تازہ ہوا بہار کی جی کا ملال لے گئی
کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر’’ڈرامیٹک کلب‘‘ کا نام بھی بزم ادب یا اس کے کسی متبادل کی طرح متروک لفظ بنتا جا رہا ہے۔
KARACHI:
گزشتہ دنوں مجھے دو مختلف تقریبات میں طلبا و طالبات کے ترتیب دیئے ہوئے چار ڈرامچے اور ایک مکمل اسٹیج ڈرامہ دیکھنے کا موقع ملا ہے جن کا ذکر کئی حوالوں سے ضروری ہے۔ سیاسی بدنظمی اور مذہبی شدت پسندی کے علاوہ جو تیسرا بڑا مسئلہ نئی نسل بالخصوص اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکوں اور لڑکیوں کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے، وہ اظہار کے مثبت ذرایع اور پلیٹ فارموں کی شدید کمی ہے کہ اب کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر ''ڈرامیٹک کلب'' کا نام بھی بزم ادب یا اس کے کسی متبادل کی طرح ایک متروک لفظ کی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
اسکولوں کی چھوٹی جماعتوں کے سالانہ پروگراموں میں کچھ ٹیبلو نما آئٹمز سے قطع نظر وہاں بھی ڈرامے کے حوالے سے ایک سناٹا سا طاری ہے یعنی اب ہماری نوجوان نسل کے لیے آئوٹ ڈور کے ساتھ ساتھ ان ڈور ہم نصابی سرگرمیاں بھی تیزی سے ختم ہوتی جارہی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ نسلیں اخلاقیات، جمالیات ادب، علاقائی اور قومی تہذیبی ورثے اور کھیلوں سے فروغ پانے والی ٹیم اسپرٹ سے کٹ کر معاشرے کے سمندر کا حصہ بننے کے بجائے نامعلوم جزیروں کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہو رہا ہے اور اس کی ذمے داری کس کس پر عائد ہوتی ہے اس کا ذکر تو ہم سب لکھنے والے دن رات کرتے رہتے ہیں اور اس نسبت سے اب ہمارا حال داغ کے اس شعر جیسا ہوچکا ہے کہ؎
کچھ اور بات بھی اے داغ تم کو آتی ہے
وہی بتوں کی شکایت، وہی گلہ دل کا
سو اس وقت میں اس بحث میں پڑے بغیر اس خوشگوار تجربے اور اس سے حاصل شدہ حیرت اور مسرت پر بات کرنا چاہتا ہوں جو مجھے ان دو پروگراموں میں شرکت کرکے حاصل ہوئی اور جو اپنے اندر سراسر مثبت امکانات سمیٹے ہوئے تھیں۔ پہلا پروگرام 23 مارچ یوم پاکستان کے حوالے سے یونیورسٹی کی سطح کی چار ڈرامیٹک سوسائٹیوں کے بنائے ہوئے وہ مختصر کھیل تھے جن کو پی ٹی وی لاہور کے اسٹوڈیوز میں پیش اور ریکارڈ کیا گیا اور جن کی درجہ بندی کے لیے عثمان پیرزادہ، بینا جواد اور مجھے بطور مصنف اور ممبران جیوری مدعو کیا گیا تھا۔
یہ مقابلہ ایک مخصوص تھیم اور موضوع یعنی 23 مارچ کے حوالے سے ترتیب دیا گیا تھا (جس کا دورانیہ تقریباً دس منٹ کے ایک ون ایکٹ کھیل کا تھا) اس لیے یہ چاروں مختصر کھیل جنھیں ڈرامچے کہنا زیادہ مناسب ہوگا، اپنے موضوع اور مواد کے اعتبار سے ایک مخصوص یکسانیت کے حامل تھے لیکن داد دی جانی چاہیے ان تمام پیش کاروں کو کہ چاروں کھیل وحدت میں کثرت کی جلوہ آرائی کے مظہر تھے اور سب نے اپنے اپنے انداز میں یوم پاکستان کے حوالے سے نئی نسل کی سوچ، امنگوں، مایوسیوں اور خواہشات کو پیش کیا تھا جب کہ پرانی نسل کے لیے یہ ایک طرح کے ناسٹلجیا Nostalgia کی حیثیت رکھتے تھے۔
