اس تباہی کا ذمے دار کون
اس ملک کی بربادی میں ہمارا ہاتھ نہیں، کون مانے گا کہ ہم نے کس طرح اپنے دین کو کھیل تماشا نہیں بنایا؟
ماڈل ٹاؤن سانحہ جو کچھ عرصہ قبل حکومت پنجاب کے غیر ترقیاتی کاموں میں سے ایک بڑا شاہکار ثابت ہوا، باقر نجفی رپورٹ کو بہرحال لاہور ہائی کورٹ کے ایک سخت آرڈر کے بعد مشتہر کرنا پڑا، بہتر تھا کہ پہلے کردیتے، لیکن وہ ''مسلم لیگ ن'' ہی کیا، جو صحیح وقت پر قدم اٹھالے، ہاں بعد از خرابیٔ بسیار ان کا رونا پیٹنا دیدنی ہوتا ہے۔ رپورٹ میں جو کچھ کہا گیا وہ سب متوقع تھا۔ ظاہر ہے اسی لیے پنجاب حکومت کافی عرصے سے رپورٹ شایع نہیں ہونے دے رہی تھی، اسے پتہ تھا ٹریبونل معاملے کو انصاف سے دیکھ رہا ہے۔
اگرچہ رپورٹ مکمل سامنے نہیں آئی لیکن جو مندرجات نظروں سے گزرے ان میں واضح طور پر رانا ثناء اﷲ کو کم از کم دس لوگوں کی شہادت اور ساٹھ، ستر افراد کے زخمی ہونے کا براہ راست نہیں تو بالراست، لیکن ذمے دار قرار دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی وزیرِاعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو بھی کلیئر نہیں کیا بلکہ ایک طرح سے ان پر بھی اس سانحے کی ذمے داری عائد کی گئی۔ اب کیا ہوگا؟ اس کا تعین تو وہی کریں گے جو متعین ہیں، لیکن کوئی ایکشن ہوگا یا نہیں؟ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ بات گھوم پھر کر ڈیل پر آجاتی ہے، ادھر معاملات بن گئے تو کس کی رپورٹ اور کیسی رپورٹ؟ اور بات نہ بنی تو شہدا کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب بھی ہوگا۔
لیکن اچھی بات یہ ہے کہ کسی حادثے پر بنائے گئے کسی ایک ٹریبونل کی کوئی رپورٹ تو منظرعام پر آئی۔ اس سے قبل تو اس سانحے سے کہیں زیادہ بڑے حادثات ''برمودہ ٹرائی اینگل'' میں کھو گئے۔ آپ لیاقت علی خان سے بینظیر بھٹو تک کے قتل کی کوئی ایک نتیجہ خیز رپورٹ بتا دیجیے۔ سب ماضی کے تابوت میں دفن ہوگئیں، اور اب ان کی خاک تک کا کسی کو پتہ نہیں، کبھی کبھار کوئی بھولے سے کہہ دیتا ہے ''کیسا ملک ہے جہاں ایک عظیم شخصیت کی لازوال قربانیوں کو فراموش کردیا گیا'' اور بس۔ اس حوالے سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ کا شایع ہوجانا خوش آیند ہے، اور ہمیں اس معاملے میں لاہور ہائی کورٹ کا مشکور ہونا چاہیے، جس کے فیصلے کی بدولت یہ ممکن ہوا۔
دیکھا جائے تو چیزیں بدل ضرور رہی ہیں، سمت بھی مثبت ہے، بس رفتار کچھ کم ہے یا خاصی کم ہے۔ جیسے الیکشن 2018ء سے بھی کسی بڑی اور بنیادی تبدیلی کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ کیونکہ تمام جماعتیں اسی منشور کو لے کر الیکشن میں حصہ لینے جا رہی ہیں جس کا مقصد و منبع عوام کو وسیع پیمانے پر بیوقوف بنانا، انھیں لوٹنا، ان کے جمع کیے ہوئے ٹیکسز، یوٹیلٹی بلز اور ریونیو سے اربوں کھربوں کی جائیدادیں بنانا، بدلے میں انھیں فاقہ، بھوک، بیروزگاری، مفلسی، زہریلا پانی، زہریلی ہوا دینا ہے۔
