جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملٹری ڈپلومیسی
ملٹری ڈپلومیسی، جسے ڈیفنس ڈپلومیسی بھی کہا جاتا ہے، کوئی آسان اور سہل کام نہیں ہے۔
چار دن گزر چکے ہیں لیکن سپہ سالارِ پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ کے اُن الفاظ کی بازگشت ابھی تک ہماری سیاسی ، سماجی اور عسکری فضاؤں میں سنائی دے رہی ہے جو انھوں نے ایوانِ بالا کے معزز ارکان(جو سینیٹ کی ''ہول کمیٹی'' بھی کہلاتے ہیں) کے سامنے ادا کیے۔ کئی اہم اور چبھتے ہُوئے سوالات کے خندہ پیشانی سے اور صبر کے ساتھ جوابات دیے۔ کئی اشکالات دُور ہُوئے ہیں، ابہام کا خاتمہ ہُوا ہے اور غیر یقینی کی دھند چھٹتی ہُوئی محسوس ہو رہی ہے۔
جنرل صاحب کی مبینہ گفتگو سُن کر یقیناً وہ عناصر مایوس ہُوئے ہوں گے جن کاکام ہی، بد قسمتی سے، ملک میں مایوسیاں پھیلانا ہے۔دنیا کے کئی فورموں پر جنرل باجوہ کو اپنی ملٹری ڈپلومیسی کی بنیاد پر جو کامیابیاں ملی ہیں، سینیٹ کے فورم پر اُن کے خطاب یا بریفنگ نے ایک بالکل نئے سنگِ میل کی اساس رکھی ہے۔
ملٹری ڈپلومیسی، جسے ڈیفنس ڈپلومیسی بھی کہا جاتا ہے، کوئی آسان اور سہل کام نہیں ہے۔ اِس میں کسی بھی ملک کی ملٹری ہائی کمان براہِ راست بروئے کارآتی ہے لیکن احتیاط یہ برتی جاتی ہے کہ سِول ڈپلومیسی سے متعلقہ افراد اور اداروں کی اتھارٹی متاثر نہ ہونے پائے۔ حالیہ ایام میں، عالمی محاذ پر، پاکستان ملٹری ڈپلومیسی کے میدان میں ایک بڑی کامیابی پہلے ہی حاصل کر چکا ہے: بھارت گزشتہ چند برسوں سے یو این سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت حاصل کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہا ہے۔
پاکستان نے مگر چین ایسے اپنے عالمی دوستوں کے تعاون سے بھارتی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا ہے۔ اِسے پاکستان کی انتہائی کامیاب ملٹری ڈپلومیسی کہا گیا ہے۔ افواجِ پاکستان پچھلے چار، ساڑھے چار سال سے جس طرح، مضبوط اسلوب میں، چین پاکستان اقتصادی راہداری(CPEC)کو ہر ممکنہ اعانت فراہم کررہی ہیں، اِسے بھی ملٹری ڈپلومیسی کا جزوِ ناگزیر حصہ کہا جائے گا۔ لاریب اِس کا کریڈٹ جنرل(ر) راحیل شریف اور موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو جاتا ہے(سی پیک کے حوالے سے جناب نواز شریف کی کامیاب سیاسی ڈپلومیسی اپنی جگہ مسلّمہ ہے۔ یہ کریڈٹ اُن سے کوئی نہیں چھین سکتا) جنرل باجوہ کی ملٹری ڈپلومیسی کی بنیاد پر چین کو نہائیت مثبت پیغامات پہنچ رہے ہیں۔
