ترقی کے چند اہم ترین تصورات
ترقی صرف میٹروبس، اوور ہیڈ برج اور دولت کی ریل پیل کا نام نہیں بلکہ یہ اپنے اندر بہت سے تصورات سموئے ہوئے ہے
ترقی کیا ہے؟ کیا صرف پورے ملک میں سڑکوں کا جال ترقی ہے؟ یا تمام شہروں میں میٹرو بسیں ترقی کا ثبوت ہیں یا ناردرن بائی پاس، اوور ہیڈ برج کو ہم ترقی کہہ سکتے ہیں؟ آپ میں تقریباً سب یا بیشتر اسے مکمل ترقی نہیں کہیں گے۔ تو پهر ترقی کیا ہے؟ کیا یہ کسی مبہم سی کیفیت کا نام ہے جو کبهی حقیقت کا جامہ پہن کر میری اور آپ کی نظروں کے سامنے نہیں آسکتی؟ جی نہیں! ایسا کچھ نہیں۔ ترقی اتنی مشکل نہیں جتنا ہم سمجهتے ہیں۔ ترقی بنیادی طور پر اپنے اندر بہت سے تصورات سموئے ہوئے ہے جن میں سے کچھ کلیدی تصورات مندرجہ ذیل ہیں:
یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس میں ممالک اپنی بیشتر ضروریات خود اپنے وسائل سے پوری کرنے پر قادر ہوں۔ کامل خود مختاری ممکن نہیں تاہم قوم کو ایسے وسائل حاصل ہوں کہ دوسرے ممالک کو جن کی ضرورت ہو۔ مثلاً پاکستان چاول، کپاس اور نمک کی پیداوار میں، فرانس زیتون کی پیداوار میں، بنگلہ دیش ٹاٹ اور چاول کی پیداوار میں، کینیا چائے اور کافی کی پیداوار میں دنیا بهر میں مشہور ہے۔ خودانحصاری کےلیے ضروری ہے کہ قوم اپنے انسانی، قدرتی اور مالی وسائل کو پیداواری شعبوں میں اس طرح استعمال کرے کہ ترقیاتی مقاصد سرعت سے حاصل ہوسکیں۔ اسی طریقے سے اقوام ترقی کرتی ہیں۔
پاکستان میں خودانحصاری سے مراد ایک عام آدمی کی نظر میں صرف یہ ہے کہ صرف ایک خاندان، ایک گروہ، ایک کمیونٹی ترقی کررہی ہے؛ باقی سب بیٹهے منہ تک رہے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کا، جن میں پاکستان بھی شامل ہے، المیہ یہ ہے کہ صاحبانِ اقتدار بیرونی امداد اور ملکی وسائل کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے اپنے اثاثے جمع کرنے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ بیرونی آشیرباد کی بدولت عوام کو بے روزگاری کے دلدل میں دهکیلتے ہوئے اس نہج پہ لاکهڑا کیا ہے کہ غریب عوام خودکشیاں کرنے اور بچے بیچ کر پیٹ کی آگ بجهانے پر مجبور ہیں۔ خودانحصاری ہی کی بدولت پاکستانی معاشرہ ترقی کی راہوں پر استوار کیا جاسکتا ہے کہ جب ملکی مالی و قدرتی وسائل کے ساتھ ساتھ ملکی انسانی وسائل سے بهی استفادہ کیاجائے تاکہ کوئی شخص بےکاری کی کیفیت سے دوچار نہ ہو۔
یہ خودانحصاری کے برعکس صورتحال ہے۔ متعدد ترقی پذیر اور تیسری دنیا کے ممالک بشمول پاکستان اس کیفیت میں مبتلا ہیں۔ یہ ممالک معیشت کے ہر شعبے میں ترقی یافتہ اور صنعتی ممالک پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ ممالک اپنی تقدیر کا کوئی فیصلہ اپنی آزاد مرضی سے نہیں کرسکتے حالانکہ انہیں قانونی اور آئینی آزادی حاصل ہوتی ہے۔ پاکستان میں حالیہ سی پیک منصوبہ اس کی بہترین مثال ہے۔ بلاشبہ سی پیک کے ذریعے ملکی معیشت کا پہیہ تیزی سے گردش کرنے کے قوی امکانات موجود ہیں لیکن ہماری شعبہ ابلاغ عامہ کی پروفیسر کے بقول ''چین کی عوام جس تیزی سے یہاں آتی دکهائی دے رہی ہے، لگتا ہے چند برسوں میں ملک چین کی نوآبادی بننے جارہا ہے۔'' چین میں جیلوں سے قیدیوں کی سزائیں معاف کرکے انہیں پاکستان بهیجا جارہا ہے تاکہ وہ یہاں آکر محنت مزدوری کریں۔ جب افرادی قوت کی پہلے ہی وافر مقدار میں ضرورت ہمارا اپناملک پوری کررہا ہےتو پهر چین سے لوگوں کی درآمد چہ معنی دارد؟
