مینوفیکچرنگ فالٹ
میرا وہ گھر اب تک نہ جانے کتنے ہاتھوں میں فروخت ہوچکا ہے، جب کہ اس کی ملکیت کے کاغذات میرے پاس ہیں۔
ISLAMABAD:
1992 میں، سندھی روزنامے، عوامی آواز کراچی کا ایڈیٹر ہوتے ہوئے میں نے باتھ آئی لینڈ میں پنجاب ہاؤس سے ملحقہ کچی آبادی، ٹیکری کالونی میں، جو اس وقت تک ریگولرائز نہیں ہوئی تھی کوئی 400 مربع گز کا ایک ملبہ پلاٹ خریدا تھا، جس پر میرے بنوائے ہوئے 2 کمروں کے گھر سمیت بعد میں قبضہ ہوگیا اور میں کچھ نہ کرسکا۔ میرا وہ گھر اب تک نہ جانے کتنے ہاتھوں میں فروخت ہوچکا ہے، جب کہ اس کی ملکیت کے کاغذات میرے پاس ہیں جن میں وہ عدالتی فیصلہ بھی شامل ہے جس میں یہ قرار دیا گیا تھا کہ وہ پلاٹ میرا ہے، لیکن وہ میرے کسی کام نہ آسکا۔ 2 سال بیت گئے، اب میں سینیٹر (ریٹائرڈ) یوسف شاہین کے جاری کردہ اخبار، برسات کا ایڈیٹر تھا۔
ایک روز صبح صبح سادہ کپڑوں میں ملبوس ایک صاحب مجھ سے ملنے گھر آئے اور اپنا تعارف ایک پولیس آفیسر کی حیثیت سے کروایا۔ انھوں نے میرے ایک دوست کا حوالہ دیا اور بتایا کہ وہ ان کے بھی دوست ہیں اور انھی کے کہنے پر پلاٹ کا قبضہ چھڑانے میں میری مدد کرنے آئے ہیں۔ ان دنوں جنرل نصیراﷲ بابر کراچی میں آپریشن کی کمان کر رہے تھے اور یہ صاحب ضلع شرقی میں قائم اینٹی ٹیررسٹ سیل کے انچارج تھے۔ انھوں نے مجھے اپنا پولیس کارڈ بھی دکھایا تھا۔
میرے دریافت کرنے پر کہ وہ کس طرح میری مدد کریں گے، موصوف نے بے تکلفی سے جواب دیا کہ اس کے لیے انھیں کوئی لمبی چوڑی منصوبہ بندی نہیں کرنی، بس وہ قبضہ گروپ کے سرغنہ کو اپنے ضلع کی حدود میں کسی جگہ بلوا کر اٹھوا لیں گے (ان کے الفاظ پر ذرا غور کیجیے گا) اور تین چار دن اپنا مہمان رکھیں گے۔ چوتھے دن اگر وہ زندہ بچا تو اس سے پوچھیں گے کہ پلاٹ دینا ہے یا ابھی اور خاطر تواضع کروانی ہے۔
انھوں نے اپنے تجربے کی بنیاد پر دعوے سے کہا کہ اسے پلاٹ واپس کرنے میں ہی اپنی عافیت نظر آئے گی۔ یقین مانیے ان کی بات سن کر میری طبیعت بگڑنے لگی، میں نے پوچھا اگر وہ نہ مانا تو کیا آپ اسے جان سے مار دیں گے۔ بولے ہم اسے بٹھا کر گدگدیاں تو کرنے سے رہے، ویسے آپ پریشان نہ ہوں، یہ لوگ بڑے ڈھیٹ ہوتے ہیں، اتنی آسانی سے نہیں مرتے، زیادہ ہوا تو دو چار ہڈیاں پسلیاں تڑوا کر پھر ہماری بات مانے گا، لیکن مانے گا ضرور۔
میں نے ہمدردی کرنے اور گھر آنے کی زحمت کرنے پر اپنے اس بہادر اور قانون کے رکھوالے پولیس آفیسر کا شکریہ ادا کیا اور یہ کہہ کر رخصت کردیا کہ مجھے اس طرح پلاٹ واپس نہیں لینا۔ جاتے وقت ان کا کہا ہوا جملہ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ ''پھر آپ پلاٹ کو بھول جائیے''۔