کم و بیش سیاسی جماعتوں کے منشور میں خواہ کچھ بھی لکھا ہو لیکن ان کی سوچ اور ان کے ارادے بعینہ یہی ہیں۔ ہاں نعرے تبدیل ہوں گے، وعدے نئے ہوں گے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ ہم عوام ایک بار پھر اپنی پوری توانائی کے ساتھ، مکمل عزم و حوصلے کے ساتھ اپنے ہونہار سیاستدانوں کے ہاتھوں الو بننے جا رہے ہیں، اور جانتے بوجھتے اپنی پوری جانکاری کے ساتھ، علم رکھتے ہوئے۔ کیا تماشہ ہے۔ دور دراز تک صرف مایوسی، جہالت کا گھٹا ٹوپ اندھیرا۔ کوئی پنجابی، کوئی سندھی، پٹھان، بلوچ، سرائیکی، پھر بریلوی، سنی، دیوبندی، اہلِ حدیث، وہابی، شیعہ۔ انتہا پر گئے تو بھٹی، راجپوت، سید، ملک، ہزارہ وال، اعوان، فلاں فلاں، اس کے بعد طالبان، لشکرِ جھنگوی، لشکرِ طیبہ۔
لہٰذا اگر کوئی بھائی، بہن الیکشن سے بہتری کی امید رکھتا ہے تو براہِ کرم نہ رکھے۔ ہاں اگر خود احتسابی پر قصہ یوسف و زلیخا ہے تو بات بن سکتی ہے، یعنی اپنا احتساب اور کڑا احتساب۔ ہم گلہ کرتے ہیں لیکن کن سے؟ جنھیں ہم خود منتخب کرتے ہیں، ان سے۔ ہم گلہ کرتے ہیں قسمت سے، لیکن جس میں ہمارا ہر عمل ہماری قسمت تخلیق کرتا ہے، ہم شاکی ہیں سسٹم سے، جو ہم نے خود بنایا۔ مجھے یاد ہے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر ہم مٹھائیاں بانٹ رہے تھے، کھا رہے تھے، مجھے یاد ہے ہم جونیجو مرحوم جیسے شاندار اور نہایت شریف وزیرِاعظم کی آمرانہ برطرفی پر ٹھٹھے لگا رہے تھے کہ دیکھو کیسے دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال پھینکا، محترمہ شہید کی پہلی حکومت کی برطرفی پر نازاں و شاداں تھے، پھر نواز شریف، پھر محترمہ۔ ہم نے کب اپنی بربادی کا جشن نہیں منایا؟ کب اپنے جلتے ہوئے گھر پر تیل نہیں چھڑکا؟ کون کہتا ہے۔
اس ملک کی بربادی میں ہمارا ہاتھ نہیں، کون مانے گا کہ ہم نے کس طرح اپنے دین کو کھیل تماشا نہیں بنایا؟ کیا طرفہ تماشا ہے؟ تو میرے بھائی پھر گلہ کیسا، شکوہ کیسا؟ معاشرہ تو وہی بنے گا جو ہم بنائیں گے۔ خدا تو فطرت کا خدا ہے، آپ فطرت سے اغماز برتیں گے تو خدا سے دعا پوری ہونے کی امید عبث ہے۔ یہ بحث اس لیے چھیڑی کہ الیکشن پھر سر پر ہیں، ایک قوم بننے کا مرحلہ، مسئلہ ہمیں پھر شدت سے درپیش ہے، کاش ہم بات کو سمجھ لیں، کاش ہم اپنی تباہی کی وجوہات جان لیں، کاش ہم اس حقیقت سے واقف ہوجائیں کہ خودشناسی خدا شناسی ہے۔
کچھ گزارشات اپنے ہونہار، نوبہار سیاستدانوں سے بھی کرتا چلوں۔ دیکھیے اب دور میڈیا کا ہے، آگہی کا ہے، آپ زیادہ دیر اب عوام کو بیوقوف نہیں بناسکتے، مجھے کیوں نکالا، اسے کیوں سنبھالا، شہیدوں کا لشکر، ظالم کا بھالا۔ حقیقتیں کھل رہی ہیں، آپ کا سارا خاندان حکومت میں، اربوں، کھربوں ڈالر کی جائیدادیں، ہزاروں ایکڑ پر پھیلے ہوئے آپ کے محلات، ذاتی ہیلی کاپٹرز، لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی اور بھوک و فاقوں سے مرتے ہوئے عوام۔ صرف آج تھر کے ریگستان میں سردی اور غذائی قلت کے باعث چھ معصوم بچے زندگی کی بازی ہار گئے۔
