’’فاٹا‘‘ کو بھی اُلجھا دیا گیا
ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ایسا چاہتی ہیں۔ تو مسئلہ کہاں ہے؟
یہ جان کر قارئین کو حیرت ضرور ہوگی کہ فاٹا کے 11پارلیمنٹرین میں سے صرف ایک اپوزیشن کا رکن ہے، فاٹا سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر ایم این ایز کا تعلق جے یو آئی ایف سے ہوتا ہے ۔ آج پورا پاکستان اور فاٹا کے عوام ایک طرف ہیں اور یہ گنے چنے ایم این ایز ایک طرف۔ فاٹا پاکستان کا وہ سرحدی علاقہ ہے جو27ہزار 220مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے، افغانستان کی سرحد اس علاقے سے متصل ہے۔ اسے سات قبائلی ایجنسیوں باجوڑ، ممند، خیبر،کرم، اورکزئی، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان میں تقسیم کیا گیاہے، جن میں چھ کی سرحد نیم قبائلی یا آیف آر ایریاز سے ملتی ہے ، جو ایف آر پشاور، ایف آر کوہاٹ، ایف آر لکی مروت، آیف آر ٹانک اور ایف آر ڈیرہ اسمٰعیل خان ہیں۔
یہاں پاکستان بننے سے قبل 1849سے 1947تک برطانوی حکومت کا قانون (FCR) رائج تھا ۔ 1893ء میں برطانیہ اور افغانستان کے مابین معاہدے کے بعد متحدہ انڈیا اور افغانستان کے مابین بارڈر کی نشاندہی کی گئی جسے آج بھی ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے، اس کی کل لمبائی 1610میل ہے۔ اس اقدام کے بعد ان قبائلی علاقوں میں سے چند قبائل افغانستان میں چلے گئے اور باقی ماندہ متحدہ ہندوستان میں آگئے۔ خان عبدالغفار خان نے جون 1947 میں قائدِاعظم سے ملاقات کے دوران قیامِ پاکستان کی حمایت کے لیے تین اہم شرائط رکھیں جن میں سے ایک شرط یہ تھی کہ قیامِ پاکستان کے بعد قبائلی علاقوں کو صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) میں ضم کردیا جائے۔
قائدِاعظم نے خان عبدالغفار خان کی اس تجویز کو فوراً تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس سلسلے میں قبائلی عوام کو ہمنوا بنانے کے لیے عملی اقدامات کریں تاکہ متفقہ طور پر اس تجویز کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔ قائداعظمؒ قبائلیوں پر اپنی مرضی مسلط نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ اس مسئلے کو جمہوری اور آئینی انداز میں غیور قبائلی عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنا چاہتے تھے۔ قائدِاعظم کی یہ دلی خواہش تھی کہ ان علاقوں کی مروجہ حیثیت کو بدلا جائے تاکہ ان قبائل کی زندگی کو بہتر اور آسان بنایا جائے۔ انھوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ پاکستان نہیں چاہتا کہ قبائلی علاقوں کو صرف امداد سے چلایا جائے اور وہ ہر سال بھکاریوں کی طرح حکومتِ پاکستان سے امداد کے طلبگار رہیں،بلکہ اس صورت حال کو بدلنا ہوگا تاکہ غیور قبائلی عوام بھی ملکی وسائل میں حصہ دار بن سکیں۔
