خیال رکھیے کچھوا زندگی کی دوڑ نہ ہار جائے
دلچسپ خواص کا حامل یہ جانور معدومیت کے خطرے سے دوچار۔
وہ تیس نومبر2017 کی ایک خنکی بھری رات تھی۔ چاند کی روشنی دور دور تک پھیلی ہوئی تھی اور سمندر بھی اپنے جوبن پر تھا۔ سینڈزپٹ کے ساحل پر دور دور تک سناٹا پھیلا ہوا تھا، صرف سمندری لہروں کا شور تھا جو ساحل سے ٹکرا رہی تھیں۔ یہ ساحل تھا سینڈزپٹ کا، جہاں بیس صحافی موجود تھے، جو بقائے ماحول کی عالمی انجمن آئی یو سی این کے مہمان تھے، جو انہیں یہاں کچھووں سے متعلق مشاہدات کے لیے لے کر آئی تھی۔ یاد رہے کہ پاکستان کے ساحلوں پر آنے والی دو انواع سبز اور زیتونی کچھوے دنیا بھر میں معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں اور آئی یو سی این کی خطرات سے دوچار انواع کی فہرست ''ریڈ لسٹ'' میں شامل ہیں۔
ایک وقت میں لگ بھگ 100کے قریب انڈے دینے کے سبب ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ سمندری کچھووں کی افزائش نسل کا سلسلہ بڑا وسیع ہوگا، لیکن حقیقت یہ نہیں ہے۔ تمام تر سازگار ماحول کے باوجود ایک برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے بہت کم کچھوے زندہ رہ پاتے ہیں، کیوں کہ اکثر خشکی سے پانی تک کے مختصر سفر میں انہیں کیکڑے، لومڑیاں ، آوارہ کتے اور شکاری پرندے اپنی خوراک بنالیتے ہیں۔ اور پھر سمندر میں پہنچنے کے بعد بھی خطرہ ٹلتا نہیں ہے بڑی مچھلیاں انہیں کھاجاتی ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ بحری آلودگی، جہاز رانی، ساحلوں پر غیرمعمولی انسانی مداخلت، ماہی گیری کی سرگرمیاں، سمندر میں گیس اور تیل کی تلاش اور بہت سے ممالک میں بطور خوراک سمندری کچھووں کے استعمال نے ان بے چاروں کی بقا کی راہ میں مشکلات کھڑی کردی ہیں۔
بقائے ماحول کی عالمی انجمن آئی یو سی این کی بقا کو لاحق خطرات سے دوچار حیاتیاتی تنوع کی سرخ فہرست (ریڈ لسٹ) کے مطابق سمندری کچھووں کی سات میں سے چھ اقسام کا شمار خطرات میں گھری ہوئی انواع میں ہوتا ہے۔ اسی بنا پر ان ساتوں اقسام کو خطرات سے دوچار قرار دیتے ہوئے انہیں ان ممنوعہ جانوروں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جن کا مخدوش حیاتیاتی تنوع و نباتات کی بین الاقوامی تجارت سے متعلق معاہدہ CITIES کے تحت تجارتی مقاصد کے لیے استعمال پر پابندی عائد ہے۔
اندازہ ہے کہ نوزائیدہ کچھووں میں سے صرف ایک فی صد ہی زندہ رہ پاتے ہیں۔ دوسری طرف مادہ تیس سے چالیس سال کی عمر میں انڈے دینے کے قابل ہوتی ہے اور کم از کم 70 برس تک انڈے دینے کے قابل رہتی ہے۔
دنیا میں سمندری کچھووں کی کل سات انواع پائی جاتی ہیں جن میں سے دو پاکستان کے ساحلوں پر افزائش نسل کے لیے آتے ہیں۔ ان دو اقسام میں سبز کچھوا اور زیتونی کچھوے شامل ہیں۔ سمندری کچھوے کی ساتوں اقسام دنیا بھر میں انتہائی کم یاب ( Critically Endangered) ہوچکی ہیں۔ سمندری کچھوے دنیا کے 80 سے زائد ممالک کے ساحلوں پر انڈے دینے جاتے ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ یہ مادہ کچھوے پاکستان میں سندھ، بلوچستان کے ریتیلے ساحلوں پر ہر سال اگست سے دسمبر کے مہینوں میں انڈے دینے کے لیے آتی ہیں۔ ان ساحلوں میں سندھ میں سینڈزپٹ اور ہاکس بے جب کہ بلوچستان میں جیوانی، استولا آئی لینڈ اور اور مارا کے ساحل اور مبارک ولیج کا ایک چھوٹا سا علاقہ اس حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں۔
