سیاست اور شرافت
اب نہ وہ سیاست رہی نہ وہ سیاستدان جن کی تقریروں کی زبان سے لوگ نئے نئے لفظ سیکھتے تھے۔
ملک میں آیندہ الیکشن تو جب ہوں گے تب ہی دیکھاجائے گا کہ انتخابی میدان میں جیت کس کی قسمت میں ہوتی ہے لیکن تازہ اطلاعات کے مطابق سیاست کے پرندوں نے اپنے لیے نئے پرانے گھونسلے منتخب کرنے کا عمل شروع کر رکھا ہے قدرتی طور پرحکومتی پارٹی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کے ممبران کی تعداد مستحکم رہے اور اسے کوئی چھوڑ کر نہ جائے کیونکہ انھوںنے اپنے دور اقتدار میں اپنے نمایندوں پر نوازشات کی بارش کی ہوتی ہے اس لیے وہ اس بات میں حق بجانب ہوتے ہیں کہ آیندہ الیکشن میں بھی وہ انھی کی جماعت کی طرف سے حصہ لیں اور ووٹروں کو اپنے کاموں کا واسطہ دے کر ووٹ کے حصول کو اپنی جیت کے لیے ممکن بنائیں۔
دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو ہمارے سیاستدان جو کہ اس بات میں اب انتہائی ماہر ہو چکے ہیں کہ ان کا مفاد اور مستقبل کس پارٹی میں ہے اس لیے وہ ابھی سے چھوٹی موٹی ناراضگیوں یا اپنے پیروں فقیروں کے آستانوں کی چھتری تلے رہنے کا بہانہ بنا کر پرندوں کی طرح موسم کے حساب سے اپنے لیے نئے سیاسی گھونسلوں کی تلاش میں چل نکلے ہیں۔
مفادات سے بھری دنیا میں ہر فرد اپنا ہی مفاد عزیز رکھتا ہے اور اسی جانب اس کا پلڑا جھکتا ہے جہاں سے اس کی جھولی بھرنے کی امید ہوتی ہے۔ اس لیے اگر آج کسی کے شیر بھاگ رہے ہیں تو کل کسی کی پتنگ کٹنے کی خبر آجاتی ہے۔ وطن عزیز میں سیاستدانوں کا ہجوم ہے جن کو ہم پچھلے کئی برسوں سے دیکھ رہے ہیں بلکہ بھگت رہے ہیں۔
یہ ہجوم کبھی ایک پارٹی میں رہ کر اس کی وکالت کرتا نظر آتا ہے تو کبھی اسی ہجوم کو ہم کسی دوسری پارٹی کی ہمدردی میں دیکھتے ہیں اور سردھنتے ہیں کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو کہ کل تک ایک دوسری پارٹی کے گن گا رہے تھے اور آج اسی کی مخالفت میں آسمان و زمین کو ایک کیے ہوئے ہیں۔
میڈیا کے آج کے بے رحم دور میں جب ٹیلی ویژن پر ہمارے ساتھی ان اُڑتے سیاسی پرندوں کو ان کا ماضی یاد کراتے ہیں تو ان کی حالت 'نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن ' والی ہوتی ہے اور یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ موجودہ وقت کی بات کریں اور جب موجودہ وقت میں ان کے بیانات ان کو یاد کرائے جاتے ہیں تو وہ ان کو سیاسی بیان قرار دے دیتے ہیں۔
سیاست کا ایسا گندہ زمانہ آگیا ہے کہ کسی سیاستدان کی عزت خود اس کے سیاستدان ساتھیوں کی وجہ سے محفوظ نہیں رہی، شرمناک سیاسی زبان اور الزامات کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ ہے جو ایک دوسرے پر لگائے جا رہے ہیں، قوم ان کو دیکھ سن رہی ہے اور ہنس رہی ہے کہ کیسے افراد ہیں جن کو ہم نے اپنی مرضی و منشاء سے اپنے نمایندوں کے طور پر منتخب کیا ہے اور ہم انھی کا دم بھرتے آرہے ہیں، سیاست میں شائستگی کا شائد زمانہ گزر گیا ورنہ وہ دن بھی تھے جب سیاستدان اپنی انتخابی مہم میں اس گلی سے بھی گزرنے سے گریز کرتے تھے جس میں مخالف امیدوار کی بیٹی کا گھر ہو کہ مبادا کہیں بیٹی کی دل آزاری نہ ہو مگر اب نہ وہ سیاست رہی نہ وہ سیاستدان جن کی تقریروں کی زبان سے لوگ نئے نئے لفظ سیکھتے تھے۔