چین بھی اِس بارے میں اپنے اطمینان کا اظہار کرتا ہُوا دکھائی دے رہا ہے۔ اِس حوالے سے پاکستان میں متعین ہونے والے نئے چینی سفیر(Yao Jing) کی تازہ ترین پریس کانفرنس کو بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے جس میں انھوں نے غیر مبہم الفاظ میں یہ بھی کہا ہے کہ ''پاکستانی میڈیا میں شایع ہونے والی یہ خبر بالکل بے بنیاد ہے کہ چین نے سی پیک کے تحت بننے والی تین سڑکوں کے فنڈز روک لیے ہیں۔'' انھوں نے ان خبروں کی بھی تردید کی ہے کہ سی پیک کے تحت پاکستان کو فراہم کیے جانے والے سرمائے پر ''بھاری شرحِ سُود'' وصول کیا جائے گا۔وطنِ عزیز کے استحکام اور دشمنوں کی چالیں ناکام بنانے کے لیے صرف جنرل باجوہ ہی ملٹری ڈپلومیسی کے میدان میں بروئے کار نہیں ہیں بلکہ کئی دوسرے ممالک کے سربراہان اور عسکری سربراہ بھی اس راہ پر گامزن ہیں۔
چین، امریکا اور بھارت بھی ملٹری ڈپلومیسی سے کام لے رہیں اور وہاں کوئی اُن سے معترض نہیں ہو رہا۔ چین اس معاملے میں سب سے آگے نظر آتا ہے۔چینی صدر ژی جنگ پنگ (جو چین کے سینٹرل ملٹری کمیشن کے چیئرمین بھی ہیں) نے تو یہاں تک کہا ہے کہ چین اپنی فارن پالیسی اسٹرٹیجی کے ساتھ ملٹری ڈپلومیسی کو بھی منسلک کررہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آج چین کی نیشنل ڈپلومیسی اور سیکیورٹی اسٹرٹیجی پر ملٹری ڈپلومیسی کو غلبہ حاصل ہو چکا ہے تو شائد یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا۔
19دسمبر2017ء کو جنرل قمر جاوید باجوہ نے سینیٹ کی ہول کمیٹی کو حساس معاملات پر بریف کرکے جو تاریخ رقم کی ہے، یہ بھی درحقیقت اُن کی ملٹری ڈپلومیسی کے ثمرات کو سینیٹ کے معزز ارکان کے ساتھ شیئرنگ کا ایک منفرد انداز تھا۔اِس سے پہلے ہماری سیاسی و عسکری تاریخ میں کبھی ایسا ہُوا ہے نہ کبھی ملٹری ڈپلومیسی یوں کامیابیوں سے ہمکنار ہُوئی ہے۔ کوئی ساڑھے چار ماہ قبل (5اگست 2017ء)جنرل قمر باجوہ نے اپنے کور کمانڈروں کے اجلاس کی صدارت کی تھی۔
اس موقع پر افواجِ پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہاتھا:''جنرل باجوہ نے حالیہ ایام میں جن غیر ملکی شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور جو غیر ملکی دَورے کیے ہیں، اِس ملٹری ڈپلومیسی کے بارے میں کور کمانڈروں کو آگاہ کرتے ہُوئے انھیں اعتماد میں لیا گیا ہے۔''
ملٹری ڈپلومیسی کی کامیابیوں کے حوالے سے یہ اجلاس عین اُس وقت ہُوا تھا جب امریکی وزیر دفاع ، جیمز میٹس، پہلی بار پاکستان آئے تھے اور انھوں نے پاکستان کی سول اور ملٹری لیڈرشپ سے کہا تھا کہ پاکستان کو چاہیے کہ اُن جنگجوؤں کے خلاف موثر کارروائی کرے جنہوں نے پاکستان کو ''سیف ہیون'' بنا لیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کی جنرل باجوہ سے بھی وَن آن وَن ملاقات ہُوئی تھی۔
جیمز میٹس کی پاکستان آمد سے ایک روز قبل سی آئی اے کے سربراہ، مائیک پومپیؤ، نے پاکستان کو دھمکی دیتے ہُوئے کہاتھا کہ ''اگر پاکستان نے اپنی سرزمین پر موجود (افغانستان مخالف) جنگجوؤں کے محفوظ ٹھکانوں کا خاتمہ نہ کیا تو امریکا خود یہ ٹھکانے تباہ کرنے کے لیے (کوئی بھی) قدم اُٹھا سکتا ہے۔''