تعمیر قوم کےلیے صرف سائنس، ٹیکنالوجی و دیگر مادی وسائل ہی درکار نہیں بلکہ ان کے ساتھ ساتھ ثقافتی و مذہبی شناخت اور اس کا ادراک بهی ضروری ہے۔ اس سے وابستہ احساس تفاخر قوم کےلیے قوت کا درجہ رکهتا ہے۔
ہمیں اپنی ثقافت، اپنے مذہب اور اپنی سماجی اقدار پر جب تک فخر نہیں ہوگا، ہم اپنے آپ کو ترقی یافتہ نہیں کہہ سکتے۔ آج کا دور گلوبل ولیج کا دور ہے۔ اقوام کا سرمایہ شناخت، ثقافت و مذہب ختم ہوتے دیر نہیں لگتی۔ زندہ قومیں اپنے ثقافتی، مذہبی اور قومی ورثے کی حفاظت کرکے ہی اقوام عالم میں مضبوط و مستحکم ہیں۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایک سفرنامے میں پڑها تها کہ چینی قوم میں شرح تعلیم زیادہ ہونے کے سبب انگریزی زبان سے ان کی واقفیت کوئی بڑی بات نہیں۔ لیکن وہ چینی زبان میں ہی بات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جس کے سبب اب دوسرے ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک بهی چینی معیشت کے پهیلاؤ کے باعث چینی زبان سیکهنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ خود ہماری جامعہ کراچی میں بهی نئے آنے والے 2017ء کے طلباء و طالبات کےلیے چینی زبان پڑهنا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔
عدم مرکزیت سے مراد یہ ہے کہ اختیارات کسی ایک خاص مرکز پر ہی مرکوز نہ ہوں بلکہ ان کا دائرہ تمام افراد پر محیط ہو۔ ترقی کےلیے ضروری ہے کہ لوگوں میں اس بات کا شعور بیدار کیا جائے کہ ہر شخص ذمہ دار ہے۔ اس سے نہ صرف ترقی کا دائرہ کار وسیع ہوگا بلکہ جرائم کی شرح میں بهی نمایاں کمی دیکهنے میں آئے گی۔ اختیارات کو بانٹنے سے ہی حالات بہتری کی جانب گامزن ہوں گے۔ اچهی حکمرانی کے جدید تصور میں عدم مرکزیت کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس سے مختلف سطحوں میں افراد میں احساس شرکت پیدا ہوتا ہے۔ عدم مرکزیت کے تحت ہر فرد کو نچلی سطح تک ہونے والے فیصلوں میں براہ راست شرکت کا موقع ملتا ہے۔ ہم اس کا مشاہدہ ماضی میں اپنی تیسری جماعت میں پڑهتے ہوئے کرچکے ہیں۔ ٹیچر کو کسی کام سے کلاس سے باہر جانا ہوتا تو وہ کلاس کے سب سے شریر لڑکے کو اس وقت کلاس کا مانیٹر بنا کر کہہ دیتی تهیں کہ کلاس میں بالکل شور نہیں ہونا چاہیے۔ اور واقعی ان کے آنے تک کلاس میں بالکل شور نہیں ہوتا تھا کیونکہ سب سے شریر لڑکے کو تو وہ کلاس میں اہم کام سپرد کرکے گئی ہوتی تهیں۔ وہ کلاس کو خاموش کروانے میں ہی لگارہتا اور اپنی شرارتیں کچھ دیر کےلیے موقوف کردیتا تها۔
اس سے مراد تمام ملکی فیصلوں، فیصلوں کے نفاذ اور اس نفاذ سے ابهرنے والے معاملات میں عوامی شمولیت کو یقینی بنانا ہے۔ ترقیاتی ابلاغ کار کی تمام حکمتِ عملی شہریوں میں احساس شرکت پیداکرنے کےلیے ہوتی ہے جس کی بدولت بہترین اور قابل عمل منصوبے عوام میں وقوع پذیر ہوکر کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں۔
