جو ناکام تھے…
کیا ہم سب انسان اسی دنیا میں ترقی کرنے آئے ہیں، ہم سب کچھ حاصل کرنے آئے ہیں یا پھر کچھ اور مقاصد بھی ہمارے ہیں۔
معاشرتی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی ذہن اور رہن سہن نے بھی بہت ترقی کی ہے، پوری دنیا میں تبدیلی کی لہر رواں دواں ہے، کہیں آزادی کے نام پر، کہیں لبرل ازم کے نام پر، کہیں مذہب کے نام پر، کہیں ترقی پسندی یا جدت پسند کے نام پر۔ گویا بچے سے لے کر بوڑھے تک اس تبدیلی کی لپیٹ میں ہیں۔ بچوں کو ہم اس لیے شامل کر رہے ہیں کہ ان کے والدین زمانے کے لحاظ سے ہی ان کی پرورش کر رہے ہیں۔
پہلے مرغی کا قورمہ بڑے اہتمام سے بڑی بڑی دعوتوں میں ایک اعزاز کی طرح پیش ہوتا تھا، اب مرغی کی حیثیت یہ ہے کہ سمجھدار آدمی موجودہ مرغی کے گوشت سے اجتناب برتنے کی بات کرتا ہے، اب بکرے اور گائے کے گوشت میں جو گوشت شامل ہوگئے ہیں اس میں کتا، گدھا، مری ہوئی بھینس اور اللہ جانے کیا کیا؟ مگر یہ بات طے ہے کہ ترقی ہو رہی ہے۔ اور ہم پسند کرتے ہیں ترقی پسند کہلوانا، ہمیں ترقی کرنی ہے، آگے بڑھنا ہے، آخر دنیا کے بھی ساتھ ساتھ چلنا ہے، فیشن سے لے کر کھانے تک اور اشرف المخلوقات تو ہم ہیں ہی۔
کیا ہم سب انسان اسی دنیا میں ترقی کرنے آئے ہیں، ہم سب کچھ حاصل کرنے آئے ہیں یا پھر کچھ اور مقاصد بھی ہمارے ہیں، خوشیاں، چاہئیں، جیسے چاہے جئیں، رشتے ناتے، جنگ و فساد، بڑے بڑے عہدے، بڑے بڑے رتبے میرے سامنے جھکے ہوئے سر اور سامنے اکڑی ہوئی گردن، سونے اور ہیرے جواہرات کے تخت و تاج، چاندی کے برتن، لذیذ پکوان، بھرے بھرے دسترخوان، خواہشات اور ضرورتوں کی لمبی قطار۔ اور حاصل کیا؟ سب کچھ کے بعد ایک دن زندگی ختم، ایک گہرا گڑھا، اوپر مٹی کا ڈھیر، جو کچھ دنیا میں کیا، حاصل کیا، جو محنت کی، جو جدوجہد کی، ان سب کا نچوڑ، اس گڑھے میں تن تنہا، نہ کوئی والدین نہ اولاد، سب مٹی ڈال کر دنیا میں واپس چلے گئے۔
اس تنہائی کے گڑھے کو روشن کرنے کے لیے نجانے کتنوں نے اس عالی شان دنیا میں فقیری کی زندگی گزاری، نہ رہنے کو مکان، نہ کھانے کو مکمل پکوان، اس دنیا بنانیوالے کی محبت، زندگی دینے والے سے عشق، نہ شام کی فکر نہ رات کا غم، ہر لمحہ اللہ کی محبت اور اس کی لگن، اس طرح کے تھوڑے لوگ قیامت تک ہوتے رہیں گے، روشن چراغ جلتے رہیں گے، مگر کروڑوں ایسے بھی ہیں جو شب و روز لگے ہیں جدوجہد میں کہ رہنے کو شاندار محل، عالیشان، لذیذ پکوان، جس طرح بھی حاصل ہو حاصل کیا جائے، انسانوں سے چھینا جائے، اور اس حصول میں ان کو مارا بھی جائے تو کوئی حرج نہیں۔انسانی عقل و دانش کمال کی ہے۔
آسمان تک، ستاروں تک کو پہنچ جاتی ہے۔ زمین کی گہرائیوں سے لے کر آسمان کی بلندی تک فتح کرسکتی ہے، اور کر رہی ہے۔ انسانوں کو تباہ کرنے سے لے کر انسانوں کی بھلائی تک تمام کاروبار زندگی رواں دواں ہے۔ برسوں کا سفر مہینوں میں، مہینوں کا سفر ہفتوں میں، ہفتوں کا سفر گھنٹوں میں اور گھنٹوں کا سفر منٹوں میں، یہ بھی آج کی ترقی ہے۔ ایک ایٹم بم اور شہر غرق، یہ بھی آج کی ترقی ہے۔
