے گئے، اسباب لوٹ لیا گیا اور عورتوں کی بے حرمتی کی گئی۔ صرف ایک سیاسی لیڈر جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے اس ظلم کی برسرعام مذمت کی۔
۔۔۔۔۔تیز رفتار تبدیلیوں کے اس ماحول میں لوگوں کو ایک دانش مند قیادت، منصفانہ اور مضبوط انتظامیہ، قانون کی یقینی حکمرانی اور شراکت اور خود اختیاری کا احساس درکار ہوتا ہے۔ جب یہ چیزیں غیر موجود ہوں تو لوگ فرقہ پرست نظریہ سازوں کے پھندے میں آ جاتے ہیں جو آبادی کے مختلف حصوں کے درمیان فرق پر زور دیتے اور عقیدے کو نفرت اور خوف کے نظریے کے طور پر فروخت کرتے ہیں۔ تغیر کے ایسے زمانے میں جب سیاست کا زور ہو، ورشن خیال قوانین کا نفاذ نہایت ضروری اور منصفانہ نظام کا قیام بقا اور ترقی کے لیے لازمی ہے۔
سانحہ گوجرہ: انکوائری ٹربیونل کی سفارشات
اگست 2009ء میں ہونے والے گوجرہ سانحے کی تحقیقات کے لئے اس وقت کے پنجاب ہائی کورٹ کے جج جسٹس اقبال حمید الرحمان کی سربراہی میں ایک انکوائری ٹربیونل تشکیل دیا گیا تھا۔ اس ٹربیونل نے 258 صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ گوجرہ کے اس افسوسناک حادثے کو سنجیدگی سے لے اور بغیر کسی تاخیر کے جنگی بنیادوں پر ضروری اقدامات کیئے جائیں، تاکہ مستقبل میں ایسے نقصانات سے بچا جا سکے۔ انکوائری ٹربیونل نے ملک میں پہلے سے جاری دہشت گردی اور شت پسندی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان حالات میں ہم فرقہ وارانہ مذہبی فسادات جیسے واقعات کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے ریاست کو اپنی پوری طاقت بروئے کار لانی چاہئے۔ رپورٹ میں تجویز کیا گیا کہ تعزیرات پاکستان کی دفعات 295 اور اس کی ذیلی دفعات' دفعات 298,297,296 اور اس کی ذیلی دفعات میں ضروری ترامیم کی جائیں۔ اس کے علاوہ انٹیلی جنس نظام کو بہتر بنانے اور سکیورٹی کی بہتری سے متعلق بیسیوں دوسرے اقدامات بھی تجویز کئے گئے۔ جبکہ اس سانحے کا ذمہ دار سکیورٹی اداروں اور مقامی انتظامیہ کی نااہلی کو ٹھہرایا گیا۔
یہ سب کچھ اس مذہب کے پیروکار' ''مذہب کی خاطر'' کر رہے تھے' جس میں دوران جنگ بھی مخالفین کے گھر اور کھیتیاں جلانے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ بے بس اور بے گناہ عیسائیوں کے گھروں پر یہ قیامت ان نبی رحمتﷺ کے نام پر ڈھائی گئی، جن ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ اگر غیر مسلموں پر زیادتی کی گئی تو وہ روز محشر ان کی طرف سے مدعی ہوں گے۔
جی ہاں' لوگ اشتعال میں تھے' انہیں اشتعال دلایا گیا تھا' لیکن کیا اسلام کے نام لیواؤں اور حرمت رسول ﷺ پر کٹ مرنے والوں کو اشتعال دلانا اتنا ہی آسان ہے کہ کوئی کسی پر الزام عائد کرے اور وہ قانون کی عملداری کے برخلاف' ملزم کی ساری کمیونٹی پر چڑھ دوڑیں؟ ان کے گھروں کو مسمار کر دیں؟؟