ایسے پُراثر مقرر کہ اپنی زبان اور لفظوں سے سماں باندھ دیتے، لوگ ساری ساری رات جاگ کر موچی دروازے میں ان کی تقریریں سنتے تھے اور ہم بطور رپورٹر ان کی تقریروں سے اپنی خبر بنا کر اخبار کو روانہ کرتے رہتے تھے تا کہ کل کے اخبار کے چھپائی میں جانے سے پہلے خبر دفتر میں پہنچ جائے کیونکہ اس زمانے میں خبر کی کتابت بھی ہوتی تھی، آج کی طرح موبائل میں خبر بنا کر دنیا کے کسی بھی کونے میں پہنچانے کی سہولت میسر نہیں تھی۔
آج کل ٹی وی پر سیاستدانوں کی گفتگو سن کر حیران ہی نہیں پریشان بھی ہوجاتا ہوں کہ یہ کیسے لوگ ہیں جن کو ہم منتخب کر کے اقتدار کے ایوانوں میں بھجوا دیتے ہیں اور اسمبلی میں عوام کے لیے تو یہ ایک لفظ بھی نہیں بولتے بلکہ ایسے لگتا ہے کہ جیسے عوام نے چند گونگے بہرے منتخب کر کے ایوان میں بھیج دیے ہیں لیکن یہی نمایندے جب ٹی وی پر کسی پروگرام میں گفتگو کرتے ہیں تو اپنی اپنی پارٹی کے قائدین کا اتنی ڈھٹائی بلکہ جس طرح بے شرمی سے دفاع کرتے نظر آتے ہیں ان کے دلائل سن کر ایک جاہل انسان بھی دنگ رہ جاتا ہے ۔
بہرحال ایک بات تو کافی حد تک واضح ہو چکی ہے کہ آیندہ انتخابات میں عوام اپنے نمایندے کچھ سوچ سمجھ کر ہی منتخب کریں گے پچھلی ایک دہائی سے سیاسی نمایندوں کا کردار ان کے سامنے ہے وہ اس کو بغور دیکھ رہے ہیں اور کارکردگی بھی ان کے سامنے ہے۔ اب وہ زمانے نہیں رہے جب سیاسی کارکن اپنے لیڈروں کے لیے لڑنے مرنے پر تیار رہتے تھے، سیاسی کارکنوں کی وہ نسل اب مفقود ہو چکی ہے آج کا سیاسی کارکن اپنے مفاد کی بات پہلے کرتا ہے اور پارٹی کا مفاد بعد میں آتا ہے، آج کل کارکن اسی پارٹی کے ساتھ چلتے ہیں جو ان کو فائدہ دیتی ہے ۔
نئے زمانے نے سیاست کے نئے اصول و ضابطے بنا دئے ہیں جن کو سیاستدانوں کے ساتھ ان کے کارکن بھی فالو کرتے ہیں ۔ سیاست کو عبادت سمجھنے والے لوگ چلے گئے اب سیاست کو تجارت بنانے والے لوگوں کا زمانہ ہے وہ سیاست کی آڑ میں اپنی تجارت کو چمکا رہے ہیں اور اس میں کامیاب بھی ہیں کہ ان کے اردگرد بھی اسی طرح کے لوگ جمع ہیں جو شرافت کی سیاست کو دفن کر چکے ہیں لیکن شرافت ابھی زندہ ہے اور اس کا نام لینے والے بھی۔ لگتا ہے کہ یہ لوگ زندہ رہیں گے اور سیاست میں شرافت کو بھی زندہ رکھیں گے۔
دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو ہمارے سیاستدان جو کہ اس بات میں اب انتہائی ماہر ہو چکے ہیں کہ ان کا مفاد اور مستقبل کس پارٹی میں ہے اس لیے وہ ابھی سے چھوٹی موٹی ناراضگیوں یا اپنے پیروں فقیروں کے آستانوں کی چھتری تلے رہنے کا بہانہ بنا کر پرندوں کی طرح موسم کے حساب سے اپنے لیے نئے سیاسی گھونسلوں کی تلاش میں چل نکلے ہیں۔
مفادات سے بھری دنیا میں ہر فرد اپنا ہی مفاد عزیز رکھتا ہے اور اسی جانب اس کا پلڑا جھکتا ہے جہاں سے اس کی جھولی بھرنے کی امید ہوتی ہے۔ اس لیے اگر آج کسی کے شیر بھاگ رہے ہیں تو کل کسی کی پتنگ کٹنے کی خبر آجاتی ہے۔ وطن عزیز میں سیاستدانوں کا ہجوم ہے جن کو ہم پچھلے کئی برسوں سے دیکھ رہے ہیں بلکہ بھگت رہے ہیں۔
یہ ہجوم کبھی ایک پارٹی میں رہ کر اس کی وکالت کرتا نظر آتا ہے تو کبھی اسی ہجوم کو ہم کسی دوسری پارٹی کی ہمدردی میں دیکھتے ہیں اور سردھنتے ہیں کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو کہ کل تک ایک دوسری پارٹی کے گن گا رہے تھے اور آج اسی کی مخالفت میں آسمان و زمین کو ایک کیے ہوئے ہیں۔