وہی دن تھے جب مرتضیٰ بھٹو جلاوطنی ختم کرکے وطن لوٹے تھے۔ ایک روز انھوں نے 70 کلفٹن میں مدیران جرائد کے اعزاز میں ''آم پارٹی'' کا اہتمام کیا، میں پہنچا تو پتہ چلا اور کوئی نہیں آیا تھا۔ میر صاحب کے اسٹاف کا ایک آدمی مجھے کمپنی دینے کے لیے میرے پاس آکر بیٹھ گیا۔ علیک سلیک ہوئی تو اس کے لہجے نے مجھے چونکا دیا، 78 میں ہم دونوں جیل میں ساتھ تھے، تب وہ ''مساوات، لاہور'' سے وابستہ تھا۔ دوران گفتگو جب اس نے پوچھا کہاں رہتے ہو تو میں نے کہا ارادہ تو یہاں تمہارے پڑوس میں رہنے کا تھا، پلاٹ لے کر گھر بھی بنوایا لیکن بھائی لوگوں نے قبضہ کرلیا۔
میں ابھی جملہ پورا بھی نہیں کر پایا تھا کہ میر صاحب کمرے میں داخل ہوئے، انھوں نے احسان سے کہا ہوا میرا جملہ سن لیا تھا، اس لیے بیٹھتے ہی میری طرف دیکھ کر بولے، آج آپ کی زبانی پتہ چلا کہ یہاں ہم سے بڑے بدمعاش بھی ہیں۔ پھر احسان کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا معلوم تو کرو کون لوگ ہیں، ہم بھی سلام کرنے جائیں گے۔ بات آئی گئی ہوگئی کہ ایڈیٹر صاحبان آنا شروع ہوگئے تھے۔ پھر سب نے مل کر آم کھائے اور پارٹی ختم ہوئی۔ شام کو میں اداریہ لکھ کر فارغ ہی ہوا تھا کہ احسان آگیا، باہر کھلی جیپ میں اس کے ساتھ آئے ہوئے مسلح لڑکے بیٹھے تھے۔
اس نے بیٹھتے ہی کہا جلدی سے اپنے پلاٹ کا پتہ بتاؤ، میر صاحب کا حکم ہے آج ہی اس کا قبضہ لینا ہے، میں نے پوچھا کیسے؟ تو اس نے کہا بھائی، ان کے آگے جھولی تو پھیلائیں گے نہیں کہ مہربانی کرکے ہمارا پلاٹ خالی کردو۔ یہ ہمارا کام ہے ہم کریں گے، تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، اﷲ نے چاہا تو کل تمہیں اپنے پلاٹ کا قبضہ مل جائے گا۔
میں احسان کی بات سن کر خوفزدہ ہوگیا، میں نے اسے ساتھ گزارے ہوئے اسیری کے دنوں کا واسطہ دے کر کہا کہ وہ میر صاحب کو سمجھائے کہ اس طرح قانون ہاتھ میں لینا غلط ہے، انھیں کچھ نہیں ہوگا لیکن اگر کچھ اونچ نیچ ہوگئی تو مارا میں جاؤں گا کہ پلاٹ تو بہرحال میرا ہے۔ وہ نہیں مانا تو میں نے اسے سختی سے منع کردیا۔ اس نے واپس پہنچ کر میر صاحب سے میری بات کرائی، جنھوں نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ میں ڈروں نہیں، جو کچھ کریں گے ان کے آدمی کریں گے، وہ میرے ساتھ ہیں وغیرہ، لیکن میں نے شکریے کے ساتھ ان کی مدد کی پیشکش ٹھکرا دی۔ میر صاحب نے ناراض ہوکر فون بند کردیا اور بات ختم ہوگئی۔
آج سوچتا ہوں اگر ان کی یا کم از کم اس پولیس افسر کی بات مان لیتا تو کروڑ پتی ہوتا اور ٹھاٹھ سے بسر ہوتی۔ آپ پوچھیں گے کیسے، تو لگے ہاتھوں وہ بھی سن لیں۔ میں نے وہ پلاٹ دو لاکھ روپوں سے بھی کم رقم کے عوض خریدا تھا اور گھر بنوانے پر مزید 5 لاکھ روپے لاگت آئی تھی، لیکن جب ایک بلڈر نے کارنر کے اس پلاٹ کے مجھے 20 ہزار روپے گز کے حساب سے (جو تقریباً 80 لاکھ روپے بنتے تھے) دینے کی پیشکش کی تو میرے پڑوسیوں کی نیت میں فتور آیا اور انھوں نے پلاٹ ہتھیانے کا منصوبہ بنایا۔