پنجاب میں عیسائی برادری کے خلاف پیش آنے والا یہ اندوہناک سانحہ' اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل 5 فروری1997ء کو' مسلم لیگ (ن) کے ہی دور حکومت میں' خانیوال میں واقع عیسائی بستی شانتی نگر کے گھروں کو لوٹ مار کے بعد جلا دیا گیا' مشنری سکول اور کئی گرجا گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ اس المیے کی ابتدا مذہب کی توہین کے ایک جھوٹے الزام سے ہوئی تھی۔
دعویٰ کیا گیا تھا کہ قرآن کے چند جلے ہوئے اوراق شانتی نگر سے دو کلو میٹر دور سڑک کے کنارے بنی ہوئی ایک چھوٹی مسجد کے پاس ملے ہیں' اور ان پر ایک عیسائی کا نام لکھا ہوا ہے' جو وہی شخص ہے جس نے ان اوراق کو جلایا ہے۔ علاقے کی تمام مسجدوں نے اپنے لاؤڈ سپیکروں سے یہ دعویٰ نشر کرنا اور ایمان والوں کو ''جہاد'' پر اکسانا شروع کر دیا تھا' جس کی وجہ سے اس الم ناک حادثے نے جنم لیا۔ اگست 2009ء میں سانحہ گوجرہ کا سبب بھی توہین قرآن کا الزام بنا' جس کے نتیجے میں خواتین سمیت سات افراد جاں بحق ہوئے اور کئی گھروں کو جلا دیا گیا۔
لاہور میں پیش آنے والے اس حالیہ سانحے کی تفصیلات کے مطابق، 7 مارچ کو نور روڈ کے رہائشی شاہد عمران نے پولیس کو درخواست دی کہ وہ اپنے دوست شفیق کے ساتھ جوزف کالونی سے گزر رہا تھا کہ وہاں موجود ساون مسیح نے مبینہ طور پر گستاخانہ الفاظ کہے۔ بادامی باغ پولیس نے مقدمہ درج کر کے جمعہ کی شب ملزم کو گرفتار کر لیا۔ ہفتے کی صبح کو مبینہ گستاخانہ واقعے کے خلاف ہزاروں افراد بادامی باغ کے علاقے میں جمع ہو گئے اور پھر ہجوم نے بپھر کر جوزف کالونی کے گھروں کو آگ لگانا شروع کر دی۔ گھروں کے بیشتر مکین' ایک روز پہلے ہی گھروں کو تالے لگا کر علاقے سے باہر چلے گئے تھے۔ اگرچہ اس سانحے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن 170 کے قریب گھروں' دکانوں اور ایک گرجا گھر کو نذر آتش کر دیا گیا۔
جیسا کہ واقعہ کی تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس حادثے سے 36گھنٹے پہلے ملزم کو گرفتار کر چکی تھی،اس کے باوجود ضروری حفاظتی اقدامات کرکے سانحے کو نہیں روکا جا سکا۔اس واقعہ سے پنجاب حکومت کی مکمل طور پر ناکامی اور نااہلی بھی سا منے آتی ہے۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ مذکورہ بالا تینوں افسوسناک واقعات کے وقت مسلم لیگ (ن) برسر اقتدار تھی،لیکن کسی بھی موقع پر ایسے سانحوں سے بچنے کیلئے فیصلہ کن ضروری اقدامات نہیں کیے گئے۔سانحہ گوجرہ کے بعد پنجاب حکومت کی طرف سے شائع ہونے والے مذہبی ہم آہنگی کے اشتہار میں اس بات کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی گئی تھی کہ پڑوسی ملک کی نسبت ہمارا اقلیتوں سے سلوک کا ٹریک ریکارڈ بہت بہتر ہے۔