بے حساب پھیلی ہوئی دنیا میں کیا کچھ ہو رہا ہے، منٹ منٹ کی خبر صرف انگلیوں کے اشارے پر۔مکہ مکرمہ سے لے کر فرانس اور امریکا تک عالیشان بڑی بڑی عمارتیں، بے پناہ آسائشوں سے بھری ہوئی، خوابوں کی طرح کی رہائش، عالیشان آب و تاب کہ عام انسان صرف کیڑا مکوڑا دکھائی دے، مگر انسان تو سب برابر ہیں، اگر فرق ہے تو اس کے متقی ہونے کا، اس کے پرہیز گار ہونے کا۔رسول پاکؐ کی تمام حیات طیبہ اور تمام نبیوں کی زندگی نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ تمام دنیا کے انسانوں کے لیے مثل راہ ہے۔
اللہ پاک نے دنیا بنائی اور پھر اس دنیا میں رہنے کے بسنے کے تمام تر اصول بھی بتائے۔ ہماری طرح کے خدوخال کے انسانوں کو نبی بناکر بھیجا۔ زمین پر رہنے والے انسانوں کو جزا و سزا بھی کرکے دکھائی، زندگی کی حقیقت کیا ہے اور انسانی عقل کیا ہے، سب کچھ صاف صاف دکھایا، عبرت کی ایسی داستانیں جو بھی دکھائیں، حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد سے لے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد تک۔ نافرمانی سے لے کر فرمانبرداری تک۔ کیا ہم نے سیکھا آج تک اور کیا ہم بھلا بیٹھے ہمیشہ تک کے لیے۔
بحیثیت ایک انسان دنیا کے کسی بھی گوشے میں انسانیت سوز مظالم ہوں تو کوئی بھی انسان برداشت نہیں کرتا، آوازیں اٹھتی ہیں، احتجاج ہوتا ہے، اور ہم بحیثیت مسلمان دگنی ذمے داری کو محسوس کرتے ہیں، ایک انسان ہونے کی، ایک امت محمدی ہونے کی۔ اللہ، رسول اور ایک کتاب قرآن پاک۔ ہم تمام مسلمانوں کے لیے ضابطہ حیات۔ جب جب ہم ان سب کو بھولیں گے تب تب ہم ذلتوں کی دلدل میں پھنسیں گے۔
جب انسان اپنی حد سے باہر نکلا ہے، جب جب اس نے خدائی معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی ہے، بس وہیں اس کے زوال کا پوائنٹ بنا، وہی اس کی عبرت کی گھڑی بنی۔ زمانے کی ترقی میں انسانوں نے منافقت بھی زبردست دیکھ لی ہے، دل میں کچھ اور عمل کچھ اور، الفاظ کچھ اور ہم نے سمجھا کہ اس طرح ہم لوگوں کو آسانی سے بے وقوف بنا لیں گے، کہیں گے کچھ اور کریں گے کچھ اور۔ مگر یہ بھی کب تک کارآمد ہوگا۔پوری دنیا میں مسلمان ایک تذبذب کا شکار ہیں، قدم قدم پر سازش کرنیوالے، قدم قدم پر جال پھیلانے والے سائے کی طرح چاروں طرف نظر آتے ہیں۔ اتحاد اور سمجھداری ہی وقت کی ضرورت ہے۔
پاکستان تمام مسلم امہ کے لیے بہت اہمیت کا حامل ملک ہے۔ یہاں کی قیادت کو نہ صرف اپنے ملک کے لیے بلکہ پوری مسلم امہ کے لیے مضبوط بننا ہے۔ اندرونی اور بیرونی طور سے جو پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے، یقیناً وہ پاکستان کا خیر خواہ نہیں، جو پاکستان کی کمزوریوں کو لے کر دشمن کے ساتھ ملے، وہ پاکستان کا خیرخواہ نہیں۔ جو اپنی ذات، اپنے خاندان کی صرف بات کریں اور پاکستان جیسے اہم ملک کو نقصان پہنچائے جو کہ مسلم امہ کے لیے اہمیت رکھتا ہے، وہ سمجھیں اور جانے کہ وقت کی اہم ضرورت یہ ملک ہے، اس کا مضبوط ہونا ہے، اور اس ملک کو سب ادارے ہم سب لوگ، تمام سیاسی قوتیں ہی مل کر مضبوط بنائیں گی۔