کیا یہ جواب کافی نہیں۔ ایک صوبہ ترقی پر، باقی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم۔ کیا یہ وجہ بھی ناکافی ہے؟ جان لیجیے احتساب آپ سب کو گھیر چکا، عوامی غیظ و غضب، غصہ ہر جاتے دن کے ساتھ اضافے پر ہے۔ آپ اسلام آباد دھرنے کو کیا سمجھتے ہیں؟ بظاہر اسے مذہبی انتہاپسندی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، لیکن میں اسے ایک اور پہلو سے بھی مانتا ہوں، جو مسلسل بے روزگاری، انتہائی غربت، مہنگائی، ناقابلِ برداشت محرومی سے تعبیر ہے، عکس ہے، یہ اظہار ہے ایک جنگ کا، یہ اعلان ہے ایسے انقلاب کا جس میں ٹائٹل کوئی بھی ہو، عنوان کوئی بھی، جس میں خواہ لڑنے مرنے والا نہ جانتا ہو کہ وہ کیوں لڑ رہا ہے لیکن جو برباد کردیتا ہے، ہر بیچ میں آنے والی شے کو، جلا کر راکھ کردیتا ہے۔
اور میں اسے آتا صاف دیکھ رہا ہوں، ممکن ہے کچھ فاصلے پر ہو، آثار بہرحال ہویدا ہیں، لہٰذا وقت رہتے اپنی فوری اصلاح کی طرف توجہ کیجیے، ورنہ موجودہ صورتحال جس میں بھی آپ کے وزرا ہر دوسرے مطالبے پر مستعفی ہورہے ہیں، اس پر غور فرمائیے، ایسا پہلے کب ہوا؟ کبھی نہیں۔ یہ عوامی غصے کی ہی ایک شکل ہے، جس میں اضافہ ہوگا، دن بہ دن اضافہ، خوفناک اضافہ، اتنا کہ آخر بات استعفے سے بھی نہیں بنے گی، آپ کو ملک چھوڑنا ہوگا اور وہ بھی وہ خوش نصیب ہوں گے جو اس آگ سے بچ پائیں گے۔ میں اداروں سے بھی ملتمس ہوں کہ بقول آپ کے یہ قوم آپ سے بہت پیار کرتی ہے لیکن شاید آپ حقیقت حال سے واقف نہیں، آپ کو پھر معلوم ہی نہیں کہ عوام آپ کے بارے میں اب کیا رائے رکھتے ہیں؟
دیکھئے عوام جسے بھی اپنے لیے چنیں، جن کا بھی انتخاب کریں، انھیں حکومت کرنے دیں۔ ستر سال ہوگئے، ہم پوری آگاہی رکھتے ہیں اور جانتے ہیں یہ تماشۂ شب و روز کیا ہے؟ بہت ہوگیا، شاید بہت سے بھی زیادہ۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ معلوم ہوجائے گا۔ لیکن دعا ہے کہ کچھ ہونے سے پہلے ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی حدود کو جان لے، پہچان لے۔
اگرچہ رپورٹ مکمل سامنے نہیں آئی لیکن جو مندرجات نظروں سے گزرے ان میں واضح طور پر رانا ثناء اﷲ کو کم از کم دس لوگوں کی شہادت اور ساٹھ، ستر افراد کے زخمی ہونے کا براہ راست نہیں تو بالراست، لیکن ذمے دار قرار دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی وزیرِاعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو بھی کلیئر نہیں کیا بلکہ ایک طرح سے ان پر بھی اس سانحے کی ذمے داری عائد کی گئی۔ اب کیا ہوگا؟ اس کا تعین تو وہی کریں گے جو متعین ہیں، لیکن کوئی ایکشن ہوگا یا نہیں؟ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ بات گھوم پھر کر ڈیل پر آجاتی ہے، ادھر معاملات بن گئے تو کس کی رپورٹ اور کیسی رپورٹ؟ اور بات نہ بنی تو شہدا کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب بھی ہوگا۔