مگر پاکستان بننے کے بعد یکے بعد دیگرے آنے والی سیاسی و عسکری حکومتوں نے ان قبائل کو جیسے ہے جہاں ہے کی بنیاد پر نہ ''چھیڑنے'' کا فیصلہ کیا۔ لیکن موجودہ حکومت کو نہ جانے کیا سوجھی کہ اُس نے خود ہی فاٹا ریفارمز کے حوالے سے سرتاج عزیز کی سربراہی میں 2014ء میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی جس کاکام فاٹا کے عوام کو سہولیات فراہم کرنے کی غرض سے سفارشات مرتب کرکے پیش کرنا تھا۔
بہرکیف وفاقی کابینہ نے 2 مارچ2017 کو فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی منظوری دیتے ہوئے پانچ سال کے عرصے میں بتدریج انضمام مکمل کرنے کی ہدایات جاری کیں۔لیکن معاملہ پھر رک گیا، جو آج تک رُکا ہوا ہے۔
مجھ جیسا پاکستانی یہ سوچ کر خوش ہو رہا تھا کہ پاکستان میں جن علاقوں کو ''علاقہ غیر'' کہا جاتا ہے اب وہاں عام پاکستان بھی جا سکے گا۔ مگر ہمارے سیاستدان بغیر کسی اڑچن کے کوئی کام ہونے دیں بھلا یہ کہاں لکھا ہے؟ مولانا فضل الرحمن، محمود اچکزئی اور فاٹابیوروکریسی نے تاش کا ایسا پتا کھیلا کہ بازی ہی پلٹ دی۔ انھوں نے فوراََ فرمائش کردی کہ پہلے فاٹا کو مرکزی دھارے میں لایا جائے پھر آئینی اداروں اور حقوق کے دائرے میں لایا جائے۔ یعنی گھوڑے کو گاڑی میں جوتنے سے پہلے گاڑی کو گھوڑے میں جوتا جائے۔
واہ رے میاں سیاستدان ...آپ کا بھلا کیا جانا ہے؟ 70سالوں سے خوار تو فاٹا کے عوام ہورہے ہیں، مر تو فاٹا کے عوام رہے ہیں، بے گھر تو فاٹا کے عوام ہیں، ایف سی آر کے غلام تو فاٹا کے عوام ہیں، مولانا فضل الرحمن، اچکزئی، عمران خان، سراج الحق، نواز شریف،زرداری، شاہد خاقان عباسی اسفند یارولی، فاٹا کے ایم این ایز ، ایم پی ایزاور وہاں کی بیورو کریسی کو کیا لگے؟ کئی لوگ اس ایشو پر مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں اور وہ زیادہ بہتر تجزیہ پیش کر سکتے ہیں لیکن میرے خیال جب وہاں کے عوام کی اکثریت کے پی کے میں انضمام چاہتی ہے ، ہماری فوج بھی انضمام چاہتی ہے۔ خیبر پختونخوا کی اسمبلی اس کے حق میں قرارداد پاس کرچکی ہے۔
ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ایسا چاہتی ہیں۔ تو مسئلہ کہاں ہے؟ میں پھر یہی کہوں گا کہ کیا ہمارے چند لوگ پاکستان مخالف ایجنڈے پر کام کررہے ہیں؟ پاکستان مخالف قوتیں یہ نہیں چاہتیں کہ پاکستان میں کوئی مسئلہ باہمی افہمام تفہیم سے حل ہو جائے۔ ان پاکستان مخالف ایجنسیوں کی خواہش ہے کہ قبائلی علاقے اسی طرح سرزمین بے آئین بنے رہیں تاکہ ان کو وہ پاکستان کے خلاف لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرسکیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ قبائلی عوام اسی طرح محروم اور ریاست سے خفا رہیں تاکہ انھیں آسانی کے ساتھ ریاست پاکستان سے لڑایا جاسکے۔ وہ چاہتے ہیں کہ قبائلی علاقے پاکستان میں مکمل مدغم نہ ہو ںتاکہ ڈیورنڈ لائن کے ایشو کو زندہ رکھ کر وہ پاکستان کو بلیک میل کرتے رہیں۔
