امام بخاریؒ اور امیر تیمور کا دیس

امیر تیمور کے بارے میں کئی دلچسپ حکایات ہیں وہ بیک وقت سفاک لیکن بہادر ذہین اور علم و فن کا قدر دان حکمران تھا۔

h.sethi@hotmail.com

طاہر انوار پاشا نے اپنا ازبکستان کا سفرنامہ تو پہلے ہی بھیج دیا تھا پھر ٹیلیفون کے ذریعے اپنی پہلی کتاب جو افضال احمد نے سنگ میل پبلیکیشنز کی طرف سے شایع کی تھی اس کی تقریب رونمائی کا پروگرام بتا دیا۔ 9 دسمبر2017ء شام تین بجے فلیٹیز ہوٹل کے ہال میں عطاء الحق قاسمی کی صدارت میںدانشوروں نے مصنف اور کتاب کے متعلق اظہار خیال کیا۔ مصنف نے اپنے 177صفحات کے سفرنامے میں گویا کوزے میں دریا سمیٹا ہے۔

سفرنامے کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا ہے''لاہور سے تاشقند'' جس میں پاکستان سے ازبکستان کے ہوائی سفر' تاشقند میں امیر تیمور اسکوائر' آزادی اسکوائر' ہست امام کمپلیکس سے ہوتے ہوئے بلٹ ٹرین افراسیاب میں گزارے ہوئے دن کا ذکر ہے۔ مصنف کی اگلی منزل تاشقند سے روانہ ہو کر بخارا تھی جہاں انھوں نے شاندار اور آرٹ کے نمونے لائیابی ہاؤس نامی پرانی حویلی میں قائم ہوٹل میں قیام کیا یہ حویلی ایک یہودی کی تھی جو اسرائیل چلا گیا تھا نئے مالک نے اسے ایک بوتیک نما ہوٹل میں تبدیل کر دیا تھا۔ اس تاریخی شہر میں پائے کلاں کمپلیکس' سامانی چشمہ ایوب' پرانا تجارتی گنبد' بولوہوز کمپلیکس' آرک قلعہ کی سیاحت کے ساتھ ایک کلچرل شو بھی دیکھا گیا۔

مصنف کا اگلا پڑاؤ پھر سمرقند تھا جہاں مقبرہ دانیال' بی بی خانم مسجد' ریگستان اسکوائر' الخ بیگ مدرسہ' شیردار مدرسہ' شاہ زندہ اور سیاب بازار دیکھنے کی جگہیں تھیں۔ لیکن یاد رہ جانے والی جگہیں مزار امام بخاری اور مقبرہ امیر تیمور تھیں۔ حضرت امام بخاری کا مزار سمرقند سے تیس کلو میٹر کے فاصلے پر خرتنگ نامی گاؤں میں واقع ہے۔ حضرت کا مکمل نام ابو عبداللہ بن اسماعیل ہے وہ ایرانی نژاد مسلم اسکالر تھے اور دنیا کی مستند حدیثوں کی ڈکشنری ''صحیح البخاری'' کے تخلیق کار ہیں۔

مصنف لکھتے ہیں کہ ازبکستان کو 1991ء میں آزادی ملنے کے بعد وہاں کے صدر اسلام کریموف نے مزار پر کافی کام کروایا۔ مدرسہ اور وسیع کمپلیکس کے علاوہ دیدہ زیب عمارت' مسجد' لائبریری اور میوزیم کی تعمیر کی وجہ سے اب مزار کا علاقہ قابل دید ہو گیا ہے۔ بہت سے مسلم ممالک کے سربراہان نے مزار کے میوزیم میں رکھنے کے لیے تحائف دیے اب مزار پر جا کر فاتحہ پڑھنے اور حضرت کی دینی خدمات کا اعتراف کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

