ڈور کا دوسرا سرا
جانے کون کسے مار دے کافر کہہ کر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے
یہ شہر پہلے ہی اتنا بھر گیا ہے کہ کسی کو عارضی طور پر یہاں بلانے سے پہلے سو بار سوچنا پڑتا ہے، لیکن اس عادت اور اس تکیہ کلام کا کیا کروں کہ شہر یا ملک سے باہر کسی بھی شخص سے بات ہو رہی ہو تو پوچھتا ہوں ''ہاں تو پھر کراچی کب آ رہے ہو؟'' بالکل ایسا ہی بے مطلب سا سوال جیسا کہ ''اور سناؤ موسم کیسا ہے؟''
پر اب یہ اتنا سادہ معاملہ نہیں رہا۔ یہ ایک سنگین سوال بن چکا ہے۔ میں نے گزشتہ عرصے میں اس کے ایسے ایسے جوابات سنے ہیں کہ برداشت کے پرخچے اڑ گئے ہیں۔ ان میں طعنے بھی ہیں، دھتکار بھی، خوف بھی اور تمسخر بھی۔ سبھی کچھ ہمارے دامن میں ہے اور سب کی خیر ہو کہ یہ اپنی اعلیٰ کارکردگی کا نتیجہ ہے۔ کہتے ہیں تم کس منہ سے بلاتے ہو۔ ڈھنگ کا لباس پہن کر تم نہیں پھر سکتے۔ اچھا موبائل فون گھر پہ چھپا کے رکھتے ہو۔ کلائی کی گھڑی، شادی کی انگوٹھی اور بیوی کا زیور لاکر میں بند ہے۔
گھر میں نئی نسل کی مشینی سواری کھڑی کرنے سے ڈرتے ہو کہ اس میں سڑک پر گھومو تو خود نشانہ اور گھر میں رکھو تو گھر خطرے میں۔ اور برا مت منانا شریف زادیوں کے با رسوخ شکاریوں کی خبر کیا ہے؟ کیا زمانہ جاہلیت سے بھی یہ معاشرہ بدتر ہو سکتا ہے؟ جنت میں ہم بھی نہیں رہتے پر یہ تمہارے لیے تو جنت ہی ہو گی۔ اپنی حوالات اور موت کے کنوئیں سے نکل کے آؤ تو دیکھو کہ آزاد فضا میں سانس لینا کیسا ہوتا ہے اور جی بھر کے نیند کیسے آتی ہے۔
میرے دل کو کراچی سمجھ رکھا ہے تم نے
آتے ہو' جلاتے ہو' چلے جاتے ہو
اب ایسی فضا میں، ماحول میں اور خوف میں شاعری بھی اسی قسم کی ہو رہی ہے اور یہ بھی ملاحظہ فرمائیں، یہ گزشتہ برس سے منظر عام پر ہے۔
جانے کون کسے مار دے کافر کہہ کر
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے
واپس طعنے والی بات کی طرف پلٹتے ہیں۔ میں کیا کروں بس خاموشی سے سن لیتا ہوں، جواب میں کیا بولوں۔ سر جھکا کے چپ ہو لیتا ہوں اور آخری بار تو یہ ''کراچی کب آ رہے ہو؟'' والا تکلفاتی ڈائیلاگ بس نصف ہی ادا ہو سکا۔ باقی میرے گلے میں پھنس گیا۔ اور اس وقت نکلا جب بادامی باغ کی جوزف کالونی کو فتح کیا گیا۔ تب اس طرف منمناتے ہوئے فون آئے۔ بودی صفائیاں پیش کی گئیں اور نتیجہ یہ نکلا کہ امن کہیں نہیں ہے اور امان بھی کہیں نہیں ہے۔ شاید اب یہ دھرتی کسی بارود سی بنی ہوئی ہے۔ اس پہ جہاں بھی، جس شہر میں بھی ایک چنگاری گرے گی، قیامت برپا ہو گی۔
