آرمی چیف کی سینیٹ آمد

آرمی چیف کے اس اقدام کو ملک کے تمام حلقوں نے سراہا اورداد دی ہے۔

ali.dhillon@ymail.com

KARACHI:
دنیا بھر میں جہاں جہاں جمہوری حکومتیں قائم ہیں، وہاں منتخب حکومتیں پالیسیاں بناتی ہیں اور ریاستی ادارے اس پر عمل دارآمد کراتے ہیں، یوں تمام ریاستی ادارے اپنے ملک کی ترقی اور سلامتی کے لیے مل کر کام کرتے ہیں ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایسی روایات نہیں رہیں، اس کے بہت سے محرکات ہو سکتے ہیں جیسے ہر دہائی بعد ڈکٹیٹر کا سول حکومت پر شب خون مارنا یا سیاسی شخصیات کاکرپٹ ترین ہوناہے۔

بیوروکریسی کا منہ زور ہونا وغیرہ ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات مثالی نہیں رہے ہیں جس کا خمیازہ آج تک عوام بھگت رہے ہیں۔ لیکن گزشتہ دنوں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اب ایسا ہوا ہے کہ بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ ایوان بالا (سینیٹ) میں حاضر ہوئے اور طویل سیشن میںملکی حالات پر بریفنگ دی اور سینیٹرز کے سوالوں کے جوابات دیے۔ آرمی چیف کے اس اقدام کو ملک کے تمام حلقوں نے سراہا اورداد دی ہے۔ یقیناً یہ ایک اچھا اقدام ہے جس سے جمہوریت مستحکم ہوگی، سیاسی عدم استحکام کم ہوگا اور سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان تعاون بڑھے گا۔ میرے خیال میں جو روایت قائم ہوئی ہے اُمید ہے وہ آیندہ بھی جاری رہے گی۔

ملکی اداروں کے آپسی تعلقات میں بہتری سے ادارے مضبوط ہوتے اور شخصیات پرستی کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ ساڑھے چار گھنٹے کے مذکورہ سیشن میں آرمی چیف نے سینیٹرز کے ''فیڈڈ''اور ''ان فیڈڈ''دونوں قسم کے سوالوں کے جوابات دیے اور سینیٹرز کو کافی حد تک مطمئن کرنے میں کامیاب بھی ہوئے۔

لیکن ایک سوال اور اُس کا جواب پاکستان کے عوام کو خاصا پریشان کیے ہوئے ہے، وہ دھرنے سے متعلق ''جواب'' ہے جو اگلے دن تمام اخبارات کی شہ سرخیوں میں نظر آیا۔یعنی جس دھرنے نے ملک کی سیکیورٹی کی کمزوری عیاں کردی، جس دھرنے نے حکومت کو مفلوج کر دیا، جس دھرنے نے دنیا بھر میں پاکستان کے اندرونی حالات کھول کر رکھ دیے، جس دھرنے نے تین دن ملک کو ہر طرف سے بند کردیا، جس دھرنے سے پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کی زندگی اجیرن ہوگئی، جس دھرنے نے یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان میں اسلام کے نام پر گلی گلی جنگ بھی کرائی جا سکتی ہے، جس دھرنے نے ملک میں ''شام'' جیسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی، جس دھرنے نے خانہ جنگی کو ہوا دینے کی کوشش کی، جس دھرنے نے دارلحکومت میں موجود سیکڑوں سفارتخانوں میں بیٹھے غیر ملکیوں کی نیندیں حرام کردیں،حالانکہ یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو کسی بھی ملک کی اصل تصویر اپنے ملکوں کو بھیجتے رہتے ہیں، جس دھرنے میں 27جانوں کا نذرانہ پیش کیا گیا، جس دھرنے نے کروڑوں روپے کی ملکی املاک کو نقصان پہنچایا، جس دھرنے نے کئی وزراء کے گھروں کو جلا دیا ، جس دھرنے نے امریکا کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ اب تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار بھی محفوظ نہیں رہے، ایک اور دوست ملک نے یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔

جس دھرنے میں بیسیوں پولیس والوں کو زخمی کیا گیا ، جس دھرنے میں شرکاء کو تربیت دی گئی، جس دھرنے میں جدید ماسک پہنے افراد سڑکوں پر امڈ آئے اور ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور جو کام 70سال سے انڈیا نہیں کر سکا وہ اس دھرنے نے ملک کو بند کرکے کر دیا۔ آخر کوئی تو ذمے دار ہوگا، آخر وطن عزیز میں کوئی تو ایسا شخص، گروہ یا طبقہ تو ہوگا، جس نے اپنا کردار ادا کیا ہوگا۔ حیرت اس بات پر ہو رہی ہے کہ ملک میں اتنا بڑا واقعہ ہوگیا اور کوئی ذمے داری لینے کو تیار نہیں ہے؟ سول حکومتیں، سیکیورٹی اداروں کو قصور وار ٹھہرا رہی ہیں اور سول حکومتیں سیکیورٹی اداروں کو۔ خفیہ ایجنسیاں خاموش ہیں۔ بقول شاعر

