سرکاری اسکولوں کی اراضی پر چائنا کٹنگ کا انکشاف
چائناکٹنگ کاسلسلہ سرکاری اسکولوں کی اراضی اورعمارتوں تک بھی پہنچ گیا، سرکاری اسکولوں کاکوئی پرسان حال نہیں
کراچی میں رفاہی، فلاحی، کھیل کے میدانوں، اور پارکوں کی اراضی پر چائناکٹنگ کے بعد سرکاری اسکولوں کی اراضی اور عمارتوں میں بھی چائنا کٹنگ کا انکشاف ہوا ہے۔
کراچی میں رفاہی،فلاحی، کھیل کے میدانوں اور پارکوں کی اراضی پر چائناکٹنگ کے بعد اب چائناکٹنگ کا سلسلہ سرکاری اسکولوں کی اراضی اور عمارتوں تک پہنچ گیا ہے سرکاری اسکولوں کے میدان لینڈ مافیا نے فروخت کرکے تعمیرات شروع کردی ہیں سندھ کے سرکاری اسکولوں میں تعلیمی سہولتوں کا فقدان، عمارتوں کی خستہ حالی اور پست معیار تعلیم کسی سے پوشیدہ نہیں سرکاری اسکولوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔
محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران کبھی دفاتر سے نکل کر اسکولوں کا دورہ نہیں کرتے، ایسے میں کورنگی نمبر 3 میں ایک ہی چار دیواری میں قائم 4 اسکول گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول عمر فاروق، گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول مدینہ مسجد،گورنمنٹ گرلز سیکنڈری اسکول نمبر 2 اور گورنمنٹ بوائز سکینڈری اسکول کے ٹی ایس کی حالت زار ، اسکول میں غیر قانونی تجاوزات اور اسکول کے اطراف کی دیواریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کے سبب شہری اسکول کو گزرگاہ کے طور پر استعمال کرنے لگے ہیں جس کی وجہ سے اسکول انتظامیہ اور طلبہ و طالبات خودکو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔
اسکول کے احاطے میں70 غیرقانونی گھر موجودہیں اور ان کی آمدورفت کا راستہ اسکول کے اندر سے ہی ہے جس کے سبب اسکول کی بیرونی دیوار توڑ دی گئی ہے اسکول کے اندر داخل ہونے والے راستے پر کچرے کا ڈھیر لگ گیا ہے جس کی وجہ طلبہ کو اسکول آنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ذرائع کے مطابق کچھ ماہ قبل ورکس اینڈ سروسز ڈپارٹمنٹ ایجوکیشن کے تحت اسکول کی بیرونی چار دیواری دیوار (باؤنڈری وال) تعمیر کی گئی تھی لیکن سرکاری اسکول میں چائنا کٹنگ کے ذریعے بنائے گئے غیرقانونی پلاٹوں کے رہائشیوں نے اپنا راستہ بنانے کیلیے اسکول کی دیوار کو دوبارہ گرا دیا ہے جس کے بعد ورکس اینڈ سروسز ڈپارٹمنٹ نے کام بیچ میں چھوڑدیا کہ جب تک اسکول سے تجاوزات کا خاتمہ نہیں ہوتا دیوار کی تعمیر ممکن نہیں ہے اس ضمن میں صوبائی وزیر تعلیم جام مہتاب اورسیکریٹری اسکول ایجوکیشن سے موقف لینے کی کوشش کی گئی لیکن انھوں نے فی الحال موقف دینے سے گریز کیا۔
طالبات اسکول کی چاردیواری گرنے سے غیرمحفوظ ہوگئیں
گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول عمر فاروق کورنگی نمبر 3 کی طالبات چار دیوار گرنے کے سبب خود کو بے پردہ اور غیر محفوظ سمجھنے لگیں کلاس روم میں فرنیچر نہ ہونے کے سبب طلبہ فرش پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں ایک سال قبل ہی پرائمری اسکول کی عمارت کی تزئین و آرائش کی گئی لیکن شدید سردی میں معصوم طلبہ وطالبات زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ متعلقہ افسران کو متعدد بار فرنیچر فراہم کرنے کا کہا لیکن تاحال کوئی شنوائی نہیں ہوئی جبکہ طالبات نے بتایا کہ اسکول کی چار دیوار ی مکمل تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے موالی اور نشئی اسکول کے اندر آجاتے ہیں اور آس پاس کے رہائشی اسکول کے میدان کو اپنی جائیداد سمجھتے ہیں اور سارا وقت اسکول کے میدان میں کھیل کود کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے نہ تو ہم بریک ٹائم میں کلاس سے باہر نکل سکتے ہیں اور نہ ہی کھیل سکتے ہیں کیونکہ اکثر اوقات باہر سے آنے والے لڑکے نازیبا حرکتیں کرتے ہیں۔
انتظامیہ نے بتایا کہ لوگوں نے اسکول کی اراضی کو گزرگاہ سمجھ رکھا ہے اور جس کا دل چاہتا ہے اسکول میں داخل ہو جاتا ہے طالبات نے سندھ حکومت اور محکمہ تعلیم سے درخواست کی کہ وہ اسکول میں قائم غیرقانونی گھروں کا خاتمہ کریں اور اسکول کی چار دیواری مکمل کرکے انھیں بہتر تعلیمی ماحول اور تحفظ فراہم کیا جائے۔
اسکول کی اراضی پر70گھرتعمیرہوگئے کسی کو خبر نہ ہوئی
گورنمنٹ بوائز پرائری اسکول عمر فاروق کے احاطے میں70 غیر قانونی تعمیر شدہ گھروں میں سیکڑوں رہائشی سالہا سال سے رہ رہے ہیں جنھوں نے نہ صرف لاکھوں روپے ادا کرکے سرکاری زمین خریدی بلکہ بجلی، پانی، اور گیس کے بل بھی ادا کرتے ہیں ان رہائشیوں نے رہنے کے علاوہ دکانیں بھی کھول رکھی ہیں اسکول کا یہ حصہ دیکھ کر لگتا ہے کہ اسکول کے اندر رہائش نہیں بلکہ رہائشی پلاٹوں کے اندر اسکول قائم کیا گیا ہے سرکاری اسکولوں کی اراضی پر 70 گھر تعمیر ہوگئے لیکن کسی ادارے کو خبر نہ ہوسکی۔
ایک رہائشی کا کہنا تھا کہ میں گزشتہ 20 برس سے یہاں کا رہائشی ہوں ہم نے لاکھوں روپے ادا کرکے یہ جگہ خریدی تھی اور اس کے دستاویزات ہمارے پاس موجود ہیں جب ہم اس جگہ پر مقیم ہوئے تو اس وقت اسکول کی چار دیواری موجود نہ تھی اور ہمیں نہیں معلوم تھا کہ یہ غیرقانونی جگہ ہے البتہ کچھ عرصے بعد معلوم ہوا کہ یہ تجاوزات کی جگہ ہے لیکن پھر بھی ہم ان پلاٹوں کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے کیونکہ ہم نے پیسے دے کر یہ زمین خریدی ہے اگر کسی نے یہ جگہ خالی کرانی ہے تو اس وقت کیوں نہیں خالی کرائی گئی جب یہاں پر رہائشی آباد ہورہے تھے اس وقت ہمیں نہ ہی کسی نے روکا اور نہ ہی اس جگہ سے جانے کو کہا اب اچانک سب کو خیال آگیا کہ جہاں ہم رہتے ہیں وہ غیر قانونی جگہ ہے۔
ایک رہائشی خاتون نے بتایا کہ وہ کچھ سال پہلے ہی یہاں آئی ہیں اور یہ گھر ہی ان کا واحد ٹھکانہ ہے جسے وہ ہرگز خالی نہیں کریں گی انھوں نے بتایا کہ اسکول میں غیر متعلقہ لوگ داخل ہوتے ہیں تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ اپنی سیکیورٹی کا بندوبست خود کرے اور اسکول کی دیواروں کی توڑ پھوڑ کا ذمہ دار ہمیں نہ ٹھہرائیں واضح رہے کہ اسکول کے اندر علاقے کے بچے اور لڑکے بلا رکاوٹ نہ صرف آتے جاتے ہیں بلکہ موٹر سائیکلیں بھی اسکول کے احاطے میں لائی جاتی ہیں جس کے سبب اسکول میں زیرتعلیم طالبات شدید ذہنی دباؤ کی شکار ہیں۔
