’’دیکھیں میں اسٹیڈیم آ گیا‘‘

بورڈ حکام یا کوئی بھی ارباب اختیار ہو، طاقت کے نشے میں چور ہونے کی وجہ سے انھیں اپنے سامنے کوئی دکھائی ہی نہیں دے رہا۔

وہ توصیف جو کل تک میڈیا کے آگے پیچھے گھوما کرتے تھے آج عہدہ ملنے کے بعد وہی لوگ ان کو دشمن لگنے لگے ہیں؛ فوٹوفائل

SYNDEY:
نیشنل اسٹیڈیم کی مسجد میں نماز ادا کر کے جیسے ہی میں باہر آیا ، عقب سے کسی کی آواز سنائی دی، ''دیکھیں میں آگیا'' میں نے مڑ کر دیکھا تو سلیکٹر توصیف احمد موجود تھے، انھوں نے مجھے دیکھ کر کہا کہ '' آج ایکسپریس میں خبر شائع ہوئی کہ قائد اعظم ٹرافی کا فائنل دیکھنے کوئی سلیکٹر نہیں آیا تو دیکھیں میں آج یہاں موجود ہوں اب تو خوش ہیں ناں'' میں نے انھیں جواب دیا ہم نے خبر ہی اسی لیے شائع کی تھی کہ سلیکٹرز جاگ جائیں،ممکن تھاکہ ہماری مزید بات ہوتی کہ توصیف کے ساتھ موجود ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز ہارون رشید نے کسی تلخی سے بچنے کیلیے سلیکٹر صاحب سے کہا کہ آئیں اوپر چلتے ہیں۔

ان دونوں کے جاتے جاتے میرے کانوں نے وہ ہلکی سی سرگوشی سن لی جو توصیف نے ہارون رشید سے کی تھی '' میڈیا والے بھی نجانے کیسی خبریں لگا دیتے ہیں، اب کیا مسجد میں اعلان کرا دوں کہ میں میچ دیکھنے آ گیا'' یہ سن کر میں زیرلب مسکرا دیا، میرے ذہن میں وہ ضرب المثل گھومنے لگی کہ'' بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے'' وہ توصیف جو کل تک میڈیا کے آگے پیچھے گھوما کرتے تھے آج عہدہ ملنے کے بعد وہی لوگ ان کو دشمن لگنے لگے ہیں، خیر چھوڑیں ان کے ذکر کو اللہ انھیں اور ترقی دے، میں یہ بات تو بتانا ہی بھول گیا کہ نیشنل اسٹیڈیم کیوں آیا تھا، ایک تو یہی بات تھی کہ سوئی ناردرن گیس اور واپڈا کے درمیان قائد اعظم ٹرافی کا فائنل دیکھوں مگر اصل تجسس اس بات کا تھا کہ ڈیڑھ ارب روپے سے آخر کیا کام ہو رہا ہے، ابھی تو میچ کی وجہ سے شاید کام رکا ہوا تھا مگر جس طرح سارے اسٹینڈز کی چھتیں اکھاڑ دی گئیں۔

اسے دیکھ کر مجھے تو شدید خدشات ہیں کہ پی ایس ایل کا فائنل کراچی میں ہو سکے، اس کیلیے دن رات ایک کر کے کام کرنا ہوگا، ایک طرف تو بورڈ شہرقائد میں کوئی میچ کرانے کو تیار نہیں تھا مگر اب ٹرافی کے کئی میچز یہاں شیڈول کر دیے، گوکہ یہ اچھا فیصلہ ہے، البتہ فائنل کیلیے زیرتعمیر نیشنل اسٹیڈیم کا انتخاب کئی سوال چھوڑ گیا، شاید ٹی وی کوریج کا کوئی مسئلہ ہو، یہاں رواں سیزن کوئی میچ نہیں ہوا، پچ کا کسی کو کچھ پتانہیں تھا، چند روز قبل ہی کیوریٹر کو وکٹ تیار کرنے کا کہا گیا، دونوں ٹیموں کو کوئی اندازہ نہیں کہ پچ کا رویہ کیسا ہوگا، اسی لیے واپڈا کے کپتان سلمان بٹ نے ٹاس جیتتے ہی حریف کو بیٹنگ کی دعوت دے دی، ان کی ٹیم کے ساتھ ایک اور مسئلہ یہ ہوا کہ فائنل سے ایک روز قبل پی سی بی نے لاہور میں ایک اشتہار کی شوٹنگ رکھ لی، وہاب ریاض اور محمد عرفان دونوں اس وجہ سے رات 12 بجے کے بعد کراچی پہنچے۔