بہت ذمے داری، وفاداری، خلوص نیت کی شدید ضرورت ہے، یہ وقت آپس میں ذلیل و خوار کرنے کا نہیں بلکہ اپنی اپنی غلطیاں تسلیم کرکے آگے بڑھنے کا ہے۔بہترین ہیں وہ لوگ جو بحیثیت سیاسی جماعت بھی اور انفرادی حیثیت میں بھی اپنے غلط فیصلے اور غلط پالیسیوں کو مانتے اور تسلیم کریں اور اس ملک کے حال اور مستقبل کو شاندار بنانے کے لیے اپنی قوت اور طاقت کا استعمال کریں۔ یہی بڑائی اور یہی خوبی ہے۔ دلوں میں زندہ رہنے کا فن ہی تو عظیم لوگ بناتا ہے۔ دو وقت کا کھانا، تن پر کپڑا، سر کے اوپر چھت ہر عام و خاص کی ضرورت جو ان ضرورتوں سے آگے نکل جائے، انسانیت کا درس پڑھ لیں، رسول پاکؐ کی حیات طیبہ پر چل پڑیں تو پھر لوگ بھی جوق در جوق اس کے پیچھے چل پڑیں۔
کہاں سے لائے ہم، کہاں ڈھونڈیں، کس کو اپنا سمجھیں کہ سالہا سال اس ملک پر حکومتیں کرنیوالے صرف چند لوگوں کا ٹولہ بن جائے، صرف چند، مافیا بن جائے، ملک کو کمزور کرنے کی باتیں ہونے لگیں، ملک میں افراتفری کو بڑھاوا ملے، ضروریات زندگی ناپید ہوجائیں، بنیادی ضرورتوں کو ترسا جائے، یہاں تک کہ پینے کا صاف پانی بھی دشمن جاں بن جائے، کچھ تنی ہوئی گردنیں، کچھ اونچی آوازیں، کچھ تکبر سے بھرے ہوئے جملے، یہ ہمیشہ چند اور کچھ ہی رہ جائیں گے کہ لاکھوں، کروڑوں کبھی اس ملک کو کمزور نہیں ہونے دیں گے۔ اللہ کے انصاف کے ساتھ ساتھ کروڑوں کی بھلائی اور خوشیاں بھی اس ملک سے جڑی ہیں اور رہیں گی۔ جو کل بھی ناکام تھے وہ آیندہ بھی ناکام ہوں گے۔
پہلے مرغی کا قورمہ بڑے اہتمام سے بڑی بڑی دعوتوں میں ایک اعزاز کی طرح پیش ہوتا تھا، اب مرغی کی حیثیت یہ ہے کہ سمجھدار آدمی موجودہ مرغی کے گوشت سے اجتناب برتنے کی بات کرتا ہے، اب بکرے اور گائے کے گوشت میں جو گوشت شامل ہوگئے ہیں اس میں کتا، گدھا، مری ہوئی بھینس اور اللہ جانے کیا کیا؟ مگر یہ بات طے ہے کہ ترقی ہو رہی ہے۔ اور ہم پسند کرتے ہیں ترقی پسند کہلوانا، ہمیں ترقی کرنی ہے، آگے بڑھنا ہے، آخر دنیا کے بھی ساتھ ساتھ چلنا ہے، فیشن سے لے کر کھانے تک اور اشرف المخلوقات تو ہم ہیں ہی۔
کیا ہم سب انسان اسی دنیا میں ترقی کرنے آئے ہیں، ہم سب کچھ حاصل کرنے آئے ہیں یا پھر کچھ اور مقاصد بھی ہمارے ہیں، خوشیاں، چاہئیں، جیسے چاہے جئیں، رشتے ناتے، جنگ و فساد، بڑے بڑے عہدے، بڑے بڑے رتبے میرے سامنے جھکے ہوئے سر اور سامنے اکڑی ہوئی گردن، سونے اور ہیرے جواہرات کے تخت و تاج، چاندی کے برتن، لذیذ پکوان، بھرے بھرے دسترخوان، خواہشات اور ضرورتوں کی لمبی قطار۔ اور حاصل کیا؟ سب کچھ کے بعد ایک دن زندگی ختم، ایک گہرا گڑھا، اوپر مٹی کا ڈھیر، جو کچھ دنیا میں کیا، حاصل کیا، جو محنت کی، جو جدوجہد کی، ان سب کا نچوڑ، اس گڑھے میں تن تنہا، نہ کوئی والدین نہ اولاد، سب مٹی ڈال کر دنیا میں واپس چلے گئے۔
