خبر لیجیے دہن بگڑا
آزادی رائے کا مطلب صرف ’’میری رائے‘‘ نہیں ہوتا تھا
MULTAN:
گفتگو یا تحریر میں گالی دینے یا بد کلامی اور بدزبانی کو کبھی بھی اور کسی بھی معاشرے میں ایک پسندیدہ یا گوارہ عمل نہیں سمجھا گیا اور ایسے الفاظ کو جن سے اہانت' توہین اور بے حیائی کا تاثر پیدا ہوتا ہو ہمیشہ ''غیر پارلیمانی'' کہا جاتا رہا ہے۔ بے تکلف اور غیر سنجیدہ محفلوں یا لڑائی جھگڑے کی صورت میں اگر ان کو استعمال کیا بھی جاتا تھا تب بھی بچوں' عورتوں اور بزرگوں کی موجودگی یا تحریر کی شکل میں ان سے احتراز کیا جاتا تھا اور انھیں بازاری زبان قرار دے کر ہر ممکن کوشش کی جاتی تھی کہ ان کا سایا بھی گھروں اور مہذب محفلوں پر نہ پڑے یہاں تک کہ کتابوں یا اشعار میں جنسی اعضا' ان سے متعلق کنایوں یا براہ راست گالی کا مفہوم دینے والے الفاظ کو حذف کر کے ان کی جگہ... نقطے یا مہمل قسم کے علامتی الفاظ لگا دیے جاتے تھے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ناشائستہ یا غیرمہذب زبان کے عام تو کیا مخصوص حالات میں استعمال کو بھی معیوب اور برا سمجھا جاتا تھا کہ معاشروں کی بنیاد اقدار' اخلاقیات' تہذیب' عزت نفس اور برابری کے معیارات پر استوار کی جاتی تھی اور اختلاف رائے کا مطلب زندگی یا موت کا مسئلہ نہیں بنتا تھا۔
یہ درست ہے کہ اس اجتماعی اخلاقیات کی آڑ میں بعض طاقت ور طبقے اور افراد دہرے معیارات بھی تخلیق کر لیتے تھے اور بہت سے بنیادی انسانی حقوق' جبلتوں' ردعمل اور ظلم اور زیادتی کے خلاف اٹھنے والی آوازوں اور رویوں کو اپنی مرضی کے بنائے ہوئے ''معاشرتی آداب'' کی چکی میں پیس دیتے تھے لیکن بحیثیت مجموعی اور عمومی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کے مثبت پہلو منفی پہلوؤں کی نسبت کہیں زیادہ اور کارآمد تھے کہ لوگوں کو ایسے الفاظ کے استعمال سے پہلے اور بعد میں کئی بار سوچنا پڑتا تھا اور بیشتر مواقع پر ایسے الفاظ واپس بھی لینا پڑتے تھے جن سے کسی دوسرے کو ذہنی اور روحانی تکلیف پہنچی ہو اور جو سننے والوں کے کانوں پر بھی گراں گزرے ہوں۔
کسی بھی ایسے شخص کے لیے جس کا رابطہ اخبار' الیکٹرانک میڈیا یا سوشل میڈیا سے رہتا ہے۔ میری یہ باتیں شائد ناقابل یقین ہوں کہ خود مجھے بھی یقین نہیں آتا کہ آج سے صرف دو تین دہائیاں پہلے تک واقعی ہمارے معاشرے میں زبان پر ہر طرح سے قابو رکھنے کا نہ صرف رواج تھا بلکہ اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو بوجوہ اگر روکا نہ بھی جا سکے تب بھی کھل کر ناپسند ضرور کیا جاتا تھا۔ کسی Live کوریج کے دوران اگر ناشائستہ زبان استعمال کی جاتی تھی تو فوراً مائیک یا کیمرہ آف کر دیا جاتا تھا۔ قتل و خون' دنگا فساد یا گالی گلوچ کے حامل مناظر کو ڈراموں تک میں بہت احتیاط سے دکھایا جاتا تھا اور آزادی رائے کا مطلب صرف ''میری رائے'' نہیں ہوتا تھا۔ شیخ سعدی کا ایک شعر ہے
