الفاظ کی خوشبوکا سفر

ملک کی دوسری زبانوں کے شاعروں کے ساتھ اس کی پشتو نظموں کو انتہائی انہماک سے سنا جاتا تھا

پشتو کے عظیم شاعر خوشحال خان خٹک نے کہا تھا

اس باغ میں پھولوں کی کمی نہیں

مگر سب کا شمار کوئی کیسے کرے

مختلف انسانوں کا بھی یہی حال ہے جو پھولوں کی طرح دنیا کے کونے کونے میں اپنے اپنے عقیدے، نظریات اور خیالات کے ساتھ مہک رہے ہیں۔ دیہی علاقوں میں کھلے ایسے ہی پھول جیسے لوگوں کی خبر جب دور افتادہ گاؤں سے نکل کر قریبی شہروں تک پہنچتی ہے تو خوشبو کے متوالے زبان سے ناواقف ہونے کے باوجود باتوں کا رس جمع کرنے کے لیے ان کے آس پاس شہد کی مکھیوں کی طرح جمع ہو جاتے ہیں۔

پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانوںکے شاعروں اور ادیبوں کا حال بھی ایسے ہی پھولوں جیسا ہے جو صدیوں سے، محبت، امن اور بھائی چارے کا رنگ لیے اپنے اپنے علاقوں میں مہک رہے ہیں۔ ماضی میںامن و محبت کے متوالے ان پھولوں کی تلاش میں افغانستان کے پہاڑی سلسلوں سے لے کر ایران کے سمندری ساحلوں تک کا سفر کرتے اور پھر یہ مہک پوری دنیا میں پھیل جاتی۔ حالات نے پلٹا کھایا تو اونچے اونچے پہاڑوں کے دامن میںبسنے والے یہ پھول نما لوگ باغوں، چشموں، اور پرندوں کی صداؤں کو چھوڑ کر اجنبی علاقوں میں گزر بسرکے لیے روانہ ہو گئے۔

جفاکش تو یہ صدیوں سے تھے اور قبائلی جنگ بھی ان کاپرانا مشغلہ تھا مگر اس بار انھیں جس بزدل دشمن سے واسطہ پڑا وہ سامنے آ کر وار کرنے کے بجائے رات کے اندھیرے میں نوجوانوں کے بجائے کچے گھروں کے اندرسوئے ہوئے بچوں اور بوڑھوں کو مختلف بہانے بنا کر قتل کر تا تھا۔ اس قتل عام میں صدیوں کی خود داری کے ساتھ ایسا کھیل کھیلا گیا کہ پہاڑوں کو چیر کر رزق پیدا کرنے والے ہاتھ دو وقت کی روٹی کے لیے غیروں کے سامنے دراز ہونے لگے اور جن آنکھوں کو کبھی کسی غیر محرم نے دیکھا تک نہیں تھا ا ن کی خوب صورتی کو مخصوص نکتہ نظر کے لیے غیر ملکی جریدوںکا سر ورق بنایا جانے لگا۔ اپنے اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے گلی میں پھینکے گئے کچرے کے ڈھیروں سے جب رزق تلاش کرنے اور روزگار کے ساتھ تن ڈھانپنے کے لیے مال و زر کے حصول تک بات پہنچی تو ایسا لگا جیسے مرزاغالبؔ بھی کہیں آس پاس گھومتے ہوئے کہہ رہے ہوں


غارت گر ناموس نہ ہو گر ہوس زر

کیوں شاہد گل باغ سے بازار میں آوے

نامساعدحالات کے دوران اپنی عمدہ طبعیت، جدید صوفیانہ خیالات اور ترقی پسند پشتو شعر وادب کی خوشبو لیے ریاض تسنیم نامی نوجوان بھی اپنے مختصر سے خاندان کے ساتھ جب سندھ میں داخل ہوا تو یہاں کی علمی اور ادبی فضا مہک اٹھی ہو۔ سندھ کی دھرتی پر پہلے ہی علاقائی رنگوں کے ساتھ طرح طرح کے پھول کھلے ہوئے تھے جن میں پشتو کے ادیب طاہر آفریدی کی خوشبو دور سے ہی اپنا تعارف کروا دیتی تھی۔ طاہرآفریدی کے قلم نے انسانی دکھوں، غربت و افلاس اور توہم پرستی کے خلاف چالیس سال تک جنگ جاری رکھی اور جب یہ جنگ عروج پر پہنچی تو اس کی کمان ریاض تسنیم کے ہاتھوں میں دے کر وہ طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے اپنے حجرے تک محدود ہو گئے۔