کچھوے اپنی زندگی میں ہزار ہا کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہیں اور جو مادہ کچھوا جس ساحل پر پیدا ہوتی ہے انڈے دینے کے لیے اسی ساحل پر آتی ہے ، یہ راستے اسے یاد کیسے رہتے ہیں؟ سائنس دانوں کی اس حوالے سے بڑی دل چسپ تحقیق ہے جس کے مطابق مادہ کچھوا چار سال میں ایک بار انڈے دینے کے لیے ساحل پر آتی ہیں۔ وہ ایک وقت میں تقریباً سو انڈے دیتی ہیں اور اِنہیں ریت میں دبا دیتی ہیں۔ جب انڈوں سے بچے نکلتے ہیں تو وہ سیدھا سمندر کی طرف بڑھنے لگتے ہیں۔ پانی میں داخل ہوتے ہی وہ ایک ایسے سفر پر روانہ ہوتے ہیں جس کے دوران وہ تقریباً ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہیں۔
جب یہ بچے بڑے ہوجاتے ہیں تو اِن میں سے کچھویاں عین اْسی جگہ واپس آتی ہیں جہاں وہ خود پیدا ہوئی تھیں، وہاں وہ انڈے دیتی ہیں۔ سمندری کچھوے راستہ کیسے تلاش کرتے ہیں؟ امریکی سائنس داں کین لومین نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ سمندری کچھووں کے دماغ میں پیدائش ہی سے ایک طرح کا مقناطیسی نقشہ ہوتا ہے۔ مزید تحقیق سے پتا چلا کہ کچھوے زمین کے مقناطیسی میدان کی لہروں کی قوت اور رْخ کو محسوس کرتے ہیں اور یوں اُن کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ سمندر میں کس جگہ پر ہیں۔ اِس خاص صلاحیت کی بدولت یہ ننھے منے کچھوے بحرِاوقیانوس میں اپنا راستہ تلاش کر لیتے ہیں۔ کین لومین کے مطابق وہ دوسرے کچھووں کے پیچھے پیچھے نہیں جاتے بلکہ اپنا راستہ خود تلاش کرتے ہیں۔
ایک تازہ ترین مطالعے کے مطابق سمندر میں بظاہر لہروں کے رحم و کرم پر دیکھے جانے والے چھوٹے کچھوے مسلسل ایک خاص سمت میں سفر جاری رکھنے کی بھرپور کوشش میں رہتے ہیں۔ ایک امریکی جریدے کی تحقیق کے مطابق کچھوے کے بچے اکثر دس برس کے لیے سمندر میں غائب ہوجاتے ہیں اور ان کے بارے میں کہا جاتا رہا ہے کہ ان 'غائب برسوں' میں وہ لہروں پر بے جان اشیا کی طرح بے سمت سفر کرتے رہتے ہیں۔ تازہ ترین مطالعے میں امریکی سائنس دانوں نے خلیجِ میکسیکو میں 44 جنگلی کھچووں کے سفر کا جائزہ لیا جن پر انھوں نے سیٹلائیٹ ٹیگ لگائے ہوئے تھے اور ان کے سفر کا تقابل سمندر میں تیرتے ہوئے لکڑی کے ٹکڑوں کے سفر سے کیا۔
حیاتیات کے جریدے 'کرنٹ بیالوجی' میں شائع ہونی والی اس تحقیق کے بارے میں ڈاکٹر کیٹ مینسفیلڈ کا کہنا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق ہے جس میں ایک بے جان شے اور سمندر سے پکڑے ہوئے جنگلی کچھوے کے بچوں پر ٹیگ لگا کر انھیں چھوڑا گیا اور اس مفروضے کا جائزہ لیا گیا کہ آیا کچھوے کے بچے واقعی 'بے جان مسافر' ہوتے ہیں۔ اگرچہ کچھوے زیادہ وقت سمندری پودوں کے نیچے گزارتے ہیں لیکن یہ مسلسل تیرنے کی جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔ اس تحقیق میں کچھوے کے 44 بچوں پر شمسی توانائی سے چلنے والے ٹریکر لگائے گئے تھے اور لکڑی کے ٹکڑے بھی سمندر میں چھوڑے گئے۔ تجربے سے سائنسدانوں کو لکڑی کے بے جان تختوں اور زندہ کچھووں کے سفر کے درمیان موازنے کا موقع ملا۔
تحقیق کرنے والی ٹیم کے ایک رکن ڈاکٹر پٹمین کے مطابق 'سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ جب ہم نے ان دونوں کے راستوں کا موازنہ کیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ کچھووں کا راستہ لکڑی کے راستے سے بالکل مختلف تھا۔ یعنی لہروں کے رحم و کرم پر تیرتے ہوئی لکڑیاں بہت جلد ہی اس راستے سے دور ہوگئیں جو لہروں سے لڑتے ہوئے کچھووں نے اپنایا تھا۔'
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھوے کے بچے بڑے مستعد تیراک ہوتے ہیں اور انہیں اپنا راستہ معلوم ہوتا ہے۔
سمندری لہروں کے ماڈل کی بنیاد پر سائنس دانوں کی ٹیم نے کچھوے کے ان بچوں کی تیرنے کی رفتار کا بھی جائزہ لیا۔ ان اعداد و شمار کے مطابق ارد گرد کی لہروں کے مقابلے میں ان بچوں کی تیرنے کی رفتار بہت زیادہ نہ تھی بلکہ یہ بچے چند سینٹی میٹر فی سیکنڈ کی رفتار پر تیر رہے تھے۔