تا مرد سخن نگفتہ باشد
عیب و ہنرش نہفتہ باشد
یعنی جب تک کوئی انسان بات نہیں کرتا اس کے عیب اور ہنر پوشیدہ رہتے ہیں۔ 'پہلے تولو' پھر بولو' جیسے اصول و قواعد بھی اسی طرز فکر اور معاشرتی رویے کی نمایندگی کرتے ہیں کہ ان کا مطلب لوگوں کو بات کرنے یا اپنی رائے کا اظہار کرنے سے روکنا نہیں بلکہ اس بات کا احساس کرنا اور دلانا ہوتا تھا کہ اختلاف یا ناراضی کا اظہار کیا کس طرح سے جائے۔ تنقید' جملے بازی' جگت بازی' استہزا اور ڈانٹ ڈپٹ بلاشبہ زندگی کا حصہ ہیں اور کئی مواقع پر ان کا استعمال جائز اور ضروری بھی ہو جاتا ہے کہ گلدستے کی خوب صورتی اور معیار کا تعلق اس میں شامل پھولوں کے تنوع اور رنگا رنگی سے ہی ہوتا ہے اور انسانی تاریخ از آدم تا ایں دم اس کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ سو یہ مسئلہ اظہار پر پابندی کا نہیں بلکہ ''طرز اظہار'' اور ''انتخاب الفاظ'' کا ہے۔ آپ کسی شخص یا نظریے سے اپنے اصولی اختلاف کا اظہار اسے گالی دینے' بے عزت کرنے' یا اسے کافر قرار دیے بغیر بھی کر سکتے ہیں۔
انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے بالعموم اور آج کل بالخصوص میڈیا پر جس طرح کی زبان استعمال کی جا رہی ہے وہ بیک وقت افسوسناک بھی ہے شرمناک بھی اور خطرناک بھی کہ نہ صرف ننگی اور ماں بہن کی گالیوں کا رواج عام ہو گیا ہے بلکہ اپنے فرقے' عقیدے' نعرے' احتجاج اور غصے کے فروغ اور اظہار کے لیے دوسروں کے عقائد' بزرگوں یا رشتوں کی تضحیک کرنا ایک عام سی بات ہو گیا ہے اور اس حمام میں سب ننگے ہیں اور کوئی کسی سے کم نہیں۔ باقاعدہ ٹی وی چینلز پر ایک دوسرے کو گالیاں دینے اور ہاتھا پائی کے مناظر اتنی کثرت سے دیکھنے میں آتے ہیں کہ انسان کا اپنی آنکھوں اور کانوں سے یقین اٹھنے لگتا ہے اور سوشل میڈیا پر تو ایسا طوفان' بدتمیزی برپا ہے کہ انسانوں کے مقابلے میں جنگل کی مخلوق زیادہ بہتر اور مہذب لگنے لگتی ہے۔
عام جذباتی اور ان پڑھ سیاسی کارکنوں سے بھی زیادہ ان کے لیڈر اور منتخب نمایندے کیمرے کے سامنے اپنے مخالفین کے بارے میں ایسی زبان بولتے ہیں جو ناروا اور غیرمہذب کے دائرے سے بھی باہر ایک ایسی ذہنیت کی عکاس ہوتی ہے جس پر صرف ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ بڑے بڑے نامور سیاسی اور مذہبی لیڈران کرام جس بدتمیزی اور بے حیائی سے ایک دوسرے کی ماں' بہن' والدین' نظریات' عقائد اور ذاتی زندگیوں پر کیچڑ اچھالتے ہیں اور انھیں غدار اور کافر قرار دیتے ہیں' اسے دیکھ اور سن کر یقین نہیں آتا کہ ہم ایک ایسے دین اور معاشرے کے نام لیوا محافظ اور پیروکار ہیں جسے بہترین امت کے اعزاز سے سرفراز کیا گیا تھا۔ آزادی رائے کے دوطرفہ عمل کوہم نے یکطرفہ استحقاق کا درجہ دے دیا ہے اور یوں ہماری گفتگو میں مکالمے کی جگہ خود کلامی نے لے لی ہے۔