عدم مرکزیت جب بڑهے گی تو وہ شرکت پر اختتام پذیر ہوگی اور معاشرہ ترقی کے سفر پر بہ آسانی گامزن ہوسکے گا کیونکہ بقول اقبالؒ
بنیادی طور پر اس کا مطلب شہروں میں آبادی اور شہری سہولیات کا فروغ ہے جس کے تحت معیار زندگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ لوگ دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ وسیع پیمانے پر دیہی اور کم ترقی یافتہ علاقوں سے بڑے شہروں کی طرف نقل مکانی معاشرے کےلیے مجموعی طور پر نقصان دہ ہے۔
اس لئے شہری سہولیات کا صرف شہروں میں ارتکاز نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کا دائرہ کار دیہی علاقوں تک پهیلانا چاہیے۔ اس کےلیے بہتر رسل و رسائل، زرعی و دیگر متعلقہ صنعتوں کا قیام، تعلیم، صحت و دیگر سہولیات کی بدولت نقل مکانی کے رجحان کو روکا جاسکتا ہے۔ کراچی کےعوام اس شہر کی تیزی سے بڑهتی ہوئی آبادی، بے ہنگم ٹریفک، جرائم کی بہتات، ناقص غذا، آلودہ پانی، کچرے کے ڈهیر، گٹروں، صنعتی فضلے اور بےروزگاری کے پهیلاؤ سے پریشان ہیں۔
جدیدیت ایک ایسا پہلو ہے جس میں افراد سادہ طرزِ زندگی چهوڑ کر نسبتاً بہتر، پیچیدہ، اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ زندگی اپناتے ہیں۔ اس کی ابتداء شہرکاری کے عمل سے ہوتی ہے۔ اس سے انسان نئے رجحانات و علوم سے آگاہ ہوتاہے۔ بعض لوگ صرف یورپی اور امریکی طرز فکر ہی کو جدیدیت کا معیار سمجهتے ہیں حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں۔
یہ دراصل جدید رجحانات، مستحکم تہذیبی اور ثقافتی امتزاج کا نام ہے۔ جتنی مستحکم آپ کی اپنی تہذیبی، ثقافتی، سماجی، مذہبی، تعلیمی، لسانی، اقتصادی، روایتی اور ملکی شناخت ہوگی، اتنی مستحکم آپ کی زندگی ہوگی۔ بقول شاعرِ مشرقؒ
ترقی کے استحکام کےلیے صنعتوں کے قیام کو کلیدی حیثیت حاصل ہے جس کے ذریعے نئی تکنیک کاری اور پیداوار کے فروغ کے نئے طریقوں کو متعارف کروایا جاتا ہے۔ صنعتوں کی کامیابی تب تک ممکن نہیں جب تک اس کےلیے بنیادی سہولیات موجود نہ ہوں۔ اس کےلیے 60ء کی دہائی میں نوآبادیاتی ممالک کے ترقیاتی منصوبہ سازوں کے مشورے سے بڑے پیمانے پر بنیادی سہولیات مثلاً ریلوے، بندرگاہیں، بجلی گهر، مکانات اور مدارس کے قیام کےلیے وسائل فراہم کئے گئے۔ صنعتوں کے قیام کےلیے ناقص منصوبہ بندی سے متعدد مسائل نے بهی جنم لیا۔
چند شہری علاقوں میں صنعتوں کا ارتکاز، شہروں کی جانب بڑے پیمانے پر نقل مکانی، دستیاب شہری سہولیات پر شدید دباؤ، بے روزگاری، کچی آبادیوں میں اضافہ، ماحولیاتی آلودگی، امیر و غریب کے درمیان وسیع تر ہوتی خلیج، یہ سب آج ہم اپنے شہر کراچی میں بهی دیکھ رہے ہیں۔ بے روزگاری کے باعث نوجوان غلط راہوں پر نکل جاتے ہیں، ماحولیاتی آلودگی اتنی بڑهی ہوئی ہے کہ عوام اس کے باعث سانس، جلدی بیماروں اور پیٹ وغیرہ کی متعدد بیماروں میں مبتلا ہورہے ہیں۔ پارکوں کی جگہوں پر بهی مکانات تعمیر کیے جارہے ہیں۔ کراچی کی آبادی بڑھ کر سپر ہائی وے تک پہنچ چکی ہے۔ آباد فلیٹوں کا ایک جال پورے شہر میں پهیلا ہوا ہے۔ کچرے کی بڑهتی ہوئی رفتار کے باعث لگتا ہے کہ ایک دن پورا شہر اس عفریت کی ضرر رسانیوں کا شکار ہوجائے گا۔ گندے پانی کی درست نکاسی نہ ہونے کے باعث مچھروں کی مختلف اقسام میں اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے شہری چکن گنیا، ملیریا اور ڈینگی جیسی بیماریوں کے باعث اپنی صحت، روپیہ اور وقت، سب برباد کررہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صنعت کاری کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بنیادی سہولیات بھی فراہم کی جائیں۔ کچی بستیوں میں صحیح اور مناسب لیڈی ہیلتھ ورکرز تعینات کی جائیں جو غریب عوام کو بیماریوں کی روک تهام سے متعلق آگہی دے سکیں۔
مکمل ترقی احسن حکمت عملی اور بنیادی انسانی ضروریات پر مبنی ہے۔ بنیادی ضروریات کی فہرست میں کمی بیشی ہوسکتی ہے لیکن بعض انسانی ضروریات ایسی ہیں جنہیں ہر حال میں پوراہوناچاہیے۔ خوراک، غذائیت، صحت، تعلیم، مکان اور روزگار۔ یہ چند ایسی ضروریات اور حقوق ہیں جو ریاست کے ذریعے معاشرے کے ہر فرد تک پہنچنا بہت ضروری ہیں۔ ملک کا نظامِ معیشت انہی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنانے کےلیے استوار کیا جاتا ہے۔ بعد کے مراحل میں ان کا دائرہ پهیلتا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ان ضروریات کے علاوہ بهی بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو بنیادی ضروریات کا درجہ رکهتی ہیں مگر ترقی پذیر ممالک میں وہ تعیشات کے زمرے میں آتی ہیں۔ مثلاً ترقی یافتہ ممالک کے معاشروں میں رہنے والے ہر فرد کی غذا، رہائش اور بنیادی تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ماں اور پیدا ہونے والے بچے (زچہ و بچہ) کے دوسال تک اسپتال، دواؤں، دودھ کے اخراجات حکومت کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔ اس کے بعد بهی جب تک وہ فرد اپنی ذمہ داری خود اٹھانے کے قابل نہیں ہوجاتا، تب تک ریاست اس کی ذمہ داری ادا کرے گی۔ یورپ کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں بوڑهے افراد کےلیے وظائف اور مختلف پروگرام ماہانہ بنیادوں پر رکهے جاتے ہیں۔ اٹهاره سال تک بچے کی قانونی نگہداشت حکومت/ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ جنگوں پر بهیجے جانے والے فوجیوں کا ہر 6 ماه میں اپنے خاندان سے ملنا لازمی ہے۔ والدین بچوں کے ساتھ بلاوجہ مارپیٹ اور سختی نہیں کرسکتے۔ ریاست اس بات کی پابند ہے کہ وہ اپنے شہری کا ایسے اسکول، کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ ممکن بنائے جو اس کے گهر سے قریب تر ہو۔ تعلیم کے بعد نوکری کےلیے راہیں ہموار کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ گهر بیٹهی خواتین کو ریاست کی جانب سے فون کئے جاتے ہیں اور انہیں اس بات پر راضی کی جاتاہے کہ آپ کے بچے بڑے ہوگئے ہیں، آپ اپنا وقت کسی اسکول میں یا کسی اسٹور میں لگاسکتی ہیں۔ وہاں ریاست کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں۔
واضح رہے کہ ان میں سے بیشتر قوانین وہی ہیں جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آدهی سے زیادہ دنیا پر حکومت کرتے وقت اپنی ہر ریاست میں جاری کیے تھے۔ آج بهی سوئٹزرلینڈ اور بعض یورپی ممالک میں یہ قوانین ''عمر لاء'' کے نام سے آئین کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ بقول علامہ اقبالؒ