لیکن اچھی بات یہ ہے کہ کسی حادثے پر بنائے گئے کسی ایک ٹریبونل کی کوئی رپورٹ تو منظرعام پر آئی۔ اس سے قبل تو اس سانحے سے کہیں زیادہ بڑے حادثات ''برمودہ ٹرائی اینگل'' میں کھو گئے۔ آپ لیاقت علی خان سے بینظیر بھٹو تک کے قتل کی کوئی ایک نتیجہ خیز رپورٹ بتا دیجیے۔ سب ماضی کے تابوت میں دفن ہوگئیں، اور اب ان کی خاک تک کا کسی کو پتہ نہیں، کبھی کبھار کوئی بھولے سے کہہ دیتا ہے ''کیسا ملک ہے جہاں ایک عظیم شخصیت کی لازوال قربانیوں کو فراموش کردیا گیا'' اور بس۔ اس حوالے سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ کا شایع ہوجانا خوش آیند ہے، اور ہمیں اس معاملے میں لاہور ہائی کورٹ کا مشکور ہونا چاہیے، جس کے فیصلے کی بدولت یہ ممکن ہوا۔
دیکھا جائے تو چیزیں بدل ضرور رہی ہیں، سمت بھی مثبت ہے، بس رفتار کچھ کم ہے یا خاصی کم ہے۔ جیسے الیکشن 2018ء سے بھی کسی بڑی اور بنیادی تبدیلی کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ کیونکہ تمام جماعتیں اسی منشور کو لے کر الیکشن میں حصہ لینے جا رہی ہیں جس کا مقصد و منبع عوام کو وسیع پیمانے پر بیوقوف بنانا، انھیں لوٹنا، ان کے جمع کیے ہوئے ٹیکسز، یوٹیلٹی بلز اور ریونیو سے اربوں کھربوں کی جائیدادیں بنانا، بدلے میں انھیں فاقہ، بھوک، بیروزگاری، مفلسی، زہریلا پانی، زہریلی ہوا دینا ہے۔
کم و بیش سیاسی جماعتوں کے منشور میں خواہ کچھ بھی لکھا ہو لیکن ان کی سوچ اور ان کے ارادے بعینہ یہی ہیں۔ ہاں نعرے تبدیل ہوں گے، وعدے نئے ہوں گے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ ہم عوام ایک بار پھر اپنی پوری توانائی کے ساتھ، مکمل عزم و حوصلے کے ساتھ اپنے ہونہار سیاستدانوں کے ہاتھوں الو بننے جا رہے ہیں، اور جانتے بوجھتے اپنی پوری جانکاری کے ساتھ، علم رکھتے ہوئے۔ کیا تماشہ ہے۔ دور دراز تک صرف مایوسی، جہالت کا گھٹا ٹوپ اندھیرا۔ کوئی پنجابی، کوئی سندھی، پٹھان، بلوچ، سرائیکی، پھر بریلوی، سنی، دیوبندی، اہلِ حدیث، وہابی، شیعہ۔ انتہا پر گئے تو بھٹی، راجپوت، سید، ملک، ہزارہ وال، اعوان، فلاں فلاں، اس کے بعد طالبان، لشکرِ جھنگوی، لشکرِ طیبہ۔
لہٰذا اگر کوئی بھائی، بہن الیکشن سے بہتری کی امید رکھتا ہے تو براہِ کرم نہ رکھے۔ ہاں اگر خود احتسابی پر قصہ یوسف و زلیخا ہے تو بات بن سکتی ہے، یعنی اپنا احتساب اور کڑا احتساب۔ ہم گلہ کرتے ہیں لیکن کن سے؟ جنھیں ہم خود منتخب کرتے ہیں، ان سے۔ ہم گلہ کرتے ہیں قسمت سے، لیکن جس میں ہمارا ہر عمل ہماری قسمت تخلیق کرتا ہے، ہم شاکی ہیں سسٹم سے، جو ہم نے خود بنایا۔ مجھے یاد ہے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر ہم مٹھائیاں بانٹ رہے تھے، کھا رہے تھے، مجھے یاد ہے ہم جونیجو مرحوم جیسے شاندار اور نہایت شریف وزیرِاعظم کی آمرانہ برطرفی پر ٹھٹھے لگا رہے تھے کہ دیکھو کیسے دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال پھینکا، محترمہ شہید کی پہلی حکومت کی برطرفی پر نازاں و شاداں تھے، پھر نواز شریف، پھر محترمہ۔ ہم نے کب اپنی بربادی کا جشن نہیں منایا؟ کب اپنے جلتے ہوئے گھر پر تیل نہیں چھڑکا؟ کون کہتا ہے۔