ایسے حالات میں یہ بات از بس ضروری ہو گئی تھی کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے جرنیل ساتھیوں کو (اپنی) ملٹری ڈپلومیسی کے بارے اعتماد میں لیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، امریکی فوجی جرنیلوںاور سی آئی اے کے سربراہ کی پاکستان کو کھلی اور بین السطور تازہ ترین دھمکیوں کے باوجود پاکستان اگر پورے قد کے ساتھ کھڑا ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ اِس میں عسکری سربراہ کی ملٹری ڈپلومیسی کے ثمرات کا بھی کردار ہے۔
جنرل باجوہ چار دن پہلے سینیٹ کی ہول کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہُوئے مبینہ طور پر جب یہ کہہ رہے تھے کہ ''ہم سعودی عرب اور ایران میں تصادم نہیں ہونے دیں گے'' تو انھیں اپنی دعوے پر کامل اعتماد تھا۔وجہ یہ ہے کہ جنرل صاحب نے پچھلے چند ہفتوں کے دوران جس سنجیدگی اور ہدف کے ساتھ سعودیہ اور ایران کے دَورے کیے ہیں اور دونوں ممالک کے اعلیٰ سطح کے ذمے داران سے ملاقاتیں کی ہیں، اِس سارے پس منظر میں انھیں یقینِ کامل ہے کہ اُن کی ملٹری ڈپلومیسی کامیاب رہے گی اور دونوں اسلامی برادر ممالک باہم متصادم نہیں ہوں گے۔ کسی نے تو انھیں گہرا یقین دلایا ہوگا۔
انھوں نے جس استقامت اور جرأت کے ساتھ کابل جا کر افغان حکام سے ملاقاتیں کی ہیں، واقعہ یہ ہے کہ بھارت بھی اُن کی ملٹری ڈپلومیسی سے متاثر نظر آرہا ہے۔ جنرل صاحب نے گزشتہ ہفتوں کے دوران جس تسلسل کے ساتھ افغان اور ایرانی سفیروں(عمر ذخیل وال اور مہدی ہنر دوست) سے، جی ایچ کیو میں، ملاقاتیں کی ہیں، ان کے مثبت اثرات سامنے آرہے ہیں۔ پشاور میں افغان قونصل جنرل، معین مرستیال،کے تازہ مثبت بیان کو اِسی ملٹری ڈپلومیسی کا اعجاز کہا جانا چاہیے۔
معروف برطانوی تھنکٹینک RUSI(دی رائل یونائیٹڈ سروس انسٹی ٹیوٹ) بھی جنرل قمر باجوہ کی کامیاب ملٹری ڈپلومیسی کا معترف نظر آرہا ہے۔جولائی 2017ء کے وسط میں RUSIنے اپنی ویب سائیٹ پر ایک حیران کن رپورٹ شایع کی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جنرل قمر باجوہ نے جنوبی ایشیا کے علاقائی امن کو مستحکم رکھنے میں صبر کے ساتھ ایک غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ متذکرہ رپورٹ نے مزید لکھا:''جنرل موصوف نے ملٹری ڈپلومیسی کے تحت GCC (گلف کوآپریشن کونسل) کے رکن ممالک کے ساتھ ساتھ ایران کے ساتھ بھی مستحسن تعلقات استوار کیے ہیں۔
توازن رکھنے کی یہ ایک شاندار مثال ہے۔ انھوں نے امریکیوں کو بھی صاف اور غیر مبہم الفاظ میں افغانستان کی صورتحال اور اس صورتحال کو سنوارنے کے لیے پاکستان کے ممکنہ کردار سے آگاہ کردیا۔ اِس آگاہی میں اُن کی محدودات کا ذکر بھی ہے اور پاکستان کے عزائم کا بھی۔ امریکا خواہ جو بھی افغانستان کے حوالے سے پاکستان پر الزامات عائد کرتا رہے لیکن ایک صاف گو سپاہی کی طرح جنرل مذکور نے امریکیوں پر پاکستان کی سوچ واضح کر دی ہے۔''
