سیاسی و عسکری تعلقات کا نیا باب

فوج جمہوریت کے ساتھ کھڑی ہے اورآئینی حدود کے اندر رہ کر کام کر رہی ہے، جنرل قمر باجوہ

فوج جمہوریت کے ساتھ کھڑی ہے اورآئینی حدود کے اندر رہ کر کام کر رہی ہے، جنرل قمر باجوہ۔ فوٹو: فائل

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے منگل کو ملکی عسکری اور سیاسی تاریخ کا ایک خوش آیند باب رقم کیا جو سیاسی و عسکری خیرسگالی ، جمہوریت سے تجدید عہد کے اعتبار سے جمہوری اور ریاستی اداروں کے مابین دیرپااستقامت، ہم آہنگی اور تعلقات کار کی سبک روی کے حوالہ سے سنگ میل ثابت ہوگا۔ جنرل قمر باجوہ کا کہنا تھا کہ فوج جمہوریت کے ساتھ کھڑی ہے اورآئینی حدود کے اندر رہ کر کام کر رہی ہے۔

سیاست دان فوج کو موقع نہ دیں، انھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ دھرنے میں فوج کا ہاتھ ثابت ہوا تو مستعفی ہو جاؤں گا، وہ اس بات پر زور دیتے رہے کہ پارلیمنٹ ہی سب کچھ ہے، آپ لوگ پالیسی بنائیں، ہم عمل کریں گے۔ ہم پاکستان کے عوام کو جواب دہ ہیں، فوج کا کام حکومت کرنا نہیں ہے نہ ہمارا یہ ارادہ ہے، جمہوریت کا سب سے زیادہ حامی ہوں، میرے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہیں۔ اداروں پر تنقید لازمی کریں مگر انھیں کمزور نہ کریں، آرمی چیف کے طور پر اپنی مدت میں توسیع کے بجائے باعزت بروقت ریٹائر ہونا پسند کروں گا۔آرمی چیف نے رضا ربانی کی زیر صدارت سینیٹ کی پورے ایوان کی کمیٹی کے خصوصی بند کمرہ اجلاس میں ارکان پارلیمان کو قومی سلامتی، خطے کی صورت حال اور اپنے غیر ملکی دوروں پر بریفنگ دی۔

یہ اجلاس اس حوالے سے بھی اہمیت کا حامل تھا کہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاک فوج کے سربراہ اور ڈی جی ملٹری آپریشنز نے سینیٹ کو بریفنگ دی۔ اس موقع پر ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار، ڈی جی ایم او میجر جنرل ساحر شمشاد مرزا، ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور اور ڈی جی ایم آئی بھی موجود تھے۔ پاک فوج کے سربراہ نے سینیٹرز کو علاقائی و قومی سلامتی کی صورتحال خصوصاً سعودی اسلامی فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت پر اعتماد میں لیا۔ عسکری حکام نے ارکان پارلیمنٹ کے سوالات کے جواب دیے، جنرل باجوہ نے کہا ٹی وی پر تبصرہ کرنیوالے ریٹائرڈ فوجی افسران ہمارے ترجمان نہیں۔ فوج کا آئین میں جو کردار ہے اس سے مطمئن ہوں،41 ملکی اتحاد کسی ملک کے خلاف نہیں، اتحاد کے ٹی او آرز ابھی طے ہونا باقی ہیں، ایران اور سعودی عرب کی لڑائی نہیں ہوگی، ہم ایسا نہیں ہونے دینگے، خطے کی جیو اسٹرٹیجک صورتحال پر گہری نظر ہے، بارڈر مینجمنٹ پاک، افغان سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔

ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ عسکری قیادت نے سینیٹ ہول کمیٹی کو ایک گھنٹہ بریفنگ دی جب کہ بہت اچھے انداز میں تین گھنٹے سے زائد سوال و جواب کا سیشن ہوا۔ اجلاس میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی حکمت عملی پر بریفنگ دی گئی، جیو اسٹرٹیجی کے معاملات پر بات چیت ہوئی، اس موقع پر اتفاق ہوا کہ ہم سب مل کر آگے چلیں گے اور پاکستان کو لاحق تمام خطرات اور دہشتگردی کا مل کر مقابلہ کریں گے ، افغانستان کی جنگ دوبارہ پاکستان میں نہیں لڑیں گے ، سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین نے کہا ملٹری ہائی کمان نے کھل کر کہہ دیا کہ آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی چاہتے ہیں، واضح ہو گیا کہ پاکستان میں جاندار جمہوریت ہے اور ملک کے تمام ستون آئین کے مطابق کام کر رہے ہیں، سول ملٹری تعلقات کے لیے یہ بہت اچھی بات ہے، موجودہ کنفیوژن کی صورتحال میں خدشات دور ہو گئے۔