حصہ لینے والوں میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور، نیشنل کالج آف آرٹس لاہور، اسکول آف آرٹ اینڈ ڈیزائن پنجاب یونیورسٹی لاہور اور گجرات یونیورسٹی کی ٹیمیں شامل تھیں۔ ہم منصفین کو پرفارمنس کے بعد بھارتی چینلز کے موسیقی کے مقابلوں کے ججوں کی طرح اپنی رائے کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ حاصل کردہ نمبروں کی تختیاں بھی کیمرہ کو دکھانا پڑتی تھیں کہ یہ فارمیٹ پہلے سے طے شدہ تھا۔ اس پر ایک بار پھر میرا دھیان کوریا اور پاکستان کے رشتے کی طرف گیا کہ ساٹھ کی دہائی میں وہ لوگ ہم سے سیکھتے تھے اور اب ہم ان کی ''شاگردی'' اختیار کیے بیٹھے ہیں۔
معاف کیجیے گا بات کا رخ پھر داغ کے متذکرہ بالا شعر کی طرف ہوگیا تو میں عرض یہ کرنا چاہ رہا تھا کہ ان نوجوانوں نے نہ صرف خود مل کر ان ڈرامچوں کے اسکرپٹ تیار کیے بلکہ ان کی ڈائریکشن، پروڈکشن، سیٹ ڈیزائننگ اور پرفارمنس کے تمام شعبوں کی ذمے داری بھی انھی پر تھی جسے بلا شبہ انھوں نے بہت اچھی طرح سے نبھایا، زبان کے استعمال اور تلفظ کی ادائیگی میں کہیں کہیں مقام جنبشِ ابرو کی گنجائش ضرور نکلی مگر اس میں ان نوجوانوں کا قصور اس لیے کم تھا کہ ان لوگوںکے استاد اب ماہرین زبان کے بجائے وہ ٹی وی چینلز ہیں جہاں عوام کو مؤنث، سڑکوں کو روڈوں اور لفظوں کو الفاظوں کہنا ایک فیشن بن چکا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ اگر اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر ہم نصابی سرگرمیوں بالخصوص ادب، ڈرامے اور اسپورٹس کو فرغ دیا جائے تو ہم اپنی نوجوان نسل کو ایک ایسا ماحول مہیا کرسکتے ہیں جس میں ان کے لیے بدشکل روبوٹس بننے کے بجائے خوبصورت اور مہذب ''انسان'' بننے کے مواقع کھلتے اور پھیلتے چلے جائیں گے۔
''خالد کی خالہ'' اس مکمل اسٹیج پلے کا نام تھا جو ہوم اکنامکس کالج کی طالبات نے اپنے کالج کے اسٹیج پر پیش کیا اور جو مشہور انگریزی کھیل Charli's aunt کا آزاد ترجمہ تھا، پرانے وقتوں میں جب خواتین کو اسٹیج پر پرفارم کرنے کی اجازت نہیں تھی تو مرد حضرات ہی عورتوں کا سوانگ بھرا کرتے تھے لیکن یہاں معاملہ الٹ تھا کہ بچیاں ہی داڑھی مونچھیں لگائے اور اپنے لمبے بالوں کو طرح طرح سے چھپائے مردانہ کپڑے پہنے اپنی اداکاری کے جوہر دکھا رہی تھیں۔ یہ مزاحیہ ڈرامہ بنیادی طور پر Comedy of Errors کی تکنیک پر لکھا گیا ہے جس میں ایک جھوٹ سے دوسرا جھوٹ اور ایک مسئلے سے دوسرا مسئلہ پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔
تکنیکی اعتبار سے سب سے مشکل رول ایک کردار مرزا کا تھا جو دونوں مرکزی کرداروں یعنی احمد اور خالد کا دوست ہے (واضح رہے کہ یہ تینوں مردانہ کردار لڑکیاں ہی کررہی تھیں) اور جسے کھیل کی کہانی کے مطابق ایک اور بہروپ یعنی خالد کی خالہ بھی بننا پڑتا ہے جس مہارت اور مستعدی سے ان بچیوں نے کھیل کے مزاج اور Tempo کو برقرار رکھا اسے دیکھ کر یہ یقین کرنا بہت مشکل ہوجاتا تھا کہ یہ پہلی بار ایک ایسے کھیل میں پرفارم کررہی ہیں جو نہ صرف عالمی شہرت کا حامل ہے بلکہ جس کی Slap Stick کامیڈی ماہر اور پیشہ ور اداکاروں کے لیے ابھی ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔
اسٹیج ڈرامہ اس کالج کی ایک ایسی روایت ہے جس کا تسلسل گزشتہ کچھ برسوں سے ٹوٹا ہوا تھا، سو داد دینی چاہیے کالج کی پرنسپل اور ان کے رفقائے کار کو کہ انھوں نے اس پرآشوب زمانے میں بھی اس خوبصورت روایت کا احیاء کیا اور نوجوان نسل کو اپنی صلاحیتوںکے اظہار کا ایک ایسا موقع مہیا کیا جس سے نہ صرف ان کی شخصیت بلکہ معاشرے کے عمومی مزاج میں بھی ایک ایسا ٹھہرائو پیدا ہوگا جس کی اس وقت بوجوہ معمول سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔
گزشتہ دنوں مجھے دو مختلف تقریبات میں طلبا و طالبات کے ترتیب دیئے ہوئے چار ڈرامچے اور ایک مکمل اسٹیج ڈرامہ دیکھنے کا موقع ملا ہے جن کا ذکر کئی حوالوں سے ضروری ہے۔ سیاسی بدنظمی اور مذہبی شدت پسندی کے علاوہ جو تیسرا بڑا مسئلہ نئی نسل بالخصوص اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکوں اور لڑکیوں کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے، وہ اظہار کے مثبت ذرایع اور پلیٹ فارموں کی شدید کمی ہے کہ اب کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر ''ڈرامیٹک کلب'' کا نام بھی بزم ادب یا اس کے کسی متبادل کی طرح ایک متروک لفظ کی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
اسکولوں کی چھوٹی جماعتوں کے سالانہ پروگراموں میں کچھ ٹیبلو نما آئٹمز سے قطع نظر وہاں بھی ڈرامے کے حوالے سے ایک سناٹا سا طاری ہے یعنی اب ہماری نوجوان نسل کے لیے آئوٹ ڈور کے ساتھ ساتھ ان ڈور ہم نصابی سرگرمیاں بھی تیزی سے ختم ہوتی جارہی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ نسلیں اخلاقیات، جمالیات ادب، علاقائی اور قومی تہذیبی ورثے اور کھیلوں سے فروغ پانے والی ٹیم اسپرٹ سے کٹ کر معاشرے کے سمندر کا حصہ بننے کے بجائے نامعلوم جزیروں کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہو رہا ہے اور اس کی ذمے داری کس کس پر عائد ہوتی ہے اس کا ذکر تو ہم سب لکھنے والے دن رات کرتے رہتے ہیں اور اس نسبت سے اب ہمارا حال داغ کے اس شعر جیسا ہوچکا ہے کہ؎
کچھ اور بات بھی اے داغ تم کو آتی ہے
وہی بتوں کی شکایت، وہی گلہ دل کا
سو اس وقت میں اس بحث میں پڑے بغیر اس خوشگوار تجربے اور اس سے حاصل شدہ حیرت اور مسرت پر بات کرنا چاہتا ہوں جو مجھے ان دو پروگراموں میں شرکت کرکے حاصل ہوئی اور جو اپنے اندر سراسر مثبت امکانات سمیٹے ہوئے تھیں۔ پہلا پروگرام 23 مارچ یوم پاکستان کے حوالے سے یونیورسٹی کی سطح کی چار ڈرامیٹک سوسائٹیوں کے بنائے ہوئے وہ مختصر کھیل تھے جن کو پی ٹی وی لاہور کے اسٹوڈیوز میں پیش اور ریکارڈ کیا گیا اور جن کی درجہ بندی کے لیے عثمان پیرزادہ، بینا جواد اور مجھے بطور مصنف اور ممبران جیوری مدعو کیا گیا تھا۔
یہ مقابلہ ایک مخصوص تھیم اور موضوع یعنی 23 مارچ کے حوالے سے ترتیب دیا گیا تھا (جس کا دورانیہ تقریباً دس منٹ کے ایک ون ایکٹ کھیل کا تھا) اس لیے یہ چاروں مختصر کھیل جنھیں ڈرامچے کہنا زیادہ مناسب ہوگا، اپنے موضوع اور مواد کے اعتبار سے ایک مخصوص یکسانیت کے حامل تھے لیکن داد دی جانی چاہیے ان تمام پیش کاروں کو کہ چاروں کھیل وحدت میں کثرت کی جلوہ آرائی کے مظہر تھے اور سب نے اپنے اپنے انداز میں یوم پاکستان کے حوالے سے نئی نسل کی سوچ، امنگوں، مایوسیوں اور خواہشات کو پیش کیا تھا جب کہ پرانی نسل کے لیے یہ ایک طرح کے ناسٹلجیا Nostalgia کی حیثیت رکھتے تھے۔
حصہ لینے والوں میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور، نیشنل کالج آف آرٹس لاہور، اسکول آف آرٹ اینڈ ڈیزائن پنجاب یونیورسٹی لاہور اور گجرات یونیورسٹی کی ٹیمیں شامل تھیں۔ ہم منصفین کو پرفارمنس کے بعد بھارتی چینلز کے موسیقی کے مقابلوں کے ججوں کی طرح اپنی رائے کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ حاصل کردہ نمبروں کی تختیاں بھی کیمرہ کو دکھانا پڑتی تھیں کہ یہ فارمیٹ پہلے سے طے شدہ تھا۔ اس پر ایک بار پھر میرا دھیان کوریا اور پاکستان کے رشتے کی طرف گیا کہ ساٹھ کی دہائی میں وہ لوگ ہم سے سیکھتے تھے اور اب ہم ان کی ''شاگردی'' اختیار کیے بیٹھے ہیں۔