اُن کی سچائی اور صاف گوئی تو سینیٹ کو بریفنگ دیتے ہُوئے بھی سامنے آگئی ہے۔جنرل صاحب جب یہ کہتے ہیں کہ ''پارلیمنٹ دفاع اور خارجی امور کی پالیسیاں بنائے ، ہم عمل کریں گے '' تو اِس بیان کی تحسین اور حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے ۔واقعہ یہ ہے کہ اگر برطانوی تھنک ٹینک ''دی رائل یونائیٹڈ سروس انسٹی ٹیوٹ'' کی مذکورہ رپورٹ کے تمام مندرجات سامنے رکھے جائیںتو جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملٹری ڈپلومیسی کے محاسن مزید روشن ہوتے چلے جاتے ہیں۔
جنرل صاحب کی مبینہ گفتگو سُن کر یقیناً وہ عناصر مایوس ہُوئے ہوں گے جن کاکام ہی، بد قسمتی سے، ملک میں مایوسیاں پھیلانا ہے۔دنیا کے کئی فورموں پر جنرل باجوہ کو اپنی ملٹری ڈپلومیسی کی بنیاد پر جو کامیابیاں ملی ہیں، سینیٹ کے فورم پر اُن کے خطاب یا بریفنگ نے ایک بالکل نئے سنگِ میل کی اساس رکھی ہے۔
ملٹری ڈپلومیسی، جسے ڈیفنس ڈپلومیسی بھی کہا جاتا ہے، کوئی آسان اور سہل کام نہیں ہے۔ اِس میں کسی بھی ملک کی ملٹری ہائی کمان براہِ راست بروئے کارآتی ہے لیکن احتیاط یہ برتی جاتی ہے کہ سِول ڈپلومیسی سے متعلقہ افراد اور اداروں کی اتھارٹی متاثر نہ ہونے پائے۔ حالیہ ایام میں، عالمی محاذ پر، پاکستان ملٹری ڈپلومیسی کے میدان میں ایک بڑی کامیابی پہلے ہی حاصل کر چکا ہے: بھارت گزشتہ چند برسوں سے یو این سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت حاصل کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہا ہے۔
پاکستان نے مگر چین ایسے اپنے عالمی دوستوں کے تعاون سے بھارتی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا ہے۔ اِسے پاکستان کی انتہائی کامیاب ملٹری ڈپلومیسی کہا گیا ہے۔ افواجِ پاکستان پچھلے چار، ساڑھے چار سال سے جس طرح، مضبوط اسلوب میں، چین پاکستان اقتصادی راہداری(CPEC)کو ہر ممکنہ اعانت فراہم کررہی ہیں، اِسے بھی ملٹری ڈپلومیسی کا جزوِ ناگزیر حصہ کہا جائے گا۔ لاریب اِس کا کریڈٹ جنرل(ر) راحیل شریف اور موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو جاتا ہے(سی پیک کے حوالے سے جناب نواز شریف کی کامیاب سیاسی ڈپلومیسی اپنی جگہ مسلّمہ ہے۔ یہ کریڈٹ اُن سے کوئی نہیں چھین سکتا) جنرل باجوہ کی ملٹری ڈپلومیسی کی بنیاد پر چین کو نہائیت مثبت پیغامات پہنچ رہے ہیں۔
چین بھی اِس بارے میں اپنے اطمینان کا اظہار کرتا ہُوا دکھائی دے رہا ہے۔ اِس حوالے سے پاکستان میں متعین ہونے والے نئے چینی سفیر(Yao Jing) کی تازہ ترین پریس کانفرنس کو بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے جس میں انھوں نے غیر مبہم الفاظ میں یہ بھی کہا ہے کہ ''پاکستانی میڈیا میں شایع ہونے والی یہ خبر بالکل بے بنیاد ہے کہ چین نے سی پیک کے تحت بننے والی تین سڑکوں کے فنڈز روک لیے ہیں۔'' انھوں نے ان خبروں کی بھی تردید کی ہے کہ سی پیک کے تحت پاکستان کو فراہم کیے جانے والے سرمائے پر ''بھاری شرحِ سُود'' وصول کیا جائے گا۔وطنِ عزیز کے استحکام اور دشمنوں کی چالیں ناکام بنانے کے لیے صرف جنرل باجوہ ہی ملٹری ڈپلومیسی کے میدان میں بروئے کار نہیں ہیں بلکہ کئی دوسرے ممالک کے سربراہان اور عسکری سربراہ بھی اس راہ پر گامزن ہیں۔