مساوات اور مواخات پر مبنی جس معاشرے کی ذمے داری ہم پر ڈالی گئی تھی ہم نے اسے خود غرضی اور تفرقات کا مجموعہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ جو رعایت (Space) ہم اپنے لیے مانگتے ہیں اس کا دس فی صد بھی دوسرے کو دینے پر تیار نہیں ہوتے۔ وسیع القلبی' خوش طبعی اور خدا ترسی جو ہماری پہچان ہوا کرتے تھے اب ڈھونڈے سے کہیں نظر نہیں آتے اور یہ سب کچھ انصاف' سچ، انسانی حقوق اور آزادی رائے کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ نام لینے کی ضرورت نہیں کہ سوشل میڈیا پر چلنے والے ڈراموں کے تمام فن کار ہم سب کے جانے پہچانے ہیں البتہ یہ امر ہم سب کی فوری توجہ اور احساس ذمے داری کا طالب ہے کہ اب بہت سنجیدہ اور نازک نوعیت کے مسائل بھی تفریح' غیرذمے داری اور فری فار آل قسم کا کھیل تماشا بنتے جا رہے ہیں۔
فروعی اور بیشتر صورتوں میں خود ساختہ قسم کے مسائل' ضعیف روائتوں' غلط بیانیوں اور اپنے اپنے مسلک کی تائید میں لکھی گئی غیرمصدقہ فسادی اور جاہلانہ تاویلوں کی حامل کتابوں کے حوالے کثرت اور شدومد سے پیش کیے جاتے ہیں اور انھیں پیش کرنے اور ان سے اختلاف رکھنے والوں کے بارے میں ایسی زبان استعمال کی جاتی ہے کہ انسان کو اپنے آپ سے گھن آنے لگتی ہے۔
سیاست' مذہب' تاریخ' تہذیب سب کے سب جنس بازار کی صورت اختیار کر گئے ہیں اور اس کاروبار کے حوالے سے بازاری زبان اس قدر عام ہو گئی ہے کہ بعض اوقات مہذب لوگ تو کیا خود لچے لفنگے بھی کانوں کا ہاتھ لگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ بالخصوص مذہب' اللہ رسول اور ایمان کے نام پر تکفیر اور گالی گلوچ کا جو رویہ حالیہ دنوں میں دیکھنے میں آیا ہے وہ اس لیے فوری روک تھام اور معاشرتی ردعمل کا متقاضی ہے کہ اس کی وجہ سے ہماری اگلی نسلیں اخلاقیات کی تربیت تو کیا اس کے وجود سے بھی لاتعلق ہوتی جا رہی ہیں۔ غربت' جہالت' پسماندگی اور تاریخ کی دوڑ میں بوجوہ پیچھے رہ جانے کی وجہ سے ہمارا معاشرہ پہلے ہی بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہے ایسے میں اختلاف رائے کی جگہ تفرقہ بازی اور بنیادی اخلاقیات سے روگردانی کرتی ہوئی زبان کا استعمال ہمیں مزید تباہی اور بربادی کی طرف لے جا رہا ہے' اس پر سب کو مل کر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
زبان کا یہ جارحانہ' غیرذمے دارانہ اور دشنام آمیز استعمال بھی اپنی نوعیت کا ایک جرم ضعیفی ہے اور اس کے ارتکاب سے خود کو اور دوسروں کو محفوظ رکھنا ہم سب کی ضرورت بھی ہے اور ذمے داری بھی۔
