سیوریج کا میگا منصوبہ ایس تھری 2022 میں مکمل ہوگا

فنڈز کی قلت اور دیگر وجوہات کے باعث کراچی کا 450ملین گیلن سیوریج اور صنعتی فضلہ 10سال سے سمندر میں پھینکا جارہا ہے۔

سندھ حکومت ٹریٹمنٹ پلانٹ TP-II محمودآباد پر قائم تجاوزات ختم کرانے میں بھی ناکام رہی ،سرکاری افسران۔ فوٹو: فائل

وفاقی وصوبائی حکومتوں اور واٹر بورڈ کے درمیان تنازعات، مجرمانہ غفلت، فنڈز کی قلت اور دیگر وجوہات کے باعث کراچی کا 450 ملین گیلن گھریلو سیوریج کا گندا پانی اور صنعتی فضلہ 10سال سے بغیر صاف کیے سمندر میں پھینکا جارہا ہے اور 2 منصوبوں کی بروقت تکمیل نہ ہونے کے باعث آئندہ 4سال تک سمندری حیات بدستور خطرے سے دوچار رہے گی تاہم فنڈز کا اجرا بروقت ممکن ہوا تو گھریلو سیوریج کی صفائی کے لیے S-III منصوبہ اور صنعتی فضلے کی صفائی کے لیے کمبائنڈ ایفولینٹ ٹریٹمنٹ پلانٹس کے منصوبے کی تکمیل 2022 تک ہوسکے گی۔

نکاسی آب کا عظیم منصوبہ S-III وفاقی وصوبائی حکومتوں اور واٹر بورڈ کی مجرمانہ غفلت اور عدم دلچسپی کے باعث 10سال سے تاخیر کا شکار ہے،منصوبہ2007ء میں منظور ہوا ،اس وقت واٹر بورڈ کے انجینئرز نے ہنگامی طور پر فزیبیلٹی اور پی سی ون دفتر میں بیٹھ کر بنائی جس کی لاگت 8ارب روپے رکھی گئی۔

وفاقی وصوبائی حکومتوں نے مساوی 50فیصد حصہ دینے کا فیصلہ کیا،واٹر بورڈ نے وفاقی وصوبائی حکومتوں کو آگاہ کردیا تھا کہ واٹر بورڈ کے تینوں ٹریٹمنٹ پلانٹس ناکارہ ہوکر بند ہوچکے ہیں،اس لیے فوری فنڈز کا اجرا کیا جائے تاہم دونوں حکومتوں نے اس منصوبے کو اس وقت اہمیت نہیں دی، 2013ء میں جب فنڈز جاری ہوئے تو کنسلٹنٹ فرم نے تفصیلی اسٹڈی کرکے نظرثانی شدہ پی سی ون بنائی تو اس کی لاگت بڑھ کر36ارب تک پہنچ گئی۔

اس موقع پر وفاقی حکومت نے پروجیکٹ کی لاگت میں اضافے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تاہم منظور کردہ پی سی ون کے فنڈز کے اجرا پر رضامند رہی،ان چار سالوں میں وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کو منظور کردہ منصوبے کی لاگت 8 روپے کے مساوی 4 ارب روپے جاری کرنے تھے جس میں سندھ حکومت نے اپنا پورا شیئر ادا کردیا تاہم وفاقی حکومت نے صرف 2ارب روپے جاری کیے۔


واٹر بورڈ کے متعلقہ افسران نے بتایا کہ S-III منصوبے کی تکمیل کی مدت 2016ء تھی جبکہ اب 2017ء کا اختتام ہورہا ہے اور منصوبے کی تکمیل کے کوئی آثار نہیں ہیں،ان 4 سالوں میں لیاری ندی کے کنارے ماڑی پور سے یاسین آباد تک کنڈیوٹ کی تنصیب کا 90فیصد کام مکمل ہوا ہے، یاسین آباد تا سرجانی ٹائون کاکام فنڈز کی قلت وجہ سے شروع ہی نہیں کیا جاسکا ہے،فنڈز کی قلت کے باعث ٹریٹمنٹ پلانٹ ون TP-I ہارون آباد اور TP-III ماڑی پور کی تعمیرنو اور توسیع کا کام صرف 15فیصد ہوسکا جبکہ TP-II محمودآباد اورTP-IV کورنگی میں کوئی کام نہیں ہوا۔

واٹر بورڈ کے متعلقہ افسران نے کہا کہ سندھ حکومت ٹریٹمنٹ پلانٹ ٹوTP-II محمودآباد پر قائم تجاوزات ختم کرانے میں بھی ناکام رہی ہے۔ متعلقہ افسران نے بتایا کہ وفاقی حکومت کی سینٹرل ڈسٹرکٹ ورکنگ پارٹی نے4سال کی تاخیر کے بعد S-III منصوبے کی نظرثانی شدہ پی سی ون کی لاگت 36ارب روپے منظور کرلی اور اب ایکنیک سے منظوری درکار ہے،کئی سال کی تاخیر کے بعد ایکنیک نے گذشتہ ماہ11.7ارب روپے کی لاگت کا کمبائنڈ ایفولینٹ ٹریٹمنٹ پلانٹس کا منصوبہ منظور کرلیا جس کے ذریعے صنعتی سیوریج کی ٹریٹمنٹ کی جائے گی۔

پروجیکٹ ڈائریکٹر S-III امتیاز مگسی نے ایکسپریس کو بتایا کہ S-III کی 36 ارب لاگت کی نظرثانی شدہ پی سی ون سے متعلق وفاقی حکومت کے تمام تحفظات ختم ہوچکے ہیں،سینٹرل ڈسٹرکٹ ورکنگ پارٹی نے بھی نظرثانی شدہ پی سی ون منظور کرلی اور توقع ہے کہ جلد ایکنیک کی جانب سے بھی منظوری مل جائیگی۔

امتیاز مگسی نے کہا کہ اگر فنڈز کا بروقت اجرا ہو تو S-III فیز ون لیاری ندی میں ٹرانسمیشن لائن اور ٹریٹمنٹ پلانٹس ون اور تھری کی تکمیل دسمبر 2018ء میں مکمل ہوگی ،فیز ٹو ملیر ندی میں ٹرانسمیشن لائن اور ٹی پی فور کی تنصیب میں تقریباً تین سال کی مدت درکار ہو گی، منصوبہ بندی کے تحت TP-I اور TP-III کی تعمیر نو کرکے اسے بالترتیب 100ملین گیلن اور 180ملین گیلن یومیہ نکاسی آب کی ٹریٹمنٹ کی جائیگی جبکہ کورنگی میں نیا ٹریٹمنٹ پلانٹ فور تعمیر ہوگا جس کی گنجائش 180ملین گیلن یومیہ رکھی جائیگی۔
Load Next Story