نیویارک میں دو کتابوں کی تقریب پذیرائی
کتاب کی تقریب پذیرائی کے اختتام کے بعد حلقہ ارباب ذوق کی رسم کے مطابق دوسری نشست مشاعرے کی رہی۔
دسمبر کا پہلا ہفتہ نیویارک اور نیوجرسی میں بغیر برف کے گزرا تھا اور نیویارک میں اسی لیے سیاسی، ثقافتی اور ادبی سرگرمیاں ابھی تک جاری تھیں، 2 دسمبر کی شام حلقہ ارباب ذوق نیویارک کے زیر اہتمام میری دو کتابوں دشت احساس (شعری مجموعہ) اور ایکسپریس نیوز میں شایع ہونے والے کالموں پر مشتمل کتاب ''یادیں باتیں فلم نگر کی'' کی رونمائی کا انعقاد بڑی خوش اسلوبی سے کیا گیا تھا۔ یہاں پہلے میں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ نیویارک میں حلقہ ارباب ذوق کی داغ بیل آج سے تیس بتیس سال پہلے پاکستان کے مشہور ترقی پسند ادیب شاعر اور صحافی جوہر میر نے ڈالی تھی۔
جوہر میر جو دبستان ادب پشاور سے تعلق رکھتے تھے اور وہ احمد فراز، خاطر غزنوی، محسن احسان اور رضا ہمدانی کے ساتھیوں میں سے تھے۔ اردو کی تحریک ترقی پسند کے سرگرم کارکن تھے۔ جب وہ امریکا میں آئے تو نیویارک میں رہائش اختیار کی اور جیکسن ہائٹس کے علاقے میں ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہتے تھے اور انھوں نے اپنے گھر ہی سے حلقہ ارباب ذوق کی نشستوں کا آغاز کیا تھا۔ امریکا ہی میں کینسر کے مرض میں ان کا انتقال ہوا تھا۔ مگر یہاں حلقہ ارباب ذوق کا جو چراغ وہ روشن کرچکے تھے آج اس چراغ کی روشنی سارے شمالی امریکا میں پھیلی ہوئی ہے۔
اب میں آتا ہوں اپنی دو کتابوں کی تقریب رونمائی کی طرف۔ اس تقریب کی صدارت کینیڈا سے نیویارک آئے ہوئے مشہور اور سینئر شاعر رحمان خاور نے کی تھی اور نظامت کے فرائض امریکا میں کامران ادبی فاؤنڈیشن کی سرپرست شاعرہ فرح کامران نے ادا کیے تھے، جب کہ مہمان اعزازی پاکستانی ٹی وی کی نامور فنکارہ نیلوفر عباسی تھیں۔
تقریب کا آغاز کرتے ہوئے سب سے پہلے نیویارک کے نوجوان شاعر اعجاز بھٹی نے صاحب کتاب کے بارے میں اپنے اظہار خیال کے دوران کہا کہ میں نے شعری مجموعہ دشت احساس کو جستہ جستہ پڑھا ہے اور یہ احساس ہوا ہے کہ ہر شاعر کا ایک خصوص انداز فکر ہوتا ہے اور ان کے شعری سرمائے میں چند الفاظ کا بطور خاص ذکر ملتا ہے اور وہ الفاظ پھر اس کی پہچان بن جاتے ہیں، جیسے کہ عباس تابش کے کلام میں پھولوں اور پتوں کا تذکرہ کثرت سے ہوتا ہے، اسی طرح پروین شاکر کی شاعری میں خوشبو کا ذکر زیادہ ہے، اسی طرح یونس ہمدم کی شاعری میں آنکھوں کا ذکر بہت ہے۔ پھر اعجاز بھٹی نے آنکھوں کے حوالے سے کئی اشعار دشت احساس کے بھی سنائے، جنھیں پسند کیا گیا۔