جائیداد کی خرید و فروخت کرنے والا ایک ہنس مکھ نوجوان فرحت مہدی سات برس قبل ہمارے دفتر میں آیا اور ایک معقول رقم کی انویسٹمنٹ کرنے کے لیے اپنا اکاؤنٹ کھولا۔ اس کی رہائش زیادہ دور نہیں تھی لیکن وہ دوسرے لوگوں کی نسبت دفتر میں کم آتا تھا۔ جب کوئی ضروری کام ہوتا یا کاروباری بل وغیرہ وصول کرنا ہوتے تو آتا اور کچھ دیر رک کے چلا جاتا۔ اس عرصے میں اس نے بہت سے دوست بنائے۔ جب بھی آتا ہاؤ ہو کی آوازوں کے ساتھ اس کا استقبال ہوتا اور خوب معانقے ہوتے۔ وہ ایک شعلہ مستعجل تھا۔ اس کے وسیلے سے اس کے کئی دوست بھی ہمارے ہاں چلے آئے تھے۔
کوئی دو برس قبل ایک بار آیا تو بہت اداس تھا۔ کریدا تو معلوم ہوا کہ بڑے بھائی کا اچانک انتقال ہو گیا ہے۔ میں نے تعزیت کی تو اس نے بتایا کہ اس کے بچے چھوٹے ہیں اور اماں کی حالت صدمے سے بہت خراب ہے۔ اس کے بعد وہ جب بھی آیا میں اماں کا حال خصوصی طور پر دریافت کرتا۔ تبھی مجھے اس کے دوستوں سے معلوم ہوا کہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ساتھ اب بھائی کے خاندان کی ساری ذمے داری بھی وہ خود اٹھا رہا ہے اور بخوبی ان کی کفالت کر رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے جمعرات کی صبح میں آفس گیا تو کچھ دیر کے بعد میں نے نوٹس کیا کہ فرحت بھی لوگوں کے درمیان میں ایک صوفے پر بیٹھا ہے۔ میں نے دیکھ کے آواز دی ''ارے فرحت! تم کہاں بھئی؟ اور کیا بات ہے آج اتنی خاموشی سے بیٹھے ہو؟'' وہ بہت دنوں کے بعد دکھائی دیا تھا۔ بولا ''ہاں بس تھوڑی دیر کو آیا ہوں'' یہ میری اس سے آخری ملاقات تھی۔ اس شام مجھے کراچی سے باہر جانا تھا۔
واپس لوٹا تو معلوم ہوا کہ اتوار کی شام فرحت ٹہلتا ہوا گھر سے نکلا، تھوڑی ہی دور فلیٹوں کے نیچے ایک ریسٹورنٹ پر کچھ دوستوں سے اس کی ملاقات طے تھی۔ ایسی میٹنگز پراپرٹی کی ڈیلز کے سلسلے میں آئے دن ہوتی رہتی ہیں۔ وہ اور اس کے دوست وہیں بیٹھے تھے کہ ایک گاڑی میں موت ان کے سامنے پارک کر دی گئی۔ کچھ ہی دیر میں اس میں رکھا ہوا 150 کلوبارود ایک دھماکے سے پھٹ گیا اور ایک قیامت برپا ہو گئی۔ یہ عباس ٹاؤن والا دھماکا تھا۔ اب نہ فرحت اس دنیا میں ہے اور نہ اس کے دوست اور نہ ہی وہ درجنوں لوگ، عورتیں اور بچے جو اس وقت اس پر رونق بازار میں موجود تھے یا اوپر فلیٹوں میں رہتے تھے۔ سیکڑوں افراد زخمی اور بے گھر ہیں۔
