سیاست کے شوق نے مروا دیا

الیکشن ہوئے، کرنل دستبردار نہیں ہوئے اور بہت بڑے مارجن سے ہارے، ذلت آمیز شکست نے ان کا ذہنی توازن بگاڑ دیا۔

زیریں سندھ میں جو پہلی شوگر ملز 60ء کے عشرے میں لگائی گئی وہ فوجی شوگر ملز ٹنڈو محمد خان تھی، اس کا افتتاح ایوب کابینہ کے نوجوان وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا۔ میں اپنے شہر ٹنڈو غلام علی میں حیدرآباد کے سندھی روزنامہ عبرت کا نامہ نگار تھا اور اسی حیثیت سے انجمن صحافیاں ٹنڈو سب ڈویژن کا بھی رکن تھا، جس کے روح رواں شاعر و صحافی پروانو بھٹی اور صدر اظہر علی شاہین ہوا کرتے تھے۔

بھٹی تو خیر تھے ہی ٹنڈو محمد خان کے رہائشی مگر شاہین صاحب ماتلی میں رہتے تھے اور میری طرح بطور نامہ نگار عبرت کے علاوہ کراچی کے کسی اردو اخبار کے لیے بھی کام کرتے تھے۔ مذکورہ دونوں شہر بالترتیب ہمارے (ٹنڈو غلام علی کے) سب ڈویژنل اور تحصیل ہیڈکوارٹر تھے۔ بھٹو کے ہاتھوں ملز کا افتتاح ہونا مجھے یوں بھی اچھی طرح یاد ہے کہ رسمِ افتتاح ادا کرنے کے بعد جب وہ دورانِ ریفریشمنٹ صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت کررہے تھے، تو پروانو بھٹی نے ان سے مقامی اسسٹنٹ کمشنر کی شکایت کی، جس نے مبینہ طور پر انھیں دیکھ لینے کی دھمکی دی تھی۔ مشہور بیوروکریٹ ابونصر حیدرآباد کے ڈویژنل کمشنر ہوا کرتے تھے اور وہیں بھٹو کے پاس موجود تھے۔ شکایت سن کر بھٹو نے ان سے صرف اتنا کہا کہ کمشنر صاحب یہ میں کیا سن رہا ہوں، دوسرے دن اسسٹنٹ کمشنر کا تبادلہ بلوچستان ہوچکا تھا۔

شوگر ملز کے جنرل منیجر ایک سابق فوجی افسر کرنل حیدر تھے، جن کے لیے مشہور تھا کہ وہ صدر ایوب خان کے قریبی عزیز ہیں۔ اس علاقے میں دھان کے علاوہ گندم اور کپاس کی فصلیں بوئی جاتی تھیں اور پانی کی قلت کا مسئلہ بھی نہیں تھا۔ شوگر ملز لگاتے وقت پیشگی منصوبہ بندی کے تحت زمینداروں خصوصاً چھوٹے کاشتکاروں کو روایتی فصلوں کی جگہ گنا بونے کے لیے جو اور بہت سی ترغیبات دی گئی تھیں، ان میں بیج، کھاد اور ٹریکٹر کی خریداری کے لیے آسان اقساط میں قابل واپسی بلاسود اور برائے نام سود پر دیے جانے والے قرضے بھی شامل تھے۔ زمینداروں اور کاشتکاروں کے لیے ان ترغیبات خصوصاً قرضوں میں بڑی کشش تھی اور ان کے حصول کے لیے وہ ٹوٹے پڑ رہے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لاڑ (زیریں سندھ) میں ہر طرف گنے کے کھیت لہلہا رہے تھے۔

انھی دنوں بنیادی جمہوریت کے نئے نظام کے تحت عام انتخابات کے شیڈول کا بھی اعلان ہوا۔ خدا جانے سب کچھ پہلے سے طے تھا یا کرنل حیدر کی شامت آئی تھی کہ انھوں نے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا اور وہ بھی میر غلام علی تالپور کے مقابلے میں، جو نہ صرف پرانے سیاستدان بلکہ علاقے کے سب سے بااثر اور طاقتور زمیندار تھے۔کرنل حیدر نے شوگر ملز کو الیکشن جیتنے کا لیور بنا لیا، اپنی انتخابی مہم میں وہ گاؤں گاؤں جاکر زمینداروں اور کاشتکاروں کو اعلانیہ دھمکی دیتے کہ اگر انھوں نے اپنے بی ڈی ممبرز سے انھیں ووٹ نہ دلوائے تو ملز ان کا گنا نہیں اٹھائے گی اور ان کی تیار فصلیں یوں ہی کھڑی کھڑی سوکھ جائیں گی۔

ظاہر ہے ان کے اس طرز عمل کی وجہ سے زمیندار اور چھوٹے کاشتکار سخت دباؤ میں اور پریشان تھے۔ کرنل حیدر کو اس بات سے بھی الیکشن لڑنے کی شہ ملی تھی کہ سعید پور ٹکر والے مشہور زمیندار، جو میر غلام علی کے دست و بازو ہوا کرتے تھے، ان دنوں مخالف کیمپ میں تھے، جس سے میر صاحب کی پوزیشن سخت متاثر ہو رہی تھی۔ میر صاحب نے الیکشن ہارنے کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے سندھ کا قدیم 'نیانی میڑ'' والا روایتی حربہ آزماکر عین وقت پر شاہ صاحب سے صلح کرلی۔ کرنل حیدر کو پتہ چلا تو وہ آگ بگولہ ہوکر سعید پور ٹکر پہنچا اور گنا نہ اٹھانیوالی اپنی دھمکی دہرائی۔ جواب میں شاہ صاحب نے اس کی موجودگی میں ڈیڑھ دو سو ایکڑوں پر کھڑی اپنی تیار گنے کی فصل کو آگ لگوا دی، جو ان کی طرف سے گویا کرنل کی دھمکی کا جواب تھا۔