ریاض تسنیم موجودہ دور میں پشتو ادب کے سرکردہ لکھاریوں کی اس صف میں شریک رہا جو جدید ادبی رجحانات اور پشتو کے قدیم اور لافانی ادب کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کر رہے تھے۔ پاکستان کے سب سے بڑے اور اہم شہر کراچی کو دوسرے شہروں پر اس لیے فوقیت حاصل ہے کہ یہاں تمام مذاہب، فرقوں، زبانوں اور خیالات و نظریات کے حامل افراد آباد ہیں۔ سندھ کے اس شہر میں منعقد ہونے والی زیادہ تر ادبی، سماجی اور سیاسی تقریبات میںشریک ہونے والے افراد کبھی بھی یہ محسوس نہیں کرتے کہ یہاں پر کسی ایک دھڑے، زبان، یا خیالات کو دوسرے پر اہمیت دی گئی ہو یا کسی زبان کی توہین کی گئی ہو، ہاں بعض سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے رہنما ؤںکی بات الگ ہے جو زبانوں کی آڑ میں اپنے مقاصد پورے کرنے کے لیے ماضی میں کئی دفعہ اس شہر کو آگ اور خون کے دریا میں دھکیل چکے ہیں۔

ملک بھر کے ساتھ کراچی میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کو دیکھ کر ریاض تسنیم کے قلم سے جو اشعارنکلے ان کی گونج پورے ملک کے علمی اور ادبی حلقوں تک سنائی دی اور اس کے دھیمے الفاظ کی مہک سندھ سے نکل کر خیبر پختونخوا، بلوچستان، افغانستان، متحدہ عرب امارات اور یورپ تک جا پہنچی۔ پچھلے کچھ برسوں کے دوران ریاض تسنیم کراچی میں منعقد ہونے والے بڑے بڑے بین اللسانی مشاعروں کی ضرورت بن چکا تھا جہاں ملک کی دوسری زبانوں کے شاعروں کے ساتھ اس کی پشتو نظموں کو انتہائی انہماک سے سنا جاتا تھا۔ ریاض تسنیم کو زندگی کے محاذ پر دو جنگوں کا سامنا تھا۔ اپنے کلام کے ذریعے جہاں وہ دنیا بھر میں قیام امن کے لیے لڑائی لڑ رہا تھا وہاں جگر کے عارضے میں مبتلا ہونے کے باوجود وہ اپنے مختصر سے خاندان کی کفالت کے لیے انتہائی معمولی سرکاری نوکری کا فریضہ بھی انجام دے رہا تھا جو اس کی تخلیقی اور ذاتی سہارے کے لیے بالکل نا کافی تھی ۔

اس کے باوجود انتقال سے دو تین ہفتے قبل تک وہ پرانی کتابوں کے بازار میں باقاعدگی سے آتا رہا اور اس دوران صابر ظفر اور مجھ سے رابطے میں بھی رہا۔ پرانی کتابوں کے اس بازار میںملک بھر سے آنے والے دیگر ادیبوں اور شاعروں سے بھی ہماری ملاقات رہتی جن میں کوئٹہ سے آنے والے معروف ادیب،شاعر اور استاد علی بابا تاج بھی اکثرشامل ہو جاتے۔ ریاض تسنیم سے ہماری دوستی تیس سال پر محیط تھی مگر مرنجاں مرنج طبعیت کے حامل اس شخص نے ایک دن بھی ہم سے اپنی کسی تکلیف کا اظہار نہیں کیا۔

وہ کم گو، شرمیلا اور ہنس مکھ انسان جب بھی ملتا اپنے دکھوں کے بجائے ملکی صورت حال اوردوسروں کے دکھ درد میں زیادہ مبتلا نظر آتا۔ اپنی موت سے دو ہفتے قبل بھی بستر مرگ پر لیٹے ہوئے جہاں اس کے چہرے پر ماضی کی طرح سکون اور مسکراہٹ کھیل رہی تھی وہاں درج یہ شکایت بھی صاف دکھائی دے رہی تھی کہ بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض صاحب نے میرے علاج کے سلسلے میں ایک مہنگے اسپتال کی جوسہولت بہم پہنچائی اس کا شکریہ لیکن علاج کی اصل ذمے داری تو اس ادارے پر عائد ہوتی ہے جو ادب کے نام پر منعقد کی جانی والی کانفرنسوں پر تو کروڑوں روپے خرچ کر تا رہتا ہے مگر ادیبوں کے علاج معالجے اور ان کے خاندان کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ نہیں سوچتا۔
Load Next Story