سمرقند میں مصنف نے مقبرہ امیر تیمور بھی دیکھا جو یک پرشکوہ عمارت ہے، یہ عمارت ایرانی طرز تعمیر کو منگول طرز تعمیر میں مدغم کر کے بنائی گئی ہے۔ یہ جگہ ایک طرح سے فیملی قبرستان کی شکل اختیار کرتی گئی یہاں کی شاندار عمارت دراصل امیر تیمور نے اپنے نامزد وارث اور لاڈلے پوتے محمد سلطان کے اچانک انتقال پر تعمیر کروائی اور مختلف تعمیرات کی تکمیل امیر تیمور کے دوسرے پوتے الخ بیگ کے دور میں ہوئی۔


امیر تیمور کے علاوہ خاندان کے دیگر افراد کی قبریں بھی مقبرے میں ہیں۔ مقبرے کے اندر اور باہر نہایت اعلیٰ پتھروں اور میناکاری کا استعمال ہوا ہے۔ امیر تیمور کے بارے میں کئی دلچسپ حکایات ہیں وہ بیک وقت سفاک لیکن بہادر ذہین اور علم و فن کا قدر دان حکمران تھا۔ شیراز پر قبضے کے بعد حافظ شیرازی کا یہ شعر امیر تیمور کی نظر سے گزرا

اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دل مارا

بہ خال ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را

یعنی اگر خوبصورت ترک لڑکی کا دل اس کے ہاتھ میں ہو تو وہ اس کے چہرے پر بنے سیاہ تل کے بدلے اسے سمرقند و بخارا کی حکمرانی بخش دے۔ امیر تیمور نے شدید غصے میں حافظ شیرازی کو حاضر کر کے کہا میں نے اتنی محنت سے یہ دولت اکٹھی کی اور تم محض ایک تل کے بدلے اسے لٹانے پر تیار ہو جس پر حافظ شیرازی نے جواب دیا کہ میری فقیرانہ حالت بھی تو اسی بے دریغ دولت لٹانے پر ہوئی ہے۔ تیمور جواب سن کر بجائے طیش میں آنے کے خوش ہوا اور انھیں انعام و اکرام سے نواز دیا۔

پاشا صاحب کا دورہ ازبکستان جس میں ان کی ''نصف بہتر'' ہمراہ تھیں صرف سات دنوں کا اور تین شہروں میں تاشقند' بخارا اور سمرقند کی سیر تک محدود تھا کسی بھی تاریخی لحاظ سے اہم ملک کا اس قدر کم مدت کا دورہ تشنگی چھوڑتا ہے لیکن پھر بھی وہاں کا معلوماتی اور دلچسپ سفرنامہ لکھ لینا جس کی اس قدر پذیرائی ہو ایک غیرمعمولی کاوش ہے اور وہ بھی پہلی۔ اگلی کتاب کے لیے دعا ہے کہ ''اللہ کرے زور قلم اور زیادہ''۔ مصنف نے جن علاقوں کا دورہ بہ امر مجبوری نہیں بھی کیا انھیں ان دیکھا ازبکستان کا عنوان دے کر ضروری معلومات اکٹھی کی ہیں اور چار مینار مدرسہ' لائیابی ہوز کمپلیکس' الخ بیگ اور عبدالعزیز مدرسے' مزار حضرت امام ابو حنیف کبیر' مزار بہاؤ الدین نقشبندی' افساانوی پراسرار عشرت خانہ' اک سرے محل' بابر ہاؤس' جامی مدرسہ' کھیوہ کے بحیرہ ارل کا مختصراً ذکر کیا ہے۔

سفرنامے میں اکتیس ایسی تصاویر بھی شامل ہیں جنھیں ایک نظر دیکھ لینے ہی سے ازبکستان کا سفر اختیار کرنے کی تحریک پیدا ہو جاتی ہے اور یقین ہے کہ مجھ سمیت جو بھی یہ سفرنامہ پڑھے گا اور تصاویر دیکھے گا ضرور جلد یا بدیر ازبکستان کے لیے رخت سفر باندھنے کا ارادہ کیے بغیر نہ رہ سکے گا۔
Load Next Story