ان دنوں یہ واقعہ بہت مشہور ہوا تھا۔اطلاع پاکر ایوب خان نے بھی، جو شکار کے لیے اکثر و بیشتر ٹنڈو محمد خان اور سعید پور ٹکر آیا کرتے تھے، کرنل حیدر سے بازپرس کی اور اسے نہ صرف شاہ صاحب سے جاکر معافی مانگنے بلکہ نقصان کی تلافی کرنے کے لیے بھی کہا۔ اس نے یہ سب کچھ تو کیا لیکن الیکشن لڑنے کی ضد نہیں چھوڑی اور مقابلے پر ڈٹا رہا۔ میر صاحب کو بھی تفریح سوجھی، سو انھوں نے کرنل حیدر کو اپنے ساتھ چائے پینے کی دعوت دی، وہ سمجھے میر صاحب انھیں دستبردار ہونے کے لیے کہیں گے اور اس کے عوض کوئی بڑی پیشکش بھی کریں گے، سو طے شدہ وقت پر میر صاحب کے بنگلے پر پہنچ گئے۔

ان کی حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب میر غلام علی نے خود آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا اور بے تکلفی سے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اپنے مخصوص کمرے تک لائے جہاں ان کی ون آن ون ملاقات ہوئی جو تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہی۔ اندر کی خبر بتانیوالے سے پتہ چلا کہ میر صاحب نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر ان سے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ شوگر ملز پوری طرح ان کے ڈسپوزل پر ہے اور ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں، لیکن انھوں نے جو راستہ چنا ہے وہ تباہی کا راستہ ہے جب کہ وہ انھیں تباہ ہونے سے بچانا چاہتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ ووٹ خریدنے کے لیے بی ڈی ممبرز کی بولی لگا رہے ہیں، اس طرح الیکشن لڑیں گے تو انھیں اپنی عمر بھر کی جمع پونجی داؤ پر لگانی پڑے گی، جیت گئے تو ٹھیک ورنہ دوبارہ اتنا مال بنانا ان کے لیے کسی بھی طرح ممکن نہیں ہوگا اور وہ کنگال ہوجائیں گے۔ انھوں نے ان کو مشورہ دیا کہ کوئی رسک لینے کے بجائے وہ الیکشن لڑنے کا خیال دل سے نکال دیں اور اپنی پوری توجہ مزید مال بنانے پر مرکوز رکھیں۔ کرنل حیدر کو توقع نہیں تھی کہ میر صاحب ان سے اس طرح کی باتیں کریں گے، اس لیے ان کے پسینے چھوٹنے لگے، جھینپ مٹانے کے لیے بولے آپ مجھے منع کرتے ہیں تو خود کیوں رسک لے رہے ہیں، آپ بھی تو ہار سکتے ہیں۔

میر صاحب نے انھیں پھر سمجھانے کی کوشش کی وہ یہاں کے لوگوں کے لیے نئے ہیں، وہ انھیں نہیں جانتے اور جاننے کے لیے انھیں ایک مدت چاہیے، جب کہ میری زندگی کھلی کتاب کی مانند ان کے سامنے ہے، میں پچھلے چالیس سال سے اسمبلیوں میں ان کی نمایندگی کرتا آرہا ہوں اور لوگ میری خدمات سے بخوبی آگاہ ہیں۔سلسلہ کلام جاری رکھتے بولے آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہم خاندانی اور جدی پشتی رئیس ہیں، ہمارے لیے عزت، مالی فائدے اور نقصان سے زیادہ اہم ہے، آپ کا توڑ کرنے کے لیے مجھے بھی پیسے خرچ کرنے پڑیں گے، آپ کے لگائے ہوئے پیسے ڈبونے کے لیے میں ان سے دگنے پیسے خرچ کرنے سے بھی دریغ نہیں کروں گا، آپ کی لٹیا ڈوبی تو سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آؤ گے، جب کہ میرا نقصان ہوا تو سمجھوں گا اس سال فصل نہیں ہوئی، اگلے سال پھر ہوگی۔

میٹنگ ختم ہوئی تو میر صاحب روایتی وضعداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کرنل حیدر کو باہر تک چھوڑنے آئے۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے۔ الیکشن ہوئے، کرنل دستبردار نہیں ہوئے اور بہت بڑے مارجن سے ہارے، ذلت آمیز شکست نے ان کا ذہنی توازن بگاڑ دیا، گاؤں گاؤں جاکر ان کو ننگی گالیاں دیتے تھے جنھوں نے ان سے بڑی بڑی رقمیں وصول کی تھیں، دیہاتی بچے پاگل پاگل کہتے ہوئے ان کی گاڑی کے پیچھے بھاگتے تھے، برا وقت آیا تو ان کے سرپرستوں نے بھی آنکھیں پھیرلیں، شوگر ملز کی نوکری سے تو نکالے ہی گئے، سارا حساب کتاب بھی دینا پڑا۔

کئی سال بعد ایک صبح میں نے سرفراز کالونی جاتے ہوئے موصوف کو سول اسپتال کے سامنے لگے فوارے کے پاس سیمنٹ کی بینچ پر بیٹھے ہوئے دیکھا۔ اگرچہ سوٹ پہنے اور فلیٹ ہیٹ لگائے ہوئے تھے، ہاتھ میں واک کرنے والی چھڑی بھی تھی لیکن پاگلوں کی طرح خود سے باتیں کیے جارہے تھے۔
Load Next Story