اس تنہائی کے گڑھے کو روشن کرنے کے لیے نجانے کتنوں نے اس عالی شان دنیا میں فقیری کی زندگی گزاری، نہ رہنے کو مکان، نہ کھانے کو مکمل پکوان، اس دنیا بنانیوالے کی محبت، زندگی دینے والے سے عشق، نہ شام کی فکر نہ رات کا غم، ہر لمحہ اللہ کی محبت اور اس کی لگن، اس طرح کے تھوڑے لوگ قیامت تک ہوتے رہیں گے، روشن چراغ جلتے رہیں گے، مگر کروڑوں ایسے بھی ہیں جو شب و روز لگے ہیں جدوجہد میں کہ رہنے کو شاندار محل، عالیشان، لذیذ پکوان، جس طرح بھی حاصل ہو حاصل کیا جائے، انسانوں سے چھینا جائے، اور اس حصول میں ان کو مارا بھی جائے تو کوئی حرج نہیں۔انسانی عقل و دانش کمال کی ہے۔
آسمان تک، ستاروں تک کو پہنچ جاتی ہے۔ زمین کی گہرائیوں سے لے کر آسمان کی بلندی تک فتح کرسکتی ہے، اور کر رہی ہے۔ انسانوں کو تباہ کرنے سے لے کر انسانوں کی بھلائی تک تمام کاروبار زندگی رواں دواں ہے۔ برسوں کا سفر مہینوں میں، مہینوں کا سفر ہفتوں میں، ہفتوں کا سفر گھنٹوں میں اور گھنٹوں کا سفر منٹوں میں، یہ بھی آج کی ترقی ہے۔ ایک ایٹم بم اور شہر غرق، یہ بھی آج کی ترقی ہے۔
بے حساب پھیلی ہوئی دنیا میں کیا کچھ ہو رہا ہے، منٹ منٹ کی خبر صرف انگلیوں کے اشارے پر۔مکہ مکرمہ سے لے کر فرانس اور امریکا تک عالیشان بڑی بڑی عمارتیں، بے پناہ آسائشوں سے بھری ہوئی، خوابوں کی طرح کی رہائش، عالیشان آب و تاب کہ عام انسان صرف کیڑا مکوڑا دکھائی دے، مگر انسان تو سب برابر ہیں، اگر فرق ہے تو اس کے متقی ہونے کا، اس کے پرہیز گار ہونے کا۔رسول پاکؐ کی تمام حیات طیبہ اور تمام نبیوں کی زندگی نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ تمام دنیا کے انسانوں کے لیے مثل راہ ہے۔
اللہ پاک نے دنیا بنائی اور پھر اس دنیا میں رہنے کے بسنے کے تمام تر اصول بھی بتائے۔ ہماری طرح کے خدوخال کے انسانوں کو نبی بناکر بھیجا۔ زمین پر رہنے والے انسانوں کو جزا و سزا بھی کرکے دکھائی، زندگی کی حقیقت کیا ہے اور انسانی عقل کیا ہے، سب کچھ صاف صاف دکھایا، عبرت کی ایسی داستانیں جو بھی دکھائیں، حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد سے لے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد تک۔ نافرمانی سے لے کر فرمانبرداری تک۔ کیا ہم نے سیکھا آج تک اور کیا ہم بھلا بیٹھے ہمیشہ تک کے لیے۔
بحیثیت ایک انسان دنیا کے کسی بھی گوشے میں انسانیت سوز مظالم ہوں تو کوئی بھی انسان برداشت نہیں کرتا، آوازیں اٹھتی ہیں، احتجاج ہوتا ہے، اور ہم بحیثیت مسلمان دگنی ذمے داری کو محسوس کرتے ہیں، ایک انسان ہونے کی، ایک امت محمدی ہونے کی۔ اللہ، رسول اور ایک کتاب قرآن پاک۔ ہم تمام مسلمانوں کے لیے ضابطہ حیات۔ جب جب ہم ان سب کو بھولیں گے تب تب ہم ذلتوں کی دلدل میں پھنسیں گے۔