مجھے کسی سیاستدان کی سیاست سے کوئی غرض نہیں ، مجھے حکومت سے بھی کوئی غرض نہیں ! لیکن غرض یہ ہے کہ آج ''فاٹا'' کا نوجوان اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔ وہ پاکستانی ہونے کا حق مانگ رہا ہے، وہ پاکستان سے اپنے 70سالہ قربت کے عوض اپنا حق مانگ رہا ہے، وہ تعلیم مانگ رہا ہے۔ وہ نوکریاں مانگ رہا ہے۔ وہ ایف سی آر جیسے انسان کش قوانین کی غلامی نہیں چاہتا۔ لہٰذااس مسئلے کو مزید نہ اُلجھایا جائے کیوں کہ پاکستان میں پہلے ہی بہت سے مسائل اُلجھاؤ کا شکار ہیں ۔ اگر یہ مسئلہ بھی اُلجھ گیا تو ضرب عضب جیسے آپریشن ناکام ہوجائیں گے اور یہاں دوبارہ دہشت گرد پناہ لے لیں گے اور یہ علاقہ ایک بار پھر ہم سب کے لیے ''علاقہ غیر'' بن جائے گا۔
یہاں پاکستان بننے سے قبل 1849سے 1947تک برطانوی حکومت کا قانون (FCR) رائج تھا ۔ 1893ء میں برطانیہ اور افغانستان کے مابین معاہدے کے بعد متحدہ انڈیا اور افغانستان کے مابین بارڈر کی نشاندہی کی گئی جسے آج بھی ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے، اس کی کل لمبائی 1610میل ہے۔ اس اقدام کے بعد ان قبائلی علاقوں میں سے چند قبائل افغانستان میں چلے گئے اور باقی ماندہ متحدہ ہندوستان میں آگئے۔ خان عبدالغفار خان نے جون 1947 میں قائدِاعظم سے ملاقات کے دوران قیامِ پاکستان کی حمایت کے لیے تین اہم شرائط رکھیں جن میں سے ایک شرط یہ تھی کہ قیامِ پاکستان کے بعد قبائلی علاقوں کو صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) میں ضم کردیا جائے۔
قائدِاعظم نے خان عبدالغفار خان کی اس تجویز کو فوراً تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس سلسلے میں قبائلی عوام کو ہمنوا بنانے کے لیے عملی اقدامات کریں تاکہ متفقہ طور پر اس تجویز کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔ قائداعظمؒ قبائلیوں پر اپنی مرضی مسلط نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ اس مسئلے کو جمہوری اور آئینی انداز میں غیور قبائلی عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنا چاہتے تھے۔ قائدِاعظم کی یہ دلی خواہش تھی کہ ان علاقوں کی مروجہ حیثیت کو بدلا جائے تاکہ ان قبائل کی زندگی کو بہتر اور آسان بنایا جائے۔ انھوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ پاکستان نہیں چاہتا کہ قبائلی علاقوں کو صرف امداد سے چلایا جائے اور وہ ہر سال بھکاریوں کی طرح حکومتِ پاکستان سے امداد کے طلبگار رہیں،بلکہ اس صورت حال کو بدلنا ہوگا تاکہ غیور قبائلی عوام بھی ملکی وسائل میں حصہ دار بن سکیں۔
مگر پاکستان بننے کے بعد یکے بعد دیگرے آنے والی سیاسی و عسکری حکومتوں نے ان قبائل کو جیسے ہے جہاں ہے کی بنیاد پر نہ ''چھیڑنے'' کا فیصلہ کیا۔ لیکن موجودہ حکومت کو نہ جانے کیا سوجھی کہ اُس نے خود ہی فاٹا ریفارمز کے حوالے سے سرتاج عزیز کی سربراہی میں 2014ء میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی جس کاکام فاٹا کے عوام کو سہولیات فراہم کرنے کی غرض سے سفارشات مرتب کرکے پیش کرنا تھا۔
بہرکیف وفاقی کابینہ نے 2 مارچ2017 کو فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی منظوری دیتے ہوئے پانچ سال کے عرصے میں بتدریج انضمام مکمل کرنے کی ہدایات جاری کیں۔لیکن معاملہ پھر رک گیا، جو آج تک رُکا ہوا ہے۔