معاف کیجیے گا بات کا رخ پھر داغ کے متذکرہ بالا شعر کی طرف ہوگیا تو میں عرض یہ کرنا چاہ رہا تھا کہ ان نوجوانوں نے نہ صرف خود مل کر ان ڈرامچوں کے اسکرپٹ تیار کیے بلکہ ان کی ڈائریکشن، پروڈکشن، سیٹ ڈیزائننگ اور پرفارمنس کے تمام شعبوں کی ذمے داری بھی انھی پر تھی جسے بلا شبہ انھوں نے بہت اچھی طرح سے نبھایا، زبان کے استعمال اور تلفظ کی ادائیگی میں کہیں کہیں مقام جنبشِ ابرو کی گنجائش ضرور نکلی مگر اس میں ان نوجوانوں کا قصور اس لیے کم تھا کہ ان لوگوںکے استاد اب ماہرین زبان کے بجائے وہ ٹی وی چینلز ہیں جہاں عوام کو مؤنث، سڑکوں کو روڈوں اور لفظوں کو الفاظوں کہنا ایک فیشن بن چکا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ اگر اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر ہم نصابی سرگرمیوں بالخصوص ادب، ڈرامے اور اسپورٹس کو فرغ دیا جائے تو ہم اپنی نوجوان نسل کو ایک ایسا ماحول مہیا کرسکتے ہیں جس میں ان کے لیے بدشکل روبوٹس بننے کے بجائے خوبصورت اور مہذب ''انسان'' بننے کے مواقع کھلتے اور پھیلتے چلے جائیں گے۔
''خالد کی خالہ'' اس مکمل اسٹیج پلے کا نام تھا جو ہوم اکنامکس کالج کی طالبات نے اپنے کالج کے اسٹیج پر پیش کیا اور جو مشہور انگریزی کھیل Charli's aunt کا آزاد ترجمہ تھا، پرانے وقتوں میں جب خواتین کو اسٹیج پر پرفارم کرنے کی اجازت نہیں تھی تو مرد حضرات ہی عورتوں کا سوانگ بھرا کرتے تھے لیکن یہاں معاملہ الٹ تھا کہ بچیاں ہی داڑھی مونچھیں لگائے اور اپنے لمبے بالوں کو طرح طرح سے چھپائے مردانہ کپڑے پہنے اپنی اداکاری کے جوہر دکھا رہی تھیں۔ یہ مزاحیہ ڈرامہ بنیادی طور پر Comedy of Errors کی تکنیک پر لکھا گیا ہے جس میں ایک جھوٹ سے دوسرا جھوٹ اور ایک مسئلے سے دوسرا مسئلہ پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔
تکنیکی اعتبار سے سب سے مشکل رول ایک کردار مرزا کا تھا جو دونوں مرکزی کرداروں یعنی احمد اور خالد کا دوست ہے (واضح رہے کہ یہ تینوں مردانہ کردار لڑکیاں ہی کررہی تھیں) اور جسے کھیل کی کہانی کے مطابق ایک اور بہروپ یعنی خالد کی خالہ بھی بننا پڑتا ہے جس مہارت اور مستعدی سے ان بچیوں نے کھیل کے مزاج اور Tempo کو برقرار رکھا اسے دیکھ کر یہ یقین کرنا بہت مشکل ہوجاتا تھا کہ یہ پہلی بار ایک ایسے کھیل میں پرفارم کررہی ہیں جو نہ صرف عالمی شہرت کا حامل ہے بلکہ جس کی Slap Stick کامیڈی ماہر اور پیشہ ور اداکاروں کے لیے ابھی ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔
اسٹیج ڈرامہ اس کالج کی ایک ایسی روایت ہے جس کا تسلسل گزشتہ کچھ برسوں سے ٹوٹا ہوا تھا، سو داد دینی چاہیے کالج کی پرنسپل اور ان کے رفقائے کار کو کہ انھوں نے اس پرآشوب زمانے میں بھی اس خوبصورت روایت کا احیاء کیا اور نوجوان نسل کو اپنی صلاحیتوںکے اظہار کا ایک ایسا موقع مہیا کیا جس سے نہ صرف ان کی شخصیت بلکہ معاشرے کے عمومی مزاج میں بھی ایک ایسا ٹھہرائو پیدا ہوگا جس کی اس وقت بوجوہ معمول سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