میڈیا کے آج کے بے رحم دور میں جب ٹیلی ویژن پر ہمارے ساتھی ان اُڑتے سیاسی پرندوں کو ان کا ماضی یاد کراتے ہیں تو ان کی حالت 'نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن ' والی ہوتی ہے اور یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ موجودہ وقت کی بات کریں اور جب موجودہ وقت میں ان کے بیانات ان کو یاد کرائے جاتے ہیں تو وہ ان کو سیاسی بیان قرار دے دیتے ہیں۔
سیاست کا ایسا گندہ زمانہ آگیا ہے کہ کسی سیاستدان کی عزت خود اس کے سیاستدان ساتھیوں کی وجہ سے محفوظ نہیں رہی، شرمناک سیاسی زبان اور الزامات کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ ہے جو ایک دوسرے پر لگائے جا رہے ہیں، قوم ان کو دیکھ سن رہی ہے اور ہنس رہی ہے کہ کیسے افراد ہیں جن کو ہم نے اپنی مرضی و منشاء سے اپنے نمایندوں کے طور پر منتخب کیا ہے اور ہم انھی کا دم بھرتے آرہے ہیں، سیاست میں شائستگی کا شائد زمانہ گزر گیا ورنہ وہ دن بھی تھے جب سیاستدان اپنی انتخابی مہم میں اس گلی سے بھی گزرنے سے گریز کرتے تھے جس میں مخالف امیدوار کی بیٹی کا گھر ہو کہ مبادا کہیں بیٹی کی دل آزاری نہ ہو مگر اب نہ وہ سیاست رہی نہ وہ سیاستدان جن کی تقریروں کی زبان سے لوگ نئے نئے لفظ سیکھتے تھے۔
ایسے پُراثر مقرر کہ اپنی زبان اور لفظوں سے سماں باندھ دیتے، لوگ ساری ساری رات جاگ کر موچی دروازے میں ان کی تقریریں سنتے تھے اور ہم بطور رپورٹر ان کی تقریروں سے اپنی خبر بنا کر اخبار کو روانہ کرتے رہتے تھے تا کہ کل کے اخبار کے چھپائی میں جانے سے پہلے خبر دفتر میں پہنچ جائے کیونکہ اس زمانے میں خبر کی کتابت بھی ہوتی تھی، آج کی طرح موبائل میں خبر بنا کر دنیا کے کسی بھی کونے میں پہنچانے کی سہولت میسر نہیں تھی۔
آج کل ٹی وی پر سیاستدانوں کی گفتگو سن کر حیران ہی نہیں پریشان بھی ہوجاتا ہوں کہ یہ کیسے لوگ ہیں جن کو ہم منتخب کر کے اقتدار کے ایوانوں میں بھجوا دیتے ہیں اور اسمبلی میں عوام کے لیے تو یہ ایک لفظ بھی نہیں بولتے بلکہ ایسے لگتا ہے کہ جیسے عوام نے چند گونگے بہرے منتخب کر کے ایوان میں بھیج دیے ہیں لیکن یہی نمایندے جب ٹی وی پر کسی پروگرام میں گفتگو کرتے ہیں تو اپنی اپنی پارٹی کے قائدین کا اتنی ڈھٹائی بلکہ جس طرح بے شرمی سے دفاع کرتے نظر آتے ہیں ان کے دلائل سن کر ایک جاہل انسان بھی دنگ رہ جاتا ہے ۔
بہرحال ایک بات تو کافی حد تک واضح ہو چکی ہے کہ آیندہ انتخابات میں عوام اپنے نمایندے کچھ سوچ سمجھ کر ہی منتخب کریں گے پچھلی ایک دہائی سے سیاسی نمایندوں کا کردار ان کے سامنے ہے وہ اس کو بغور دیکھ رہے ہیں اور کارکردگی بھی ان کے سامنے ہے۔ اب وہ زمانے نہیں رہے جب سیاسی کارکن اپنے لیڈروں کے لیے لڑنے مرنے پر تیار رہتے تھے، سیاسی کارکنوں کی وہ نسل اب مفقود ہو چکی ہے آج کا سیاسی کارکن اپنے مفاد کی بات پہلے کرتا ہے اور پارٹی کا مفاد بعد میں آتا ہے، آج کل کارکن اسی پارٹی کے ساتھ چلتے ہیں جو ان کو فائدہ دیتی ہے ۔
نئے زمانے نے سیاست کے نئے اصول و ضابطے بنا دئے ہیں جن کو سیاستدانوں کے ساتھ ان کے کارکن بھی فالو کرتے ہیں ۔ سیاست کو عبادت سمجھنے والے لوگ چلے گئے اب سیاست کو تجارت بنانے والے لوگوں کا زمانہ ہے وہ سیاست کی آڑ میں اپنی تجارت کو چمکا رہے ہیں اور اس میں کامیاب بھی ہیں کہ ان کے اردگرد بھی اسی طرح کے لوگ جمع ہیں جو شرافت کی سیاست کو دفن کر چکے ہیں لیکن شرافت ابھی زندہ ہے اور اس کا نام لینے والے بھی۔ لگتا ہے کہ یہ لوگ زندہ رہیں گے اور سیاست میں شرافت کو بھی زندہ رکھیں گے۔