معلوم نہیں یہ بات متاثرہ کمیونٹی کی تالیف قلب کے لیے لکھی گئی تھی یا انہیں ڈرانے کے لیے۔ اب کی بار بھی حکومت نے لیپا پوتی سے کام لے کر سانحے کو دبانے کی کوشش کی ہے۔ میڈیا کے ذریعے اس واقعے کے پس منظر سے متعلق جو پہلو سامنے آئے ہیں ان خطوط پر سنجیدگی سے تحقیقات کو آگے بڑ ھانے کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے از خود نوٹس میں آئی جی پنجاب کی طرف سے پیش کی جانے والی ابتدائی رپورٹ کو مسترد کردیا ہے۔ مقام افسوس ہے کہ سننے میں آیا ہے کہ اس اندوہناک حا دثے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے پولیس کے اس اقدام کی تعریف کی کہ انہوں نے ''بروقت''مکانات حالی کرائے،جس کی وجہ سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
اگر پولیس مکینوں کو اپنے گھروںسے بھگانے کے بجائے ،مجمع کو اکٹھا ہونے سے روک لیتی تو یہ حادثہ ہی وقوع پذیر نہ ہوتا ۔جب تک اس واقعہ کے ذمہ داروں کاتعین کرکے ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی اور متاثرہ افراد کے نقصانات کا ازالہ نہیں کیا جاتا،اس وقت تک عیسائی کمیونٹی کو مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔کہا جارہا ہے کہ اس واقعہ کے پیچھے علاقے کے کچھ سیاسی با اثر افراد بھی ہوسکتے ہیں، جن کی ایک عرصے سے جوزف کالونی کی قیمتی زمین پر نظریں تھیں اور وہ اسے حاصل کرنا چاہتے تھے ۔اس کام کیلئے انہیں تاجر مافیا کی سپورٹ بھی حاصل تھی۔
یہ بھی کہا گیا کہ یہ واقعہ دراصل دو شرابیوںکی ذاتی لڑائی تھی جسے بعد ازاں کچھ لوگوں نے اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ بہرحال حقیقت جو بھی ہو ،اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ذمہ داروں کے خلاف مکمل کارروائی ہوگی اور متاثرین کے نقصانات کا ازالہ کردیا جائے گا،تو بھی مسیحی برادری کی مذہبی علامات اور گرجاگھرکی بے حرمتی کرکے ان کے جذبات کو جس طرح سے ٹھیس پہنچائی گئی ہے اس کا ازالہ کیسے ہوگا؟کیا اس پر بھی توہین مذہب کے قانون کے تحت کوئی مقدمہ درج ہوگا؟
پاکستان میں مجموعی طورپر اقلیتوں کو مختلف مسائل درپیش رہے ہیں۔ سندھ سے ہندوئوں کی بھارت منتقلی کی بات ہو،یا ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان بنا کر شادیا ں رچانے کا معاملہ ہو،کسی بھی مسئلے پر متاثرہ کمیونٹی کو مطمئن نہیں کیا جاسکا اورنہ ہی مکمل تحقیقات کے بعد تمام حقائق سامنے لا کر معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا گیا ہے ۔ اسی طرح صوبہ خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقوں سے سکھ اقلیت کی زبر دستی بے دخلی کا معاملہ بھی ارباب اختیار کی توجہ کا متقاضی ہے۔
پھر اس حالیہ واقعے کے بعد پاکستان میں اقلیتوں کی بدتر صورتحال بین الاقوامی سطح پر نظروں میں آگئی ہے۔ضروری ہے کہ ان حقائق سے نظریں چرانے کے بجائے ان کا حل تلاش کیا جائے۔اس سے پاکستان میں اقلیتوں کی صورتحال بھی بہتر ہوگی اور ملک کا مثبت امیج بھی بحال ہوگا۔محض اقلیتی نمائندوں کو پارلیمنٹ میں رکنیت دے کر یا ان کی نشستیں بڑھا کر اس مسئلے کو حل نہیں کیا جا سکتا۔