میں نے خود جا کے وہ جگہ دیکھی ہے۔ یہ ایک ایسا منظر ہے جسے نہ لکھا جا سکتا ہے اور نہ بیان کیا جا سکتا ہے۔ اخبار میں چھپی تصاویر اور ٹی وی پر چلتی ویڈیوز اس کی شدت دکھانے سے قاصر ہیں۔ یہ دھماکا نہ تو ابوالحسن اصفہانی روڈ پر ہوا ہے اور نہ ہی عباس ٹاؤن میں۔ یہ ان دونوں کو ملانے والی 60 فٹ چوڑی سڑک پر ہوا ہے۔ میں اس سڑک کے درمیان کھڑا تھا اور دونوں طرف کے فلیٹوں کی عمارات ایک ناقابل یقین منظر پیش کر رہی تھیں۔ اتنی چوڑی سڑک پر ہر طرف ایک ہی جیسی بربادی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے یہ کسی جنگ عظیم کا منظر ہے اور مجھے شدید ہوائی بمباری کے بعد وہاں چھوڑ دیا گیا ہے۔ تصویری اور حقیقی منظر میں اتنا واضح فرق ہو سکتا ہے، یہ مجھے وہاں جا کے معلوم ہوا۔
دہشت گردی کی کارروائیاں اس وقت تک دو دھاری تلوار کا کام کرتی ہیں جب تک یہ واضح نہ ہو کہ یہ کام کیا کس نے ہے اور کیوں کیا ہے؟ معلوم ہو جائے تو آدھا مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ڈاکٹر بیماری کو پکڑ لے تو پھر اس کا علاج بھی ہو جاتا ہے۔ میرے خیال میں پہلی بار ایک حوصلہ افزا خبر ہے کہ اس دھماکے کے مجرم پکڑے گئے ہیں اور یہ بھی لگتا ہے کہ اب کی بار حقیقی مجرم ہاتھ آئے ہیں۔ اس الجھی ہوئی ڈور کا دوسرا سرا تلاش کرنا آسان نہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ ہماری جیب میں سارے سکے کھوٹے نہیں ہیں۔ کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی سچے حل کی طرف ضرور لے جائے گا۔ تب ہم ڈٹ کے ایک پر یقین آواز کے ساتھ لوگوں کو اپنے شہر میں آنے کی دعوت دے سکیں گے۔ ایک خوشگوار دعوت۔ ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ عام طور پر چابیوں کے گچھے میں موجود آخری چابی ہی تالا کھولا کرتی ہے۔
پر اب یہ اتنا سادہ معاملہ نہیں رہا۔ یہ ایک سنگین سوال بن چکا ہے۔ میں نے گزشتہ عرصے میں اس کے ایسے ایسے جوابات سنے ہیں کہ برداشت کے پرخچے اڑ گئے ہیں۔ ان میں طعنے بھی ہیں، دھتکار بھی، خوف بھی اور تمسخر بھی۔ سبھی کچھ ہمارے دامن میں ہے اور سب کی خیر ہو کہ یہ اپنی اعلیٰ کارکردگی کا نتیجہ ہے۔ کہتے ہیں تم کس منہ سے بلاتے ہو۔ ڈھنگ کا لباس پہن کر تم نہیں پھر سکتے۔ اچھا موبائل فون گھر پہ چھپا کے رکھتے ہو۔ کلائی کی گھڑی، شادی کی انگوٹھی اور بیوی کا زیور لاکر میں بند ہے۔
گھر میں نئی نسل کی مشینی سواری کھڑی کرنے سے ڈرتے ہو کہ اس میں سڑک پر گھومو تو خود نشانہ اور گھر میں رکھو تو گھر خطرے میں۔ اور برا مت منانا شریف زادیوں کے با رسوخ شکاریوں کی خبر کیا ہے؟ کیا زمانہ جاہلیت سے بھی یہ معاشرہ بدتر ہو سکتا ہے؟ جنت میں ہم بھی نہیں رہتے پر یہ تمہارے لیے تو جنت ہی ہو گی۔ اپنی حوالات اور موت کے کنوئیں سے نکل کے آؤ تو دیکھو کہ آزاد فضا میں سانس لینا کیسا ہوتا ہے اور جی بھر کے نیند کیسے آتی ہے۔