جب انسان اپنی حد سے باہر نکلا ہے، جب جب اس نے خدائی معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی ہے، بس وہیں اس کے زوال کا پوائنٹ بنا، وہی اس کی عبرت کی گھڑی بنی۔ زمانے کی ترقی میں انسانوں نے منافقت بھی زبردست دیکھ لی ہے، دل میں کچھ اور عمل کچھ اور، الفاظ کچھ اور ہم نے سمجھا کہ اس طرح ہم لوگوں کو آسانی سے بے وقوف بنا لیں گے، کہیں گے کچھ اور کریں گے کچھ اور۔ مگر یہ بھی کب تک کارآمد ہوگا۔پوری دنیا میں مسلمان ایک تذبذب کا شکار ہیں، قدم قدم پر سازش کرنیوالے، قدم قدم پر جال پھیلانے والے سائے کی طرح چاروں طرف نظر آتے ہیں۔ اتحاد اور سمجھداری ہی وقت کی ضرورت ہے۔
پاکستان تمام مسلم امہ کے لیے بہت اہمیت کا حامل ملک ہے۔ یہاں کی قیادت کو نہ صرف اپنے ملک کے لیے بلکہ پوری مسلم امہ کے لیے مضبوط بننا ہے۔ اندرونی اور بیرونی طور سے جو پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے، یقیناً وہ پاکستان کا خیر خواہ نہیں، جو پاکستان کی کمزوریوں کو لے کر دشمن کے ساتھ ملے، وہ پاکستان کا خیرخواہ نہیں۔ جو اپنی ذات، اپنے خاندان کی صرف بات کریں اور پاکستان جیسے اہم ملک کو نقصان پہنچائے جو کہ مسلم امہ کے لیے اہمیت رکھتا ہے، وہ سمجھیں اور جانے کہ وقت کی اہم ضرورت یہ ملک ہے، اس کا مضبوط ہونا ہے، اور اس ملک کو سب ادارے ہم سب لوگ، تمام سیاسی قوتیں ہی مل کر مضبوط بنائیں گی۔
بہت ذمے داری، وفاداری، خلوص نیت کی شدید ضرورت ہے، یہ وقت آپس میں ذلیل و خوار کرنے کا نہیں بلکہ اپنی اپنی غلطیاں تسلیم کرکے آگے بڑھنے کا ہے۔بہترین ہیں وہ لوگ جو بحیثیت سیاسی جماعت بھی اور انفرادی حیثیت میں بھی اپنے غلط فیصلے اور غلط پالیسیوں کو مانتے اور تسلیم کریں اور اس ملک کے حال اور مستقبل کو شاندار بنانے کے لیے اپنی قوت اور طاقت کا استعمال کریں۔ یہی بڑائی اور یہی خوبی ہے۔ دلوں میں زندہ رہنے کا فن ہی تو عظیم لوگ بناتا ہے۔ دو وقت کا کھانا، تن پر کپڑا، سر کے اوپر چھت ہر عام و خاص کی ضرورت جو ان ضرورتوں سے آگے نکل جائے، انسانیت کا درس پڑھ لیں، رسول پاکؐ کی حیات طیبہ پر چل پڑیں تو پھر لوگ بھی جوق در جوق اس کے پیچھے چل پڑیں۔
کہاں سے لائے ہم، کہاں ڈھونڈیں، کس کو اپنا سمجھیں کہ سالہا سال اس ملک پر حکومتیں کرنیوالے صرف چند لوگوں کا ٹولہ بن جائے، صرف چند، مافیا بن جائے، ملک کو کمزور کرنے کی باتیں ہونے لگیں، ملک میں افراتفری کو بڑھاوا ملے، ضروریات زندگی ناپید ہوجائیں، بنیادی ضرورتوں کو ترسا جائے، یہاں تک کہ پینے کا صاف پانی بھی دشمن جاں بن جائے، کچھ تنی ہوئی گردنیں، کچھ اونچی آوازیں، کچھ تکبر سے بھرے ہوئے جملے، یہ ہمیشہ چند اور کچھ ہی رہ جائیں گے کہ لاکھوں، کروڑوں کبھی اس ملک کو کمزور نہیں ہونے دیں گے۔ اللہ کے انصاف کے ساتھ ساتھ کروڑوں کی بھلائی اور خوشیاں بھی اس ملک سے جڑی ہیں اور رہیں گی۔ جو کل بھی ناکام تھے وہ آیندہ بھی ناکام ہوں گے۔