چین، امریکا اور بھارت بھی ملٹری ڈپلومیسی سے کام لے رہیں اور وہاں کوئی اُن سے معترض نہیں ہو رہا۔ چین اس معاملے میں سب سے آگے نظر آتا ہے۔چینی صدر ژی جنگ پنگ (جو چین کے سینٹرل ملٹری کمیشن کے چیئرمین بھی ہیں) نے تو یہاں تک کہا ہے کہ چین اپنی فارن پالیسی اسٹرٹیجی کے ساتھ ملٹری ڈپلومیسی کو بھی منسلک کررہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آج چین کی نیشنل ڈپلومیسی اور سیکیورٹی اسٹرٹیجی پر ملٹری ڈپلومیسی کو غلبہ حاصل ہو چکا ہے تو شائد یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا۔
19دسمبر2017ء کو جنرل قمر جاوید باجوہ نے سینیٹ کی ہول کمیٹی کو حساس معاملات پر بریف کرکے جو تاریخ رقم کی ہے، یہ بھی درحقیقت اُن کی ملٹری ڈپلومیسی کے ثمرات کو سینیٹ کے معزز ارکان کے ساتھ شیئرنگ کا ایک منفرد انداز تھا۔اِس سے پہلے ہماری سیاسی و عسکری تاریخ میں کبھی ایسا ہُوا ہے نہ کبھی ملٹری ڈپلومیسی یوں کامیابیوں سے ہمکنار ہُوئی ہے۔ کوئی ساڑھے چار ماہ قبل (5اگست 2017ء)جنرل قمر باجوہ نے اپنے کور کمانڈروں کے اجلاس کی صدارت کی تھی۔
اس موقع پر افواجِ پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہاتھا:''جنرل باجوہ نے حالیہ ایام میں جن غیر ملکی شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور جو غیر ملکی دَورے کیے ہیں، اِس ملٹری ڈپلومیسی کے بارے میں کور کمانڈروں کو آگاہ کرتے ہُوئے انھیں اعتماد میں لیا گیا ہے۔''
ملٹری ڈپلومیسی کی کامیابیوں کے حوالے سے یہ اجلاس عین اُس وقت ہُوا تھا جب امریکی وزیر دفاع ، جیمز میٹس، پہلی بار پاکستان آئے تھے اور انھوں نے پاکستان کی سول اور ملٹری لیڈرشپ سے کہا تھا کہ پاکستان کو چاہیے کہ اُن جنگجوؤں کے خلاف موثر کارروائی کرے جنہوں نے پاکستان کو ''سیف ہیون'' بنا لیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کی جنرل باجوہ سے بھی وَن آن وَن ملاقات ہُوئی تھی۔
جیمز میٹس کی پاکستان آمد سے ایک روز قبل سی آئی اے کے سربراہ، مائیک پومپیؤ، نے پاکستان کو دھمکی دیتے ہُوئے کہاتھا کہ ''اگر پاکستان نے اپنی سرزمین پر موجود (افغانستان مخالف) جنگجوؤں کے محفوظ ٹھکانوں کا خاتمہ نہ کیا تو امریکا خود یہ ٹھکانے تباہ کرنے کے لیے (کوئی بھی) قدم اُٹھا سکتا ہے۔''
ایسے حالات میں یہ بات از بس ضروری ہو گئی تھی کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے جرنیل ساتھیوں کو (اپنی) ملٹری ڈپلومیسی کے بارے اعتماد میں لیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، امریکی فوجی جرنیلوںاور سی آئی اے کے سربراہ کی پاکستان کو کھلی اور بین السطور تازہ ترین دھمکیوں کے باوجود پاکستان اگر پورے قد کے ساتھ کھڑا ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ اِس میں عسکری سربراہ کی ملٹری ڈپلومیسی کے ثمرات کا بھی کردار ہے۔