لیکن ڈاکٹر پٹمین کے بقول جو چیز سب سے زیادہ متاثر کن تھی وہ یہ تھی کہ کچھوے کے بچے مسلسل ایک خاص سمت میں تیرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
کچھوا ہمارے ماحول کو متوازن رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ اس کا کام ہمارے ماحول میں موجود غیرضروری اجسام مثلاً کیڑے مکوڑے اور سمندری گھاس اور پودے وغیرہ کو کھا کر ماحول کو متوازن رکھنا ہے۔ یہ پانی کے اندر مضر اشیا اور جراثیم کو بطور خوراک استعمال کرتا ہے جس سے پینے کا پانی مختلف بیماریاں پیدا کرنے کا باعث نہیں بنتا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کچھوے کی اسی خصوصیت کے باعث اسے چاول کی کھڑی فصلوں میں بھی چھوڑا جاتا ہے جب فصلوں میں کئی فٹ تک پانی کھڑا ہوتا ہے۔ ایسے میں پانی کے مختلف کیڑے یا جراثیم فصل کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، تاہم کچھوے کی موجودگی ان کیڑوں یا جراثیموں کو طاقتور ہونے سے باز رکھتی ہے۔
٭دل چسپ حقائق
کچھوا ہمارے لیے فائدہ مند ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت حیران کن جانور بھی ہے۔
زمین کے قدیم جانوروں میں سے ایک، کچھوا زمین پر پائے جانے والے سب سے قدیم ترین رینگنے والے جان داروں میں سے ایک ہے۔ یہ اس زمین پر آج سے لگ بھگ 21 کروڑ سال قبل وجود میں آیا تھا۔
یہ طویل العمر جان دار ہے۔ اس کی اوسط عمر بہت طویل ہوتی ہے۔ عام طور پر ایک کچھوے کی عمر 30 سے 50 سال تک ہوسکتی ہے۔ بعض کچھوے 100 سال کی عمر بھی پاتے ہیں۔ تاریخ کا سب سے طویل العمر کچھوا بحرالکاہل کے ٹونگا جزیرے میں پایا جاتا تھا جو اپنی موت کے وقت 188 سال کا تھا۔
کچھوا اپنی پشت پر سخت خول کی وجہ سے مشہور اور منفرد سمجھا جاتا ہے لیکن ایک خول کچھوے کے پیٹ پر بھی موجود ہوتا ہے جو پلاسٹروں کہلاتا ہے۔ کچھوے کے دونوں خول بے شمار ہڈیوں سے مل کر بنتے ہیں۔
کچھوے دنیا کے تمام براعظموں پر پائے جاتے ہیں سوائے براعظم انٹارکٹیکا کے۔ اس کی وجہ یہاں کا سرد ترین اور منجمد کردینے والا موسم ہے جو کچھووں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔
گو کہ کچھوے سرد خون والے جان دار ہیں یعنی موسم کی مناسبت سے اپنے جسم کا درجۂ حرارت تبدیل کرسکتے ہیں، تاہم انٹارکٹیکا کے برفیلے موسم سے مطابقت پیدا کرنا ان کے لیے ناممکن ہے۔
تمام کچھوے بشمول سمندری کچھوے خشکی پر انڈے دیتے ہیں۔ انڈے دینے کے لیے مادہ کچھوا جب ریت پر آتی ہے تو سب سے پہلے ریت میں گڑھا کھودتی ہے۔ اس عمل میں اسے لگ بھگ 1 گھنٹہ لگتا ہے۔ گڑھا کھودنے کے بعد وہ اندر جا کر بیٹھ جاتی ہے۔
مادہ کچھوا ایک وقت میں سے 60 سے 100 کے درمیان انڈے دیتی ہے۔ انڈے دینے کے بعد وہ گڑھے کو ریت یا دوسری اشیا سے ڈھانپ کر غیر نمایاں کردیتی ہے تاکہ انڈے انسانوں یا جانوروں کی دست برد سے محفوظ رہ سکیں۔
انڈے دینے کے بعد مادہ کچھوا اس جگہ سے دور چلی جاتی ہے اور واپس پلٹ کر نہیں آتی۔ بچے خود ہی انڈوں سے نکلتے ہیں اور اپنی زندگی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔
سمندری کچھوے چوںکہ انڈے سے نکلتے ہی سمندر کی طرف جاتے ہیں لہٰذا اس سفر کے دوران زیادہ تر کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اندازاً 100 میں سے 1 یا 2 سمندری کچھوے ہی بلوغت کی عمر تک پہنچ پاتے ہیں۔ اس کے برعکس خشکی پر رہنے والے کچھووں میں زندگی کا امکان اور زندہ رہنے کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔
مادہ کچھوا جس ساحل پر پیدا ہوتی ہے، انڈے دینے کے لیے اسی ساحل پر لوٹ کر آتی ہے۔