کراچی میں رفاہی،فلاحی، کھیل کے میدانوں اور پارکوں کی اراضی پر چائناکٹنگ کے بعد اب چائناکٹنگ کا سلسلہ سرکاری اسکولوں کی اراضی اور عمارتوں تک پہنچ گیا ہے سرکاری اسکولوں کے میدان لینڈ مافیا نے فروخت کرکے تعمیرات شروع کردی ہیں سندھ کے سرکاری اسکولوں میں تعلیمی سہولتوں کا فقدان، عمارتوں کی خستہ حالی اور پست معیار تعلیم کسی سے پوشیدہ نہیں سرکاری اسکولوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔
محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران کبھی دفاتر سے نکل کر اسکولوں کا دورہ نہیں کرتے، ایسے میں کورنگی نمبر 3 میں ایک ہی چار دیواری میں قائم 4 اسکول گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول عمر فاروق، گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول مدینہ مسجد،گورنمنٹ گرلز سیکنڈری اسکول نمبر 2 اور گورنمنٹ بوائز سکینڈری اسکول کے ٹی ایس کی حالت زار ، اسکول میں غیر قانونی تجاوزات اور اسکول کے اطراف کی دیواریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کے سبب شہری اسکول کو گزرگاہ کے طور پر استعمال کرنے لگے ہیں جس کی وجہ سے اسکول انتظامیہ اور طلبہ و طالبات خودکو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔
اسکول کے احاطے میں70 غیرقانونی گھر موجودہیں اور ان کی آمدورفت کا راستہ اسکول کے اندر سے ہی ہے جس کے سبب اسکول کی بیرونی دیوار توڑ دی گئی ہے اسکول کے اندر داخل ہونے والے راستے پر کچرے کا ڈھیر لگ گیا ہے جس کی وجہ طلبہ کو اسکول آنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ذرائع کے مطابق کچھ ماہ قبل ورکس اینڈ سروسز ڈپارٹمنٹ ایجوکیشن کے تحت اسکول کی بیرونی چار دیواری دیوار (باؤنڈری وال) تعمیر کی گئی تھی لیکن سرکاری اسکول میں چائنا کٹنگ کے ذریعے بنائے گئے غیرقانونی پلاٹوں کے رہائشیوں نے اپنا راستہ بنانے کیلیے اسکول کی دیوار کو دوبارہ گرا دیا ہے جس کے بعد ورکس اینڈ سروسز ڈپارٹمنٹ نے کام بیچ میں چھوڑدیا کہ جب تک اسکول سے تجاوزات کا خاتمہ نہیں ہوتا دیوار کی تعمیر ممکن نہیں ہے اس ضمن میں صوبائی وزیر تعلیم جام مہتاب اورسیکریٹری اسکول ایجوکیشن سے موقف لینے کی کوشش کی گئی لیکن انھوں نے فی الحال موقف دینے سے گریز کیا۔
طالبات اسکول کی چاردیواری گرنے سے غیرمحفوظ ہوگئیں
گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول عمر فاروق کورنگی نمبر 3 کی طالبات چار دیوار گرنے کے سبب خود کو بے پردہ اور غیر محفوظ سمجھنے لگیں کلاس روم میں فرنیچر نہ ہونے کے سبب طلبہ فرش پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں ایک سال قبل ہی پرائمری اسکول کی عمارت کی تزئین و آرائش کی گئی لیکن شدید سردی میں معصوم طلبہ وطالبات زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ متعلقہ افسران