عوامی حکومت کے5سال توانائی بحران حل نہیں ہو سکا عوام بد ستور بے حال
2008کی صورتحال2012میں خوفناک شکل اختیارکرگئی،شارٹ فال1850سے بڑھکر6325میگاواٹ ہوگیا، واجبات 500 ارب سے زائد
5سال کی مدت پوری کرنے والی عوامی حکومت کے دور میں توانائی کا بحران سب سے بڑا چیلنج ثابت ہوا۔
عوامی حکومت توانائی کے بحران کا کوئی ٹھوس حل تلاش نہ کرسکی جس سے 5سال کے دوران بجلی کا شارٹ فال 242فیصد اضافے سے 2008 کی سطح 1850میگاواٹ سے بڑھکر 6325میگاواٹ تک پہنچ گیا، نگراں حکومت نے توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات نہ کیے تو جون 2013 میں عوام کو بجلی کی 12 گھنٹے لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑے گا، جون 2013کے لیے پیپکو کے اندازے کے مطابق بجلی کی طلب 24ہزار 656میگاواٹ، پیداوار 18 ہزار 167 میگاواٹ اور شارٹ فال 6489میگاواٹ تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔
ماہرین کے مطابق نگراں حکومت کو پرانے اور کم استعداد پر چلنے والے پاورپلانٹس کے بجائے زیادہ پیداواری استعداد کے کارگر پلانٹس کو ترجیح دینا ہوگی اور پاورسیکٹر کے زیرگردش قرضوں کو موجودہ سطح پر رکھنے کے لیے کرنٹ بلوں کی بروقت ادائیگی کو یقینی بنانا ہوگا۔ انڈسٹری ذرائع کے مطابق ایک جانب بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھتارہا، دوسری جانب سرکلرڈیٹ بھی قابو سے باہر ہوگیا۔
پاورسیکٹر کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں نصب شدہ پیداواری گنجائش 2008 میں 20ہزار232میگاواٹ تھی جو 5 سال میں 16فیصد اضافے کے بعد 23ہزار538میگاواٹ تک پہنچ گئی۔ تاہم گیس کی قلت اور کم پیداواری استعداد پر پاورپلانٹس چلائے جانے سے بجلی کی قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ اعدادوشمار کے مطابق 5سال کے دوران پانی سے بجلی کی پیداوار 28 ہزار 600 گیگا واٹ رہی اور اس میں ایک فیصد بھی اضافہ نہیں ہوسکا۔ فرنس آئل جیسے مہنگے ذریعے سے بجلی کی پیداوار 28فیصد اضافے سے 42ہزار952گیگا واٹ تک پہنچ گئی۔
5سال کے دوران بجلی پر دی جانے والی سبسڈی 112ارب روپے سے بڑھ کر 554ارب روپے تک پہنچ گئی۔ اس طرح 5سال کے دوران بجلی پر سبسڈی کی ادائیگی میں 394فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ 2008 میں پاورسیکٹر میں 5.475ارب ڈالر کی براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری ریکارڈ کی گئی تھی جبکہ 2012 تک اس شعبے میں غیرملکی سرمایہ کاری 87فیصد کمی سے 708 ملین ڈالر تک محدود ہے۔
عوامی حکومت توانائی کے بحران کا کوئی ٹھوس حل تلاش نہ کرسکی جس سے 5سال کے دوران بجلی کا شارٹ فال 242فیصد اضافے سے 2008 کی سطح 1850میگاواٹ سے بڑھکر 6325میگاواٹ تک پہنچ گیا، نگراں حکومت نے توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات نہ کیے تو جون 2013 میں عوام کو بجلی کی 12 گھنٹے لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑے گا، جون 2013کے لیے پیپکو کے اندازے کے مطابق بجلی کی طلب 24ہزار 656میگاواٹ، پیداوار 18 ہزار 167 میگاواٹ اور شارٹ فال 6489میگاواٹ تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔
ماہرین کے مطابق نگراں حکومت کو پرانے اور کم استعداد پر چلنے والے پاورپلانٹس کے بجائے زیادہ پیداواری استعداد کے کارگر پلانٹس کو ترجیح دینا ہوگی اور پاورسیکٹر کے زیرگردش قرضوں کو موجودہ سطح پر رکھنے کے لیے کرنٹ بلوں کی بروقت ادائیگی کو یقینی بنانا ہوگا۔ انڈسٹری ذرائع کے مطابق ایک جانب بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھتارہا، دوسری جانب سرکلرڈیٹ بھی قابو سے باہر ہوگیا۔
پاورسیکٹر کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں نصب شدہ پیداواری گنجائش 2008 میں 20ہزار232میگاواٹ تھی جو 5 سال میں 16فیصد اضافے کے بعد 23ہزار538میگاواٹ تک پہنچ گئی۔ تاہم گیس کی قلت اور کم پیداواری استعداد پر پاورپلانٹس چلائے جانے سے بجلی کی قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ اعدادوشمار کے مطابق 5سال کے دوران پانی سے بجلی کی پیداوار 28 ہزار 600 گیگا واٹ رہی اور اس میں ایک فیصد بھی اضافہ نہیں ہوسکا۔ فرنس آئل جیسے مہنگے ذریعے سے بجلی کی پیداوار 28فیصد اضافے سے 42ہزار952گیگا واٹ تک پہنچ گئی۔
5سال کے دوران بجلی پر دی جانے والی سبسڈی 112ارب روپے سے بڑھ کر 554ارب روپے تک پہنچ گئی۔ اس طرح 5سال کے دوران بجلی پر سبسڈی کی ادائیگی میں 394فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ 2008 میں پاورسیکٹر میں 5.475ارب ڈالر کی براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری ریکارڈ کی گئی تھی جبکہ 2012 تک اس شعبے میں غیرملکی سرمایہ کاری 87فیصد کمی سے 708 ملین ڈالر تک محدود ہے۔