حقیقت یہ ہے کہ ملک میں اداروں کے مابین تصادم ، سیاسی و عسکری عدم مطابقت ، تناؤ اور سیاسی کشیدگی کے بند گلی میں جانے کے جو اعصاب شکن خدشات کوہ ہمالیہ کی طرح سر اٹھائے کھڑے تھے وہ جنرل صاحب کی ایوان بالا میں پارلیمنٹیرینز سے دوبدو گفتگو اور کھلے مکالمہ کے بعد زمین بوس ہوگئے۔ وہ بات جس کا70 سال تک ریاستی اداروں اور ملک کے دیگر اہم ستونوں میں بداعتمادی کے فسانہ کا بھرپور ذکر ہوتا رہا وہ ایک ایسے دورانئے میں قوم کے لیے سب سے بڑی خوشخبری بن گئی جب کہ ملکی جمہوری سفینہ کو کئی سیاسی طوفانوں کا سامنا ہے، واضح رہے چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کچھ ماہ پہلے اداروں کے مابین ایک گریٹر مکالمہ کی تجویز دی اور خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ان کی اس تجویز پر سیاسی و عسکری حلقوں نے خوشگوار رد عمل دیا اور جمہوریت کے تحفظ کی یقین دہانی کے لیے آرمی چیف کی آواز ان کیمرہ بریفنگ میں گونجی اور سینیٹ میں ملکی حقائق پر عسکری ادارے کے قوم پرستانہ عزائم اور انداز نظر پر ہمہ گیرسوال وجواب ہوئے۔

در اصل یہ سویلین بالادستی کی جمہوری خواہش اور سیاسی جدوجہد کا شاندار نکتۂ عروج ہے کہ جمہوریت کو سیاسی و عسکری ہم آہنگی کی زبردست حمایت ملی۔ اسے نیک شگون کہئے، یہ اہم پیشرفت اس وجہ سے نعمت غیر مترقبہ ہے کہ مسائل کے حل کے بجائے ڈیڈ لاک ملک کا مقدر بنا ہوا تھا ، تاہم سینیٹ بریفنگ سے برف پگھلنے لگی ہے ۔ اب فاٹا کا مقدر بھی جاگنے کے آثار نظر آنے چاہئیں ،آرمی چیف کی وزیراعظم اور جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے مابین اس ضمن میں بات چیت ہوئی ہے اور امید ظاہر کی جارہی ہے کہ فاٹا بل کی منظوری کے لیے جے یو آئی کے تحفظات اور خدشات دور کرنے کی سمت بھی مناسب اور مثبت پیش رفت کی خبریں آئیں گی۔

اس مسئلہ کو بھی جلد حل ہونا چاہیے کیونکہ فاٹا انضمام کے خلاف جے یو آئی کا 30 دسمبر کو دھرنے کا پروگرام طے ہے ، جے یو آئی انضمام کے خلاف اور فاٹا کے بطور صوبہ قیام کو بہتر آپشن خیال کرتی ہے، چنانچہ مسئلہ کے فوری حل کے لیے بات چیت نتیجہ خیز ہونی چاہیے۔ اس مسئلہ کے سنگین مضمرات کو قومی یکجہتی اور فاٹا عوام کے مفادات اور ان کی خواہشات کے مطابق حل کرنا صائب اقدام ہوگا جب کہ ناگزیر ہے کہ اس کام کی احسن طور پر تکمیل کی حکمت عملی فول پروف اور عوامی امنگوں سے مطابقت رکھتی ہو۔ توقع یہی ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومت اے این پی، پی پی، پی ٹی آئی ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی ، جماعت اسلامی سمیت قبائلی عوام ، فاٹا کے عمائدین اور یوتھ فورسز کے مطالبات اور منشا کو بھی پیش نظر رکھے ۔

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مفاہمت، خیرسگالی، یک جہتی اور قومی وجمہوری اسپرٹ کو ہر حال میں برقرار رکھا جائے ، سیاست دان ڈیلیور کریں، رواداری کے ساتھ جمہوریت عوام دوستی کا نیا معاہدہ عمرانی پیش کریں، ملک دہشتگردی کے عفریت سے نجات پائے، الزامات اور دشنام طرازیوں کے شور سے سیاست جان چھڑائے جب کہ ملکی اور ادارہ جاتی استقامت اور ملکی معیشت کے استحکام کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔عسکری قیادت نے غیر مشروط طور پر آئین و پارلیمان کی بالادستی قبول کرنے کا بلیغ عندیہ دیا ہے جو بلاشبہ عسکری ڈاکٹرائن اور ماضی سے جڑے مائنڈ سیٹ میں ایک تغیر آمیز اور خوشگوار ہوا کے جھونکے کی طرح ہے۔ ملکی تاریخ میں اس غیر معمولی پیراڈائم شفٹ کا کریڈٹ سب کو جاتا ہے کیونکہ مدتوں بعد سیاسی و عسکری خیرسگالی کا منظرنامہ قوم کو دیکھنے کو ملا ہے۔
Load Next Story