گفتگو یا تحریر میں گالی دینے یا بد کلامی اور بدزبانی کو کبھی بھی اور کسی بھی معاشرے میں ایک پسندیدہ یا گوارہ عمل نہیں سمجھا گیا اور ایسے الفاظ کو جن سے اہانت' توہین اور بے حیائی کا تاثر پیدا ہوتا ہو ہمیشہ ''غیر پارلیمانی'' کہا جاتا رہا ہے۔ بے تکلف اور غیر سنجیدہ محفلوں یا لڑائی جھگڑے کی صورت میں اگر ان کو استعمال کیا بھی جاتا تھا تب بھی بچوں' عورتوں اور بزرگوں کی موجودگی یا تحریر کی شکل میں ان سے احتراز کیا جاتا تھا اور انھیں بازاری زبان قرار دے کر ہر ممکن کوشش کی جاتی تھی کہ ان کا سایا بھی گھروں اور مہذب محفلوں پر نہ پڑے یہاں تک کہ کتابوں یا اشعار میں جنسی اعضا' ان سے متعلق کنایوں یا براہ راست گالی کا مفہوم دینے والے الفاظ کو حذف کر کے ان کی جگہ... نقطے یا مہمل قسم کے علامتی الفاظ لگا دیے جاتے تھے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ناشائستہ یا غیرمہذب زبان کے عام تو کیا مخصوص حالات میں استعمال کو بھی معیوب اور برا سمجھا جاتا تھا کہ معاشروں کی بنیاد اقدار' اخلاقیات' تہذیب' عزت نفس اور برابری کے معیارات پر استوار کی جاتی تھی اور اختلاف رائے کا مطلب زندگی یا موت کا مسئلہ نہیں بنتا تھا۔
یہ درست ہے کہ اس اجتماعی اخلاقیات کی آڑ میں بعض طاقت ور طبقے اور افراد دہرے معیارات بھی تخلیق کر لیتے تھے اور بہت سے بنیادی انسانی حقوق' جبلتوں' ردعمل اور ظلم اور زیادتی کے خلاف اٹھنے والی آوازوں اور رویوں کو اپنی مرضی کے بنائے ہوئے ''معاشرتی آداب'' کی چکی میں پیس دیتے تھے لیکن بحیثیت مجموعی اور عمومی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کے مثبت پہلو منفی پہلوؤں کی نسبت کہیں زیادہ اور کارآمد تھے کہ لوگوں کو ایسے الفاظ کے استعمال سے پہلے اور بعد میں کئی بار سوچنا پڑتا تھا اور بیشتر مواقع پر ایسے الفاظ واپس بھی لینا پڑتے تھے جن سے کسی دوسرے کو ذہنی اور روحانی تکلیف پہنچی ہو اور جو سننے والوں کے کانوں پر بھی گراں گزرے ہوں۔
کسی بھی ایسے شخص کے لیے جس کا رابطہ اخبار' الیکٹرانک میڈیا یا سوشل میڈیا سے رہتا ہے۔ میری یہ باتیں شائد ناقابل یقین ہوں کہ خود مجھے بھی یقین نہیں آتا کہ آج سے صرف دو تین دہائیاں پہلے تک واقعی ہمارے معاشرے میں زبان پر ہر طرح سے قابو رکھنے کا نہ صرف رواج تھا بلکہ اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو بوجوہ اگر روکا نہ بھی جا سکے تب بھی کھل کر ناپسند ضرور کیا جاتا تھا۔ کسی Live کوریج کے دوران اگر ناشائستہ زبان استعمال کی جاتی تھی تو فوراً مائیک یا کیمرہ آف کر دیا جاتا تھا۔ قتل و خون' دنگا فساد یا گالی گلوچ کے حامل مناظر کو ڈراموں تک میں بہت احتیاط سے دکھایا جاتا تھا اور آزادی رائے کا مطلب صرف ''میری رائے'' نہیں ہوتا تھا۔ شیخ سعدی کا ایک شعر ہے
