رسول اکرم ﷺ کی شانِ عفو و درگزر
سلام اُس پر کہ جس نے زخم کھا کر پُھول برسائے
ISLAMABAD:
یوں تو خدائے عزوجل نے اپنے حبیب مکرم ؐ کو اتنے لامحدود و لامثال محامد و محاسن اور خوبیوں سے متصف فرمایا جن کا احاطہ کرنا کسی بھی صاحب دانش و بصیرت اور صاحب قلم کے بس کی بات نہیں۔ ان عدیم النظیر اوصاف و کمالات کے اعتراف و اظہار کا حق بہ جز زبان قدرت کے ادا نہیں ہوسکتا۔ حسنِ یوسف، دم عیسیٰ یدبیضا ایسی اعجاز و خوبیاں تنہا آقائے گیتی پناہؐ کی ذاتِ اقدس میں رواں دواں نظر آتی ہیں۔
حضور سرور کائناتؐ کی شان رحمۃ للعالمینی اور عفو و در گزر کی انتہاؤں کے سبب اعدائے اسلام جس کثرت و سرعت سے حلقہ بہ گوشِ اسلام ہوئے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس بحر خُلقِ عظیم کی وجد آفرین موجوں نے معاندین خدا و مصطفیؐ کو ایک احساس پشیمانی و ندامت کے ساتھ حضورؐ کی طرح دار زلفوں کا اسیر بننے پر مجبور کردیا۔ یوں تو تاریخ اسلام آپؐ کی بے کراں شفقت و محبت کے واقعات سے بھری پڑی ہے مگر اس کا پہلا اظہار سفر طائف کے موقع پر ہوا۔
حضور اکرم ﷺ اعلائے کلمۃ الحق کے لیے سرسبز و شاداب شہر طائف تشریف لے گئے لیکن اہل طائف کے قلوب و اذہان شادابیِ اخلاق و محبت سے عنقا تھے۔ آپؐ نے عمائدین شہر کے سامنے اﷲ کی واحدانیت اور جلال و کبریائی کا اظہار فرمایا تو اُن رعونت و خشونت کے پیکروں کی آنکھوں سے نفرت کے شعلے بلند ہونے لگے، اصنام پرستی کے خلاف ایک نامانوس اعلان سُن کر وہ مغلوب الغضب ہوگئے۔ خود پرستی و خود فریبی کے وہ بندگان طاغوت نہیں جانتے تھے کہ جو خیرالخلائق ہستی ہمیں دعوت حق دے رہی ہے وہ وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین اور انک لعلی خلق عظیم کے رفیع الشان مرتبے پر فائز ہے اور جس کے ذکر جمیل کی رفعت و اوج کا ذمہ خود خالق و مالک کائنات نے اپنے ذمے لے رکھا ہے۔ بصارت و بصیرت سے محروم اُن اوباشوں نے رحمۃ للعالمینؐ کے ساتھ جو سنگ دلانہ و سوقیانہ سلوک روا رکھا اُس کی ایک ادنیٰ سی جھلک بھی تابانی سحر پر پڑتی تو وہ دوبارہ ظلمت شب میں تبدیل ہوجاتی۔ اس وحشت و بربریت پر جب چشم فلک نوحہ کُناں ہوئی تو رحمت و غیرت خداوندی جوش میں آگئی، فرشتہ جبال حاضر ہوا، عرض کیا: آقا ﷺ میں فرستادہِ خداوندی ہوں اگر حکم ہو تو خطہِ طائف کو دو پہاڑوں کے درمیان دفن کر دوں۔ میری ہزار جان آمنہ کے دُرِیتیم ﷺ پر قربان جسمِ اطہر کا ہر ایک حصہ خون میں تر بہ تر ہونے کے باوجود اُن کی ہدایت کے لیے دست دعا بلند کردیا۔ ایسا لطف و عنایتِ عظیم لامحالہ ظرفِ نبوت ِ محمدیؐ کا اظہار ہی ہوسکتا تھا۔
سلام اُس پر کہ اسرارِ محبت جس نے سمجھائے
سلام اُس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