ایک روز شام کے وقت یہ لوگ بشمول قبضہ گروپ کا سرغنہ اور اس کا آلہ کار، جس سے میں نے پلاٹ خریدا تھا، مجھ سے ملنے پریس کلب آئے اور بولے یہاں سے گزر رہے تھے، سوچا آپ سے ملتے جائیں۔ میں نے کہا اچھا کیا اور ان کے لیے چائے وغیرہ منگوائی۔ وہ لوگ کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے، پھر ان کا سرغنہ مجھ سے مخاطب ہوکر بولا کہ اس نے کچھ بات کرنی ہے۔ میں نے کہا ہاں بولو۔ تو اس نے پہلے تمہید باندھی کہ انھوں نے ہی مجھے وہ پلاٹ دلوایا تھا، میں نے گھر بنوایا تو وہی کام کی نگرانی بھی کرتے تھے اور آج تک اس کی دیکھ بھال کرتے رہے، کیونکہ میں تو وہاں رہتا نہیں تھا۔ پھر ایک دم مطلب کی بات پر آتے ہوئے کہنے لگا گھر پر ہمارا قبضہ ہے اور ہم اس میں رہ رہے ہیں، اب بیٹھے ہیں تو نکلیں گے نہیں، ہم بھی آپ کے بچوں کی طرح ہیں، ویسے ہم آپ کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کرنا چاہتے، آپ کے 7 لاکھ (میری لاگت) ہمارے پاس آپ کی امانت ہیں۔
ابھی آدھے گھنٹے میں حاضر کردیں گے، بس آپ دو لفظ لکھ دیں کہ آپ نے یہ ہمارے ہاتھ بیچ دیا ہے۔ مجھے سمجھنے میں دیر نہیں لگی اور میں فوراً بات کی تہہ تک پہنچ گیا۔ ہمارے مرحوم دوست وائی ایل (یوسف لودھی) کے بقول شاید مجھ میں کوئی مینوفیکچرنگ فالٹ ہے، تبھی میں نے انھیں بڑے پیار اور اپنائیت سے سمجھاتے ہوئے کہا کہ جب قبضہ کرنے کا فیصلہ کر ہی چکے ہو تو 7 لاکھ بھی کیوں ضایع کرتے ہو، رکھو اپنے پاس۔ اگر کبھی لینے کی پوزیشن میں ہوا تو تم سے اپنا پلاٹ واپس لے لوں گا، ورنہ تمہارے باپ کا ہے، جاؤ عیش کرو۔ اور وہ عیش کر رہے ہیں۔
1992 میں، سندھی روزنامے، عوامی آواز کراچی کا ایڈیٹر ہوتے ہوئے میں نے باتھ آئی لینڈ میں پنجاب ہاؤس سے ملحقہ کچی آبادی، ٹیکری کالونی میں، جو اس وقت تک ریگولرائز نہیں ہوئی تھی کوئی 400 مربع گز کا ایک ملبہ پلاٹ خریدا تھا، جس پر میرے بنوائے ہوئے 2 کمروں کے گھر سمیت بعد میں قبضہ ہوگیا اور میں کچھ نہ کرسکا۔ میرا وہ گھر اب تک نہ جانے کتنے ہاتھوں میں فروخت ہوچکا ہے، جب کہ اس کی ملکیت کے کاغذات میرے پاس ہیں جن میں وہ عدالتی فیصلہ بھی شامل ہے جس میں یہ قرار دیا گیا تھا کہ وہ پلاٹ میرا ہے، لیکن وہ میرے کسی کام نہ آسکا۔ 2 سال بیت گئے، اب میں سینیٹر (ریٹائرڈ) یوسف شاہین کے جاری کردہ اخبار، برسات کا ایڈیٹر تھا۔
ایک روز صبح صبح سادہ کپڑوں میں ملبوس ایک صاحب مجھ سے ملنے گھر آئے اور اپنا تعارف ایک پولیس آفیسر کی حیثیت سے کروایا۔ انھوں نے میرے ایک دوست کا حوالہ دیا اور بتایا کہ وہ ان کے بھی دوست ہیں اور انھی کے کہنے پر پلاٹ کا قبضہ چھڑانے میں میری مدد کرنے آئے ہیں۔ ان دنوں جنرل نصیراﷲ بابر کراچی میں آپریشن کی کمان کر رہے تھے اور یہ صاحب ضلع شرقی میں قائم اینٹی ٹیررسٹ سیل کے انچارج تھے۔ انھوں نے مجھے اپنا پولیس کارڈ بھی دکھایا تھا۔