مجھ جیسا پاکستانی یہ سوچ کر خوش ہو رہا تھا کہ پاکستان میں جن علاقوں کو ''علاقہ غیر'' کہا جاتا ہے اب وہاں عام پاکستان بھی جا سکے گا۔ مگر ہمارے سیاستدان بغیر کسی اڑچن کے کوئی کام ہونے دیں بھلا یہ کہاں لکھا ہے؟ مولانا فضل الرحمن، محمود اچکزئی اور فاٹابیوروکریسی نے تاش کا ایسا پتا کھیلا کہ بازی ہی پلٹ دی۔ انھوں نے فوراََ فرمائش کردی کہ پہلے فاٹا کو مرکزی دھارے میں لایا جائے پھر آئینی اداروں اور حقوق کے دائرے میں لایا جائے۔ یعنی گھوڑے کو گاڑی میں جوتنے سے پہلے گاڑی کو گھوڑے میں جوتا جائے۔
واہ رے میاں سیاستدان ...آپ کا بھلا کیا جانا ہے؟ 70سالوں سے خوار تو فاٹا کے عوام ہورہے ہیں، مر تو فاٹا کے عوام رہے ہیں، بے گھر تو فاٹا کے عوام ہیں، ایف سی آر کے غلام تو فاٹا کے عوام ہیں، مولانا فضل الرحمن، اچکزئی، عمران خان، سراج الحق، نواز شریف،زرداری، شاہد خاقان عباسی اسفند یارولی، فاٹا کے ایم این ایز ، ایم پی ایزاور وہاں کی بیورو کریسی کو کیا لگے؟ کئی لوگ اس ایشو پر مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں اور وہ زیادہ بہتر تجزیہ پیش کر سکتے ہیں لیکن میرے خیال جب وہاں کے عوام کی اکثریت کے پی کے میں انضمام چاہتی ہے ، ہماری فوج بھی انضمام چاہتی ہے۔ خیبر پختونخوا کی اسمبلی اس کے حق میں قرارداد پاس کرچکی ہے۔
ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ایسا چاہتی ہیں۔ تو مسئلہ کہاں ہے؟ میں پھر یہی کہوں گا کہ کیا ہمارے چند لوگ پاکستان مخالف ایجنڈے پر کام کررہے ہیں؟ پاکستان مخالف قوتیں یہ نہیں چاہتیں کہ پاکستان میں کوئی مسئلہ باہمی افہمام تفہیم سے حل ہو جائے۔ ان پاکستان مخالف ایجنسیوں کی خواہش ہے کہ قبائلی علاقے اسی طرح سرزمین بے آئین بنے رہیں تاکہ ان کو وہ پاکستان کے خلاف لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرسکیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ قبائلی عوام اسی طرح محروم اور ریاست سے خفا رہیں تاکہ انھیں آسانی کے ساتھ ریاست پاکستان سے لڑایا جاسکے۔ وہ چاہتے ہیں کہ قبائلی علاقے پاکستان میں مکمل مدغم نہ ہو ںتاکہ ڈیورنڈ لائن کے ایشو کو زندہ رکھ کر وہ پاکستان کو بلیک میل کرتے رہیں۔
مجھے کسی سیاستدان کی سیاست سے کوئی غرض نہیں ، مجھے حکومت سے بھی کوئی غرض نہیں ! لیکن غرض یہ ہے کہ آج ''فاٹا'' کا نوجوان اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔ وہ پاکستانی ہونے کا حق مانگ رہا ہے، وہ پاکستان سے اپنے 70سالہ قربت کے عوض اپنا حق مانگ رہا ہے، وہ تعلیم مانگ رہا ہے۔ وہ نوکریاں مانگ رہا ہے۔ وہ ایف سی آر جیسے انسان کش قوانین کی غلامی نہیں چاہتا۔ لہٰذااس مسئلے کو مزید نہ اُلجھایا جائے کیوں کہ پاکستان میں پہلے ہی بہت سے مسائل اُلجھاؤ کا شکار ہیں ۔ اگر یہ مسئلہ بھی اُلجھ گیا تو ضرب عضب جیسے آپریشن ناکام ہوجائیں گے اور یہاں دوبارہ دہشت گرد پناہ لے لیں گے اور یہ علاقہ ایک بار پھر ہم سب کے لیے ''علاقہ غیر'' بن جائے گا۔