کچھوے کی جنس کا تعین اس موسم پر ہوتا ہے جو انڈوں سے بچے نکلنے کے دوران ہوتا ہے۔ اس عمل کے دوران اگر موسم گرم ہوگا یا درجۂ حرارت بڑھتا جائے گا تو تمام انڈوں میں موجود کچھوے، مادہ کچھوے بن جائیں گے۔ معتدل موسم نر کچھووں کی پیدائش میں مددگار ہوتا ہے۔ یہ انوکھی خصوصیت کچھووں کے علاوہ کسی اور جان دار میں نہیں پائی جاتی۔
ماں کی جانب سے چھوڑ دیے جانے کے بعد ننھے کچھوے اپنی غذائی ضروریات کیسے پوری کرتے ہیں اس کا قدرت نے ان معصوموں کے لیے غذا کا نہایت بہترین انتظام کر رکھا ہے۔ پیدائش کے وقت ننھے کچھووں کی پیٹھ پر جو خول موجود ہوتا ہے وہ پروٹین سمیت مختلف غذائی اجزا پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسے پروٹین اسپاٹ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کچھووں کو غذا فراہم کرتا ہے، جیسے جیسے کچھوے بڑے ہوتے جاتے ہیں ویسے ویسے خول کی ساخت مختلف ہوتی جاتی ہے۔ کچھووں کے اپنی غذا خود تلاش کرنے کی عمر تک پہنچنے کے بعد یہ خول صرف حفاظتی ڈھال کا کام انجام دینے لگتے ہیں۔
کچھوے اپنے پیے جانے والے پانی کو قدرتی طریقے سے میٹھا بنا دیتے ہیں۔ دراصل سمندری کچھووں کے گلے میں خصوصی قسم کے غدود موجود ہوتے ہیں جو اس پانی سے نمک کو علیحدہ کردیتے ہیں، جو کچھوے پیتے ہیں۔
کچھووں کی دیکھنے اور سونگھنے کی صلاحیت نہایت تیز ہوتی ہے۔ ان کی لمس کو محسوس کرنے اور سننے کی صلاحیت بھی اول الذکر دونوں صلاحیتوں سے کم، تاہم بہترین ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ گہرے رنگوں میں تمیز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لہٰذا تحقیقاتی مقاصد یا تحفظ کے اقدامات کے سلسلے میں کچھووں پر گہرے رنگوں سے نشانات لگائے جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے اس وقت کچھووں کی زیادہ تر اقسام معدومی کے خطرے سے دو چار ہیں۔ یہ اقسام معمولی یا شدید قسم کے خطرات سے دو چار ہیں۔ کچھووں کی ممکنہ معدومی اور ان کی آبادی میں کمی کی وجوہات ان کا بے دریغ شکار، غیر قانونی تجارت، اور ان پناہ گاہوں میں کمی واقع ہونا ہے۔
تحفظ ماحول کے لیے کام کرنے والی تنظیم آئی یو سی این نے صحافیوں کے لیے کچھووں کے حوالے سے ایک مشاہداتی دورے کا انعقاد کیا۔ آئی یو سی این کے نمائندے نوید سومرو نے صحافیوں کو بتایا کہ سینڈزپٹ کا ساحل کچھووں کے لیے موت کی وادی بن گیا ہے۔ یہاں آوارہ کتوں کی بہتات ہوچکی ہے جو کچھووں کے ننھے بچوں کے لیے بڑا خطرہ بن گئے ہیں۔ انڈوں سے نکلنے کے بعد جب ننھے کچھوے سمندر کی طرف بڑھتے ہیں تو ان کے لیے بڑا خطرہ چیل اور کوے بھی ہیں، جب کہ مچھیروں کے کٹے ہوئے جال، پلاسٹک کی تھیلیاں اور کچرے کے ڈھیروں نے کچھووں کے قدرتی مسکن کو تباہی سے دوچار کردیا۔ نوید سومرو کے مطابق سنگین خطرات کی وجہ سے نایاب نسل کے زیتونی کچھووں نے سینڈزپٹ پر انڈے دینا چھوڑ دیا ہے، زیتونی کچھوے اب مکمل طور پر ناپید ہوچکے ہیں جبکہ سبزکچھووں کو بقا کے شدید خطرات لاحق ہیں۔
آئی یو سی این کے نوید سومرو کے مطابق کچھووں کی افزائش نسل کے حوالے سے بلوچستان کے ساحلی مقام مبارک ولیج سمیت پاکستان میں کچھ دیگر مقامات بھی ہیں مگر سینڈزپٹ کے ساحل کے اپنے مخصوص اور منفرد محل وقوع کی بنا پر پوری دنیا میں اہمیت ہے۔ نوید کے مطابق ایک سال کے اندر کچھووں کے 6 ہزار سے زائد بچوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا جاچکا ہے ۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اگر صورت حال جوں کی توں رہی تو وہ دن دور نہیں جب سبز کچھوے بھی ان ساحلوں کا رخ کرنا چھوڑ دیں گے۔
کچھووں کے بچوں کی حفاظت کے حوالے سے ایک بہت خوب صورت دلوں کو چھو لینے والا پیغام ہے جس پر سب کو عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے :
'' کچھووں کے بچوں کی حفاظت کریں کیوںکہ ان کی حفاظت کے لیے ان کی ماں ان کے ساتھ نہیں ہوتی ہے!''