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
1۔ خودانحصاری (Self Reliance)
یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس میں ممالک اپنی بیشتر ضروریات خود اپنے وسائل سے پوری کرنے پر قادر ہوں۔ کامل خود مختاری ممکن نہیں تاہم قوم کو ایسے وسائل حاصل ہوں کہ دوسرے ممالک کو جن کی ضرورت ہو۔ مثلاً پاکستان چاول، کپاس اور نمک کی پیداوار میں، فرانس زیتون کی پیداوار میں، بنگلہ دیش ٹاٹ اور چاول کی پیداوار میں، کینیا چائے اور کافی کی پیداوار میں دنیا بهر میں مشہور ہے۔ خودانحصاری کےلیے ضروری ہے کہ قوم اپنے انسانی، قدرتی اور مالی وسائل کو پیداواری شعبوں میں اس طرح استعمال کرے کہ ترقیاتی مقاصد سرعت سے حاصل ہوسکیں۔ اسی طریقے سے اقوام ترقی کرتی ہیں۔
پاکستان میں خودانحصاری سے مراد ایک عام آدمی کی نظر میں صرف یہ ہے کہ صرف ایک خاندان، ایک گروہ، ایک کمیونٹی ترقی کررہی ہے؛ باقی سب بیٹهے منہ تک رہے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کا، جن میں پاکستان بھی شامل ہے، المیہ یہ ہے کہ صاحبانِ اقتدار بیرونی امداد اور ملکی وسائل کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے اپنے اثاثے جمع کرنے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ بیرونی آشیرباد کی بدولت عوام کو بے روزگاری کے دلدل میں دهکیلتے ہوئے اس نہج پہ لاکهڑا کیا ہے کہ غریب عوام خودکشیاں کرنے اور بچے بیچ کر پیٹ کی آگ بجهانے پر مجبور ہیں۔ خودانحصاری ہی کی بدولت پاکستانی معاشرہ ترقی کی راہوں پر استوار کیا جاسکتا ہے کہ جب ملکی مالی و قدرتی وسائل کے ساتھ ساتھ ملکی انسانی وسائل سے بهی استفادہ کیاجائے تاکہ کوئی شخص بےکاری کی کیفیت سے دوچار نہ ہو۔
2۔ دوسروں پر انحصار (Dependency)
یہ خودانحصاری کے برعکس صورتحال ہے۔ متعدد ترقی پذیر اور تیسری دنیا کے ممالک بشمول پاکستان اس کیفیت میں مبتلا ہیں۔ یہ ممالک معیشت کے ہر شعبے میں ترقی یافتہ اور صنعتی ممالک پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ ممالک اپنی تقدیر کا کوئی فیصلہ اپنی آزاد مرضی سے نہیں کرسکتے حالانکہ انہیں قانونی اور آئینی آزادی حاصل ہوتی ہے۔ پاکستان میں حالیہ سی پیک منصوبہ اس کی بہترین مثال ہے۔ بلاشبہ سی پیک کے ذریعے ملکی معیشت کا پہیہ تیزی سے گردش کرنے کے قوی امکانات موجود ہیں لیکن ہماری شعبہ ابلاغ عامہ کی پروفیسر کے بقول ''چین کی عوام جس تیزی سے یہاں آتی دکهائی دے رہی ہے، لگتا ہے چند برسوں میں ملک چین کی نوآبادی بننے جارہا ہے۔'' چین میں جیلوں سے قیدیوں کی سزائیں معاف کرکے انہیں پاکستان بهیجا جارہا ہے تاکہ وہ یہاں آکر محنت مزدوری کریں۔ جب افرادی قوت کی پہلے ہی وافر مقدار میں ضرورت ہمارا اپناملک پوری کررہا ہےتو پهر چین سے لوگوں کی درآمد چہ معنی دارد؟
3۔ ثقافتی شناخت (Cultural Identity)
تعمیر قوم کےلیے صرف سائنس، ٹیکنالوجی و دیگر مادی وسائل ہی درکار نہیں بلکہ ان کے ساتھ ساتھ ثقافتی و مذہبی شناخت اور اس کا ادراک بهی ضروری ہے۔ اس سے وابستہ احساس تفاخر قوم کےلیے قوت کا درجہ رکهتا ہے۔
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
