لیاری کی ان کہی کہانی

یہ کہانی ایک تھکے ہارے اور ضعیف ذہن رکھنے والے ایک ایسے انسان کی تحریر ہے جس نے اپنی پوری زندگی جدوجہد میں گزاری۔

shabbirarman@yahoo.com

اس وقت رمضان بلوچ کی دلچسپ اور تاریخی یادداشتوں پر مبنی کتاب ''لیاری کی ان کہی کہانی'' کی اولین کاپی زیر مطالعہ ہے۔ جس میں 1960ء کی دہائی سے لے کر رواں سال تک کے ان خاص خاص واقعات کا ذکر ہے جس میں وہ خود شامل تھے یا پھر ان کے اردگرد رونما ہوئے تھے۔ یہ کتاب 40 ابواب پر مشتمل ہے، ہر باب کا ایک الگ عنوان ہے جو قارئین کو ہر باب پڑھنے پر مجبور کردیتا ہے۔ مثلاً دو ہاتھیوں کی جنگ، بمباسا اسٹریٹ۔ قارئین سوچتے ہوں گے کہ یہ دو ہاتھی کون ہیں؟ اور بمباسا اسٹریٹ یقینا براعظم افریقا میں واقع ہوگا۔ یہ تو کتاب پڑھنے کے بعد معلوم ہوگا کہ یہ دو ہاتھی کون ہیں اور بمباسا اسٹریٹ کہاں واقع ہے۔

اس طرح ہر باب اپنے اندر ایک ادبی چاشنی رکھتا ہے اور قاری کو ماضی کی سنہری یادوں میں لے جاتا ہے، جنھوں نے وہ دور دیکھا ہوگا، وہ بلاشبہ یہ کتاب پڑھ کر ماضی میں کھو جاتے ہوں گے۔ جہاں اگرچہ غربت اپنے پنجے گاڑے ہوئی تھی مگر ہر سو سکھ چین تھا، کیونکہ بھائی چارگی کی فضا غربت پر غالب تھی۔ رمضان بلوچ اپنی عرضداشت میں لکھتے ہیں کہ لیاری کی ان کہی کہانی ایک تھکے ہارے اور ضعیف ذہن رکھنے والے ایک ایسے انسان کی تحریر ہے جس نے بہتری کی جانب قدم بڑھانے کے لیے اپنی پوری زندگی مصائب جھیلتے اور جدوجہد میں گزاری اور ذاتی طور پر وہ کچھ حاصل کیا جس کی تمنا کی تھی۔

مگر ایک خواہش ابھی تک دل میں پنپ رہی ہے کہ یہ معاشرہ جس میں ہم رہ رہے ہیں، وہ غربت، نفرت، استحصال اور محرومیوں سے پاک ہو۔ جہاں کمزور اور بے بس مظلوم افراد کو انصاف نصیب ہو۔ جہاں علم و دانش کو ہی مقدم سمجھا جاتا ہو، جہاں پیار و محبت، امن و سلامتی کا راج ہو۔ یہ ہم جیسے آشفتہ سروں کے ساتھ ساتھ ہر باشعور فرد کی خواہش ہے جو کئی نسلوں بعد بھی بس خواہش ہی ہوکر رہ گئی ہے۔

یہی لیاری اور ملک کے دوسرے علاقوں کی اصل کہانی ہے، چاہے اسے کوئی بھی عنوان سے پکارا جائے۔ اس کتاب میں شایع شدہ لیاری کی پرانی تصاویر واجہ یوسف نسکندی (مرحوم) عبدالرحیم موسوی اور راقم کی فراہم کردہ ہیں۔ واضح رہے کہ اس کتاب کی تقریب رونمائی 28 دسمبر 2017ء کو آرٹس کونسل کراچی میں ہوگی۔

کچھ باتیں رمضان بلوچ کے متعلق ملاحظہ کریں۔ رمضان بلوچ لیاری کی ادھوری کہانی کے مصنف ہیں۔ ان کے مضامین مختلف اخبارات اور رسالوں میں شایع ہوتے رہے ہیں۔ لیاری کے سنجیدہ اور معتبر روشن خیال دانشوروں میں شمار ہوتے ہیں۔ لیاری کے نوجوانوں کی علمی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوںکو بڑھانے کی سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی سرگرمیوں پیش پیش رہتے ہیں۔ کراچی کے صحافتی اور ادبی حلقوں میں بھی وہ اجنبی نہیں ہیں۔ 1944ء میں کراچی کی پرانی بستی لیاری شاہ بیگ لین کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ایس ایم لیاری سیکنڈری اسکول سے میٹرک اور کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کی تعلیم مکمل کی۔

طالبعلمی دور سے ہی لیاری میں تعلیمی اور سماجی سرگرمیوں میں مصروف رہے ہیں خاص طور پر لڑکیوں کو تعلیم کی جانب راغب کرنے کی مہم میں اہم کردار ادا کیا۔ تیس سال سے زیادہ عرصے تک حکومت سندھ کے بلدیاتی شعبہ میں نمایاں خدمات انجام دینے کے بعد ریٹائر ہوئے۔ کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے زیرک اور اہم افسران میں ان کا شمار رہا ہے۔ ادبی، علمی اور سماجی میدان میں اب بھی سرگرم نظر آتے ہیں۔