صرف حکومتی سطح پر ضروری اقدامات کرنے سے مسئلے کا مستقل اور دیرپا حل تلاش نہیں کی جا سکتا۔معاشرتی اور سماجی سطح پر لوگوں کے رویوں اور سوچ میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔انٹیلی جنشیا، سول سوسائٹی ،پڑھے لکھے طبقات اور مذہبی سکالر وں کواس ضمن میں اپنا فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس سانحے پر مذہبی رہنمائوں کی صرف زبانی مذمت کافی نہیں بلکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان جماعتوں کے سرکردہ رہنما متاثرہ جگہ کا دورہ کرکے مظلوموں سے عملی طور پر اظہار ہمدردی کرتے لیکن ہماری معلومات کے مطابق تادم تحریر ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آیا۔ موجودہ حالات میں تو معاشرے میں انتہا پسندی اس حد تک سرایت کر چکی ہے کہ لوگ اختلافی نقطہ نظر کو سننے کیلئے بھی تیار نہیں اور مخالف فرقے کو قبول کرنے پر بھی آمادہ نہیں۔
ان حالات میں مذہبی اقلیتوں کیلئے رواداری اور بھائی چارے کی فضا تیار کرنے کیلئے معاشرتی سطح پر بہت بڑی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔شہریوں میں صبروتحمل پیدا کرنا ہوگا کہ وہ قانون کوہاتھ میں لینے کی بجائے قانون کی عملدآری کرانے میں اپنا کردار ادا کریں۔اسلام میں ایک بے گناہ کے قتل کو پور ی انسانیت کا قتل کہا گیا ہے جبکہ معاشرے میں دہشت پھیلانے والی سر گرمیوں کو تو فساد فی الارض کا نام دیا گیا ہے، جو کہ اس سے بھی بڑا اور ناقابل معافی جرم ہے۔جب تک پاکستان میں بسنے والے اقلیتی شہری خود کو برابرکا شہری اور محفوظ نہیں سمجھیں گے اس وقت تک قائداعظمؒ کے پاکستان کا خواب پورا نہیں ہوگا اور قومی پرچم کے رنگ بھی ادھورے رہیں گے۔
کچھ بھی نہیں بدلا
(سانحہ شانتی نگر پر ممتاز دانشور اقبال احمد مرحوم کی یادگار تحریر سے اقتباس)
6 فروری 1997ء کو شانتی نگر کے بدقسمت عیسائی باشندوںکے ساتھ جنونی مسلمانوں کے ہجوم نے جو دہشت ناک کارروائی کی اس کی روداد بیشتر اخباروں میں یکساں ہے۔ فساد برپا کرنے والوں نے تیرہ گرجا گھر تباہ کئے اور سیکڑوں گھر جلا ڈالے۔ لیکن اعداد و شمار اس جرم کی سنگینی کا پوری طرح اظہار کرنے سے قاصر ہیں جس کا ارتکاب اکثریتی مذہبی گروہ کے ایک حصے نے اقلیتی عقیدے سے تعلق رکھنے والے اپنے ہم وطن شہریوں کے خلاف کیا ہے۔
دستیاب ہونے والے شواہد اس جانب بھی اشارہ کرتے ہیں کہ لوگوں کو اس ظالمانہ کارروائی پر اکسانے اور اس کی تنظیم کرنے کے عمل میں ضلع خانیوال کی پولیس فورس کے کچھ ارکان باقاعدہ شامل تھے جبکہ باقی ارکان نے ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہوئے تماشا دیکھتے رہنے کا طرز عمل اختیار کر کے اس جرم میں اعانت کی۔ چند ایک کے بارے میں اطلاع ہے کہ انہوں نے لوٹ مار میں بھی حصہ لیا۔ اس بھیانک خواب کا انجام اس وقت ہوا جب قانون نافذ کرنے کے لئے فوج وہاں پہنچی۔ حالیہ یادداشت کی رو سے یہ فرقہ وارانہ تشدد کا بدترین واقعہ تھا۔