میرے دریافت کرنے پر کہ وہ کس طرح میری مدد کریں گے، موصوف نے بے تکلفی سے جواب دیا کہ اس کے لیے انھیں کوئی لمبی چوڑی منصوبہ بندی نہیں کرنی، بس وہ قبضہ گروپ کے سرغنہ کو اپنے ضلع کی حدود میں کسی جگہ بلوا کر اٹھوا لیں گے (ان کے الفاظ پر ذرا غور کیجیے گا) اور تین چار دن اپنا مہمان رکھیں گے۔ چوتھے دن اگر وہ زندہ بچا تو اس سے پوچھیں گے کہ پلاٹ دینا ہے یا ابھی اور خاطر تواضع کروانی ہے۔
انھوں نے اپنے تجربے کی بنیاد پر دعوے سے کہا کہ اسے پلاٹ واپس کرنے میں ہی اپنی عافیت نظر آئے گی۔ یقین مانیے ان کی بات سن کر میری طبیعت بگڑنے لگی، میں نے پوچھا اگر وہ نہ مانا تو کیا آپ اسے جان سے مار دیں گے۔ بولے ہم اسے بٹھا کر گدگدیاں تو کرنے سے رہے، ویسے آپ پریشان نہ ہوں، یہ لوگ بڑے ڈھیٹ ہوتے ہیں، اتنی آسانی سے نہیں مرتے، زیادہ ہوا تو دو چار ہڈیاں پسلیاں تڑوا کر پھر ہماری بات مانے گا، لیکن مانے گا ضرور۔
میں نے ہمدردی کرنے اور گھر آنے کی زحمت کرنے پر اپنے اس بہادر اور قانون کے رکھوالے پولیس آفیسر کا شکریہ ادا کیا اور یہ کہہ کر رخصت کردیا کہ مجھے اس طرح پلاٹ واپس نہیں لینا۔ جاتے وقت ان کا کہا ہوا جملہ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ ''پھر آپ پلاٹ کو بھول جائیے''۔
وہی دن تھے جب مرتضیٰ بھٹو جلاوطنی ختم کرکے وطن لوٹے تھے۔ ایک روز انھوں نے 70 کلفٹن میں مدیران جرائد کے اعزاز میں ''آم پارٹی'' کا اہتمام کیا، میں پہنچا تو پتہ چلا اور کوئی نہیں آیا تھا۔ میر صاحب کے اسٹاف کا ایک آدمی مجھے کمپنی دینے کے لیے میرے پاس آکر بیٹھ گیا۔ علیک سلیک ہوئی تو اس کے لہجے نے مجھے چونکا دیا، 78 میں ہم دونوں جیل میں ساتھ تھے، تب وہ ''مساوات، لاہور'' سے وابستہ تھا۔ دوران گفتگو جب اس نے پوچھا کہاں رہتے ہو تو میں نے کہا ارادہ تو یہاں تمہارے پڑوس میں رہنے کا تھا، پلاٹ لے کر گھر بھی بنوایا لیکن بھائی لوگوں نے قبضہ کرلیا۔
میں ابھی جملہ پورا بھی نہیں کر پایا تھا کہ میر صاحب کمرے میں داخل ہوئے، انھوں نے احسان سے کہا ہوا میرا جملہ سن لیا تھا، اس لیے بیٹھتے ہی میری طرف دیکھ کر بولے، آج آپ کی زبانی پتہ چلا کہ یہاں ہم سے بڑے بدمعاش بھی ہیں۔ پھر احسان کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا معلوم تو کرو کون لوگ ہیں، ہم بھی سلام کرنے جائیں گے۔ بات آئی گئی ہوگئی کہ ایڈیٹر صاحبان آنا شروع ہوگئے تھے۔ پھر سب نے مل کر آم کھائے اور پارٹی ختم ہوئی۔ شام کو میں اداریہ لکھ کر فارغ ہی ہوا تھا کہ احسان آگیا، باہر کھلی جیپ میں اس کے ساتھ آئے ہوئے مسلح لڑکے بیٹھے تھے۔
اس نے بیٹھتے ہی کہا جلدی سے اپنے پلاٹ کا پتہ بتاؤ، میر صاحب کا حکم ہے آج ہی اس کا قبضہ لینا ہے، میں نے پوچھا کیسے؟ تو اس نے کہا بھائی، ان کے آگے جھولی تو پھیلائیں گے نہیں کہ مہربانی کرکے ہمارا پلاٹ خالی کردو۔ یہ ہمارا کام ہے ہم کریں گے، تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، اﷲ نے چاہا تو کل تمہیں اپنے پلاٹ کا قبضہ مل جائے گا۔