ذہانت رو رہی ہے منہ چھپائے
جہالت قہقہے برسا رہی ہے


یہاںپر افسروں کا ہے تسلط

حکومت شاعری فرما رہی ہے

میرے خیال میں ہم سب نے مل کر اس ملک کو عجیب ملک یا ''بنانا ری پبلک '' بنا دیا ہے جہاں جس کا جب دل چاہے اپنا تماشا لگا لے اور ہم عوام تماشبینوں کی طرح ایک ہجوم بنے رہیں اور پھر اگر کوئی ذمے داری لینے کو تیار نہیں تو پھر اسکاٹ لینڈ یارڈ کو بلا لینا چاہیے کہ وہ تحقیقات کرے کہ جب کسی کو فورتھ شیڈول میں رکھا جاتا ہے تو وہ اپنے علاقے کی حدود سے کیسے باہر نکل آتا ہے ؟اُسے پروٹوکول اور کھانا کون دیتا ہے؟ حالانکہ اس ملک میں فورتھ شیڈول کے لوگوں کو اپنی جگہ سے ہلنے نہیں دیا جاتا۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ فورتھ شیڈول اُسے کہا جاتا ہے جس کے تحت وہ لوگ جن کا تعلق مذہبی جماعتوں سے ہے، لیکن ان کی سرگرمیاں مشکوک ہیںیا وہ تشدد میں ملوث ہیں، یا تشدد پسند افراد کے حامی یا سرپرست ہیں تو ایسے افراد کے نام'' فورتھ شیڈول'' میں شامل کیے جاتے ہیں۔

فورتھ شیڈول کی لسٹ میں شامل افراد ایک لحاظ سے آزاد ہوتے ہوئے بھی قید ہوتے ہیں۔ اگر وہ کسی دوسرے شہر جانا چاہتے ہیں تو پہلے اپنے علاقے کے تھانے میں اطلاع دینا ضروری ہوتا ہے۔ اور جب کسی شہر میں جائیں تو اس شہر کے تھانے کو اطلاع دیں کہ وہ کس کام سے آئے ہیں۔ کس کے پاس ٹھہرے ہیں اور جب واپس اپنے علاقے میں جائیں تو اپنے علاقے کے تھانے کو آگاہ کریں کہ وہ اتنے دن کہاں اور کس مقصد کے لیے گئے تھے؟ اور یہ کارروائی غیرمعینہ مدت کے لیے چلتی رہتی ہے۔ حتیٰ کہ فورتھ شیڈول کی لسٹ میں شامل افراد جلسہ جلوس بھی نہیں کر سکتے۔

انگریز دور میں بھی اس کا استعمال کیا جا تا رہا ہے۔ انگریزوں نے جرائم پیشہ عناصر کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک ضابطہ تیار کیا جس کو ''بستہ الف'' اور ''بستہ ب'' کا نام دیا گیا۔ بستہ سے مراد رجسٹر ہوتا تھا۔ الف اور ب کے نام سے دو رجسٹر ہر تھانے میں رکھے جاتے ہیں،ان رجسٹروں میں سماج دشمن عناصر، چوروں، ڈاکوؤں، قاتلوں کے نام درج کیئے جاتے تھے ۔ جرم کی نوعیت کی وجہ سے بستہ بدل جاتا کبھی بستہ الف والا بستہ ب میں اور کبھی بستہ ب والا بستہ الف میں چلا جاتا۔جب ہم نے شعور کی آنکھ کھولی تو یہ بستہ الف بستہ ب کی اصطلاح رائج تھی اور بدمعاشان بستہ الف اور بستہ ب موجود تھے۔

نائن الیون کے بعد زمانہ شریف بھی ہوگیا اور باشعور بھی۔ تعلیم عام ہونے کے بعدقدریں بھی بدل گئیں اور فرسودہ اصطلاحات کو بھی بدل دیاگیا۔ چنانچہ پینٹاگون کی ہدایات کے مطابق بستہ الف اور بستہ ب کی ڈینٹنگ پینٹنگ کرکے ''فورتھ شیڈول'' کے مہذب نام سے منظر عام پر لایا گیااوربستہ الف اور بستہ ب کے تمام شرائط وقواعد و ضوابط فورتھ شیڈول میں شامل افراد پر لاگو کیے گئے۔

سوچنے والی بات یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے جن صاحبان کو فورتھ شیڈول میں رکھا ہوا تھا، انھیں لاہور سے نکلنے کی اجازت کیسے مل گئی، پھر وہ کیسے گجرات کراس کر گئے اور وہاں کی پولیس نے انھیں کھانا بھی دیا اور جہلم پولیس نے انھیں پروٹوکول کے ساتھ راولپنڈی پولیس کے حوالے کیا۔ پولیس نے انھیں کیوں نہ پکڑا ؟ حالانکہ اُس وقت اُن کے قافلے میں چند سو افراد تھے۔ اور یہ بھی پوچھا جانا چاہیے وسائل کہاں سے ملتے رہے ۔ لگتا یہی ہے کہ اندرون و بیرون ملک دونوں جانب سے فنڈز ملتے رہے۔

بہرکیف میں یہ نہیں کہتا کہ اس دھرنے میں ہمارے ملک کے سیکیورٹی ادارے شامل تھے لیکن تکلیف یہ ضرور ہے کہ اگر اس طرح کے واقعات کی کوئی ذمے داری نہیں لے گا اور ''مٹی پاؤ'' اسکیموں سے کام چلایا جائے گا تو یہ ملک کس طرح ترقی کرے گا؟ یہ ملک کس طرح آگے بڑھے گا؟ لہٰذاآرمی چیف سے استدعا ہے کہ جس طرح انھوں نے خوش اسلوبی سے دھرنے والوں کو گھر بھیجا ، بالکل اسی طرح وہ اس دھرنے کی بھی تحقیقات کرائیں ، یہ بات سو فیصد حقیقت پر مبنی ہے کہ پاک فوج کا دھرنے سے کوئی تعلق نہیں لیکن وہ ذمے داروں کا تعین ضرور کر سکتے ہیں۔ اگر اندرونی قوتیں قصووار ہیں تو اُن کو آشکار کیا جائے اور اگر کوئی بیرونی قوت اس حوالے سے کام کر رہی تھی تو اُسے بھی سامنے لایا جائے تاکہ آیندہ ایسی صورتحال پیدا نہ ہو۔
Load Next Story