میرے دل کو کراچی سمجھ رکھا ہے تم نے
آتے ہو' جلاتے ہو' چلے جاتے ہو
اب ایسی فضا میں، ماحول میں اور خوف میں شاعری بھی اسی قسم کی ہو رہی ہے اور یہ بھی ملاحظہ فرمائیں، یہ گزشتہ برس سے منظر عام پر ہے۔
جانے کون کسے مار دے کافر کہہ کر
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے
واپس طعنے والی بات کی طرف پلٹتے ہیں۔ میں کیا کروں بس خاموشی سے سن لیتا ہوں، جواب میں کیا بولوں۔ سر جھکا کے چپ ہو لیتا ہوں اور آخری بار تو یہ ''کراچی کب آ رہے ہو؟'' والا تکلفاتی ڈائیلاگ بس نصف ہی ادا ہو سکا۔ باقی میرے گلے میں پھنس گیا۔ اور اس وقت نکلا جب بادامی باغ کی جوزف کالونی کو فتح کیا گیا۔ تب اس طرف منمناتے ہوئے فون آئے۔ بودی صفائیاں پیش کی گئیں اور نتیجہ یہ نکلا کہ امن کہیں نہیں ہے اور امان بھی کہیں نہیں ہے۔ شاید اب یہ دھرتی کسی بارود سی بنی ہوئی ہے۔ اس پہ جہاں بھی، جس شہر میں بھی ایک چنگاری گرے گی، قیامت برپا ہو گی۔
جائیداد کی خرید و فروخت کرنے والا ایک ہنس مکھ نوجوان فرحت مہدی سات برس قبل ہمارے دفتر میں آیا اور ایک معقول رقم کی انویسٹمنٹ کرنے کے لیے اپنا اکاؤنٹ کھولا۔ اس کی رہائش زیادہ دور نہیں تھی لیکن وہ دوسرے لوگوں کی نسبت دفتر میں کم آتا تھا۔ جب کوئی ضروری کام ہوتا یا کاروباری بل وغیرہ وصول کرنا ہوتے تو آتا اور کچھ دیر رک کے چلا جاتا۔ اس عرصے میں اس نے بہت سے دوست بنائے۔ جب بھی آتا ہاؤ ہو کی آوازوں کے ساتھ اس کا استقبال ہوتا اور خوب معانقے ہوتے۔ وہ ایک شعلہ مستعجل تھا۔ اس کے وسیلے سے اس کے کئی دوست بھی ہمارے ہاں چلے آئے تھے۔
کوئی دو برس قبل ایک بار آیا تو بہت اداس تھا۔ کریدا تو معلوم ہوا کہ بڑے بھائی کا اچانک انتقال ہو گیا ہے۔ میں نے تعزیت کی تو اس نے بتایا کہ اس کے بچے چھوٹے ہیں اور اماں کی حالت صدمے سے بہت خراب ہے۔ اس کے بعد وہ جب بھی آیا میں اماں کا حال خصوصی طور پر دریافت کرتا۔ تبھی مجھے اس کے دوستوں سے معلوم ہوا کہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ساتھ اب بھائی کے خاندان کی ساری ذمے داری بھی وہ خود اٹھا رہا ہے اور بخوبی ان کی کفالت کر رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے جمعرات کی صبح میں آفس گیا تو کچھ دیر کے بعد میں نے نوٹس کیا کہ فرحت بھی لوگوں کے درمیان میں ایک صوفے پر بیٹھا ہے۔ میں نے دیکھ کے آواز دی ''ارے فرحت! تم کہاں بھئی؟ اور کیا بات ہے آج اتنی خاموشی سے بیٹھے ہو؟'' وہ بہت دنوں کے بعد دکھائی دیا تھا۔ بولا ''ہاں بس تھوڑی دیر کو آیا ہوں'' یہ میری اس سے آخری ملاقات تھی۔ اس شام مجھے کراچی سے باہر جانا تھا۔
