بیرون ملک قید پاکستانی قانون سازی کی ضرورت

جرائم میں ملوث قیدیوں کی پاکستان واپسی پر متبادل سزائوں کا قانون بھی واضع کیا جائے

جرائم میں ملوث قیدیوں کی پاکستان واپسی پر متبادل سزائوں کا قانون بھی واضع کیا جائے۔ فوٹو: فائل

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اوورسیز پاکستانیز میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بیرون ملک جیلوں میں قید پاکستانیوں کی تعداد 10 ہزار سے زائد ہے، قیدیوں کی مدد کے لیے نئی پالیسی بنائی جا رہی ہے۔


بلاشبہ بیرون ملک قید پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کی یہ رپورٹ تشویش ناک ہے، لیکن یہ صرف وہ افراد ہیں جو قانونی طور پر بیرون ملک گئے اور کسی نہ کسی دانستہ یا نادانستہ جرم اور غلطی کی وجہ سے پابند سلاسل ہوئے، لیکن قیدیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ غیر قانونی طریقوں سے بارڈر کراس کرنے والوں کے کوائف کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بیرون ملک قید پاکستانیوں کے لیے کوئی باقاعدہ قانون یا اوورسیز کے لیے کوئی ویلفیئر اسکیم بنائی گئی ہے؟ یہ سوال بھی صائب ہے کہ جن قیدیوں کو بیرون ملک سزا مل رہی ہے اگر ان کو وطن واپس لایا جائے تو یہاں ان کی سزا کیا ہو گی؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ بیرون ملک قید پاکستانیوں کے لیے راست قانون سازی کے ساتھ ایسے اقدامات بھی کیے جائیں کہ انھیں وطن واپس لایا جا سکے، نیز معمولی جرائم پر قید ہونے والے پاکستانیوں کی سزا میں تخفیف کے ساتھ سنگین جرائم میں ملوث قیدیوں کی پاکستان واپسی پر متبادل سزائوں کا قانون بھی وضع کیا جائے۔

یہ امر بھی قابل غور ہے کہ غیر قانونی طور پر غیر ملک جانے والے قیدیوں کے کوائف حاصل کرنے یا ایسے قیدی جو جرمانہ یا دیت ادا کرکے آزاد ہو سکتے ہیں ان کے مدد کے لیے حکومتی سطح پر کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ غیر ممالک جانے والے اکثر افراد کم تعلیم یافتہ اور مزدور ہوتے ہیں جو ملک میں روزگار کے ناکافی مواقعوں کی بنا پر اپنے خاندان کے معاشی استحکام کے لیے بیرون ملک کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، ایسے افراد ناگہانی حالات اور قوانین سے ناواقفیت کی بنا پر بھی قانون کے دائرے میں آ جاتے ہیں، ایسے افراد کی مدد کرنا حکومت کی ذمے داریوں میں شامل ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اوورسیز پاکستانیز میں اگر بیرون ملک قید پاکستانیوں کے لیے نئی پالیسی بنائی جا رہی ہے تو یہ خوش آیند ہے۔
Load Next Story