اخلاقی اصولوں کے قائل کسی معاشرے میں ایسا بھیانک واقعہ رونما ہوتا تو ذرائع ابلاغ اور تعلیم یافتہ طبقات اس خرابی کی جڑ تک پہنچنے کے لئے غور و فکر شروع کرتے۔ ہمیں حکومت اور سیاسی پارٹیوں کی جانب سے بھی یہ توقع کرنے کا حق تھا کہ وہ اعتماد بحال کرنے' اقدار کا اثبات کرنے اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے علامتی اور حقیقی اقدامات کریں۔ لیکن اس قسم کی کسی تشویش یا خود تنقیدی کا کوئی نشان نہیں ملتا۔
وفاقی یا صوبائی حکومت کے کسی سیاسی عہدے دار نے اس بدقسمت بستی کا دورہ نہیں کیا جس کا نام ''شانتی نگر'' بجائے خود ایک طنز بن گیا ہے۔ کسی منتخب یا غیر منتخب سیاسی لیڈر نے وہاں جا کر ان ڈرے ہوئے' ستم رسیدہ لوگوں کو دلاسا دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ جن کے 700 یا اس سے زیادہ گھر جلا دیئے گئے، اسباب لوٹ لیا گیا اور عورتوں کی بے حرمتی کی گئی۔ صرف ایک سیاسی لیڈر جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے اس ظلم کی برسرعام مذمت کی۔
۔۔۔۔۔تیز رفتار تبدیلیوں کے اس ماحول میں لوگوں کو ایک دانش مند قیادت، منصفانہ اور مضبوط انتظامیہ، قانون کی یقینی حکمرانی اور شراکت اور خود اختیاری کا احساس درکار ہوتا ہے۔ جب یہ چیزیں غیر موجود ہوں تو لوگ فرقہ پرست نظریہ سازوں کے پھندے میں آ جاتے ہیں جو آبادی کے مختلف حصوں کے درمیان فرق پر زور دیتے اور عقیدے کو نفرت اور خوف کے نظریے کے طور پر فروخت کرتے ہیں۔ تغیر کے ایسے زمانے میں جب سیاست کا زور ہو، ورشن خیال قوانین کا نفاذ نہایت ضروری اور منصفانہ نظام کا قیام بقا اور ترقی کے لیے لازمی ہے۔
سانحہ گوجرہ: انکوائری ٹربیونل کی سفارشات
اگست 2009ء میں ہونے والے گوجرہ سانحے کی تحقیقات کے لئے اس وقت کے پنجاب ہائی کورٹ کے جج جسٹس اقبال حمید الرحمان کی سربراہی میں ایک انکوائری ٹربیونل تشکیل دیا گیا تھا۔ اس ٹربیونل نے 258 صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ گوجرہ کے اس افسوسناک حادثے کو سنجیدگی سے لے اور بغیر کسی تاخیر کے جنگی بنیادوں پر ضروری اقدامات کیئے جائیں، تاکہ مستقبل میں ایسے نقصانات سے بچا جا سکے۔ انکوائری ٹربیونل نے ملک میں پہلے سے جاری دہشت گردی اور شت پسندی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان حالات میں ہم فرقہ وارانہ مذہبی فسادات جیسے واقعات کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے ریاست کو اپنی پوری طاقت بروئے کار لانی چاہئے۔ رپورٹ میں تجویز کیا گیا کہ تعزیرات پاکستان کی دفعات 295 اور اس کی ذیلی دفعات' دفعات 298,297,296 اور اس کی ذیلی دفعات میں ضروری ترامیم کی جائیں۔ اس کے علاوہ انٹیلی جنس نظام کو بہتر بنانے اور سکیورٹی کی بہتری سے متعلق بیسیوں دوسرے اقدامات بھی تجویز کئے گئے۔ جبکہ اس سانحے کا ذمہ دار سکیورٹی اداروں اور مقامی انتظامیہ کی نااہلی کو ٹھہرایا گیا۔