ایک وقت میں لگ بھگ 100کے قریب انڈے دینے کے سبب ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ سمندری کچھووں کی افزائش نسل کا سلسلہ بڑا وسیع ہوگا، لیکن حقیقت یہ نہیں ہے۔ تمام تر سازگار ماحول کے باوجود ایک برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے بہت کم کچھوے زندہ رہ پاتے ہیں، کیوں کہ اکثر خشکی سے پانی تک کے مختصر سفر میں انہیں کیکڑے، لومڑیاں ، آوارہ کتے اور شکاری پرندے اپنی خوراک بنالیتے ہیں۔ اور پھر سمندر میں پہنچنے کے بعد بھی خطرہ ٹلتا نہیں ہے بڑی مچھلیاں انہیں کھاجاتی ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ بحری آلودگی، جہاز رانی، ساحلوں پر غیرمعمولی انسانی مداخلت، ماہی گیری کی سرگرمیاں، سمندر میں گیس اور تیل کی تلاش اور بہت سے ممالک میں بطور خوراک سمندری کچھووں کے استعمال نے ان بے چاروں کی بقا کی راہ میں مشکلات کھڑی کردی ہیں۔
بقائے ماحول کی عالمی انجمن آئی یو سی این کی بقا کو لاحق خطرات سے دوچار حیاتیاتی تنوع کی سرخ فہرست (ریڈ لسٹ) کے مطابق سمندری کچھووں کی سات میں سے چھ اقسام کا شمار خطرات میں گھری ہوئی انواع میں ہوتا ہے۔ اسی بنا پر ان ساتوں اقسام کو خطرات سے دوچار قرار دیتے ہوئے انہیں ان ممنوعہ جانوروں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جن کا مخدوش حیاتیاتی تنوع و نباتات کی بین الاقوامی تجارت سے متعلق معاہدہ CITIES کے تحت تجارتی مقاصد کے لیے استعمال پر پابندی عائد ہے۔
اندازہ ہے کہ نوزائیدہ کچھووں میں سے صرف ایک فی صد ہی زندہ رہ پاتے ہیں۔ دوسری طرف مادہ تیس سے چالیس سال کی عمر میں انڈے دینے کے قابل ہوتی ہے اور کم از کم 70 برس تک انڈے دینے کے قابل رہتی ہے۔
دنیا میں سمندری کچھووں کی کل سات انواع پائی جاتی ہیں جن میں سے دو پاکستان کے ساحلوں پر افزائش نسل کے لیے آتے ہیں۔ ان دو اقسام میں سبز کچھوا اور زیتونی کچھوے شامل ہیں۔ سمندری کچھوے کی ساتوں اقسام دنیا بھر میں انتہائی کم یاب ( Critically Endangered) ہوچکی ہیں۔ سمندری کچھوے دنیا کے 80 سے زائد ممالک کے ساحلوں پر انڈے دینے جاتے ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ یہ مادہ کچھوے پاکستان میں سندھ، بلوچستان کے ریتیلے ساحلوں پر ہر سال اگست سے دسمبر کے مہینوں میں انڈے دینے کے لیے آتی ہیں۔ ان ساحلوں میں سندھ میں سینڈزپٹ اور ہاکس بے جب کہ بلوچستان میں جیوانی، استولا آئی لینڈ اور اور مارا کے ساحل اور مبارک ولیج کا ایک چھوٹا سا علاقہ اس حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں۔
کچھوے اپنی زندگی میں ہزار ہا کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہیں اور جو مادہ کچھوا جس ساحل پر پیدا ہوتی ہے انڈے دینے کے لیے اسی ساحل پر آتی ہے ، یہ راستے اسے یاد کیسے رہتے ہیں؟ سائنس دانوں کی اس حوالے سے بڑی دل چسپ تحقیق ہے جس کے مطابق مادہ کچھوا چار سال میں ایک بار انڈے دینے کے لیے ساحل پر آتی ہیں۔ وہ ایک وقت میں تقریباً سو انڈے دیتی ہیں اور اِنہیں ریت میں دبا دیتی ہیں۔ جب انڈوں سے بچے نکلتے ہیں تو وہ سیدھا سمندر کی طرف بڑھنے لگتے ہیں۔ پانی میں داخل ہوتے ہی وہ ایک ایسے سفر پر روانہ ہوتے ہیں جس کے دوران وہ تقریباً ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہیں۔