اس ملک کی بربادی میں ہمارا ہاتھ نہیں، کون مانے گا کہ ہم نے کس طرح اپنے دین کو کھیل تماشا نہیں بنایا؟ کیا طرفہ تماشا ہے؟ تو میرے بھائی پھر گلہ کیسا، شکوہ کیسا؟ معاشرہ تو وہی بنے گا جو ہم بنائیں گے۔ خدا تو فطرت کا خدا ہے، آپ فطرت سے اغماز برتیں گے تو خدا سے دعا پوری ہونے کی امید عبث ہے۔ یہ بحث اس لیے چھیڑی کہ الیکشن پھر سر پر ہیں، ایک قوم بننے کا مرحلہ، مسئلہ ہمیں پھر شدت سے درپیش ہے، کاش ہم بات کو سمجھ لیں، کاش ہم اپنی تباہی کی وجوہات جان لیں، کاش ہم اس حقیقت سے واقف ہوجائیں کہ خودشناسی خدا شناسی ہے۔
کچھ گزارشات اپنے ہونہار، نوبہار سیاستدانوں سے بھی کرتا چلوں۔ دیکھیے اب دور میڈیا کا ہے، آگہی کا ہے، آپ زیادہ دیر اب عوام کو بیوقوف نہیں بناسکتے، مجھے کیوں نکالا، اسے کیوں سنبھالا، شہیدوں کا لشکر، ظالم کا بھالا۔ حقیقتیں کھل رہی ہیں، آپ کا سارا خاندان حکومت میں، اربوں، کھربوں ڈالر کی جائیدادیں، ہزاروں ایکڑ پر پھیلے ہوئے آپ کے محلات، ذاتی ہیلی کاپٹرز، لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی اور بھوک و فاقوں سے مرتے ہوئے عوام۔ صرف آج تھر کے ریگستان میں سردی اور غذائی قلت کے باعث چھ معصوم بچے زندگی کی بازی ہار گئے۔
کیا یہ جواب کافی نہیں۔ ایک صوبہ ترقی پر، باقی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم۔ کیا یہ وجہ بھی ناکافی ہے؟ جان لیجیے احتساب آپ سب کو گھیر چکا، عوامی غیظ و غضب، غصہ ہر جاتے دن کے ساتھ اضافے پر ہے۔ آپ اسلام آباد دھرنے کو کیا سمجھتے ہیں؟ بظاہر اسے مذہبی انتہاپسندی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، لیکن میں اسے ایک اور پہلو سے بھی مانتا ہوں، جو مسلسل بے روزگاری، انتہائی غربت، مہنگائی، ناقابلِ برداشت محرومی سے تعبیر ہے، عکس ہے، یہ اظہار ہے ایک جنگ کا، یہ اعلان ہے ایسے انقلاب کا جس میں ٹائٹل کوئی بھی ہو، عنوان کوئی بھی، جس میں خواہ لڑنے مرنے والا نہ جانتا ہو کہ وہ کیوں لڑ رہا ہے لیکن جو برباد کردیتا ہے، ہر بیچ میں آنے والی شے کو، جلا کر راکھ کردیتا ہے۔
اور میں اسے آتا صاف دیکھ رہا ہوں، ممکن ہے کچھ فاصلے پر ہو، آثار بہرحال ہویدا ہیں، لہٰذا وقت رہتے اپنی فوری اصلاح کی طرف توجہ کیجیے، ورنہ موجودہ صورتحال جس میں بھی آپ کے وزرا ہر دوسرے مطالبے پر مستعفی ہورہے ہیں، اس پر غور فرمائیے، ایسا پہلے کب ہوا؟ کبھی نہیں۔ یہ عوامی غصے کی ہی ایک شکل ہے، جس میں اضافہ ہوگا، دن بہ دن اضافہ، خوفناک اضافہ، اتنا کہ آخر بات استعفے سے بھی نہیں بنے گی، آپ کو ملک چھوڑنا ہوگا اور وہ بھی وہ خوش نصیب ہوں گے جو اس آگ سے بچ پائیں گے۔ میں اداروں سے بھی ملتمس ہوں کہ بقول آپ کے یہ قوم آپ سے بہت پیار کرتی ہے لیکن شاید آپ حقیقت حال سے واقف نہیں، آپ کو پھر معلوم ہی نہیں کہ عوام آپ کے بارے میں اب کیا رائے رکھتے ہیں؟
دیکھئے عوام جسے بھی اپنے لیے چنیں، جن کا بھی انتخاب کریں، انھیں حکومت کرنے دیں۔ ستر سال ہوگئے، ہم پوری آگاہی رکھتے ہیں اور جانتے ہیں یہ تماشۂ شب و روز کیا ہے؟ بہت ہوگیا، شاید بہت سے بھی زیادہ۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ معلوم ہوجائے گا۔ لیکن دعا ہے کہ کچھ ہونے سے پہلے ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی حدود کو جان لے، پہچان لے۔