بنت حوا کا مقدر

مرد عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ زیادہ قابل احترام سمجھا جاتا ہے لیکن عورت کو فراموش کردیا جاتا ہے۔

KARACHI:
چاردن قبل ایک خوش کن خبر پاکستان کے حوالے سے یہ چھپی ہے کہ ایک بھارتی اخبار نے دنیا بھر کی گلیمرس خواتین کی جو فہرست مرتب کی ہے اس میں ایک پاکستانی وفاقی وزیر صاحبہ کو پہلا نمبر دیا ہے۔ میں نے اس خبر کو خوش کن خبر اس لیے کہا کہ جہاں اخبارات میں سب سے اوپر یہ خبر شایع ہوئی ہے، وہیں نیچے قتل و غارت گری اور دہشت گردی کی خبریں بھی ہیں اور صدر مملکت کا وہ بیان لیڈنگ نیوز کے ساتھ چھپا ہے جس میں پانچ سال پورے ہونے کے باوجود حکومت اب تک کراچی کے مسئلے کا غیر روایتی حل تلاش کرنے کی تجویز پیش کر رہی ہے۔

دنیا کی گلیمرس خاتون پاکستان میں پائی جاتی ہیں اورکیوں نہ پائی جائیں جب کروڑوں کی جیولری، لاکھوں کا پرس، چشمہ اور جوتے موجود ہوں تو وہ کیوں نہ گلیمر کی دنیا میں سرفہرست ٹھہرائی جائیں؟ ویسے میرے خیال میں بھارتی اخبارات کی معلومات اس معاملے میں خاصی ناقص ہیں کیونکہ انھوں نے صرف اس پاکستانی وزیر کے جلوؤں کو دیکھا جسے بھارتی کیمروں نے نمایاں کیا۔ چلیے یونہی سہی ہمیں تو خوشی بس یہ ہے کہ کہیں تو پاکستان سرفہرست ٹھہرا۔

البتہ اگر دونوں ملکوں میں آزادانہ آمدورفت بحال ہوجائے تو یقیناً اس فہرست میں اضافہ ہوجائے گا کیونکہ پھر ہماری وزیرخواتین اور سرکاری وفود میں شامل ارکان اسمبلی سے لے کر بڑے بڑے سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کی بیگمات بھی اس دوڑ میں شریک ہوجائیں گی اور دنیا بھر کی گلیمرس خواتین میں پاکستان کی امیر ترین اور مالدار خواتین کا اضافہ ہوجائے گا۔

خبر پڑھتے پڑھتے میری نظروں میں بھوربن کی ایک چرواہی گھوم گئی اور میں نے سوچا کہ اگر کسی اخباری نمائندے نے اس کو دیکھا ہوتا تو شاید اس فہرست میں اس کا نمبر پہلا ضرور ہوتا کہ میک اپ سے بے نیاز گلابی چہرہ جس پر قدرتی شفق کی سرخی پھیلی ہوئی تھی،سرخ ہونٹ،لمبی ستواں ناک،غزالی آنکھیں، سیدھے سادے بال جو کمر پہ ایک چوٹی کی شکل میں گندھے تھے۔

ڈھیلے ڈھالے لباس میں سر پر دوپٹے کا بکل مارے درخت کے نیچے کھڑی اپنی بکریوں کو کچھ کھلا رہی تھی اور میں مبہوت ہوکر اس کے معصوم چہرے کو تک رہی تھی، جو ریاکاری اور بناوٹ سے پاک تھا اور اسے اپنے حسن کا احساس بھی نہ تھا۔ مگر اس کی قسمت ایسی کہاں؟ شہرت، ایوارڈ، نام وری کے لیے پیسہ بہت ضروری ہے، اقتدار ضروری ہے، دولت ضروری ہے، وہ تو بس حسن خداداد کی دولت سے معمور تھی، نہ اسمبلی کی رکن تھی، نہ کوئی امیرزادی، نہ ہی ٹی وی اسکرین پر جلوے بکھیرنے والی کوئی اداکارہ۔ جس کا اصلی چہرہ کبھی کسی نے دیکھا ہی نہ ہو۔