واپس لوٹا تو معلوم ہوا کہ اتوار کی شام فرحت ٹہلتا ہوا گھر سے نکلا، تھوڑی ہی دور فلیٹوں کے نیچے ایک ریسٹورنٹ پر کچھ دوستوں سے اس کی ملاقات طے تھی۔ ایسی میٹنگز پراپرٹی کی ڈیلز کے سلسلے میں آئے دن ہوتی رہتی ہیں۔ وہ اور اس کے دوست وہیں بیٹھے تھے کہ ایک گاڑی میں موت ان کے سامنے پارک کر دی گئی۔ کچھ ہی دیر میں اس میں رکھا ہوا 150 کلوبارود ایک دھماکے سے پھٹ گیا اور ایک قیامت برپا ہو گئی۔ یہ عباس ٹاؤن والا دھماکا تھا۔ اب نہ فرحت اس دنیا میں ہے اور نہ اس کے دوست اور نہ ہی وہ درجنوں لوگ، عورتیں اور بچے جو اس وقت اس پر رونق بازار میں موجود تھے یا اوپر فلیٹوں میں رہتے تھے۔ سیکڑوں افراد زخمی اور بے گھر ہیں۔
میں نے خود جا کے وہ جگہ دیکھی ہے۔ یہ ایک ایسا منظر ہے جسے نہ لکھا جا سکتا ہے اور نہ بیان کیا جا سکتا ہے۔ اخبار میں چھپی تصاویر اور ٹی وی پر چلتی ویڈیوز اس کی شدت دکھانے سے قاصر ہیں۔ یہ دھماکا نہ تو ابوالحسن اصفہانی روڈ پر ہوا ہے اور نہ ہی عباس ٹاؤن میں۔ یہ ان دونوں کو ملانے والی 60 فٹ چوڑی سڑک پر ہوا ہے۔ میں اس سڑک کے درمیان کھڑا تھا اور دونوں طرف کے فلیٹوں کی عمارات ایک ناقابل یقین منظر پیش کر رہی تھیں۔ اتنی چوڑی سڑک پر ہر طرف ایک ہی جیسی بربادی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے یہ کسی جنگ عظیم کا منظر ہے اور مجھے شدید ہوائی بمباری کے بعد وہاں چھوڑ دیا گیا ہے۔ تصویری اور حقیقی منظر میں اتنا واضح فرق ہو سکتا ہے، یہ مجھے وہاں جا کے معلوم ہوا۔
دہشت گردی کی کارروائیاں اس وقت تک دو دھاری تلوار کا کام کرتی ہیں جب تک یہ واضح نہ ہو کہ یہ کام کیا کس نے ہے اور کیوں کیا ہے؟ معلوم ہو جائے تو آدھا مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ڈاکٹر بیماری کو پکڑ لے تو پھر اس کا علاج بھی ہو جاتا ہے۔ میرے خیال میں پہلی بار ایک حوصلہ افزا خبر ہے کہ اس دھماکے کے مجرم پکڑے گئے ہیں اور یہ بھی لگتا ہے کہ اب کی بار حقیقی مجرم ہاتھ آئے ہیں۔ اس الجھی ہوئی ڈور کا دوسرا سرا تلاش کرنا آسان نہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ ہماری جیب میں سارے سکے کھوٹے نہیں ہیں۔ کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی سچے حل کی طرف ضرور لے جائے گا۔ تب ہم ڈٹ کے ایک پر یقین آواز کے ساتھ لوگوں کو اپنے شہر میں آنے کی دعوت دے سکیں گے۔ ایک خوشگوار دعوت۔ ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ عام طور پر چابیوں کے گچھے میں موجود آخری چابی ہی تالا کھولا کرتی ہے۔