زندگی کی کٹھن راہوں میں ان کی جدوجہد و ثابت قدمی نوجوانوں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ رمضان بلوچ اپنی کتاب لیاری کی ان کہی کہانی کے باب نمبر 14 عنوان: بیچارہ ادب دوست دلہا، میں رقم طراز ہیں کہ: ہمارے دوسرے ساتھی کی شادی و نکاح کی تقریب یوں تو بہت سادہ طریقے اور خوش اسلوبی سے انجام پائی لیکن اس دلہا میاں نے دلہن سے جس انداز کے ڈائیلاگ سے خود کو متعارف کرایا، وہ بہ زبان اکبر جلال بعد میں کافی عرصے تک دلچسپ موضوع کا باعث بنا رہا۔


بلوچ گھرانوں میں روایت کے مطابق دلہن کا انتخاب والدین ہی کرتے ہیں اس لیے شادی کی آخری رسومات تک دلہا اور دلہن ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہی رہتے ہیں، ہمارے یہ بلوچ دلہا دوست ادبی ذوق و شوق رکھتے تھے۔ خود بھی شاعری کرتے تھے۔ اردو کے نامور رومانوی شاعروں سے بہت متاثر تھے۔

اسی پس منظر کے ساتھ انھوں نے دلہن کو اپنا تعارف کرانے کے لیے اردو ادب کا سہارا لینا زیادہ مناسب سمجھا۔ وہ دلہن سے یوں گویا ہوئے: آج آسمان سے چاند اتر آیا ہے، میں چاند ستاروں سے تمہارا دامن بھر دوں گا وغیرہ وغیرہ۔ یہاں تک بات صحیح ہوتی اگر یہ جملے اردو زبان ہی میں ادا کیے جاتے لیکن غضب یہ ہوا کہ انھوں نے اردو کے ان جملوں کو لفظ بہ لفظ ترجمہ کرکے بلوچی زبان میں کہا (مروچی آسماناچے نوک ایر کپتا، من نوک و استاراں چے تہی پندولا پر کناء) بس صاحب یہ سننا تھا کہ دلہن نے چیخ ماری اور ایک ہنگامہ کھڑا کردیا۔

دوسرے روز دلہا کے والدین کی طلبی ہوئی۔ دلہن کے والدین نے شکایت کی کہ لڑکے کی ذہنی صحت کے بارے میں باتیں کیوں پوشیدہ رکھی گئی تھیں، ہماری لڑکی کی زندگی تو تباہ ہوگئی۔ خیر بڑی مشکل سے سمجھدار لوگوں نے معاملہ رفع دفع کیا اور دلہن کے والدین کو باور کرایا کہ لڑکے کی ذہنی صحت بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔ بس کچھ اردو ادب سے شغف رکھتا ہے اور شاعر بھی ہے۔

دراصل قصہ کچھ یوں تھا کہ دلہا نے چاند ستاروں کو دامن میں بھرنے کی بات کرتے ہوئے لفظ دامن کو بلوچی زبان میں (پندول) (بلوچی خواتین کی ڈھیلی ڈھالی قمیض کے سامنے لمبی سی جیب) ترجمہ کرکے سنایا۔ اب دلہن نہ اردو ادب کی باریکیوں سے واقف تھی اور نہ کبھی شعر و شاعری سے واسطہ پڑا تھا۔ چاند ستاروں سے بھرے ہوئے (پندول) جیب کا تصور آتے ہی وہ بیچاری نہیں چیختی تو اور کیا کرتی۔اسی طرح اس کتاب کے دیگر ابواب اپنے اندر دلچسپ واقعات رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ماضی کے متعلق معلومات بھی فراہم کرتے ہیں کہ اس وقت کراچی اور لیاری کیسے تھے اور اب کیا سے کیا ہوگئے ہیں۔

کتاب کی تحریری زبان آسان اردو میں ہے، جسے عام قاری باآسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ کتاب کا ٹائٹل ایک امید کی کرن کو ظاہر کرتا ہے، طلوع ہوتا ہوا سورج اور جھومتے ہوئے لیاری کے نوجوانوں کا عکس اس امر کا پتہ دیتے ہیں کہ آنیوالا کل ان کا اپنا ہے، جہاں خوشحالی ان کا مقدر ہوگی۔ لیاری دی ارتھ آف کراچی کا پیغام لیاری کے نوجوانوں کو ایک عزم دیتا ہے کہ قدم بڑھاتے رہو، منزل تمہاری منتظر ہے۔

کتاب کا آخری باب اختتام ان الفاظ میں کیا گیا ہے: ایک ایسی ہی محفل سے اٹھ کر ایک دن ہم ٹہلتے ہوئے میوہ شاہ روڈ کے آخری سرے پر پہنچے تو کسی ہوٹل سے پرانی فلم میلہ میں محمد رفیع کی سریلی آواز میں یہ نغمہ گونج رہا تھا: ہوںگی یہی بہاریں، الفت کی یادگاریں، بگڑے گی اور بنے گی، دنیا یہی رہے گی، ہونگے یہی جھمیلے، یہ زندگی کے میلے، دنیا میں کم نہ ہونگے، افسوس! ہم نہ ہونگے۔

ہماری دعا ہے رمضان بلوچ مزید صحت مندانہ عمر پائے اور اسی طرح اپنی آپ بیتی نئی نسل تک منتقل کرتے رہے (آمین)
Load Next Story