پھر بھی میں خوش ہوں کہ کہیں تو ہمارے ملک کا نام مثبت انداز میں آیا۔ ورنہ ہماری پہچان تو اب جوزف کالونی اور عیسیٰ نگری پر حملوں کی وجہ سے ہے۔ لیکن اگر صرف خواتین کے حوالے سے بات کی جائے تو یہاں وہ عورت بھی ہے جو سڑک پر جھاڑو دیتی ہے، بازار میں سبزی اور پھل فروخت کرتی ہے، گھروں میں برتن دھوتی ہے، صفائی کرتی ہے، اسکول کالج اور یونیورسٹی میں پڑھاتی ہے، بچے پالتی ہے، دفتروں میں کام کرتی ہے، مزدوری کرتی ہے، پتھر توڑتی ہے، کھیت اور کھلیانوں میں مردوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے، بیوہ ہوجائے تو بچوں کو پانے کے لیے ہر چھوٹا موٹا کام کرلیتی ہے اور کبھی کبھی غربت اور افلاس کے ہاتھوں بچوں اور گھر والوں کا پیٹ بھرنے اور انھیں بہتر زندگی دینے کے لیے بازار میں بھی بیٹھ جاتی ہے۔


سربازار رسوا ہوکر بھی اپنے بچوں کی فکر کرتی ہے۔ منٹو کے افسانے کی ہیروئن تانگہ چلانا چاہتی تھی، لیکن اسے تانگہ چلانے کا لائسنس تو نہ ملا، البتہ کوٹھے پر بیٹھنے کا اجازت نامہ ضرور مل گیا۔ آج سنگلاخ اور لہو لہو کراچی کی بیٹیاں رکشہ چلا رہی ہیں اور گھر والوں کا پیٹ بھر رہی ہیں۔ یہ ہیں پاکستان کی اصل نمائندہ عورتیں جنھیں کوئی کیمرہ قید نہیں کرتا، کوئی اخبار اپنے صفحات میں جگہ نہیں دیتا، کوئی ان کی دکھ بھری زندگیوں سے نقاب نہیں اٹھاتا، کیونکہ یہ کوئی فیشن شو تو ہے نہیں جو اس کی آڑ میں کیٹ واک کرتی ماڈلز بڑے بڑے بزنس ٹائیکون کو اپنی اداؤں سے راغب کرکے زندگی میں سارے رنگ بھرلیں۔

پاکستان میں عورت نام ہے صرف ایک سجی سجائی گڑیا کا، جو نہ صرف کم عمر ہو بلکہ اور بھی بہت سے ہنر جانتی ہو۔ جسے اسکرین پر صرف شوپیس کی حیثیت سے پیش کیا جاسکے، جسے یہ بھی نہ معلوم ہو کہ اس کے مقابل بیٹھی شخصیت کا قد کاٹھ کیا ہے، اس کی وجہ شہرت کیا ہے، زرق برق لباس اور دلہنوں والے میک اپ اور جیولری سے لدی پھندی نمائشی خواتین کے ہاتھوں میں پروگرام سے چند منٹ پہلے ایک سوال نامہ پکڑا دیا جاتا ہے اور وہ اٹک اٹک کر سوال پوچھتی رہے۔ صنفی امتیاز جس طرح پاکستان میں زندگی کے ہر شعبے میں روا رکھا جاتا ہے اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ کیونکہ یہ مردوں کی دنیا ہے۔ جن کی نظروں کی آسودگی کے لیے سجے سجائے مجسمے اور ڈیکوریشن پیس ضروری ہیں۔

ورنہ کیا وجہ ہے کہ مرد کی جوں جوں عمر بڑھتی ہے وہ اپنے تجربے، لیاقت اور قابلیت کی بنا پر زیادہ قابل احترام سمجھا جاتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے، لیکن جب کوئی عورت اپنی لیاقت، صلاحیت اور قابلیت کے ساتھ ساتھ عمر کی منزلیں طے کرتی ہے تو سب کچھ فراموش کردیا جاتا ہے اور صرف شکل اور عمر مدنظر رکھی جاتی ہے، کیونکہ عورت آج بھی صرف ایک ڈیکوریشن پیس ہے، وہ عمر رسیدہ مرد جو قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں وہ بھی سجی سجائی گڑیوں کی محفل میں توانائی محسوس کرنے لگتے ہیں۔ یہاں عورت بوڑھی ہوتی ہے، مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا۔ اسی لیے عمر رسیدہ مرد ہر جگہ اور ہر میدان میں براجمان نظر آتے ہیں، لیکن اپنی تمام تر علمی لیاقت اور قابلیت کے باوجود خواتین کے لیے کوئی میدان نہیں کھلا۔ ہر جگہ انھیں صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