میں احسان کی بات سن کر خوفزدہ ہوگیا، میں نے اسے ساتھ گزارے ہوئے اسیری کے دنوں کا واسطہ دے کر کہا کہ وہ میر صاحب کو سمجھائے کہ اس طرح قانون ہاتھ میں لینا غلط ہے، انھیں کچھ نہیں ہوگا لیکن اگر کچھ اونچ نیچ ہوگئی تو مارا میں جاؤں گا کہ پلاٹ تو بہرحال میرا ہے۔ وہ نہیں مانا تو میں نے اسے سختی سے منع کردیا۔ اس نے واپس پہنچ کر میر صاحب سے میری بات کرائی، جنھوں نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ میں ڈروں نہیں، جو کچھ کریں گے ان کے آدمی کریں گے، وہ میرے ساتھ ہیں وغیرہ، لیکن میں نے شکریے کے ساتھ ان کی مدد کی پیشکش ٹھکرا دی۔ میر صاحب نے ناراض ہوکر فون بند کردیا اور بات ختم ہوگئی۔
آج سوچتا ہوں اگر ان کی یا کم از کم اس پولیس افسر کی بات مان لیتا تو کروڑ پتی ہوتا اور ٹھاٹھ سے بسر ہوتی۔ آپ پوچھیں گے کیسے، تو لگے ہاتھوں وہ بھی سن لیں۔ میں نے وہ پلاٹ دو لاکھ روپوں سے بھی کم رقم کے عوض خریدا تھا اور گھر بنوانے پر مزید 5 لاکھ روپے لاگت آئی تھی، لیکن جب ایک بلڈر نے کارنر کے اس پلاٹ کے مجھے 20 ہزار روپے گز کے حساب سے (جو تقریباً 80 لاکھ روپے بنتے تھے) دینے کی پیشکش کی تو میرے پڑوسیوں کی نیت میں فتور آیا اور انھوں نے پلاٹ ہتھیانے کا منصوبہ بنایا۔
ایک روز شام کے وقت یہ لوگ بشمول قبضہ گروپ کا سرغنہ اور اس کا آلہ کار، جس سے میں نے پلاٹ خریدا تھا، مجھ سے ملنے پریس کلب آئے اور بولے یہاں سے گزر رہے تھے، سوچا آپ سے ملتے جائیں۔ میں نے کہا اچھا کیا اور ان کے لیے چائے وغیرہ منگوائی۔ وہ لوگ کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے، پھر ان کا سرغنہ مجھ سے مخاطب ہوکر بولا کہ اس نے کچھ بات کرنی ہے۔ میں نے کہا ہاں بولو۔ تو اس نے پہلے تمہید باندھی کہ انھوں نے ہی مجھے وہ پلاٹ دلوایا تھا، میں نے گھر بنوایا تو وہی کام کی نگرانی بھی کرتے تھے اور آج تک اس کی دیکھ بھال کرتے رہے، کیونکہ میں تو وہاں رہتا نہیں تھا۔ پھر ایک دم مطلب کی بات پر آتے ہوئے کہنے لگا گھر پر ہمارا قبضہ ہے اور ہم اس میں رہ رہے ہیں، اب بیٹھے ہیں تو نکلیں گے نہیں، ہم بھی آپ کے بچوں کی طرح ہیں، ویسے ہم آپ کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کرنا چاہتے، آپ کے 7 لاکھ (میری لاگت) ہمارے پاس آپ کی امانت ہیں۔
ابھی آدھے گھنٹے میں حاضر کردیں گے، بس آپ دو لفظ لکھ دیں کہ آپ نے یہ ہمارے ہاتھ بیچ دیا ہے۔ مجھے سمجھنے میں دیر نہیں لگی اور میں فوراً بات کی تہہ تک پہنچ گیا۔ ہمارے مرحوم دوست وائی ایل (یوسف لودھی) کے بقول شاید مجھ میں کوئی مینوفیکچرنگ فالٹ ہے، تبھی میں نے انھیں بڑے پیار اور اپنائیت سے سمجھاتے ہوئے کہا کہ جب قبضہ کرنے کا فیصلہ کر ہی چکے ہو تو 7 لاکھ بھی کیوں ضایع کرتے ہو، رکھو اپنے پاس۔ اگر کبھی لینے کی پوزیشن میں ہوا تو تم سے اپنا پلاٹ واپس لے لوں گا، ورنہ تمہارے باپ کا ہے، جاؤ عیش کرو۔ اور وہ عیش کر رہے ہیں۔