انھوں نے ازراہ مذاق کہا کہ میری دعا ہے کہ میرے دوست شاعر کی بینائی اسی طرح قائم رہے اور وہ اسی طرح آنکھوں پر آیندہ بھی خوبصورت اشعار کہتے رہیں۔ اعجاز بھٹی کے بعد ٹی وی آرٹسٹ اور شاعر اسد نذیر جو ان دنوں نیویارک کے ایک ٹی وی چینل سب رنگ سے منسلک ہیں، انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے صاحب کتاب سے اپنے دیرینہ تعلقات کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی بہت سی پرانی یادیں اور باتیں شیئر کیں۔ اسد نذیر کے بعد پاکستان ٹیلی ویژن کی سابقہ نامور فنکارہ اور ریڈیو کی صداکارہ نیلوفر عباسی نے راقم کے بارے میں ایک بہت ہی دلچسپ مضمون پڑھا اور میرے ریڈیو پاکستان کراچی کے سفر سے لے کر فلمی دنیا کی وابستگی کے بارے میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کتاب ''یادیں باتیں فلم نگر کی'' ایک خوبصورت دستاویز ہے اور اس کتاب میں کئی اہم فلمی شخصیات کا بڑے طلسماتی انداز میں تذکرہ کیا ہے۔
یہ کتاب میں نے پچھلے ہفتے اپنی فیملی کے ساتھ نیویارک سے ڈیلس جاتے ہوئے بڑے انہماک سے پڑھی تھی اور اس کتاب نے میرے سفر کو بڑا خوشگوار بنادیا تھا، اس کتاب میں یونس ہمدم نے جس طرح جوش ملیح آبادی، جون ایلیا، معین اختر، قربان جیلانی، ثریا شہاب، منی بیگم، استاد امیر احمد خان اور گلوکارہ اقبال بانو کا تذکرہ کیا اور ان شخصیات کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ ہوبہو وہی ہے جیسے وہ لوگ اپنی زندگی میں رہتے ہیں۔
انھوں نے اپنے مضمون میں مزید کہا کہ فلمی شاعری آسان نہیں ہے، کسی بھی سین پر گیت لکھنا بڑا مشکل کام ہوتا ہے اور سچویشن کے مطابق حصار بندیوں اور بندشوں کے باوجود انھوں نے اپنی شاعری کے معیار کو برقرار رکھتے ہوئے خوبصورت فلمی نغمات لکھے ہیں اور اس دور میں قتیل شفائی، کلیم عثمانی، حبیب جالب، خواجہ پرویز تسلیم فاضلی اور مسرور انور جیسے مشہور نغمہ نگاروں کے درمیان اپنی جگہ بنانا کسی نئے اور نوجوان شاعر کے لیے ایک مشکل امر تھا لیکن سچی لگن اور محنت سے یونس ہمدم نے لاہور کی فلم انڈسٹری میں اپنا ایک الگ مقام بنایا۔ نیلوفرعباسی کے بعد فرح کامران نے کلام شاعر بہ زبان شاعر کے لیے مجھے دعوت کلام دی، سب سے پہلے میں نے ماہ ربیع الاول کی مناسبت سے نبی آخر الزماں کی نعت کا ایک شعر پیش کیا۔
سیرت پیارے نبیؐ سے جو شناسا ہوگیا
جو محمدؐ کا ہوا پھر وہ خدا کا ہوگیا
پھر چند قطعات کے ساتھ چند غزلیں بھی سامعین کی نذر کیں جنھیں بڑا پسند کیا گیا ایک غزل کے چند اشعار پیش خدمت ہیں:
دلوں میں دوستو ایمان اب رہا ہی نہیں
کہ جس کو پارسا سمجھا وہ پارسا ہی نہیں
رہ حیات میں سامان جس کا کھولا گیا
ضمیر ڈھونڈا کیے وہ کہیں ملا ہی نہیں
رواں دواں ہیں سبھی بس تلاش منزل میں
ہے کس کی کون سی منزل یہ کچھ پتا ہی نہیں
وفا کو ہنستے ہوئے دفن کر رہے ہیں لوگ
محبتوں کا زمانہ یہ اب رہا ہی نہیں
میرے بعد تقریب کے صدر رحمان خاور نے تقریب کو سمیٹتے ہوئے مجھے میری دو کتابوں کی تقریب کے شاندار انعقاد پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ فلمی گیتوں سے ہٹ کر بھی یونس ہمدم ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے بہت اچھا لکھتے رہے ہیں اور پھر فلموں کے لیے بھی معیاری گیت لکھ کر اپنی انفرادیت برقرار رکھی ہے اور یہ جتنے مقبول پاکستان میں ہیں اتنے ہی اب امریکا میں بھی مقبول ہو رہے ہیں، ان کی شاعری اور ان کی شخصیت دونوں میں قابل ذکر ہے۔
کتاب کی تقریب پذیرائی کے اختتام کے بعد حلقہ ارباب ذوق کی رسم کے مطابق دوسری نشست مشاعرے کی رہی اور سب سے پہلے نیویارک کے منفرد لہجے کے شاعر ناصر گوندل نے اپنی ایک نظم سنائی جس کا عنوان تھا ''2017 کا نوبل پرائز'' اس منفرد نظم کو بڑا پسند کیا گیا پھر باری باری چند موجود شاعروں نے اپنے کلام سے نوازا۔ ذیل میں ان کے چند منتخب اشعار پیش کیے جا رہے ہیں:
فرح کامران
اک شب ہجر کاٹنے کے لیے
پار کرتی ہوں میں سمندر روز
جب سے تو چھوڑ کر گیا ہے مجھے
وقت برسا رہا ہے پتھر روز
٭٭
اعجاز بھٹی
زندگی کیا ہے کوئی وہم و گماں ہو جیسے
آگ نہ بھی ہو مگر پھر بھی دھواں ہو جیسے
لوگ آتے ہیں اور آکے ٹھہر جاتے ہیں
دل ہمارا تو کرائے کا مکاں ہو جیسے
٭٭
اسد نذیر (پشاور حادثے پر)
یہ حادثے نہ جانے کس طرح ہو گئے
پھول گلشن کے کہیں پر کھو گئے
مائیں بستر ہی بچھاتی رہ گئیں
٭٭
رحمان خاور
غموں سے ہجر کے اس درجہ بدحواس رہے
وہ مل گئے بھی تو ہم دیر تک اداس رہے
نہ ٹوٹنا تھا نہ ٹوٹا غرور گمراہی
پہنچ گئے بھی تو منزل کے آس پاس رہے
حلقہ ارباب ذوق نیویارک کی یہ ادبی تقریب اس لحاظ سے بھی منفرد تقریب تھی کہ امریکا کی دو بڑی ریاستوں نیویارک، نیوجرسی کے علاوہ کینیڈا سے آئے ہوئے شاعر نے بھی اس تقریب کو رونق بخشی تھی اور یہ تقریب اپنے ادبی حسن کی وجہ سے عرصہ تک یاد رکھی جائے گی۔
جوہر میر جو دبستان ادب پشاور سے تعلق رکھتے تھے اور وہ احمد فراز، خاطر غزنوی، محسن احسان اور رضا ہمدانی کے ساتھیوں میں سے تھے۔ اردو کی تحریک ترقی پسند کے سرگرم کارکن تھے۔ جب وہ امریکا میں آئے تو نیویارک میں رہائش اختیار کی اور جیکسن ہائٹس کے علاقے میں ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہتے تھے اور انھوں نے اپنے گھر ہی سے حلقہ ارباب ذوق کی نشستوں کا آغاز کیا تھا۔ امریکا ہی میں کینسر کے مرض میں ان کا انتقال ہوا تھا۔ مگر یہاں حلقہ ارباب ذوق کا جو چراغ وہ روشن کرچکے تھے آج اس چراغ کی روشنی سارے شمالی امریکا میں پھیلی ہوئی ہے۔
اب میں آتا ہوں اپنی دو کتابوں کی تقریب رونمائی کی طرف۔ اس تقریب کی صدارت کینیڈا سے نیویارک آئے ہوئے مشہور اور سینئر شاعر رحمان خاور نے کی تھی اور نظامت کے فرائض امریکا میں کامران ادبی فاؤنڈیشن کی سرپرست شاعرہ فرح کامران نے ادا کیے تھے، جب کہ مہمان اعزازی پاکستانی ٹی وی کی نامور فنکارہ نیلوفر عباسی تھیں۔
تقریب کا آغاز کرتے ہوئے سب سے پہلے نیویارک کے نوجوان شاعر اعجاز بھٹی نے صاحب کتاب کے بارے میں اپنے اظہار خیال کے دوران کہا کہ میں نے شعری مجموعہ دشت احساس کو جستہ جستہ پڑھا ہے اور یہ احساس ہوا ہے کہ ہر شاعر کا ایک خصوص انداز فکر ہوتا ہے اور ان کے شعری سرمائے میں چند الفاظ کا بطور خاص ذکر ملتا ہے اور وہ الفاظ پھر اس کی پہچان بن جاتے ہیں، جیسے کہ عباس تابش کے کلام میں پھولوں اور پتوں کا تذکرہ کثرت سے ہوتا ہے، اسی طرح پروین شاکر کی شاعری میں خوشبو کا ذکر زیادہ ہے، اسی طرح یونس ہمدم کی شاعری میں آنکھوں کا ذکر بہت ہے۔ پھر اعجاز بھٹی نے آنکھوں کے حوالے سے کئی اشعار دشت احساس کے بھی سنائے، جنھیں پسند کیا گیا۔
انھوں نے ازراہ مذاق کہا کہ میری دعا ہے کہ میرے دوست شاعر کی بینائی اسی طرح قائم رہے اور وہ اسی طرح آنکھوں پر آیندہ بھی خوبصورت اشعار کہتے رہیں۔ اعجاز بھٹی کے بعد ٹی وی آرٹسٹ اور شاعر اسد نذیر جو ان دنوں نیویارک کے ایک ٹی وی چینل سب رنگ سے منسلک ہیں، انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے صاحب کتاب سے اپنے دیرینہ تعلقات کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی بہت سی پرانی یادیں اور باتیں شیئر کیں۔ اسد نذیر کے بعد پاکستان ٹیلی ویژن کی سابقہ نامور فنکارہ اور ریڈیو کی صداکارہ نیلوفر عباسی نے راقم کے بارے میں ایک بہت ہی دلچسپ مضمون پڑھا اور میرے ریڈیو پاکستان کراچی کے سفر سے لے کر فلمی دنیا کی وابستگی کے بارے میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کتاب ''یادیں باتیں فلم نگر کی'' ایک خوبصورت دستاویز ہے اور اس کتاب میں کئی اہم فلمی شخصیات کا بڑے طلسماتی انداز میں تذکرہ کیا ہے۔
یہ کتاب میں نے پچھلے ہفتے اپنی فیملی کے ساتھ نیویارک سے ڈیلس جاتے ہوئے بڑے انہماک سے پڑھی تھی اور اس کتاب نے میرے سفر کو بڑا خوشگوار بنادیا تھا، اس کتاب میں یونس ہمدم نے جس طرح جوش ملیح آبادی، جون ایلیا، معین اختر، قربان جیلانی، ثریا شہاب، منی بیگم، استاد امیر احمد خان اور گلوکارہ اقبال بانو کا تذکرہ کیا اور ان شخصیات کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ ہوبہو وہی ہے جیسے وہ لوگ اپنی زندگی میں رہتے ہیں۔
انھوں نے اپنے مضمون میں مزید کہا کہ فلمی شاعری آسان نہیں ہے، کسی بھی سین پر گیت لکھنا بڑا مشکل کام ہوتا ہے اور سچویشن کے مطابق حصار بندیوں اور بندشوں کے باوجود انھوں نے اپنی شاعری کے معیار کو برقرار رکھتے ہوئے خوبصورت فلمی نغمات لکھے ہیں اور اس دور میں قتیل شفائی، کلیم عثمانی، حبیب جالب، خواجہ پرویز تسلیم فاضلی اور مسرور انور جیسے مشہور نغمہ نگاروں کے درمیان اپنی جگہ بنانا کسی نئے اور نوجوان شاعر کے لیے ایک مشکل امر تھا لیکن سچی لگن اور محنت سے یونس ہمدم نے لاہور کی فلم انڈسٹری میں اپنا ایک الگ مقام بنایا۔ نیلوفرعباسی کے بعد فرح کامران نے کلام شاعر بہ زبان شاعر کے لیے مجھے دعوت کلام دی، سب سے پہلے میں نے ماہ ربیع الاول کی مناسبت سے نبی آخر الزماں کی نعت کا ایک شعر پیش کیا۔
سیرت پیارے نبیؐ سے جو شناسا ہوگیا
جو محمدؐ کا ہوا پھر وہ خدا کا ہوگیا
پھر چند قطعات کے ساتھ چند غزلیں بھی سامعین کی نذر کیں جنھیں بڑا پسند کیا گیا ایک غزل کے چند اشعار پیش خدمت ہیں:
دلوں میں دوستو ایمان اب رہا ہی نہیں
کہ جس کو پارسا سمجھا وہ پارسا ہی نہیں
رہ حیات میں سامان جس کا کھولا گیا
ضمیر ڈھونڈا کیے وہ کہیں ملا ہی نہیں
رواں دواں ہیں سبھی بس تلاش منزل میں
ہے کس کی کون سی منزل یہ کچھ پتا ہی نہیں
وفا کو ہنستے ہوئے دفن کر رہے ہیں لوگ
محبتوں کا زمانہ یہ اب رہا ہی نہیں
میرے بعد تقریب کے صدر رحمان خاور نے تقریب کو سمیٹتے ہوئے مجھے میری دو کتابوں کی تقریب کے شاندار انعقاد پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ فلمی گیتوں سے ہٹ کر بھی یونس ہمدم ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے بہت اچھا لکھتے رہے ہیں اور پھر فلموں کے لیے بھی معیاری گیت لکھ کر اپنی انفرادیت برقرار رکھی ہے اور یہ جتنے مقبول پاکستان میں ہیں اتنے ہی اب امریکا میں بھی مقبول ہو رہے ہیں، ان کی شاعری اور ان کی شخصیت دونوں میں قابل ذکر ہے۔
کتاب کی تقریب پذیرائی کے اختتام کے بعد حلقہ ارباب ذوق کی رسم کے مطابق دوسری نشست مشاعرے کی رہی اور سب سے پہلے نیویارک کے منفرد لہجے کے شاعر ناصر گوندل نے اپنی ایک نظم سنائی جس کا عنوان تھا ''2017 کا نوبل پرائز'' اس منفرد نظم کو بڑا پسند کیا گیا پھر باری باری چند موجود شاعروں نے اپنے کلام سے نوازا۔ ذیل میں ان کے چند منتخب اشعار پیش کیے جا رہے ہیں:
فرح کامران
اک شب ہجر کاٹنے کے لیے
پار کرتی ہوں میں سمندر روز
جب سے تو چھوڑ کر گیا ہے مجھے
وقت برسا رہا ہے پتھر روز
٭٭
اعجاز بھٹی
زندگی کیا ہے کوئی وہم و گماں ہو جیسے
آگ نہ بھی ہو مگر پھر بھی دھواں ہو جیسے
لوگ آتے ہیں اور آکے ٹھہر جاتے ہیں
دل ہمارا تو کرائے کا مکاں ہو جیسے
٭٭
اسد نذیر (پشاور حادثے پر)
یہ حادثے نہ جانے کس طرح ہو گئے
پھول گلشن کے کہیں پر کھو گئے
مائیں بستر ہی بچھاتی رہ گئیں
٭٭
رحمان خاور
غموں سے ہجر کے اس درجہ بدحواس رہے
وہ مل گئے بھی تو ہم دیر تک اداس رہے
نہ ٹوٹنا تھا نہ ٹوٹا غرور گمراہی
پہنچ گئے بھی تو منزل کے آس پاس رہے
حلقہ ارباب ذوق نیویارک کی یہ ادبی تقریب اس لحاظ سے بھی منفرد تقریب تھی کہ امریکا کی دو بڑی ریاستوں نیویارک، نیوجرسی کے علاوہ کینیڈا سے آئے ہوئے شاعر نے بھی اس تقریب کو رونق بخشی تھی اور یہ تقریب اپنے ادبی حسن کی وجہ سے عرصہ تک یاد رکھی جائے گی۔