آپؐ کی غایت ِ شانِ عفو و درگزر کا دوسرا بڑا اظہار فتح مکہ کے موقع پر ہوا، جب کائنات عرب و عجم کا بوریا نشین شہنشاہ ﷺ فاتح بن کر اپنے مولد میں داخل ہوا۔ خدائے عزوجل کی توحید و کبریائی کا اظہار کرتے ہوئے آمنہ کے دُرِیتیم ﷺ اونٹ پر سوار عجز و مسکنت کا پیکر بنے تشریف لا رہے ہیں، انتہائے انکسار یہ کہ حضور سرور عالمؐ کی گردن مبارک خم ہوتے ہوئے اونٹ کی کوہان کو چُھو رہی تھی، دوسری جانب حضورؐ اور آپؐ کے رفقاء پر جبر کے پہاڑ توڑنے والے کفار کپکپاتے ہونٹوں اور تھرتھراتی ٹانگوں اور پلکوں پر تیرتے آنسوؤں کے ساتھ عنایت و نوازش کی امید لیے سامنے کھڑے ہیں۔ اُس وقت اُن کے کبر و غرور کا لاشہ رحمۃ للعالمینؐ کی نعلین مبارک میں پڑا سسک رہا تھا۔ جاہ و جلال اور تمکنت کا خواہش مند اور منتقم مزاج کوئی فاتح ہوتا تو اپنے اعدا کی سروں کی فصلیں کاٹ کر اُن کے اجساد کو درندوں کے آگے ڈال دیتا مگر یہاں فاتح وہ سرتاپا خُلقِ عظیم ہستی تھی جس کے سر اقدس پر رحمت دو عالم ﷺ کا مرصع تاج ضوفگن تھا، جس کی تابش سے شبِ تارِ الست جگمگا رہی تھی۔
وہ اک اُمی کہ ہر دانش کو چمکاتا ہوا آیا
وہ اک دامان ِ رحمت پھول برساتا ہوا آیا
تیرے در کے سوا آسودگیِ دل کہاں ملتی
زمانہ تیرے در پہ ٹھوکریں کھاتا ہوا آیا
آپؐ کے فیض عمیم سے ہر دشمن ِ جاں کی تشنگی بجھی۔ حضور ؐ نے ہبار تک کو معاف فرما دیا حالاں کہ اُس بدبختِ ازلی نے جگر گوشہِ رسولؐ سیدہ زینبؓ کو بڑی بے دردی سے شہید کر دیا تھا، آپؓ اُس وقت مکہ سے مدینے ہجرت کے لیے عازم سفر تھیں اور امید سے تھیں اور پھر اسی صدمے سے شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئیں۔ ہندہ بھی حضورؐ کے دریائے جود و رحمت سے بہرہ یاب ہوئی، اُس نے صرف حضور ؐ کے سب سے محبوب چچا ضیغم ِ اسلام سیدنا حمزہ ؓ کو شہید کروایا بل کہ اُس کی شقاوت ِ قلبی اس حد تک چلی گئی کہ سیدنا حمزہ ؓ کا کلیجہ تک چبا ڈالا، حضورؐ کو اپنے عزیز ترین چچا کے جسد ِ خاکی کی اس بے توقیری و بے حُرمتی پر بے حد رنج ہوا مگر حضورؐ کا بے مثال عفو و اغماض ابرِ باراں بن کر برستا رہا۔ کلید بردارِ کعبہ عثمان بن طلحہؓ جیسا خود پرست اور انانیت پرست انسان بھی زمرہ لا یحزنوں میں آگیا اُس نے مکہ سے مدینہ ہجرت کے وقت حضورؐ کو حرمِ حدود میں داخل ہوتے وقت کلید کعبہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ آپؐ نے ملال انگیز لہجے میں ارشاد فرمایا: عثمان میری عمیق نگاہیں وہ وقت دیکھ رہی ہیں جب کلید کعبہ دستِ محمد ﷺ میں ہوگی اور تم مجھ سے طلب کرو گے، فتح مکہ کے موقع پر دیکھو یہ کیا ہے۔ عثمان نے ندامت آگیں نظروں کو جھپکتے ہوئے کہا: آقا ؐ یہ کلید کعبہ ہے۔ حضور ؐ کی شان استغنا دیکھیے، فرمایا: جاؤ آج سے یہ کلید تمہارے پاس رہے گی۔
یہ تھیں عطر محبت کی وہ شمیم انگیزیاں جن سے عرب کی فضا معطر ہوئی۔
یوں تو خدائے عزوجل نے اپنے حبیب مکرم ؐ کو اتنے لامحدود و لامثال محامد و محاسن اور خوبیوں سے متصف فرمایا جن کا احاطہ کرنا کسی بھی صاحب دانش و بصیرت اور صاحب قلم کے بس کی بات نہیں۔ ان عدیم النظیر اوصاف و کمالات کے اعتراف و اظہار کا حق بہ جز زبان قدرت کے ادا نہیں ہوسکتا۔ حسنِ یوسف، دم عیسیٰ یدبیضا ایسی اعجاز و خوبیاں تنہا آقائے گیتی پناہؐ کی ذاتِ اقدس میں رواں دواں نظر آتی ہیں۔
حضور سرور کائناتؐ کی شان رحمۃ للعالمینی اور عفو و در گزر کی انتہاؤں کے سبب اعدائے اسلام جس کثرت و سرعت سے حلقہ بہ گوشِ اسلام ہوئے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس بحر خُلقِ عظیم کی وجد آفرین موجوں نے معاندین خدا و مصطفیؐ کو ایک احساس پشیمانی و ندامت کے ساتھ حضورؐ کی طرح دار زلفوں کا اسیر بننے پر مجبور کردیا۔ یوں تو تاریخ اسلام آپؐ کی بے کراں شفقت و محبت کے واقعات سے بھری پڑی ہے مگر اس کا پہلا اظہار سفر طائف کے موقع پر ہوا۔
حضور اکرم ﷺ اعلائے کلمۃ الحق کے لیے سرسبز و شاداب شہر طائف تشریف لے گئے لیکن اہل طائف کے قلوب و اذہان شادابیِ اخلاق و محبت سے عنقا تھے۔ آپؐ نے عمائدین شہر کے سامنے اﷲ کی واحدانیت اور جلال و کبریائی کا اظہار فرمایا تو اُن رعونت و خشونت کے پیکروں کی آنکھوں سے نفرت کے شعلے بلند ہونے لگے، اصنام پرستی کے خلاف ایک نامانوس اعلان سُن کر وہ مغلوب الغضب ہوگئے۔ خود پرستی و خود فریبی کے وہ بندگان طاغوت نہیں جانتے تھے کہ جو خیرالخلائق ہستی ہمیں دعوت حق دے رہی ہے وہ وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین اور انک لعلی خلق عظیم کے رفیع الشان مرتبے پر فائز ہے اور جس کے ذکر جمیل کی رفعت و اوج کا ذمہ خود خالق و مالک کائنات نے اپنے ذمے لے رکھا ہے۔ بصارت و بصیرت سے محروم اُن اوباشوں نے رحمۃ للعالمینؐ کے ساتھ جو سنگ دلانہ و سوقیانہ سلوک روا رکھا اُس کی ایک ادنیٰ سی جھلک بھی تابانی سحر پر پڑتی تو وہ دوبارہ ظلمت شب میں تبدیل ہوجاتی۔ اس وحشت و بربریت پر جب چشم فلک نوحہ کُناں ہوئی تو رحمت و غیرت خداوندی جوش میں آگئی، فرشتہ جبال حاضر ہوا، عرض کیا: آقا ﷺ میں فرستادہِ خداوندی ہوں اگر حکم ہو تو خطہِ طائف کو دو پہاڑوں کے درمیان دفن کر دوں۔ میری ہزار جان آمنہ کے دُرِیتیم ﷺ پر قربان جسمِ اطہر کا ہر ایک حصہ خون میں تر بہ تر ہونے کے باوجود اُن کی ہدایت کے لیے دست دعا بلند کردیا۔ ایسا لطف و عنایتِ عظیم لامحالہ ظرفِ نبوت ِ محمدیؐ کا اظہار ہی ہوسکتا تھا۔
سلام اُس پر کہ اسرارِ محبت جس نے سمجھائے
سلام اُس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