کو متعدد بار فرنیچر فراہم کرنے کا کہا لیکن تاحال کوئی شنوائی نہیں ہوئی جبکہ طالبات نے بتایا کہ اسکول کی چار دیوار ی مکمل تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے موالی اور نشئی اسکول کے اندر آجاتے ہیں اور آس پاس کے رہائشی اسکول کے میدان کو اپنی جائیداد سمجھتے ہیں اور سارا وقت اسکول کے میدان میں کھیل کود کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے نہ تو ہم بریک ٹائم میں کلاس سے باہر نکل سکتے ہیں اور نہ ہی کھیل سکتے ہیں کیونکہ اکثر اوقات باہر سے آنے والے لڑکے نازیبا حرکتیں کرتے ہیں۔
انتظامیہ نے بتایا کہ لوگوں نے اسکول کی اراضی کو گزرگاہ سمجھ رکھا ہے اور جس کا دل چاہتا ہے اسکول میں داخل ہو جاتا ہے طالبات نے سندھ حکومت اور محکمہ تعلیم سے درخواست کی کہ وہ اسکول میں قائم غیرقانونی گھروں کا خاتمہ کریں اور اسکول کی چار دیواری مکمل کرکے انھیں بہتر تعلیمی ماحول اور تحفظ فراہم کیا جائے۔
اسکول کی اراضی پر70گھرتعمیرہوگئے کسی کو خبر نہ ہوئی
گورنمنٹ بوائز پرائری اسکول عمر فاروق کے احاطے میں70 غیر قانونی تعمیر شدہ گھروں میں سیکڑوں رہائشی سالہا سال سے رہ رہے ہیں جنھوں نے نہ صرف لاکھوں روپے ادا کرکے سرکاری زمین خریدی بلکہ بجلی، پانی، اور گیس کے بل بھی ادا کرتے ہیں ان رہائشیوں نے رہنے کے علاوہ دکانیں بھی کھول رکھی ہیں اسکول کا یہ حصہ دیکھ کر لگتا ہے کہ اسکول کے اندر رہائش نہیں بلکہ رہائشی پلاٹوں کے اندر اسکول قائم کیا گیا ہے سرکاری اسکولوں کی اراضی پر 70 گھر تعمیر ہوگئے لیکن کسی ادارے کو خبر نہ ہوسکی۔
ایک رہائشی کا کہنا تھا کہ میں گزشتہ 20 برس سے یہاں کا رہائشی ہوں ہم نے لاکھوں روپے ادا کرکے یہ جگہ خریدی تھی اور اس کے دستاویزات ہمارے پاس موجود ہیں جب ہم اس جگہ پر مقیم ہوئے تو اس وقت اسکول کی چار دیواری موجود نہ تھی اور ہمیں نہیں معلوم تھا کہ یہ غیرقانونی جگہ ہے البتہ کچھ عرصے بعد معلوم ہوا کہ یہ تجاوزات کی جگہ ہے لیکن پھر بھی ہم ان پلاٹوں کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے کیونکہ ہم نے پیسے دے کر یہ زمین خریدی ہے اگر کسی نے یہ جگہ خالی کرانی ہے تو اس وقت کیوں نہیں خالی کرائی گئی جب یہاں پر رہائشی آباد ہورہے تھے اس وقت ہمیں نہ ہی کسی نے روکا اور نہ ہی اس جگہ سے جانے کو کہا اب اچانک سب کو خیال آگیا کہ جہاں ہم رہتے ہیں وہ غیر قانونی جگہ ہے۔
ایک رہائشی خاتون نے بتایا کہ وہ کچھ سال پہلے ہی یہاں آئی ہیں اور یہ گھر ہی ان کا واحد ٹھکانہ ہے جسے وہ ہرگز خالی نہیں کریں گی انھوں نے بتایا کہ اسکول میں غیر متعلقہ لوگ داخل ہوتے ہیں تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ اپنی سیکیورٹی کا بندوبست خود کرے اور اسکول کی دیواروں کی توڑ پھوڑ کا ذمہ دار ہمیں نہ ٹھہرائیں واضح رہے کہ اسکول کے اندر علاقے کے بچے اور لڑکے بلا رکاوٹ نہ صرف آتے جاتے ہیں بلکہ موٹر سائیکلیں بھی اسکول کے احاطے میں لائی جاتی ہیں جس کے سبب اسکول میں زیرتعلیم طالبات شدید ذہنی دباؤ کی شکار ہیں۔