تا مرد سخن نگفتہ باشد
عیب و ہنرش نہفتہ باشد
یعنی جب تک کوئی انسان بات نہیں کرتا اس کے عیب اور ہنر پوشیدہ رہتے ہیں۔ 'پہلے تولو' پھر بولو' جیسے اصول و قواعد بھی اسی طرز فکر اور معاشرتی رویے کی نمایندگی کرتے ہیں کہ ان کا مطلب لوگوں کو بات کرنے یا اپنی رائے کا اظہار کرنے سے روکنا نہیں بلکہ اس بات کا احساس کرنا اور دلانا ہوتا تھا کہ اختلاف یا ناراضی کا اظہار کیا کس طرح سے جائے۔ تنقید' جملے بازی' جگت بازی' استہزا اور ڈانٹ ڈپٹ بلاشبہ زندگی کا حصہ ہیں اور کئی مواقع پر ان کا استعمال جائز اور ضروری بھی ہو جاتا ہے کہ گلدستے کی خوب صورتی اور معیار کا تعلق اس میں شامل پھولوں کے تنوع اور رنگا رنگی سے ہی ہوتا ہے اور انسانی تاریخ از آدم تا ایں دم اس کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ سو یہ مسئلہ اظہار پر پابندی کا نہیں بلکہ ''طرز اظہار'' اور ''انتخاب الفاظ'' کا ہے۔ آپ کسی شخص یا نظریے سے اپنے اصولی اختلاف کا اظہار اسے گالی دینے' بے عزت کرنے' یا اسے کافر قرار دیے بغیر بھی کر سکتے ہیں۔
انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے بالعموم اور آج کل بالخصوص میڈیا پر جس طرح کی زبان استعمال کی جا رہی ہے وہ بیک وقت افسوسناک بھی ہے شرمناک بھی اور خطرناک بھی کہ نہ صرف ننگی اور ماں بہن کی گالیوں کا رواج عام ہو گیا ہے بلکہ اپنے فرقے' عقیدے' نعرے' احتجاج اور غصے کے فروغ اور اظہار کے لیے دوسروں کے عقائد' بزرگوں یا رشتوں کی تضحیک کرنا ایک عام سی بات ہو گیا ہے اور اس حمام میں سب ننگے ہیں اور کوئی کسی سے کم نہیں۔ باقاعدہ ٹی وی چینلز پر ایک دوسرے کو گالیاں دینے اور ہاتھا پائی کے مناظر اتنی کثرت سے دیکھنے میں آتے ہیں کہ انسان کا اپنی آنکھوں اور کانوں سے یقین اٹھنے لگتا ہے اور سوشل میڈیا پر تو ایسا طوفان' بدتمیزی برپا ہے کہ انسانوں کے مقابلے میں جنگل کی مخلوق زیادہ بہتر اور مہذب لگنے لگتی ہے۔
عام جذباتی اور ان پڑھ سیاسی کارکنوں سے بھی زیادہ ان کے لیڈر اور منتخب نمایندے کیمرے کے سامنے اپنے مخالفین کے بارے میں ایسی زبان بولتے ہیں جو ناروا اور غیرمہذب کے دائرے سے بھی باہر ایک ایسی ذہنیت کی عکاس ہوتی ہے جس پر صرف ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ بڑے بڑے نامور سیاسی اور مذہبی لیڈران کرام جس بدتمیزی اور بے حیائی سے ایک دوسرے کی ماں' بہن' والدین' نظریات' عقائد اور ذاتی زندگیوں پر کیچڑ اچھالتے ہیں اور انھیں غدار اور کافر قرار دیتے ہیں' اسے دیکھ اور سن کر یقین نہیں آتا کہ ہم ایک ایسے دین اور معاشرے کے نام لیوا محافظ اور پیروکار ہیں جسے بہترین امت کے اعزاز سے سرفراز کیا گیا تھا۔ آزادی رائے کے دوطرفہ عمل کوہم نے یکطرفہ استحقاق کا درجہ دے دیا ہے اور یوں ہماری گفتگو میں مکالمے کی جگہ خود کلامی نے لے لی ہے۔