آپؐ کی غایت ِ شانِ عفو و درگزر کا دوسرا بڑا اظہار فتح مکہ کے موقع پر ہوا، جب کائنات عرب و عجم کا بوریا نشین شہنشاہ ﷺ فاتح بن کر اپنے مولد میں داخل ہوا۔ خدائے عزوجل کی توحید و کبریائی کا اظہار کرتے ہوئے آمنہ کے دُرِیتیم ﷺ اونٹ پر سوار عجز و مسکنت کا پیکر بنے تشریف لا رہے ہیں، انتہائے انکسار یہ کہ حضور سرور عالمؐ کی گردن مبارک خم ہوتے ہوئے اونٹ کی کوہان کو چُھو رہی تھی، دوسری جانب حضورؐ اور آپؐ کے رفقاء پر جبر کے پہاڑ توڑنے والے کفار کپکپاتے ہونٹوں اور تھرتھراتی ٹانگوں اور پلکوں پر تیرتے آنسوؤں کے ساتھ عنایت و نوازش کی امید لیے سامنے کھڑے ہیں۔ اُس وقت اُن کے کبر و غرور کا لاشہ رحمۃ للعالمینؐ کی نعلین مبارک میں پڑا سسک رہا تھا۔ جاہ و جلال اور تمکنت کا خواہش مند اور منتقم مزاج کوئی فاتح ہوتا تو اپنے اعدا کی سروں کی فصلیں کاٹ کر اُن کے اجساد کو درندوں کے آگے ڈال دیتا مگر یہاں فاتح وہ سرتاپا خُلقِ عظیم ہستی تھی جس کے سر اقدس پر رحمت دو عالم ﷺ کا مرصع تاج ضوفگن تھا، جس کی تابش سے شبِ تارِ الست جگمگا رہی تھی۔
وہ اک اُمی کہ ہر دانش کو چمکاتا ہوا آیا
وہ اک دامان ِ رحمت پھول برساتا ہوا آیا
تیرے در کے سوا آسودگیِ دل کہاں ملتی
زمانہ تیرے در پہ ٹھوکریں کھاتا ہوا آیا
آپؐ کے فیض عمیم سے ہر دشمن ِ جاں کی تشنگی بجھی۔ حضور ؐ نے ہبار تک کو معاف فرما دیا حالاں کہ اُس بدبختِ ازلی نے جگر گوشہِ رسولؐ سیدہ زینبؓ کو بڑی بے دردی سے شہید کر دیا تھا، آپؓ اُس وقت مکہ سے مدینے ہجرت کے لیے عازم سفر تھیں اور امید سے تھیں اور پھر اسی صدمے سے شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئیں۔ ہندہ بھی حضورؐ کے دریائے جود و رحمت سے بہرہ یاب ہوئی، اُس نے صرف حضور ؐ کے سب سے محبوب چچا ضیغم ِ اسلام سیدنا حمزہ ؓ کو شہید کروایا بل کہ اُس کی شقاوت ِ قلبی اس حد تک چلی گئی کہ سیدنا حمزہ ؓ کا کلیجہ تک چبا ڈالا، حضورؐ کو اپنے عزیز ترین چچا کے جسد ِ خاکی کی اس بے توقیری و بے حُرمتی پر بے حد رنج ہوا مگر حضورؐ کا بے مثال عفو و اغماض ابرِ باراں بن کر برستا رہا۔ کلید بردارِ کعبہ عثمان بن طلحہؓ جیسا خود پرست اور انانیت پرست انسان بھی زمرہ لا یحزنوں میں آگیا اُس نے مکہ سے مدینہ ہجرت کے وقت حضورؐ کو حرمِ حدود میں داخل ہوتے وقت کلید کعبہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ آپؐ نے ملال انگیز لہجے میں ارشاد فرمایا: عثمان میری عمیق نگاہیں وہ وقت دیکھ رہی ہیں جب کلید کعبہ دستِ محمد ﷺ میں ہوگی اور تم مجھ سے طلب کرو گے، فتح مکہ کے موقع پر دیکھو یہ کیا ہے۔ عثمان نے ندامت آگیں نظروں کو جھپکتے ہوئے کہا: آقا ؐ یہ کلید کعبہ ہے۔ حضور ؐ کی شان استغنا دیکھیے، فرمایا: جاؤ آج سے یہ کلید تمہارے پاس رہے گی۔
یہ تھیں عطر محبت کی وہ شمیم انگیزیاں جن سے عرب کی فضا معطر ہوئی۔