دور کیوں جایئے اس پاکستانی عمر رسیدہ عورت کو دیکھیے جو اپنی جوانی اور زندگی کے بہترین دن شوہر اور بچوں کے لیے وقف کردیتی ہے، لیکن جب بوڑھی ہوجاتی ہے تو اسے سگی اولاد خصوصاً بیٹے، بہوئیں، پوتے، پوتیاں، نواسے، نواسیاں ایک بے کار شے سمجھ کر ہتک آمیز سلوک روا رکھتے ہیں۔ خاص کر وہ عمر رسیدہ عورتیں زیادہ تر ذہنی اور جسمانی اذیت کا شکار ہوتی ہیں جو اپنی معاشی ضروریات کے لیے اولاد کی دست نگر ہوتی ہیں، وہ کیا کریں۔ میرے واقف کاروں میں ایک خوش شکل، ادبی ذوق کی حامل پڑھی لکھی ایسی خاتون بھی شامل ہیں جن کی شادی کم عمری میں ہوگئی تھی، شوہر اچھے عہدے پر ہونے کے باوجود نہ جانے کیوں کسی احساس کمتری کا شکار تھے کہ پہلے ہی دن سے بیوی کو شک کی نگاہوں سے دیکھنے لگے، بات بات پر طعنے دینا، توہین کرنا اور مارنا پیٹنا سب ہوتا رہا،چار بچے بھی ہوگئے۔

خاتون نے میکے والوں کے اصرار کے باوجود شوہر سے طلاق نہ لی کہ بچے رل جائیں گے۔ بچے بڑے ہوگئے اور اس کے ساتھ ساتھ شوہر کا رویہ مزید تلخ ہوتا گیا۔ لڑائی جھگڑے، مارپیٹ، گالم گلوچ روز مرہ کا معمول بن گیا۔ بچے دو گروپوں میں تقسیم ہوگئے، لیکن سب سے بڑا بیٹا باپ سے اس کے منفی رویے پر احتجاج کرتا تھا اور ماں کا ہمدرد تھا۔ اس طرح اس خاتون کی زندگی بیٹے کے تعاون اور محبت سے آسان ہوگئی تھی۔ اور پھر ایک دن پتہ چلا کہ خاتون کینسر کی مہلک بیماری میں مبتلا ہیں۔ تب ماں کو بیٹے کے سر پر سہرا سجانے کا خیال آیا۔ انھوں نے بڑے چاؤ سے بیٹے کی شادی کی، بہو گھر لائیں۔ اور پھر ان کے خواب بھی بہت سی دوسری ماؤں کی طرح بکھر گئے۔ جاں نثار بیٹا اجنبی بن گیا، اور پھر ایک اور ستم ہوا کہ تین مہینے پہلے ان کے شوہر نے انھیں طلاق دے دی۔

بیٹا جو شادی کے فوراً بعد بیوی کی خواہش پر الگ ہوگیا تھا وہ ماں کو فوری طور پر گھر لے آیا۔ لیکن بہو بیگم نے وہ فساد مچایا کہ دس بارہ دن بعد ہی وہ اپنی بیوہ ماہ کے در پر جا بیٹھیں، جو خود لاچار ہیں۔ اس بدنصیب ماں کو بیٹے کے گھر کے کچن میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ اپنی مرضی سے چائے بنا کے نہیں پی سکتی تھیں، کسی چیز کو بہو کی اجازت کے بغیر ہاتھ نہیں لگا سکتی تھیں، اب وہ لاچار و بے بس ہیں اور کسی پناہ گاہ کی تلاش میں ہیں۔ بیٹے نے ماں کو گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ وہ کہاں جائیں، کیا کریں؟ کیا ایسی عورتوں کے لیے بھی کوئی سوچتا ہے؟ ان کے لیے کوئی پناہ گاہ نہیں ہے، کاش! اسمبلی میں بیٹھنے والی خواتین کوئی ایسا ادارہ بنوا دیتیں جہاں بے سہارا عورتیں کچھ کام کرکے عزت سے رہ سکیں۔
Load Next Story