ہمیں اپنی ثقافت، اپنے مذہب اور اپنی سماجی اقدار پر جب تک فخر نہیں ہوگا، ہم اپنے آپ کو ترقی یافتہ نہیں کہہ سکتے۔ آج کا دور گلوبل ولیج کا دور ہے۔ اقوام کا سرمایہ شناخت، ثقافت و مذہب ختم ہوتے دیر نہیں لگتی۔ زندہ قومیں اپنے ثقافتی، مذہبی اور قومی ورثے کی حفاظت کرکے ہی اقوام عالم میں مضبوط و مستحکم ہیں۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایک سفرنامے میں پڑها تها کہ چینی قوم میں شرح تعلیم زیادہ ہونے کے سبب انگریزی زبان سے ان کی واقفیت کوئی بڑی بات نہیں۔ لیکن وہ چینی زبان میں ہی بات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جس کے سبب اب دوسرے ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک بهی چینی معیشت کے پهیلاؤ کے باعث چینی زبان سیکهنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ خود ہماری جامعہ کراچی میں بهی نئے آنے والے 2017ء کے طلباء و طالبات کےلیے چینی زبان پڑهنا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔
4۔ عدم مرکزیت (Decentralisation)
عدم مرکزیت سے مراد یہ ہے کہ اختیارات کسی ایک خاص مرکز پر ہی مرکوز نہ ہوں بلکہ ان کا دائرہ تمام افراد پر محیط ہو۔ ترقی کےلیے ضروری ہے کہ لوگوں میں اس بات کا شعور بیدار کیا جائے کہ ہر شخص ذمہ دار ہے۔ اس سے نہ صرف ترقی کا دائرہ کار وسیع ہوگا بلکہ جرائم کی شرح میں بهی نمایاں کمی دیکهنے میں آئے گی۔ اختیارات کو بانٹنے سے ہی حالات بہتری کی جانب گامزن ہوں گے۔ اچهی حکمرانی کے جدید تصور میں عدم مرکزیت کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس سے مختلف سطحوں میں افراد میں احساس شرکت پیدا ہوتا ہے۔ عدم مرکزیت کے تحت ہر فرد کو نچلی سطح تک ہونے والے فیصلوں میں براہ راست شرکت کا موقع ملتا ہے۔ ہم اس کا مشاہدہ ماضی میں اپنی تیسری جماعت میں پڑهتے ہوئے کرچکے ہیں۔ ٹیچر کو کسی کام سے کلاس سے باہر جانا ہوتا تو وہ کلاس کے سب سے شریر لڑکے کو اس وقت کلاس کا مانیٹر بنا کر کہہ دیتی تهیں کہ کلاس میں بالکل شور نہیں ہونا چاہیے۔ اور واقعی ان کے آنے تک کلاس میں بالکل شور نہیں ہوتا تھا کیونکہ سب سے شریر لڑکے کو تو وہ کلاس میں اہم کام سپرد کرکے گئی ہوتی تهیں۔ وہ کلاس کو خاموش کروانے میں ہی لگارہتا اور اپنی شرارتیں کچھ دیر کےلیے موقوف کردیتا تها۔
5- شرکت (Participation)
اس سے مراد تمام ملکی فیصلوں، فیصلوں کے نفاذ اور اس نفاذ سے ابهرنے والے معاملات میں عوامی شمولیت کو یقینی بنانا ہے۔ ترقیاتی ابلاغ کار کی تمام حکمتِ عملی شہریوں میں احساس شرکت پیداکرنے کےلیے ہوتی ہے جس کی بدولت بہترین اور قابل عمل منصوبے عوام میں وقوع پذیر ہوکر کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں۔
عدم مرکزیت جب بڑهے گی تو وہ شرکت پر اختتام پذیر ہوگی اور معاشرہ ترقی کے سفر پر بہ آسانی گامزن ہوسکے گا کیونکہ بقول اقبالؒ
افراد کے ہاتهوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
6- شہرکاری (Urbanization)
بنیادی طور پر اس کا مطلب شہروں میں آبادی اور شہری سہولیات کا فروغ ہے جس کے تحت معیار زندگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ لوگ دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ وسیع پیمانے پر دیہی اور کم ترقی یافتہ علاقوں سے بڑے شہروں کی طرف نقل مکانی معاشرے کےلیے مجموعی طور پر نقصان دہ ہے۔
