بارہ سالہ بچے نے درست کہا
ترقی پذیر اور غریب ملکوں کی جانب سے کیے جانے والے اس مطالبے کا یہ مقصد قطعی نہیں ہے
کرۂ ارض کے ترقی پذیر اور غریب ممالک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے شدید متاثر ہورہے ہیں۔ جب کہ امیر ملکوں کی جانب سے اس حوالے سے بھی مثبت کردار ادا نہیں کیا جارہا ہے۔ کیوٹو پروٹوکول کے تحت 2020ء سے پہلے کے اقدامات کے حوالے سے صرف امیر ملکوں پر یہ ذمے داری عائد کی گئی تھی کہ وہ زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی کرنے کے لیے اقدامات کریں، جب کہ 2020ء کے بعد یہ کہا گیا تھا کہ معاہدہ پیرس کے تحت تمام ملکوں پر زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کی ذمے داری عائد ہوگی۔ ترقی یافتہ ممالک نے 2012ء میں اس بات پر رضامندی کا اظہار کیا تھا کہ وہ 1990ء کی سطح سے 18 فیصد کم زہریلی گیسوں کا اخراج کریں گے، لیکن ان ممالک نے 5 سال قبل دوحہ میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں کیے گئے اس فیصلے کی بھی اب تک توثیق نہیں کی۔
ان ملکوں کو موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے بھاری سرمایہ کی بھی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے غریب اور ترقی پذیر ملکوں کے لیے مالی امداد کا مسئلہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے مذاکراتی اجلاسوں میں سب سے زیادہ بحث کا موضوع بنا رہا۔ اس بات سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ امریکا کے پیرس معاہدے سے علیحدگی کے بعد گرین کلائمیٹ فنڈ میں رقوم کی فراہمی کا معاملہ تشویشناک صورتحال اختیار کرچکا ہے۔
جس کا ذکر بھی کوپ 23 کے مذاکراتی اجلاسوں میں چھایا رہا۔ شرکاء نے امریکا کی دستبرداری کے بعد بھی اس عمل کو آگے بڑھانے پر اتفاق تو ضرور کیا لیکن عملی طور پر اٹھائے جانے والے اقدامات کے حوالے سے صورتحال خاصی مایوس کن رہی، کیونکہ ترقی یافتہ ملکوں نے ایک مرتبہ پھر ترقی پذیر اور غریب ملکوں کو فنڈز کی فراہمی کے لیے اختیار کیے جانے والے مختلف طریقہ کار پر کی جانے والی بحث کو سبوتاژ کیا اور صرف 2018ء میں اس حوالے سے متوازن مذاکرات پر زور دیا۔ تیزی سے ابھرتے ہوئے طاقتور عالمی گروپ نے دعویٰ کیا کہ امیر ممالک درمیانی آمدنی والے ملکوں میں بغیر کسی معقول جواز کے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو روکنے کے ضمن میں فراہم کیے جانے والے مالیاتی فنڈز کو روک رہے ہیں۔ برطانیہ، چین، ہندوستان اور نارتھ افریقہ جو اس حوالے سے بنیادی مذاکراتی گروپ کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ 133 ترقی پذیر ملکوں کے اتحاد G-77 دونوں نے مشترکہ طور پر امیر ملکوں پر ''یکطرفہ طور پر اہلیت کے نئے معیار'' کو گلوبل انوائرمنٹ فیسلیٹی (GFC) اور گرین کلائمیٹ فنڈ (GCF) پر نافذ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
کانفرنس میں ان ملکوں کی جانب سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات اور تباہی سے بچنے کے معاملات کو حل کرنے کے لیے ایک ایکسپرٹ گروپ کے قیام کو ایجنڈہ کا مستقل حصہ بنایا جائے۔
ترقی پذیر اور غریب ملکوں کی جانب سے کیے جانے والے اس مطالبے کا یہ مقصد قطعی نہیں ہے کہ وہ ترقی یافتہ ملکوں کو یا ان کی معیشت کو کوئی نقصان پہنچانا چاہتے ہیں یا وہ کوئی نیا مطالبہ پیش کررہے ہیں۔ پیرس معاہدے کی تشکیل کے وقت اس مسئلے پر انتہائی تفصیلی بحث و مباحثے اور اس کے ہر پہلو پر غور کرنے کے بعد دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں نے ترقی پذیر اور غریب ممالک کو موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا، جس کی تمام تفصیلات پیرس معاہدے کے مسودے میں موجود ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کا سبب بننے والے دنیا کے ترقی یافہ ملکوں کے لیے اس حقیقت سے زیادہ دیر تک انحراف ممکن نہیں ہوسکے گا۔
موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کرۂ ارض کی صورتحال کتنی تیزی سے خراب ہوتی جارہی ہے اس بات کا اندازہ اقوام متحدہ کے اداروں، انٹرگورنمنٹل پینل، ناسا سمیت دیگر معتبر اداروں، ماحولیاتی ماہرین، سائنسدانوں کی آئے روز آنے والی رپورٹوں اور انتباہی وارننگز سے لگایا جاسکتا ہے۔ 28 جون 2017ء کو معروف ماحولیاتی سائنسدانوں اور موسمیاتی مذاکرات کاروں کے ایک گروپ نے عالمی مذاکرات کاروں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کو رد کرنے کے لیے ہمارے پاس صرف تین برس باقی ہیں۔
''ہم پہلے ہی آب و ہوا کی تباہی اور موسموں میں تبدیلی کے باعث لوگوں کو معیشت تبدیل کرنے یہاں تک کہ ان کی زندگیوں کو تبدیل ہوتے دیکھ رہے ہیں۔'' عالمی موسمیاتی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق سال 2017ء گزشتہ سال کی طرح گرم ترین تو نہیں ہوگا لیکن توقع یہ ہے کہ دوسرا یا تیسرا گرم ترین سال ضرور ہوگا اور 2017ء کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ''النینو'' کے اثرات کے بغیر ہوگا جو قدرتی طور پر درجہ حرارت میں اضافہ کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق جنوری سے ستمبر تک اوسط درجہ حرارت پہلے صنعتی دور سے 1.1c زیادہ رہا۔ رپورٹ کے مطابق جنوبی یورپ، افریقہ اور روس کے وہ علاقے جو ایشیا میں شامل ہیں سال کے پہلے نو مہینوں میں ان کا درجہ حرارت انتہائی زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔ یہ رپورٹ بھی دوران کانفرنس جاری کی گئی۔ واضح رہے کہ سال 2013ء سے اب تک تمام سال ہی گرم ترین قرار دیے گئے ہیں۔
بون ماحولیاتی کانفرنس کے دوران 184 ملکوں کے 15364 معروف سائنسدانوں، ماحولیاتی ماہرین، تحقیق کاروں، پروفیسرز اور ماحولیاتی شعبوں سے تعلق رکھنے والوں نے عالمی مذاکرات کاروں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم کرۂ ارض کی حفاظت کے لیے ہنگامی اقدامات نہیں اٹھا رہے ہیں۔ ''اگر ہم نے اس کام میں مزید تاخیر کی اور فوری طور پر اپنے راستے تبدیل نہ کیے تو وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔'' ان کا کہنا تھا کہ ''ہمیں یہ تسلم کرلینا ہوگا کہ اس کرۂ ارض پر زندگی ہماری آخری امید ہے۔'' ''انسانیت کے لیے انتباہ'' کے نام سے جاری کی جانے والی اس وارننگ میں 15364 دستخط شامل ہیں معروف بین الاقوامی آن لائن جرنل ''بایوسائنس'' میں شایع ہوئی۔ اس انتباہ کے محرک بین الاقوامی شہرت کے حامل اوریگن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے امریکی ایکولوجسٹ پروفیسر ولیم ریپل نے کہا کہ انسانیت کی جانب سے یہ انتباہ دوسری مرتبہ جاری کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ ''انسانیت کے لیے انتباہ'' کے نام سے 1992ء میں دنیا کے چوٹی کے 1700 سائنسدانوں جن میں اکثریت نوبیل انعام یافتہ سائنسدانوں کی تھی، نے پہلی مرتبہ اس قسم کی انتباہی وارنگز جاری کی گئی تھیں، جس کے 25 سال مکمل ہونے پر بون ماحولیاتی کانفرنس کے دوران یہ انتباہ دوسری مرتبہ جاری کیا گیا۔