جنرل باجوہ چار دن پہلے سینیٹ کی ہول کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہُوئے مبینہ طور پر جب یہ کہہ رہے تھے کہ ''ہم سعودی عرب اور ایران میں تصادم نہیں ہونے دیں گے'' تو انھیں اپنی دعوے پر کامل اعتماد تھا۔وجہ یہ ہے کہ جنرل صاحب نے پچھلے چند ہفتوں کے دوران جس سنجیدگی اور ہدف کے ساتھ سعودیہ اور ایران کے دَورے کیے ہیں اور دونوں ممالک کے اعلیٰ سطح کے ذمے داران سے ملاقاتیں کی ہیں، اِس سارے پس منظر میں انھیں یقینِ کامل ہے کہ اُن کی ملٹری ڈپلومیسی کامیاب رہے گی اور دونوں اسلامی برادر ممالک باہم متصادم نہیں ہوں گے۔ کسی نے تو انھیں گہرا یقین دلایا ہوگا۔
انھوں نے جس استقامت اور جرأت کے ساتھ کابل جا کر افغان حکام سے ملاقاتیں کی ہیں، واقعہ یہ ہے کہ بھارت بھی اُن کی ملٹری ڈپلومیسی سے متاثر نظر آرہا ہے۔ جنرل صاحب نے گزشتہ ہفتوں کے دوران جس تسلسل کے ساتھ افغان اور ایرانی سفیروں(عمر ذخیل وال اور مہدی ہنر دوست) سے، جی ایچ کیو میں، ملاقاتیں کی ہیں، ان کے مثبت اثرات سامنے آرہے ہیں۔ پشاور میں افغان قونصل جنرل، معین مرستیال،کے تازہ مثبت بیان کو اِسی ملٹری ڈپلومیسی کا اعجاز کہا جانا چاہیے۔
معروف برطانوی تھنکٹینک RUSI(دی رائل یونائیٹڈ سروس انسٹی ٹیوٹ) بھی جنرل قمر باجوہ کی کامیاب ملٹری ڈپلومیسی کا معترف نظر آرہا ہے۔جولائی 2017ء کے وسط میں RUSIنے اپنی ویب سائیٹ پر ایک حیران کن رپورٹ شایع کی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جنرل قمر باجوہ نے جنوبی ایشیا کے علاقائی امن کو مستحکم رکھنے میں صبر کے ساتھ ایک غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ متذکرہ رپورٹ نے مزید لکھا:''جنرل موصوف نے ملٹری ڈپلومیسی کے تحت GCC (گلف کوآپریشن کونسل) کے رکن ممالک کے ساتھ ساتھ ایران کے ساتھ بھی مستحسن تعلقات استوار کیے ہیں۔
توازن رکھنے کی یہ ایک شاندار مثال ہے۔ انھوں نے امریکیوں کو بھی صاف اور غیر مبہم الفاظ میں افغانستان کی صورتحال اور اس صورتحال کو سنوارنے کے لیے پاکستان کے ممکنہ کردار سے آگاہ کردیا۔ اِس آگاہی میں اُن کی محدودات کا ذکر بھی ہے اور پاکستان کے عزائم کا بھی۔ امریکا خواہ جو بھی افغانستان کے حوالے سے پاکستان پر الزامات عائد کرتا رہے لیکن ایک صاف گو سپاہی کی طرح جنرل مذکور نے امریکیوں پر پاکستان کی سوچ واضح کر دی ہے۔''
اُن کی سچائی اور صاف گوئی تو سینیٹ کو بریفنگ دیتے ہُوئے بھی سامنے آگئی ہے۔جنرل صاحب جب یہ کہتے ہیں کہ ''پارلیمنٹ دفاع اور خارجی امور کی پالیسیاں بنائے ، ہم عمل کریں گے '' تو اِس بیان کی تحسین اور حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے ۔واقعہ یہ ہے کہ اگر برطانوی تھنک ٹینک ''دی رائل یونائیٹڈ سروس انسٹی ٹیوٹ'' کی مذکورہ رپورٹ کے تمام مندرجات سامنے رکھے جائیںتو جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملٹری ڈپلومیسی کے محاسن مزید روشن ہوتے چلے جاتے ہیں۔