اگلی صبح انھیں میدان میں اترنا تھا، عرفان کو تو خیر میچ میں نہیں کھلایا گیا البتہ وہاب نے حصہ لیا اور اچھی بولنگ بھی کی، یہ اور بات ہے کہ قومی سلیکٹرز فی الحال انھیں منتخب نہ کرنے کا موڈ بنا چکے ہیں، نیشنل اسٹیڈیم میں ڈومیسٹک کرکٹ کے سب سے بڑے ٹورنامنٹ کا فائنل ہو رہا ہے مگر ایک شائق بھی موجود نہیں، نماز کے بعد محمد حفیظ، محمد عرفان، اظہر علی اور وہاب ریاض کو چند لوگوں نے روک کر سیلفیز بنائیں، بعد میں وہ ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے کہ ''یار ہمیں تو پتا ہی نہیں تھا یہاں کوئی میچ ہو رہا ہے، ہم تو نماز پڑھنے آئے تھے کہ اچانک کرکٹ اسٹارز سے ملاقات ہوگئی''۔ حقیقت بھی یہی ہے پی سی بی نے ڈومیسٹک کرکٹ سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا ہوا ہے، کہیں کوئی پبلسٹی نہیں ہوتی، 50،100لوگ تو کراچی میں لوکل میچ دیکھنے بھی آ جاتے ہیں، مگر افسوس اسٹیڈیم بالکل خالی ہے۔


یہ درست ہے کہ ابھی تعمیراتی کام جاری ہے مگر عارضی انتظام بھی ممکن تھا، افسوس کی بات یہ ہے کہ پی سی بی نے کراچی سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کو بھی میچ کے حوالے سے کوئی ذمہ داری نہیں دی، پروفیسر اعجاز فاروقی کی شکل چیئرمین کے مشیر شکیل شیخ کو پسند نہیں، معاملات اس نہج پر پہنچا دیے گئے کہ اب تک کے سی سی اے کے الیکشن ہی نہیں ہو سکے، کیس کی لاہور میں سماعت ہوتی رہتی ہے مگر فیصلہ سامنے نہیں آتا، عبوری سیٹ اپ خود بنایا مگر جب اس نے خوب غلطیاں کیں تو تبدیل کر دیا گیا، اب نیشنل اسٹیڈیم میں کے سی سی اے کا دفتر اجڑا چمن محسوس ہوتا ہے، خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی، آپ یہ دیکھیں کہ غیرملکی دوروں میں جانے کیلیے پی سی بی کے میڈیا ڈپارٹمنٹ والے آپس میں لڑتے ہیں مگر یہاں کوئی نہ آیا، چیئرمین نجم سیٹھی بھی تاحال کراچی کے میڈیا کا سامنا کرنے کا ذہن نہیں بنا سکے۔

اس لیے اب تک کوئی پریس کانفرنس طے نہیں ہے، ایئرپورٹ پر بھی وہ صحافیوں سے خفا خفا سے دکھائی دیے تھے، دراصل ان دنوں پی سی بی کے معاملات اتنے بگڑ چکے ہیں کہ بورڈ کے اعلیٰ افسران میڈیا کے سوالات دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، میڈیا باکس میں سینئر صحافی وحید خان بھی اس بات سے متفق تھے کہ پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں پی سی بی کو اتنی کمزور مینجمنٹ آج تک نہیں ملی، اسی لیے ہم دنیا سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔

اب یہ وقت آ گیا کہ بنگلہ دیش بھی بھارت کی بولی بولتے ہوئے کہنے لگا کہ '' اے سی سی ایمرجنگ کپ کی میزبانی پاکستان کو دینے والی میٹنگ میں ہم بھی شریک نہیں تھے لہذا ایونٹ میں حصہ نہیں لیں گے'' ایک ایسا ملک جسے ہم نے ٹیسٹ اسٹیٹس دلایا اب ہمارا مخالف بن چکا، اسی طرح افغانستان کو انگلی پکڑ کر کرکٹ کھیلنا سکھایا وہ بھی خلاف ہو چکا، سیاسی کشیدگی ماضی میں بھی ہوا کرتی تھی مگر پاکستان کرکٹ میں ایسی عالمی تنہائی کا شکار کبھی نہیں ہوا، افسوس اس بات کا کہ چاہے بورڈ حکام، سلیکٹرز یا کوئی بھی ارباب اختیار ہو، طاقت کے نشے میں چور ہونے کی وجہ سے انھیں اپنے سامنے کوئی دکھائی ہی نہیں دے رہا، وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا کاش کوئی جا کر انھیں یہ بات سمجھا دے۔

(آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
Load Next Story