اس لئے شہری سہولیات کا صرف شہروں میں ارتکاز نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کا دائرہ کار دیہی علاقوں تک پهیلانا چاہیے۔ اس کےلیے بہتر رسل و رسائل، زرعی و دیگر متعلقہ صنعتوں کا قیام، تعلیم، صحت و دیگر سہولیات کی بدولت نقل مکانی کے رجحان کو روکا جاسکتا ہے۔ کراچی کےعوام اس شہر کی تیزی سے بڑهتی ہوئی آبادی، بے ہنگم ٹریفک، جرائم کی بہتات، ناقص غذا، آلودہ پانی، کچرے کے ڈهیر، گٹروں، صنعتی فضلے اور بےروزگاری کے پهیلاؤ سے پریشان ہیں۔
7- جدیدیت (Modernization)
جدیدیت ایک ایسا پہلو ہے جس میں افراد سادہ طرزِ زندگی چهوڑ کر نسبتاً بہتر، پیچیدہ، اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ زندگی اپناتے ہیں۔ اس کی ابتداء شہرکاری کے عمل سے ہوتی ہے۔ اس سے انسان نئے رجحانات و علوم سے آگاہ ہوتاہے۔ بعض لوگ صرف یورپی اور امریکی طرز فکر ہی کو جدیدیت کا معیار سمجهتے ہیں حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں۔
یہ دراصل جدید رجحانات، مستحکم تہذیبی اور ثقافتی امتزاج کا نام ہے۔ جتنی مستحکم آپ کی اپنی تہذیبی، ثقافتی، سماجی، مذہبی، تعلیمی، لسانی، اقتصادی، روایتی اور ملکی شناخت ہوگی، اتنی مستحکم آپ کی زندگی ہوگی۔ بقول شاعرِ مشرقؒ
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیﷺ
8- صنعت کاری (Industrialization)
ترقی کے استحکام کےلیے صنعتوں کے قیام کو کلیدی حیثیت حاصل ہے جس کے ذریعے نئی تکنیک کاری اور پیداوار کے فروغ کے نئے طریقوں کو متعارف کروایا جاتا ہے۔ صنعتوں کی کامیابی تب تک ممکن نہیں جب تک اس کےلیے بنیادی سہولیات موجود نہ ہوں۔ اس کےلیے 60ء کی دہائی میں نوآبادیاتی ممالک کے ترقیاتی منصوبہ سازوں کے مشورے سے بڑے پیمانے پر بنیادی سہولیات مثلاً ریلوے، بندرگاہیں، بجلی گهر، مکانات اور مدارس کے قیام کےلیے وسائل فراہم کئے گئے۔ صنعتوں کے قیام کےلیے ناقص منصوبہ بندی سے متعدد مسائل نے بهی جنم لیا۔
چند شہری علاقوں میں صنعتوں کا ارتکاز، شہروں کی جانب بڑے پیمانے پر نقل مکانی، دستیاب شہری سہولیات پر شدید دباؤ، بے روزگاری، کچی آبادیوں میں اضافہ، ماحولیاتی آلودگی، امیر و غریب کے درمیان وسیع تر ہوتی خلیج، یہ سب آج ہم اپنے شہر کراچی میں بهی دیکھ رہے ہیں۔ بے روزگاری کے باعث نوجوان غلط راہوں پر نکل جاتے ہیں، ماحولیاتی آلودگی اتنی بڑهی ہوئی ہے کہ عوام اس کے باعث سانس، جلدی بیماروں اور پیٹ وغیرہ کی متعدد بیماروں میں مبتلا ہورہے ہیں۔ پارکوں کی جگہوں پر بهی مکانات تعمیر کیے جارہے ہیں۔ کراچی کی آبادی بڑھ کر سپر ہائی وے تک پہنچ چکی ہے۔ آباد فلیٹوں کا ایک جال پورے شہر میں پهیلا ہوا ہے۔ کچرے کی بڑهتی ہوئی رفتار کے باعث لگتا ہے کہ ایک دن پورا شہر اس عفریت کی ضرر رسانیوں کا شکار ہوجائے گا۔ گندے پانی کی درست نکاسی نہ ہونے کے باعث مچھروں کی مختلف اقسام میں اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے شہری چکن گنیا، ملیریا اور ڈینگی جیسی بیماریوں کے باعث اپنی صحت، روپیہ اور وقت، سب برباد کررہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صنعت کاری کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بنیادی سہولیات بھی فراہم کی جائیں۔ کچی بستیوں میں صحیح اور مناسب لیڈی ہیلتھ ورکرز تعینات کی جائیں جو غریب عوام کو بیماریوں کی روک تهام سے متعلق آگہی دے سکیں۔