جب یہ بچے بڑے ہوجاتے ہیں تو اِن میں سے کچھویاں عین اْسی جگہ واپس آتی ہیں جہاں وہ خود پیدا ہوئی تھیں، وہاں وہ انڈے دیتی ہیں۔ سمندری کچھوے راستہ کیسے تلاش کرتے ہیں؟ امریکی سائنس داں کین لومین نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ سمندری کچھووں کے دماغ میں پیدائش ہی سے ایک طرح کا مقناطیسی نقشہ ہوتا ہے۔ مزید تحقیق سے پتا چلا کہ کچھوے زمین کے مقناطیسی میدان کی لہروں کی قوت اور رْخ کو محسوس کرتے ہیں اور یوں اُن کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ سمندر میں کس جگہ پر ہیں۔ اِس خاص صلاحیت کی بدولت یہ ننھے منے کچھوے بحرِاوقیانوس میں اپنا راستہ تلاش کر لیتے ہیں۔ کین لومین کے مطابق وہ دوسرے کچھووں کے پیچھے پیچھے نہیں جاتے بلکہ اپنا راستہ خود تلاش کرتے ہیں۔
ایک تازہ ترین مطالعے کے مطابق سمندر میں بظاہر لہروں کے رحم و کرم پر دیکھے جانے والے چھوٹے کچھوے مسلسل ایک خاص سمت میں سفر جاری رکھنے کی بھرپور کوشش میں رہتے ہیں۔ ایک امریکی جریدے کی تحقیق کے مطابق کچھوے کے بچے اکثر دس برس کے لیے سمندر میں غائب ہوجاتے ہیں اور ان کے بارے میں کہا جاتا رہا ہے کہ ان 'غائب برسوں' میں وہ لہروں پر بے جان اشیا کی طرح بے سمت سفر کرتے رہتے ہیں۔ تازہ ترین مطالعے میں امریکی سائنس دانوں نے خلیجِ میکسیکو میں 44 جنگلی کھچووں کے سفر کا جائزہ لیا جن پر انھوں نے سیٹلائیٹ ٹیگ لگائے ہوئے تھے اور ان کے سفر کا تقابل سمندر میں تیرتے ہوئے لکڑی کے ٹکڑوں کے سفر سے کیا۔
حیاتیات کے جریدے 'کرنٹ بیالوجی' میں شائع ہونی والی اس تحقیق کے بارے میں ڈاکٹر کیٹ مینسفیلڈ کا کہنا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق ہے جس میں ایک بے جان شے اور سمندر سے پکڑے ہوئے جنگلی کچھوے کے بچوں پر ٹیگ لگا کر انھیں چھوڑا گیا اور اس مفروضے کا جائزہ لیا گیا کہ آیا کچھوے کے بچے واقعی 'بے جان مسافر' ہوتے ہیں۔ اگرچہ کچھوے زیادہ وقت سمندری پودوں کے نیچے گزارتے ہیں لیکن یہ مسلسل تیرنے کی جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔ اس تحقیق میں کچھوے کے 44 بچوں پر شمسی توانائی سے چلنے والے ٹریکر لگائے گئے تھے اور لکڑی کے ٹکڑے بھی سمندر میں چھوڑے گئے۔ تجربے سے سائنسدانوں کو لکڑی کے بے جان تختوں اور زندہ کچھووں کے سفر کے درمیان موازنے کا موقع ملا۔
تحقیق کرنے والی ٹیم کے ایک رکن ڈاکٹر پٹمین کے مطابق 'سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ جب ہم نے ان دونوں کے راستوں کا موازنہ کیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ کچھووں کا راستہ لکڑی کے راستے سے بالکل مختلف تھا۔ یعنی لہروں کے رحم و کرم پر تیرتے ہوئی لکڑیاں بہت جلد ہی اس راستے سے دور ہوگئیں جو لہروں سے لڑتے ہوئے کچھووں نے اپنایا تھا۔'
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھوے کے بچے بڑے مستعد تیراک ہوتے ہیں اور انہیں اپنا راستہ معلوم ہوتا ہے۔
سمندری لہروں کے ماڈل کی بنیاد پر سائنس دانوں کی ٹیم نے کچھوے کے ان بچوں کی تیرنے کی رفتار کا بھی جائزہ لیا۔ ان اعداد و شمار کے مطابق ارد گرد کی لہروں کے مقابلے میں ان بچوں کی تیرنے کی رفتار بہت زیادہ نہ تھی بلکہ یہ بچے چند سینٹی میٹر فی سیکنڈ کی رفتار پر تیر رہے تھے۔
لیکن ڈاکٹر پٹمین کے بقول جو چیز سب سے زیادہ متاثر کن تھی وہ یہ تھی کہ کچھوے کے بچے مسلسل ایک خاص سمت میں تیرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