مساوات اور مواخات پر مبنی جس معاشرے کی ذمے داری ہم پر ڈالی گئی تھی ہم نے اسے خود غرضی اور تفرقات کا مجموعہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ جو رعایت (Space) ہم اپنے لیے مانگتے ہیں اس کا دس فی صد بھی دوسرے کو دینے پر تیار نہیں ہوتے۔ وسیع القلبی' خوش طبعی اور خدا ترسی جو ہماری پہچان ہوا کرتے تھے اب ڈھونڈے سے کہیں نظر نہیں آتے اور یہ سب کچھ انصاف' سچ، انسانی حقوق اور آزادی رائے کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ نام لینے کی ضرورت نہیں کہ سوشل میڈیا پر چلنے والے ڈراموں کے تمام فن کار ہم سب کے جانے پہچانے ہیں البتہ یہ امر ہم سب کی فوری توجہ اور احساس ذمے داری کا طالب ہے کہ اب بہت سنجیدہ اور نازک نوعیت کے مسائل بھی تفریح' غیرذمے داری اور فری فار آل قسم کا کھیل تماشا بنتے جا رہے ہیں۔
فروعی اور بیشتر صورتوں میں خود ساختہ قسم کے مسائل' ضعیف روائتوں' غلط بیانیوں اور اپنے اپنے مسلک کی تائید میں لکھی گئی غیرمصدقہ فسادی اور جاہلانہ تاویلوں کی حامل کتابوں کے حوالے کثرت اور شدومد سے پیش کیے جاتے ہیں اور انھیں پیش کرنے اور ان سے اختلاف رکھنے والوں کے بارے میں ایسی زبان استعمال کی جاتی ہے کہ انسان کو اپنے آپ سے گھن آنے لگتی ہے۔
سیاست' مذہب' تاریخ' تہذیب سب کے سب جنس بازار کی صورت اختیار کر گئے ہیں اور اس کاروبار کے حوالے سے بازاری زبان اس قدر عام ہو گئی ہے کہ بعض اوقات مہذب لوگ تو کیا خود لچے لفنگے بھی کانوں کا ہاتھ لگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ بالخصوص مذہب' اللہ رسول اور ایمان کے نام پر تکفیر اور گالی گلوچ کا جو رویہ حالیہ دنوں میں دیکھنے میں آیا ہے وہ اس لیے فوری روک تھام اور معاشرتی ردعمل کا متقاضی ہے کہ اس کی وجہ سے ہماری اگلی نسلیں اخلاقیات کی تربیت تو کیا اس کے وجود سے بھی لاتعلق ہوتی جا رہی ہیں۔ غربت' جہالت' پسماندگی اور تاریخ کی دوڑ میں بوجوہ پیچھے رہ جانے کی وجہ سے ہمارا معاشرہ پہلے ہی بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہے ایسے میں اختلاف رائے کی جگہ تفرقہ بازی اور بنیادی اخلاقیات سے روگردانی کرتی ہوئی زبان کا استعمال ہمیں مزید تباہی اور بربادی کی طرف لے جا رہا ہے' اس پر سب کو مل کر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
زبان کا یہ جارحانہ' غیرذمے دارانہ اور دشنام آمیز استعمال بھی اپنی نوعیت کا ایک جرم ضعیفی ہے اور اس کے ارتکاب سے خود کو اور دوسروں کو محفوظ رکھنا ہم سب کی ضرورت بھی ہے اور ذمے داری بھی۔