9- بنیادی ضروریات (Basic Needs)
مکمل ترقی احسن حکمت عملی اور بنیادی انسانی ضروریات پر مبنی ہے۔ بنیادی ضروریات کی فہرست میں کمی بیشی ہوسکتی ہے لیکن بعض انسانی ضروریات ایسی ہیں جنہیں ہر حال میں پوراہوناچاہیے۔ خوراک، غذائیت، صحت، تعلیم، مکان اور روزگار۔ یہ چند ایسی ضروریات اور حقوق ہیں جو ریاست کے ذریعے معاشرے کے ہر فرد تک پہنچنا بہت ضروری ہیں۔ ملک کا نظامِ معیشت انہی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنانے کےلیے استوار کیا جاتا ہے۔ بعد کے مراحل میں ان کا دائرہ پهیلتا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ان ضروریات کے علاوہ بهی بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو بنیادی ضروریات کا درجہ رکهتی ہیں مگر ترقی پذیر ممالک میں وہ تعیشات کے زمرے میں آتی ہیں۔ مثلاً ترقی یافتہ ممالک کے معاشروں میں رہنے والے ہر فرد کی غذا، رہائش اور بنیادی تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ماں اور پیدا ہونے والے بچے (زچہ و بچہ) کے دوسال تک اسپتال، دواؤں، دودھ کے اخراجات حکومت کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔ اس کے بعد بهی جب تک وہ فرد اپنی ذمہ داری خود اٹھانے کے قابل نہیں ہوجاتا، تب تک ریاست اس کی ذمہ داری ادا کرے گی۔ یورپ کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں بوڑهے افراد کےلیے وظائف اور مختلف پروگرام ماہانہ بنیادوں پر رکهے جاتے ہیں۔ اٹهاره سال تک بچے کی قانونی نگہداشت حکومت/ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ جنگوں پر بهیجے جانے والے فوجیوں کا ہر 6 ماه میں اپنے خاندان سے ملنا لازمی ہے۔ والدین بچوں کے ساتھ بلاوجہ مارپیٹ اور سختی نہیں کرسکتے۔ ریاست اس بات کی پابند ہے کہ وہ اپنے شہری کا ایسے اسکول، کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ ممکن بنائے جو اس کے گهر سے قریب تر ہو۔ تعلیم کے بعد نوکری کےلیے راہیں ہموار کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ گهر بیٹهی خواتین کو ریاست کی جانب سے فون کئے جاتے ہیں اور انہیں اس بات پر راضی کی جاتاہے کہ آپ کے بچے بڑے ہوگئے ہیں، آپ اپنا وقت کسی اسکول میں یا کسی اسٹور میں لگاسکتی ہیں۔ وہاں ریاست کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں۔
واضح رہے کہ ان میں سے بیشتر قوانین وہی ہیں جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آدهی سے زیادہ دنیا پر حکومت کرتے وقت اپنی ہر ریاست میں جاری کیے تھے۔ آج بهی سوئٹزرلینڈ اور بعض یورپی ممالک میں یہ قوانین ''عمر لاء'' کے نام سے آئین کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ بقول علامہ اقبالؒ
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تهی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