کچھوا ہمارے ماحول کو متوازن رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ اس کا کام ہمارے ماحول میں موجود غیرضروری اجسام مثلاً کیڑے مکوڑے اور سمندری گھاس اور پودے وغیرہ کو کھا کر ماحول کو متوازن رکھنا ہے۔ یہ پانی کے اندر مضر اشیا اور جراثیم کو بطور خوراک استعمال کرتا ہے جس سے پینے کا پانی مختلف بیماریاں پیدا کرنے کا باعث نہیں بنتا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کچھوے کی اسی خصوصیت کے باعث اسے چاول کی کھڑی فصلوں میں بھی چھوڑا جاتا ہے جب فصلوں میں کئی فٹ تک پانی کھڑا ہوتا ہے۔ ایسے میں پانی کے مختلف کیڑے یا جراثیم فصل کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، تاہم کچھوے کی موجودگی ان کیڑوں یا جراثیموں کو طاقتور ہونے سے باز رکھتی ہے۔
٭دل چسپ حقائق
کچھوا ہمارے لیے فائدہ مند ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت حیران کن جانور بھی ہے۔
زمین کے قدیم جانوروں میں سے ایک، کچھوا زمین پر پائے جانے والے سب سے قدیم ترین رینگنے والے جان داروں میں سے ایک ہے۔ یہ اس زمین پر آج سے لگ بھگ 21 کروڑ سال قبل وجود میں آیا تھا۔
یہ طویل العمر جان دار ہے۔ اس کی اوسط عمر بہت طویل ہوتی ہے۔ عام طور پر ایک کچھوے کی عمر 30 سے 50 سال تک ہوسکتی ہے۔ بعض کچھوے 100 سال کی عمر بھی پاتے ہیں۔ تاریخ کا سب سے طویل العمر کچھوا بحرالکاہل کے ٹونگا جزیرے میں پایا جاتا تھا جو اپنی موت کے وقت 188 سال کا تھا۔
کچھوا اپنی پشت پر سخت خول کی وجہ سے مشہور اور منفرد سمجھا جاتا ہے لیکن ایک خول کچھوے کے پیٹ پر بھی موجود ہوتا ہے جو پلاسٹروں کہلاتا ہے۔ کچھوے کے دونوں خول بے شمار ہڈیوں سے مل کر بنتے ہیں۔
کچھوے دنیا کے تمام براعظموں پر پائے جاتے ہیں سوائے براعظم انٹارکٹیکا کے۔ اس کی وجہ یہاں کا سرد ترین اور منجمد کردینے والا موسم ہے جو کچھووں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔
گو کہ کچھوے سرد خون والے جان دار ہیں یعنی موسم کی مناسبت سے اپنے جسم کا درجۂ حرارت تبدیل کرسکتے ہیں، تاہم انٹارکٹیکا کے برفیلے موسم سے مطابقت پیدا کرنا ان کے لیے ناممکن ہے۔
تمام کچھوے بشمول سمندری کچھوے خشکی پر انڈے دیتے ہیں۔ انڈے دینے کے لیے مادہ کچھوا جب ریت پر آتی ہے تو سب سے پہلے ریت میں گڑھا کھودتی ہے۔ اس عمل میں اسے لگ بھگ 1 گھنٹہ لگتا ہے۔ گڑھا کھودنے کے بعد وہ اندر جا کر بیٹھ جاتی ہے۔
مادہ کچھوا ایک وقت میں سے 60 سے 100 کے درمیان انڈے دیتی ہے۔ انڈے دینے کے بعد وہ گڑھے کو ریت یا دوسری اشیا سے ڈھانپ کر غیر نمایاں کردیتی ہے تاکہ انڈے انسانوں یا جانوروں کی دست برد سے محفوظ رہ سکیں۔
انڈے دینے کے بعد مادہ کچھوا اس جگہ سے دور چلی جاتی ہے اور واپس پلٹ کر نہیں آتی۔ بچے خود ہی انڈوں سے نکلتے ہیں اور اپنی زندگی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔
سمندری کچھوے چوںکہ انڈے سے نکلتے ہی سمندر کی طرف جاتے ہیں لہٰذا اس سفر کے دوران زیادہ تر کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اندازاً 100 میں سے 1 یا 2 سمندری کچھوے ہی بلوغت کی عمر تک پہنچ پاتے ہیں۔ اس کے برعکس خشکی پر رہنے والے کچھووں میں زندگی کا امکان اور زندہ رہنے کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔
مادہ کچھوا جس ساحل پر پیدا ہوتی ہے، انڈے دینے کے لیے اسی ساحل پر لوٹ کر آتی ہے۔
کچھوے کی جنس کا تعین اس موسم پر ہوتا ہے جو انڈوں سے بچے نکلنے کے دوران ہوتا ہے۔ اس عمل کے دوران اگر موسم گرم ہوگا یا درجۂ حرارت بڑھتا جائے گا تو تمام انڈوں میں موجود کچھوے، مادہ کچھوے بن جائیں گے۔ معتدل موسم نر کچھووں کی پیدائش میں مددگار ہوتا ہے۔ یہ انوکھی خصوصیت کچھووں کے علاوہ کسی اور جان دار میں نہیں پائی جاتی۔