پیرس کانفرنس کے بعد ہونے والی دونوں کانفرنسوں میں دنیا کے امیر ملکوں کا رویہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے ترقی پذیر اور غریب ملکوں کو دی جانے والی امداد کے حوالے سے مایوس کن ہے۔ اس ضمن میں ان ملکوں کو اپنا یہ رویہ تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ کرۂ ارض پر موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی تباہ کاریوں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ بون عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے میزبان ملک فجی کے 12 سالہ لڑکے ٹموچی نالوسلا نے عالمی مندوبین کے سامنے بالکل درست کہا کہ ''اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس سے صرف چھوٹے ملک ہی متاثر ہوں تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔''
ان ملکوں کو موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے بھاری سرمایہ کی بھی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے غریب اور ترقی پذیر ملکوں کے لیے مالی امداد کا مسئلہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے مذاکراتی اجلاسوں میں سب سے زیادہ بحث کا موضوع بنا رہا۔ اس بات سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ امریکا کے پیرس معاہدے سے علیحدگی کے بعد گرین کلائمیٹ فنڈ میں رقوم کی فراہمی کا معاملہ تشویشناک صورتحال اختیار کرچکا ہے۔
جس کا ذکر بھی کوپ 23 کے مذاکراتی اجلاسوں میں چھایا رہا۔ شرکاء نے امریکا کی دستبرداری کے بعد بھی اس عمل کو آگے بڑھانے پر اتفاق تو ضرور کیا لیکن عملی طور پر اٹھائے جانے والے اقدامات کے حوالے سے صورتحال خاصی مایوس کن رہی، کیونکہ ترقی یافتہ ملکوں نے ایک مرتبہ پھر ترقی پذیر اور غریب ملکوں کو فنڈز کی فراہمی کے لیے اختیار کیے جانے والے مختلف طریقہ کار پر کی جانے والی بحث کو سبوتاژ کیا اور صرف 2018ء میں اس حوالے سے متوازن مذاکرات پر زور دیا۔ تیزی سے ابھرتے ہوئے طاقتور عالمی گروپ نے دعویٰ کیا کہ امیر ممالک درمیانی آمدنی والے ملکوں میں بغیر کسی معقول جواز کے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو روکنے کے ضمن میں فراہم کیے جانے والے مالیاتی فنڈز کو روک رہے ہیں۔ برطانیہ، چین، ہندوستان اور نارتھ افریقہ جو اس حوالے سے بنیادی مذاکراتی گروپ کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ 133 ترقی پذیر ملکوں کے اتحاد G-77 دونوں نے مشترکہ طور پر امیر ملکوں پر ''یکطرفہ طور پر اہلیت کے نئے معیار'' کو گلوبل انوائرمنٹ فیسلیٹی (GFC) اور گرین کلائمیٹ فنڈ (GCF) پر نافذ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
کانفرنس میں ان ملکوں کی جانب سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات اور تباہی سے بچنے کے معاملات کو حل کرنے کے لیے ایک ایکسپرٹ گروپ کے قیام کو ایجنڈہ کا مستقل حصہ بنایا جائے۔
ترقی پذیر اور غریب ملکوں کی جانب سے کیے جانے والے اس مطالبے کا یہ مقصد قطعی نہیں ہے کہ وہ ترقی یافتہ ملکوں کو یا ان کی معیشت کو کوئی نقصان پہنچانا چاہتے ہیں یا وہ کوئی نیا مطالبہ پیش کررہے ہیں۔ پیرس معاہدے کی تشکیل کے وقت اس مسئلے پر انتہائی تفصیلی بحث و مباحثے اور اس کے ہر پہلو پر غور کرنے کے بعد دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں نے ترقی پذیر اور غریب ممالک کو موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا، جس کی تمام تفصیلات پیرس معاہدے کے مسودے میں موجود ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کا سبب بننے والے دنیا کے ترقی یافہ ملکوں کے لیے اس حقیقت سے زیادہ دیر تک انحراف ممکن نہیں ہوسکے گا۔
موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کرۂ ارض کی صورتحال کتنی تیزی سے خراب ہوتی جارہی ہے اس بات کا اندازہ اقوام متحدہ کے اداروں، انٹرگورنمنٹل پینل، ناسا سمیت دیگر معتبر اداروں، ماحولیاتی ماہرین، سائنسدانوں کی آئے روز آنے والی رپورٹوں اور انتباہی وارننگز سے لگایا جاسکتا ہے۔ 28 جون 2017ء کو معروف ماحولیاتی سائنسدانوں اور موسمیاتی مذاکرات کاروں کے ایک گروپ نے عالمی مذاکرات کاروں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کو رد کرنے کے لیے ہمارے پاس صرف تین برس باقی ہیں۔
''ہم پہلے ہی آب و ہوا کی تباہی اور موسموں میں تبدیلی کے باعث لوگوں کو معیشت تبدیل کرنے یہاں تک کہ ان کی زندگیوں کو تبدیل ہوتے دیکھ رہے ہیں۔'' عالمی موسمیاتی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق سال 2017ء گزشتہ سال کی طرح گرم ترین تو نہیں ہوگا لیکن توقع یہ ہے کہ دوسرا یا تیسرا گرم ترین سال ضرور ہوگا اور 2017ء کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ''النینو'' کے اثرات کے بغیر ہوگا جو قدرتی طور پر درجہ حرارت میں اضافہ کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق جنوری سے ستمبر تک اوسط درجہ حرارت پہلے صنعتی دور سے 1.1c زیادہ رہا۔ رپورٹ کے مطابق جنوبی یورپ، افریقہ اور روس کے وہ علاقے جو ایشیا میں شامل ہیں سال کے پہلے نو مہینوں میں ان کا درجہ حرارت انتہائی زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔ یہ رپورٹ بھی دوران کانفرنس جاری کی گئی۔ واضح رہے کہ سال 2013ء سے اب تک تمام سال ہی گرم ترین قرار دیے گئے ہیں۔
بون ماحولیاتی کانفرنس کے دوران 184 ملکوں کے 15364 معروف سائنسدانوں، ماحولیاتی ماہرین، تحقیق کاروں، پروفیسرز اور ماحولیاتی شعبوں سے تعلق رکھنے والوں نے عالمی مذاکرات کاروں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم کرۂ ارض کی حفاظت کے لیے ہنگامی اقدامات نہیں اٹھا رہے ہیں۔ ''اگر ہم نے اس کام میں مزید تاخیر کی اور فوری طور پر اپنے راستے تبدیل نہ کیے تو وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔'' ان کا کہنا تھا کہ ''ہمیں یہ تسلم کرلینا ہوگا کہ اس کرۂ ارض پر زندگی ہماری آخری امید ہے۔'' ''انسانیت کے لیے انتباہ'' کے نام سے جاری کی جانے والی اس وارننگ میں 15364 دستخط شامل ہیں معروف بین الاقوامی آن لائن جرنل ''بایوسائنس'' میں شایع ہوئی۔ اس انتباہ کے محرک بین الاقوامی شہرت کے حامل اوریگن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے امریکی ایکولوجسٹ پروفیسر ولیم ریپل نے کہا کہ انسانیت کی جانب سے یہ انتباہ دوسری مرتبہ جاری کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ ''انسانیت کے لیے انتباہ'' کے نام سے 1992ء میں دنیا کے چوٹی کے 1700 سائنسدانوں جن میں اکثریت نوبیل انعام یافتہ سائنسدانوں کی تھی، نے پہلی مرتبہ اس قسم کی انتباہی وارنگز جاری کی گئی تھیں، جس کے 25 سال مکمل ہونے پر بون ماحولیاتی کانفرنس کے دوران یہ انتباہ دوسری مرتبہ جاری کیا گیا۔
پیرس کانفرنس کے بعد ہونے والی دونوں کانفرنسوں میں دنیا کے امیر ملکوں کا رویہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے ترقی پذیر اور غریب ملکوں کو دی جانے والی امداد کے حوالے سے مایوس کن ہے۔ اس ضمن میں ان ملکوں کو اپنا یہ رویہ تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ کرۂ ارض پر موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی تباہ کاریوں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ بون عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے میزبان ملک فجی کے 12 سالہ لڑکے ٹموچی نالوسلا نے عالمی مندوبین کے سامنے بالکل درست کہا کہ ''اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس سے صرف چھوٹے ملک ہی متاثر ہوں تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔''