لوٹ پیچھے کی طرف

بڑوں کو سلام کرنا اور ان کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنے کی ہمیں خاص طور پر تربیت دی جاتی تھی۔

ڈاکٹر مختار اور ڈاکٹر ظہور دونوں ہی طب کے پیشے سے وابستہ تھے، فرق صرف اتنا تھا کہ ایک انسانوں کا معالج تھا تو دوسرا جانوروں کا علاج کرتا تھا۔ تبادلے، جو سرکاری نوکری کا لازمی عنصر ہوتے ہیں، انھیں ہمارے ہاں ٹنڈو غلام علی لے آئے، جہاں ڈاکٹر مختار تو سرکاری ڈسپنسری کے انچارج میڈیکل آفیسر لگے ہوئے تھے، جب کہ ڈاکٹر ظہور نے وٹرنری اسپتال یا اینیمل ہسبنڈری کا چارج سنبھال رکھا تھا، جو ایک دوسرے سے تھوڑی دور آمنے سامنے ہوا کرتی تھیں۔

دونوں کا تعلق تقسیم کے نتیجے میں ہندوستان سے آئے ہوئے اردو بولنے والے مہاجروں سے تھا، وہ اپنی وضع قطع، پہناوے، رہن سہن اور بول چال سے بھی صاف پہچانے جانے تھے، لیکن اجنبی اس لیے نہیں لگتے تھے کہ ایک تو کافی بڑی تعداد میں مہاجر ان کے آنے سے بھی پہلے وہاں آکر آباد ہوچکے تھے اور دوسرے قومی و لسانی عصبیت کی بنیاد پر نفرت نے اس وقت تک جڑ نہیں پکڑی تھی۔ دونوں کی ابا سے گہری دوستی تھی جو میروں کی ملازمت میں تھے اور ان کی حویلیوں (ڈیروں) اور بنگلوں میں بجلی اور پانی کی فراہمی کے لیے لگی ہوئی مشین چلانے اور بند کرنے پر مامور تھے۔

ٹنڈے میں اس وقت تک بجلی نہیں آئی تھی، اس لیے میروں نے اپنا یہ متبادل بندوبست کر رکھا تھا۔ ابا سرشام مشین چلادیا کرتے تھے جو آدھی رات تک چلتی رہتی تھی، جوں ہی بارہ بجتے وہ مشین بند کرکے گھر آجاتے۔ مشین ایک کنویں پر بنے ہوئے بڑے پختہ کمرے میں نصب تھی، جس کی چابی بھی ابا ہی کے پاس ہوتی تھی۔ اس زمانے میں ہمارے بھی بڑے ٹھاٹھ ہوا کرتے تھے کہ عام شہریوں میں سے ایک ہمارا ہی گھر تھا۔

جس میں بجلی کے قمقمے روشن ہوتے تھے اور ریڈیو بھی صرف ہمارے پاس ہوا کرتا تھا کہ اس وقت تک پاکستان میں ٹرانزسٹر ریڈیو متعارف نہیں ہوئے تھے اور صرف وہی لوگ ریڈیو سن سکتے تھے جن کے پاس بجلی ہو۔ وہ ہمارے لڑکپن کا زمانہ تھا، مشین والے کمرے سے ملحق گھر میروں ہی کے ایک اور منشی نور محمد کا تھا، جن کا منجھلا بیٹا اسلم اور میں ساتھ پڑھتے تھے اور دوست بھی تھے۔ ابا نے آدھی رات تک وقت گزاری کے لیے جو انتظام کر رکھا تھا اس کے تحت میں اور اسلم پہلے کنویں سے کچھ ڈول پانی نکال کر مشین کی ٹنکی میں ڈالتے اور پھر مزید دو چار ڈول پانی سے کنویں کی منڈیر اور بڑے میر کے بنگلے کی دیوار کے درمیانی حصے میں چھڑکاؤ کرکے پہلے چٹائیاں اور پھر ان پر دریاں بچھاتے۔

شام 7 بجے کے بعد ابا کے 6-5 دوست ایک ایک کرکے آنا شروع ہوتے اور دریوں پر گاؤ تکیوں سے ٹیک لگا کر بیٹھتے، ان کے عین اوپر جھولتی ہوئی تار کے ہولڈر میں لگا بلب روشن کیا جاتا اور سائیڈ میں رکھی میز پر ریڈیو دھرا ہوتا، درمیان میں چھوٹے سائز کی ایک تپائی بھی رکھی جاتی جس پر بڑا کیرم بورڈ سجایا جاتا تھا۔ پہلے چائے کا دور چلتا اور پھر سب بڑے غور اور انہماک سے 8 بجے کی خبریں سنتے، اس سے پہلے بچوں کو منی باجی سے کہانی اور ''لب پہ آتی ہے دعا'' سننے کا موقع دیا جاتا۔ خبریں ختم ہوتے ہی ریڈیو بند کردیا جاتا، پھر جوڑیاں بنتیں، کیرم بورڈ پر گوٹیاں اور اسٹرائیکر رکھ کر ان پر خوب اچھی طرح بورک ایسڈ پاؤڈر چھڑکا جاتا اور گیم شروع ہوتی۔


ہم لوگ تو کہانی سنتے ہی اپنے اپنے گھر کی راہ لیتے جب کہ ابا، جیسے میں پہلے بیان کرچکا ہوں، آدھی رات کو مشین بند کرکے گھر آتے، جو ان کا روز کا معمول تھا۔ ہمیں ان کے آنے کا پتہ ہی نہ چلتا کہ اس وقت ہم خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہوتے تھے۔ ویسے بھی اس زمانے میں باپ اپنے بچوں کو سوتے میں ہی پیار کرتے دیکھے جاتے تھے، آج کل کی طرح ان سے زیادہ بے تکلف نہیں ہوتے تھے اور بچوں سے تعلقات میں ایک فاصلہ رکھا جاتا تھا۔

ڈاکٹر مختار صاف رنگت کے دراز قد کلین شیو آدمی تھے، گھر کا تو پتہ نہیں البتہ باہر بہت کم ہنستے بولتے دکھائی دیتے اور اسی بنا پر مغرور انسان سمجھے جاتے تھے۔ ان کے برعکس ڈاکٹر ظہور پستہ قد مگر بیحد ہنس مکھ اور زندہ دل آدمی تھے۔ ویسے دونوں کم و بیش ہمعمر تھے، بمشکل 50 کے رہے ہوں گے۔ بڑوں کو سلام کرنا اور ان کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنے کی ہمیں خاص طور پر تربیت دی جاتی تھی، ڈاکٹر مختار اور ڈاکٹر ظہور دونوں ہی نہ صرف ایسے بڑوں کی ''میرٹ لسٹ'' میں شامل تھے بلکہ ابا کے دوست ہونے کے ناتے بھی ہماری خصوصی توجہ (وی آئی پی پروٹوکول) کے مستحق تھے۔ ڈاکٹر مختار کے ساتھ نہ جانے کیا مسئلہ تھا (اونچا سنتے تھے یا یہ ان کا اسٹائل تھا) کہ مجھے ہی نہیں کسی کو بھی سلام کا جواب نہیں دیتے تھے۔

ہمیں بھی ان کا جواب سننے کا کوئی شوق نہیں تھا لیکن ان پر غصہ یوں آتا تھا کہ اپنے جاننے والوں سے ان کے بچوں کی یہ شکایت ضرور کرتے کہ وہ بدتمیز ہوگئے ہیں، سلام تک نہیں کرتے۔ میرے دوست، کلاس فیلو اور پڑوسی فیقے (رفیق) کے والد مستری عبدالرشید بھی، جن کی بڑھئی کی دکان مظفر شاہ کی مسجد کے سامنے سڑک سے ذرا بلندی پر دائی جیاں کے گھر کی ڈھلان میں تھی، ابا کی طرح ڈاکٹر مختار کے دوستوں میں شامل تھے اور ان کی شکایت پر کئی بار اپنے بیٹے کو سزا دے چکے تھے، انھیں خدا جانے کیسے اپنے دوست کا مسئلہ سمجھ میں آگیا، جو انھوں نے ابا کو بھی سمجھا دیا، جس کے بعد کہیں جاکر ہمیں ''ریلیف'' ملا۔ پھر تو میں انھیں چڑانے اور غصہ دلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا، کبھی بیمار پڑتا اور دوا لینے جاتا تو ان سے انجکشن نہیں لگواتا تھا اور ڈاکٹر ظہور کے پاس پہنچ جاتا جو ان سے سرنج منگوا کر خود مجھے انجکشن لگاتے، پھر جب میں سرنج لوٹانے جاتا تو وہ یہ کہہ کر اپنی بھڑاس نکالتے کہ آیندہ یہاں مت آنا، ہم جانوروں کا علاج نہیں کرتے۔

ایوبی دور حکومت میں جب اندرون سندھ خصوصاً دیہی علاقوں میں خدمات انجام دینے والے تمام سرکاری ملازموں کو 6 مہینوں میں مقامی زبان (سندھی) سیکھنے کا حکم ملا تو ان دونوں ڈاکٹروں نے ابا سے کہہ کر بطور ٹیوٹر میری خدمات حاصل کیں اور میں انھیں روز ایک گھنٹہ سندھی بول چال سکھانے باری باری ان کے گھر جایا کرتا تھا۔ اب وہی ڈاکٹر مختار جو ابا سے میری بدتمیزی کی شکایت کیا کرتے تھے، مجھے استاد جی کہا کرتے اور چائے بسکٹ سے میری خاطر تواضع کرتے۔ ڈاکٹر ظہور شاگرد ہوکر الٹا مجھ پر رعب جماتے اور اپنی بیگم کو بلا کر، جنھیں میں خالہ کہا کرتا تھا، کہتے بھئی کیا تمیز سکھائی ہے آپ نے اپنے بھانجے کو، چھوٹے بڑے کا لحاظ بھی گیا، کل کا چھوکرا ہمیں آنکھیں دکھاتا ہے، اور وہ میاں کو خوش کرنے کے لیے میرے کان مروڑنے بیٹھ جاتیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ڈاکٹر مختار کراچی میں آبسے تھے۔

ان کا گھر ناظم آباد 7 نمبر میں تھا، جہاں ایک بار میں ابا کو ان سے ملوانے بھی لے گیا تھا۔ ڈاکٹر ظہور سے آخری بار نواب شاہ میں ملاقات ہوئی تھی، وہ اس وقت تک ریٹائر نہیں ہوئے تھے اور کہیں سے تبدیل ہوکر وہاں پہنچے تھے، عادات و اطوار میں سرمو فرق نہیں آیا تھا، البتہ ٹنڈو غلام علی میں گزارا ہوا وقت یاد کرکے ٹھنڈی آہیں بھرا کرتے اور میں ان کی باتیں سن کر لڑکپن کے زمانے میں لوٹ جاتا۔

لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
Load Next Story