ماں کی جانب سے چھوڑ دیے جانے کے بعد ننھے کچھوے اپنی غذائی ضروریات کیسے پوری کرتے ہیں اس کا قدرت نے ان معصوموں کے لیے غذا کا نہایت بہترین انتظام کر رکھا ہے۔ پیدائش کے وقت ننھے کچھووں کی پیٹھ پر جو خول موجود ہوتا ہے وہ پروٹین سمیت مختلف غذائی اجزا پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسے پروٹین اسپاٹ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کچھووں کو غذا فراہم کرتا ہے، جیسے جیسے کچھوے بڑے ہوتے جاتے ہیں ویسے ویسے خول کی ساخت مختلف ہوتی جاتی ہے۔ کچھووں کے اپنی غذا خود تلاش کرنے کی عمر تک پہنچنے کے بعد یہ خول صرف حفاظتی ڈھال کا کام انجام دینے لگتے ہیں۔
کچھوے اپنے پیے جانے والے پانی کو قدرتی طریقے سے میٹھا بنا دیتے ہیں۔ دراصل سمندری کچھووں کے گلے میں خصوصی قسم کے غدود موجود ہوتے ہیں جو اس پانی سے نمک کو علیحدہ کردیتے ہیں، جو کچھوے پیتے ہیں۔
کچھووں کی دیکھنے اور سونگھنے کی صلاحیت نہایت تیز ہوتی ہے۔ ان کی لمس کو محسوس کرنے اور سننے کی صلاحیت بھی اول الذکر دونوں صلاحیتوں سے کم، تاہم بہترین ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ گہرے رنگوں میں تمیز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لہٰذا تحقیقاتی مقاصد یا تحفظ کے اقدامات کے سلسلے میں کچھووں پر گہرے رنگوں سے نشانات لگائے جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے اس وقت کچھووں کی زیادہ تر اقسام معدومی کے خطرے سے دو چار ہیں۔ یہ اقسام معمولی یا شدید قسم کے خطرات سے دو چار ہیں۔ کچھووں کی ممکنہ معدومی اور ان کی آبادی میں کمی کی وجوہات ان کا بے دریغ شکار، غیر قانونی تجارت، اور ان پناہ گاہوں میں کمی واقع ہونا ہے۔
تحفظ ماحول کے لیے کام کرنے والی تنظیم آئی یو سی این نے صحافیوں کے لیے کچھووں کے حوالے سے ایک مشاہداتی دورے کا انعقاد کیا۔ آئی یو سی این کے نمائندے نوید سومرو نے صحافیوں کو بتایا کہ سینڈزپٹ کا ساحل کچھووں کے لیے موت کی وادی بن گیا ہے۔ یہاں آوارہ کتوں کی بہتات ہوچکی ہے جو کچھووں کے ننھے بچوں کے لیے بڑا خطرہ بن گئے ہیں۔ انڈوں سے نکلنے کے بعد جب ننھے کچھوے سمندر کی طرف بڑھتے ہیں تو ان کے لیے بڑا خطرہ چیل اور کوے بھی ہیں، جب کہ مچھیروں کے کٹے ہوئے جال، پلاسٹک کی تھیلیاں اور کچرے کے ڈھیروں نے کچھووں کے قدرتی مسکن کو تباہی سے دوچار کردیا۔ نوید سومرو کے مطابق سنگین خطرات کی وجہ سے نایاب نسل کے زیتونی کچھووں نے سینڈزپٹ پر انڈے دینا چھوڑ دیا ہے، زیتونی کچھوے اب مکمل طور پر ناپید ہوچکے ہیں جبکہ سبزکچھووں کو بقا کے شدید خطرات لاحق ہیں۔
آئی یو سی این کے نوید سومرو کے مطابق کچھووں کی افزائش نسل کے حوالے سے بلوچستان کے ساحلی مقام مبارک ولیج سمیت پاکستان میں کچھ دیگر مقامات بھی ہیں مگر سینڈزپٹ کے ساحل کے اپنے مخصوص اور منفرد محل وقوع کی بنا پر پوری دنیا میں اہمیت ہے۔ نوید کے مطابق ایک سال کے اندر کچھووں کے 6 ہزار سے زائد بچوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا جاچکا ہے ۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اگر صورت حال جوں کی توں رہی تو وہ دن دور نہیں جب سبز کچھوے بھی ان ساحلوں کا رخ کرنا چھوڑ دیں گے۔
کچھووں کے بچوں کی حفاظت کے حوالے سے ایک بہت خوب صورت دلوں کو چھو لینے والا پیغام ہے جس پر سب کو عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے :
'' کچھووں کے بچوں کی حفاظت کریں کیوںکہ ان کی حفاظت کے لیے ان کی ماں ان کے ساتھ نہیں ہوتی ہے!''